bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday 29 March 2013

اپنی پہچان دکھانے کا اک طریقہ ہے۔


آج نجانے کیوں۔۔۔؟ مجھے بابا وقاص سے اپنی پہلی مُلاقات بُہت یاد آرہی ہے۔ اُور میں نے زندگی کے تجربات سے یہی سیکھا ہے۔ کہ ہماری زِندگی میں کوئی بھی بات،کوئی بھی عمل بے مقصد ہرگز نہیں ہُوتا۔ہر عمل ہر بات میں کوئی نہ کوئی اِشارہ ، کوئی نہ کوئی پیغام ضرور چھپا ہُوتا ہے۔ اُور یہی اِدراک کا آئینہ ہُوتا ہے۔ جِس کے فہم سے انسان ماضی سے سبق سیکھتا ہے۔ اُور کبھی مستقبل کی  پُراَسرارجھیل میں جھانک کر آگہی کے راز جان لیتا ہے۔

جِس دِن میں پہلی مرتبہ بابا وقاص کے گھر میں بیخودی کے عالم میں بغیر اجازت داخل ہُوا تھا۔۔۔ وُہ دِن میری زِندگی کا نہایت عجیب وغریب دِن تھا۔ ایک انتہائی پراسرار دِن جِس  دِن میں نے کشف کی طاقت بھی دیکھی تھی۔ ایک الگ دُنیا بھی، انتہائی حسین مخلوق کو بھی دیکھا تھا۔ تو زِندگی کے بیش قیمت راز بھی جانے تھے۔ اُس دِن بابا وقاص میرا نام سُن کر کافی دیر تک قہقہے بھی بُلند کرتے رہے تھے۔ تو کسی کے جانے پر بُہت غمگین بھی تھے۔

میں چُونکہ نووارد بھی تھا۔ اُور شائد بِن بُلایا مہمان تو نہیں تھا۔ لیکن حیران و پریشان ضرور تھا۔ اِسلئے میں سار وقت خاموش تماشائی کی حیثیت سے اُس بزم میں ضرور شامل رَہا۔ جو میرے لئے باقاعدہ پَلان کیا گیا تھا۔۔۔۔۔ بابا وقاص احمد کے بقول وُہ   میرے آنے سے قبل  بُہت مَلول تھے۔ کیونکہ آج اقبال کراچوی اُنہیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔۔ بابا احمد وقاص گُذشتہ آٹھ برس سے اقبال کراچوی کی تربیت فرمارہے تھے۔ لیکن نتیجہ وہی نِکلا جو جبرائیل علیہ السلام کے سامری کی پرورش کے بعد نِکلا تھا۔۔۔۔۔ یعنی اقبال کراچوی نے بھی بابا وقاص احمد سے سب کچھ سیکھنے کے باوجود کچھ نہیں سیکھا۔۔۔۔ اُور منزل کی تلاش میں اپنے حساب اپنی پسند کے رستے کھوجنے میں منہمک ہوگیا۔

بابا وقاص صاحب نے اپنی زندگی بھر کی کمائی۔ اپنا آستانہ، اپنا تجربہ، اپنی ریاضت سب کچھ اقبال کراچوی کو سُونپ دی تھی۔۔۔ بس  ایک آستانے کا نام نہیں بدلا تھا۔ اُور اقبال کراچوی کو لگتا تھا۔کہ،، آستانے کے پُرانے نام کی وجہ سے اُسکی شناخت کہیں کھو سی گئی ہے۔۔۔وُہ اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا۔ خُود کو زمانے والوں سے منوانا چاہتا تھا۔۔۔۔ لیکن آستانے کے پُرانے نام کی وجہ سے اُسکی کوئی شناخت نہیں بن پارہی تھی۔۔۔


جبکہ بابا وقاص احمد اِشارۃ اُسے گاہے بگاہے یہ سمجھانے کی کوشش کررہے تھے۔کہ،، بیٹا میں زندگی کی آخری سرحد پر صرف وصال یار کی خاطر وِسل کا منتظر ہُوں۔۔۔ نجانے کب وِسل بج جائے۔ اُور مجھے کھیل چھوڑ کر جانا پڑجائے۔۔۔۔۔ لیکن میرے جانے کے بعد تُمہارا ہی انتخاب کیا جائے گا۔۔۔ اِس بات کی میں ہرطرح سے ضمانت دینے کیلئے تیار ہُوں۔۔۔۔ لیکن اقبال کراچوی کے گرد جمع ہُوتی بھیڑ اُسکے نفس کو ایک ہی بات سمجھانے میں لگی تھی۔۔۔۔کہ،، جب تک تُم اپنا نشیمن بابا وقاص سے جُدا نہیں کروگے۔۔۔ کوئی تمہیں نہیں پہچان پائے گا۔۔۔۔ یہی جذبہ اُس دِن اُسے بابا وقاص صاحب سے بُہت دُور  ایک ایسے راستے پر لے گیا۔ جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہیں تھی۔۔۔ بابا صاحب نے بتایا تھا۔ کہ،، وُہ آج  اقبال کراچوی کے جانے پربُہت رُوئے ہیں۔۔۔ اُنکا کہنا تھا کہ،، وُہ اقبال کی واپسی کی دعا کررہے تھے۔ اقبال کراچوی تو لُوٹ کر نہیں آیا۔۔۔ لیکن عشرت اقبال وارثی ضرور آگیا۔۔۔ جو میرا ہم نام ہے۔۔۔۔ اِس بات پر وُہ بُہت دیر تک قہقہے لگاتے رہے۔۔۔


پھر سرگوشی کے انداز میں مجھ سے فرمانے لگے۔۔۔ قُدرت کا انتظام کتنا اعلی ہے۔۔۔؟؟ جسکا حصہ ہُو۔ وُہ آکربغیر محنت بھی  وصول کرلیتا ہے۔حالانکہ ہم جِسے اُسکا مستحق سمجھ رہے ہُوتے ہیں۔۔۔ وُہ سمندر کنارے رِہ کر بھی پیاسہ ہی لُوٹ جاتا ہے۔۔۔ میں نے اُس کمبخت کیلئے کیسے کیسے خُواب دیکھے تھے۔ اپنی عمر بھر کی ریاضت۔ جمی جمائی دُکان و گاہک اُسے سُونپنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ مگر وُہ سائن بُورڈ پر اَٹک کر رِہ گیا۔


بابا وقاص احمد سے میری مُلاقات شائد ایک برس رہی ہُو۔جِس کے بعد وُہ اِس دُنیا سے اپنے مالک حقیقی کی جانب کُوچ کرگئے۔۔۔ لیکن اُنہوں نے زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا کر جو علم حاصل کیا تھا۔۔۔ دھیرے دھیرے، جام پر جام کی طرح میرے حلق سے سینے میں یہ کہہ کر انڈیلتے رہے۔ کہ،، یہ بخیلوں کی دُنیا ہے۔ یہاں کوئی کسی کو کچھ سکھانے کو تیار نہیں ہوتا۔ لیکن تُم ایسا مت کرنا۔ کہ،، بخیلوں پر انعامات کی بارش نہیں ہوتی۔۔۔ وُہ خالی برتن کی طرح ہُوتے ہیں۔ جو شُور تو بُہت مچاتے ہیں۔۔۔لیکن اُن خالی برتنوں سے پیٹ کسی کا نہیں بھرتا۔۔۔


بابا وقاص احمد کے وِصال کے کئی برس بعد۔میں نے ایک دِن صدرکراچی میں ایک شخص کو فٹ پاتھ پر طوطوں کے ذریعے  پانچ پانچ روپیہ میں ٖفال نِکالتے دیکھا۔مفلسی، تنگدستی، اُور بدحالی کی جیتی جاگتی اِس تصویر نے اپنے قریب ایک بورڈ آویزاں کیا ہُوا تھا۔۔۔معلوم ہے اُس بورڈ پر کیا لکھا تھا۔ جس نے مجھے چلتے ہُوئے اُسکی جانب متوجہ کردیا تھا۔ اُس بورڈ پر اُس نے اپنا نام لکھ رکھا تھا۔۔۔ پروفیسر اقبال کراچوی جبکہ نذدیک سے گُزرتے لُوگ بھیڑ کی صورت میں گُزرتے ہُوئے اُسے صرف حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ وُہ اپنی الگ پہچان بنانے میں واقعی کامیاب ہوگیا تھا۔ لیکن ایک ایسی پہچان۔ جسکی وجہ سے اُس کے حصے میں صرف ایک چیز آئی تھی۔۔۔۔ اُور وُہ چیز تھی حقارت!!!

اپنی پہچان دکھانے کا اک طریقہ ہے

نہ صفتِ قلندر ہے نہ “ وَضعء “ مومن
ظاہر میں تو غازی ہے لا باطنء مومن

درویش کی کُٹیا سے منہ پھیرے کھڑا ہے
جو شاہ کے دربار کا سگ بَن کے کھڑا ہے

اپنی پہچان دکھانے کا اک طریقہ ہے۔

Monday 25 March 2013

اِمتحاں تو صِرف عاشِقوں کا ہُوتا ہے۔


مجھے ایک اِسلامی  بھائی کا ایک دردناک خط موصُول ہُوا۔ جس میں اُنہوں نے کہا کہ وُہ اپنی نوبیاہتا بیوی کو جنہیں اُنہوں نے کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا تھا۔۔۔ اپنوں کے دھوکہ دیئے جانے اُور جادوئی عملیات کے باعث کھو چکے ہیں۔۔۔۔ تحریر کی ہر ہر سطر رُلادینے کیلئے کافی ہے۔۔۔ میں چاہتا ہُوں کہ میرے جتنے بھی قارئین ہیں۔ وُہ سب اللہ کریم کی بارگاہ میں خلوص نیت کیساتھ دُعا کریں۔۔۔ کہ،،  اے ہمارے  پاک پروردیگار ہم نہایت عاجز و گنہگار ہیں۔۔۔۔ اپنے اعمال کو میزان پر لانے کے قابل نہیں ہیں۔۔۔ اسلئے تجھ سے انصاف نہیں چاہتے کہ،، ہم پھنس جائیں گے۔۔۔ ہم تو صرف بھیک کے خواہشمند ہیں۔ تو جواد و کریم  ہے۔۔۔ اُور جواد و کریم کی یہ شان نہیں کہ،، وُہ بھکاری کو خالی ہاتھ لُوٹادے۔۔۔ تو اے ہمارے مہربان رَبّ ہمارے گناہوں کو نا دیکھ۔ بلکہ اپنی رحمت سے اپنے فضل سے اپنی مہربانی سے اپنے مدنی محبوب کی نعلین کے تصدق میں ہماری مغفرت فرمادے۔۔۔ اُور ہمارے اِس بھائی کو جسکے خط کے جواب میں یہ تحریر لکھی جارہی ہے۔ اُسے اُسکی زُوجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مِلادے۔ جیسا کہ تونے حضرت یوسف علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے مِلایا تھا۔(آمین آمین آمین بجاہ النبی الامین وصلی اللہ علیہ وَآلہ وبارک وسلم)

بھائی۔۔۔ السلامُ علیکم

آپ جس کرب و اذیت سے گُزر رہے ہیں اسکا اندازہ لگانا واقعی بُہت مشکل ہے۔۔۔آپ ماشا اللہ وظائف بھی خوب کررہے ہیں۔۔۔ اور بے شک آپکی بیگم چونکہ نو مسلم ہیں۔۔۔۔ تو آپ کی بات بجا ہے کہ وُہ ایک بچے کی طرح گناہوں سے پاک ہُوچکی ہیں۔۔۔۔
لیکن ذرا سوچیئے تو سہی۔!!! اتنا کچھ پڑھنے اور التجاوٗں کے بعد بھی آخر آپ کو آپکی بیگم کیوں نہیں مِل پارہی ہیں۔۔۔ اور کیوں بظاہر آپکی دعائیں قبول نہیں ہُو پارہی ہیں۔۔۔ اسکا مجھے صرف ایک ہی جواب سُوجھائی دے رہا ہے۔۔۔۔ کہ ،، یقیناًآپکا شمار اللہ کریم کے ہاں عاشقوں کی فہرست میں ہُوچکا ہے۔ جسکی تصدیق کیلئے چند واقعات قلمبند کرنے کی سعی کررہا ہُوں۔


ایک بُوڑھا شخص  اشکباری کے عالم میں غِلافِ کعبہ کو تھامے لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بُلند کررہا تھا۔ اُسی وقت ایک اللہ کریم کا دُوست بھی طواف کعبہ میں مشغول تھا۔۔۔ جو ایک طرف اِس بوڑھے شخص کی آہ و فغاں  بھی ہر پھیرے کے ساتھ اُسکے نذدیک سے گُزرتے ہُوئے سُن رہا تھا۔۔۔ جبکہ دوسری جانب وُہ ہاتف غیبی سے۔ اِس بوڑھے کی لبیک کی صداوٗں کے جواب میں آنے والی لالبیک لا لبیک کی غیبی آوازیں بھی صاف طور پر سماعت کررہا تھا۔۔۔ آخری پھیرے کے ساتھ ہی جُونہی اللہ کریم کے اِس دُوست نے طواف کی تکمیل سے فراغت حاصل کرلی۔۔۔ وُہ سیدھا اُس بوڑھے شخص کے پاس گیا۔


 اُور اُس بوڑھے شخص کو جھنجوڑ کر کہنے لگا۔۔۔کہ،، کیا تمہیں آسمان سے تماری ہر لبیک کے جواب میں آتی لا لبیک لا لبیک کی صدائیں سُنائی نہیں دیتی۔۔۔ بوڑھے شخص نے رُوتے ہُوئے اَثبات میں گردن ہِلاتے ہُوئے کہا۔۔۔ ہاں مجھے بھی سُنائی دیتی ہیں۔۔۔ اتنا کہہ کر وُہ بوڑھا ایک مرتبہ پھر بچوں کی طرح بِلک بِلک کر رُونے لگا۔۔۔۔ اللہ کے ولی نے اُسکی حالت پر ترس کھاتے ہُوئے کہا۔۔۔ جب لا لبیک کی صدا سُن لیتے ہُو۔ تو غِلافِ کعبہ کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔۔۔؟؟  بُوڑھے شخص نے اللہ کے ولی کو تعجب سے دیکھ کر عرض کیا۔۔۔غِلافِ کعبہ کو چھوڑ دُوں تو پھر کہاں جاوٗں ۔۔؟؟ اتنا کہنے کے بعد اُس بوڑھے شخص نے ایک چیخ بُلند کی اُور بے ہُوش ہُوگیا۔۔۔ اِسی اَثنا میں آسمان سے ایک پرچی لہراتی ہُوئی اللہ کریم  کے ولی  کے سامنےآگِرتی ہے ۔۔۔ جب اللہ کریم کے  دُوست نے رقعہ پر نظر دُورائی تو ایک تحریر لکھی  دِکھائی دِی۔۔۔


یہ بوڑھا شخص اللہ کریم کو بے حد پسند ہے۔۔۔ اِسکا بار بار لبیک کہنا اللہ کریم کو پسند ہے۔۔۔ یہ  بوڑھا شخص ہر سال حج کے موقع پر آکر لبیک کی صدائیں بُلند کرتا ہے۔۔۔ جسکے جواب میں برسوں سے لالبیک کی صدائیں سُنتا ہے۔۔۔ جسکی وجہ سے اگلے برس یہ بُوڑھا شخص پھر حاضر ہُوجاتا ہے۔۔۔ اِسی کی لبیک کے صدقے میں کئی برسوں سے حاجیوں کے حج مقبول ہورہے ہیں۔۔۔  اللہ کریم اِس بوڑھے شخص سے راضی ہے۔۔۔ لیکن چُونکہ اسکا صَدا دیا جانا اللہ کریم کو محبوب ہے۔۔۔ اسی لئے اِسے لالبیک کی صدائیں سُنائی جاتی ہیں۔ تاکہ یہ بار بار یہاں آتا رہے۔ اُور  اِسکی وجہ سے آنے والے تمام حاجیوں کے حج مقبول و مبرور ہُوتے رہیں۔۔۔


سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ کریم کے خلیل یعنی دُوست ہیں۔۔۔ اُنکی ہر اَدا، اللہ کریم کو پسند ہے۔۔۔ اِنہی کی پیشانی سے نُورِ مُصطفی ﷺ حضرت حاجرہ کے رِحم میں منتقل ہُوتا ہے۔۔۔ اِسی نور کی برکت سے نارِ نمرود ٹھنڈی پڑجاتی ہے۔۔۔ یہی نور جب اِنکی پیشانی سے سفر کرتا ہُوا سیدہ حاجرہ سلامُ اللہ علیہا کے توسط سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی پیشانی میں جلوہ افروز ہُوتا ہے۔ تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ٹھوکر میں ایسی  قُدرت پیدا ہُوجاتی ہے۔ کہ،، سنگلاخ زمین سے آبِ زَم زَم رواں ہُوجاتا ہے۔۔۔۔ ذرا ایک لمحے کیلئے تصور تو کیجیئے۔۔۔۔ جنکے رحم وپیشانی میں نورِ مصطفیﷺ جگمگایا ہُوگا۔۔۔۔ اُن سے ایک لمحہ بھی دُور رِہنا سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کیسا شاق گُزرا ہُوگا۔۔۔۔ لیکن حکم دیا جاتا ہے کہ ایسے لق و دق صحرا میں اتنے محبوب و عزیز گھر والوں کو چھوڑ دِیا جائے۔۔۔۔ جہاں کھانے کیلئے دانہ ہے نہ پینے کیلئے پانی۔۔۔۔ بات صاف ظاہر ہے کہ اِن نفوسِ قُدسیہ کے عشق کا اِمتحاں لیا جانا مقصود تھا۔۔۔ تاکہ دیکھا جاسکا اُور ملائک کو جتایا جاسکے۔۔۔ کہ یہ ہوتی ہے محبت اُور یہ ہُوتا ہے امتحان عشق۔ کہ جسکے بنا ایک لمحہ گُزارنا دُشوار ہُو۔ اُسے اللہ کریم کے ایک حکم پر معین مُدت کیلئے  خُود سے جُدا کردیا جائے۔۔۔۔

سیدنا یُوسف علیہ السلام۔۔۔ ایسے حسین ہیں کہ سگی پھوپی اُن پر چوری کا الزام لگاتی ہے۔۔۔ تاکہ اِس بہانے زمانے کے دستور کے مُطابق اُنہیں اپنا غلام بنا کر اپنے پاس رکھ سکیں۔۔۔ اور اُنکی آنکھوں کو پسر یعقوب کو دیکھ دیکھ کر ٹھنڈک مِلتی رہے۔۔۔ ایسے پُرکشش ہیں۔ کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام ایک لمحے کیلئے اُنہیں اپنی آنکھوں سے دُور کرنے کو راضی نہیں۔۔۔ لیکن قُدرت اُنہیں  اُنہی کے بھائیوں کے ہاتھوں شام سے مصر کے بازار میں  پُہنچادیتی ہے۔۔۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کو گیارہ بیٹوں کی موجودگی کے باوجود ہر لحظہ یوسف علیہ السلام کی یاد ستاتی ہے۔۔۔ اُنہیں یقین دِلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔کہ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔۔۔لیکن وُہ اللہ کریم کے نبی ہیں۔ اسلئے جانتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کو بھیریئے نے نہیں کھایا۔  بلکہ وُہ اپنے ہی بھائیوں کی حاسِد نظر کا شِکار ہُوگئے ہیں۔۔۔ آنکھیں رُوتے رُوتے چلی جاتی ہیں۔۔۔۔لیکن۔۔۔ اللہ کریم سے شِکوہ نہیں کرتے۔ کیونکہ جانتے ہیں۔ کہ اِنکے عشق کا امتحان لیا جارہا ہے۔۔۔ اسلئے آنکھوں کا گنوانا برداشت کرلیا۔۔۔ خُود پر بڑھاپا طاری کرلیا۔۔۔ لیکن زُبان حال پر شِکوہ کا ایک لفظ نہیں آنے دِیا۔۔۔

سیدنا ابراہیم بن ادہم مزدور ہیں۔۔۔بلخ کی شہزادی کو دیکھ لیتے ہیں۔ اُور بادشاہ سے اُسکا رِشتہ طلب کرتے ہیں۔۔۔ آپکو بہانے بہانے سے دھتکار دِیا جاتا ہے۔ شہزدی کا انتقال ہُوجاتا ہے۔۔۔ آپ تدفین کے بعد قبر سے اُسکی لاش نِکال لاتے ہیں۔۔۔ شہزادی کو ایک مرتبہ پھر آپکی خاطر زِندہ کردیا جاتا ہے۔ اُور ایک عرصہ بعد دُنیا والوں پر جب یہ راز آشکار ہُوتا ہے۔ آپکو محل میں لایا جاتا ہے۔ اُور تاجِ شاہی آپکے سر پہ سجادیا جاتا ہے۔ لیکن جب امتحان عشق کا مرحلہ آتا ہے۔۔۔ تو اپنے چاند سے بیٹے اُور دُنیا کی سب سے حسین عورت سے  آپ اللہ کی رضا کی خاطر مُنہ مُوڑلیتے ہیں۔ تخت شاہی کو ٹھوکر رسید کرکے جنگلوں میں نِکل جاتے ہیں۔۔۔۔۔لوگ بادشاہت کا لالچ دیتے ہیں۔۔۔نفس دُنیا کی حسین ترین عورت کی جانب رغبت دِلانے کی کوشش کرتا ہے۔ شیطان اپنے لشکروں کیساتھ چاند جیسے حسین بیٹے کی یاد کو تازہ کرانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔لیکن ابراہیم بن ادہم  رحمتہ اللہ علیہ ،،جانتے ہیں کہ،، امتحان عشق میں صدیوں سے ایسی قربانیاں لِی  جاتی رہی ہیں۔۔۔۔ اُور ابن آدم ایسی لازوال قربانیاں دیتے چلے آئے ہیں۔۔۔ یہ وہی نفوسِ قُدسیہ ہیں۔۔۔ جو یہ راز جانتے ہیں کہ،، خلافت کا تاج سر پر سجائے جانے کے وقت اعتراض لعین کیساتھ ساتھ شکوک تُو ملائک کو بھی درپیش تھے۔ کہ،، ابن آدم خلافت کا تاج سنبھال نہیں پائے گا۔۔۔ لیکن عشق کے امتحانات میں ابن آدم کی  ہر کامیابی کے بعد ملائک  بھی یہی صدا لگاتے ہیں۔کہ،، فیصلہ وہی بہتر تھا جو کریم نے ثبت فرمایا تھا۔ کہ،، جُو وُہ جانتا ہے۔۔۔۔  کوئی اُور  نہیں جانتا۔۔۔ 

عامل کامل ابو شامِل 24 کہانی در کہانی


   گُذشتہ سے پیوستہ۔

کامل علی جانتا تھا ۔ کہ اگر اِس وقت وُہ گھنشام داس کے چیلوں کو ہاتھ آگیا۔۔۔ ۔ تو وُہ اسکی چیر پھاڑ میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کریں گے۔۔۔ اسلئے بدحواسی میں وُہ ایک گھر کے دووازے کھلے دیکھ کر۔۔۔۔اپنی جان بچانے کیلئے اُس   گھر میں داخل ہُوگیا۔۔۔۔ اندر داخل ہُوتے ہی اُس نے دروازے کی کنڈی لگالی۔۔۔ اُن نوجوانوں نے شائد کامل علی کو اِس گھر میں داخل ہُوتے ہُوئے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔  اِس لئے بھاگتے قدموں کی چاپ دھیرے دھیرے دُور ہُوتی چلی جارہی تھی۔کہ اچانک ایک نسوانی آواز نے کامل علی کو متوجہ کرتے ہوئے مُخاطب کیا۔۔۔۔ اے مِسٹر کون ہُو تم۔ اُور گھر میں داخل کیسے ہُوئے۔۔۔۔؟ کامل علی نے بوکھلا کر خاتون کی جانب دیکھا تو۔۔۔حیرت سے اُس کی چیخ نِکل گئی۔۔۔۔ اُس کی نرگس اُسکے سامنے موجود تھی۔۔۔۔ لیکن نرگس کو دیکھ کر ایک لمحے کیلئے کامل علی کو ایسا لگا جیسے،، نرگس نے اپنی زندگی کی دس منزلیں مزید طے کرلی ہُوں۔۔۔۔ اُور اُسکے حُسن میں مزید وقار پیدا ہُوگیا ہُو۔۔۔۔ خاتون نے دوسری مرتبہ جب درشت لہجے میں سوال کیا۔۔۔۔ تو کامل علی کے مُنہ سے صرف اتنا ہی جملہ نِکل سکا۔۔۔۔۔ نرگس تُم یہاں۔۔۔۔؟؟؟۔

اَب مزید پڑہیئے۔

نرگس ! کُون نرگس۔۔۔؟؟ اُور مسٹر تم نے بتایا نہیں۔ کہ،، تم میرے گھر میں اِس وقت کیا کررہے ہو۔۔۔ ؟ دیکھو مِسٹر اگر تُم یہاں چوری کی نیت سے آئے ہُو۔ تو فوراً واپس لُوٹ جاوٗ۔۔۔ کیونکہ ہمارے گھر میں تُمہیں فی الحال چُرانے کیلئے کچھ نہیں مِلے گا۔۔۔ اُور دوسری بات یہ ہے۔ کہ اندر میرے بھائی موجود ہیں۔ جو تمہاری درگت بنانے میں ایک لمحہ بھی تامل نہیں کرے گا۔۔۔۔ وُہ خاتون کامل علی کو بے تکان مشورے دیئے جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ کیا تُم نرگس نہیں ہُو۔۔۔؟؟ حالانکہ تمہاری شکل تو بالکل نرگس جیسی ہے۔ البتہ تم نرگس کی عُمر سے کچھ زائد نظر آتی ہُو۔۔۔ اُور باوقار بھی ذیادہ دِکھائی دیتی ہو۔۔۔۔ مِسٹر  یہ تُم نےکیا نرگس ،نرگس کی رَٹ لگارکھی ہے۔۔۔ میں نرگس نہیں  بلکہ عکشہ ہُوں۔۔۔ لیکن میں تمہیں یہ سب کیوں بتارہی ہُوں۔ اُس خاتون نے چونک کر خود سے بڑابڑاتے ہُوئے کہا۔۔۔۔لگتا ہے تُم ایسے نہیں مانو گے ۔۔ مجھے اپنے بھائی کو آواز دینی ہی پڑے گی۔۔۔ اُس باوقار حسینہ نے گویا کامل علی کو آخری مرتبہ انتباہ کرنے کی کوشش کرتے ہُوئے اندر کی جانب دیکھتے ہُوئے کسی کو پُکارنے کی کوشش کی۔

اِس سے پہلے کہ،، وُہ  خاتون اپنے بھائی  کو طلب کرتی۔۔۔۔ کامل علی نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہُوئے عکشہ کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ دیکھئے محترمہ۔ آپکو شائد کچھ غلط فہمی ہُورہی ہے۔۔۔۔ میں کوئی چُور  اُچکا نہیں ہُوں۔۔۔ بلکہ میں ایک مسافر ہُوں۔ اُور میرے پیچھے کچھ غنڈے پڑے ہیں۔۔۔ وُہ شائد مجھے اجنبی سمجھ کر لُوٹنا چاہتے ہیں۔۔۔ جسکی وجہ سے میں دروازہ کھلا دیکھ کر آپ کے گھر میں گُھسا چلا آیا۔۔۔ اُور آپکی شکل میری ایک عزیزہ نرگس سے بُہت مِلتی ہے۔۔۔ جسکی وجہ سے میں نے آپکو نرگس کہہ کر مخاطب کیا تھا۔۔۔ جسکے لئے میں آپ سے بُہت معذرت خواہ ہُوں۔۔۔ کامل علی نے فوراً ایک کہانی گھڑتے ہُوئے عکشہ کو مطمئین کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔

غنڈے پیچھے پڑے ہیں۔۔۔ یا خود کسی کا کوئی سامان اُٹھا کر بھاگے ہُو۔۔۔۔ ویسے تم شکل سے تو شریف آدمی لگتے ہُو۔۔۔ لیکن۔۔۔؟؟۔۔۔ لیکن کیا محترمہ۔۔۔۔؟؟ کامل علی نے  اُسکے لیکن کی وجہ جاننے کو کوشش کی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کہ،، تُم ایک اجنبی ہُو۔ اُور اِس وقت اگر میرا بھائی گھر آگیا تو وُہ  میرے متعلق کیا سُوچے گا۔۔۔؟؟۔۔۔۔ اِسکا مطلب ابھی جو تُم نے کہا تھا کہ،، گھر میں تمہارے بھائی موجود ہیں۔۔۔ وُہ تم نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا۔۔۔ ؟کامل علی نے نرگس کی ہمشکل سے استفسار کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ کامل علی کا جملہ ختم ہُوتے ہی دروازہ پر دستک کیساتھ ابو شامل کی آواز سُنائی دی۔۔۔ کامل باہر آجاوٗ خطرہ ٹل گیا ہے ۔۔۔۔ کامل علی نے نرگس کی ہمشکل کی جانب الوداعی نِگاہ ڈالتے ہُوئے کہا۔۔۔ اگرچہ میرا دِل نہیں چاہ رہا۔ کہ،، میں یہاں سے اتنی جلدی چلا جاوٗں۔۔۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی کے سامنے مجبور ہُوں۔۔۔ لیکن عکشہ میں اِس اُمید کیساتھ واپس جارہا ہُوں۔۔۔ کہ،، ہماری مُلاقات دوبارہ بھی ضرور ہُوگی۔۔۔ اُور ہاں اتنی دیر اپنے گھر میں مجھے برداشت کرنے کیلئے میں تُمہارا انتہائی شکر گُزار ہُوں۔

ابو شَامِل نجانے کہاں سے ایک پجارو ٹائپ گاڑی لے آیا تھا۔۔۔ کامل علی کے  گلی سے باہر نِکلتے ہی ابو شَامل نے اُسے فوراً گاڑی میں بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔۔۔ اُور خود ڈرئیونگ سیٹ پر براجمان ہُوتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ اُو میرے بھائی ہر وقت رومانس کے چکر میں مت پڑا رَہا کر۔۔۔ کبھی سچویشن  بھی دیکھ لیا کر ورنہ تیری یہی عادت کسی دِن تیرے ساتھ مجھے بھی لے ڈُو بے گی۔۔۔۔ ابوشِامل انتہائی مہارت اُور برق رفتاری سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہُوئے چند ہی منٹ میں شہر سے باہر نِکل آیا۔۔۔۔ اُس نے گاڑی کو سپرہائی پر لانے کے بعد درختوں کے ایک جھنڈ کو دیکھ کر  گاڑی وہیں پارک کی۔ اُور کامل علی کی جانب ہاتھ بڑھادیا۔۔۔ کامل علی نے بھی بے اختیاری میں اُسکی جانب ہاتھ بڑھا دِیا۔۔۔ جسکے بعد ابو شامل نے ہمیشہ کی طرح کامل علی کے ہاتھ کو ایک جھٹکا دِیا۔۔۔ کامل علی نے غصے سے ابو شامل کی جانب دیکھا۔ تو اُسے معلوم ہُوا کہ وُہ پجارو سے نِکل کر اپنے گھر کے دروازے پر پُہنچ چُکے ہیں۔۔۔  ابو شامل نے اُسے آنکھ مارتے ہُوئے اندر جانے کا اِشارہ کیا۔ تو کامل علی نے غُصہ سے پھنکارتے ہُوئے کہا۔ مجھے نہیں جانا اندر۔۔۔ نجانے تُم نے کیا چکر چلایا ہُوا ہے۔۔۔ جسکی وجہ سے نرگس بہکی بہکی گفتگو کررہی ہے۔ جب تک تُم مجھے سب کچھ نہیں بتاوٗگے میں اندر جانے والا نہیں ہُوں۔

ابو شامل نے کامل علی کو  اپنے پیچھے آنے کا اِشارہ کیا۔ تو کامل علی بھی ناچار اُسکے پیچھے پیچھے چلدیا۔۔۔ کامل علی چلتے چلتے جب بَگس کیفے کے قریب سے گُزرنے لگا۔ تو تھک کر بَگس کیفے کی باہر پڑی کرسیوں پر ہی ڈھے گیا۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر کامل علی گرما گرم کافی سے لُطف اندوز ہُوتے ہُوئے ابو شامل کی زبانی حیرت انگیز کہانی سُن رَہا تھا۔

ابو شامل نے بتایا کہ وُہ،، جس دِن جہلم سے واپس لُوٹ رہا تھا۔ تب اُسکی نگاہ سڑک کے کنارے بس کا انتظار کرتی ایک لڑکی پر پڑی۔۔۔ جس کو لُوٹنے کیلئے چند منچلے نوجوان قریب ہی کھڑی ایک کار میں موجود تھے۔  اُس لڑکی کا چہرہ دیکھنے کے بعدمیرے دِل نے گوارا نہیں کیا۔ کہ،، میں اُسے سنسان سڑک پر لُٹنے کیلئے تنہاہ چھوڑ دُوں۔۔۔ اِس لئے میں بھی اُس لڑکی کے قریب بظاہر بس کے انتظار میں کھڑا ہُوگیا۔۔۔ جسکی وجہ سے وُہ لڑکے تو وہاں سےفرار ہُوگئے۔ لیکن میں نے اپنی ٹیلی پیتھی کے ذریعے سے معلوم کرلیا۔کہ وُہ لڑکی لاہور کی رہنی والی ہے۔ اُور اپنے گھر سے بھاگ کر جہلم اپنی سہیلی کے سسرال چلی آئی ہے۔۔اُسکی سہیلی نے اُسکی خاطر مدارت تو بُہت کی لیکن اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ڈر سے اپنے گھر میں ٹہرنے کی اجازت نہیں دِی۔ جسکی وجہ سے اب وُہ کراچی کیلئے نِکل رہی تھی۔ اور کراچی جانے والی کوچ کا انتظار کررہی  تھی۔۔۔ میں نے اُسکے ذہن سے اُسکے گھر کا پتہ لگایا۔ اُور اُن تک رسائی حاصل کی۔ تب مجھے معلوم ہُوا۔کہ،، اُسے یتیم خانے سے لیکر پرورش کرنے والے اَب اِسکا سودا کسی عیاش انسان سے کرچُکے ہیں۔۔۔ اُور سارے لاہور میں اُسکی تلاش جاری ہے۔


جاری ہے۔۔۔

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے۔

Sunday 24 March 2013

عامل کامل ابو شامل قسط ۲۳ جانِ جاناں


گُذشتہ سے پیوستہ۔

کامل علی نے اپنے ذہن میں ابوشامل سے رابطہ کرنا چاہا لیکن اُسے کوئی جواب مُوصول نہیں ہُوا۔۔۔ وُہ تمام لوگ کامل علی کے نہایت نذدیک آ پُہنچے تھے۔ وُہ کم از کم بیس افراد تھے۔جنہوں نے نارنجی کلر کی دھوتیاں اپنے جسم پر باندھ رکھی تھیں۔۔۔ جب کہ اتنی سردی کے باوجود بھی ایک بھی شخص نے قمیص پہنی ہُوئی نہیں تھی۔ پیشانی پر لگے عیجب سے تلک کے نشان سے ظاہر ہُورہا تھا۔ کہ وُہ سب ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کامل نے ایک مرتبہ پھر ابو شامل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کامل علی کی یہ کوشش بھی بے سُود ہی ثابت ہُوئی ۔ اچانک کسی نےاُسکا تمسخر اُراتے ہُوئے نہایت گرجدار آواز میں اُسے  مُخاطب کیا۔۔۔ مورکھ کِسے سہایتا کے لئے  پُھوتکار (پُکار) رہا ہے۔ مورکھ منش ہو کر منش کو گھائل کرنے چَلا تھا۔۔۔ اب اُس جن زادے کا نام جپنا چھوڑ دے۔ کیول وُہ حرامزدہ اب یہاں نہیں پدھارے گا۔۔۔ پرنتو۔  نرکھ سُدھانے سے پہلےایشور کو اَوشے یاد کرلے۔۔۔ کامل نے  دیکھا کہ وُہ ایک سادھو تھا۔ جو اُس سے مخاطب تھا۔ اُس کے سر پر ایک مُوٹی سی چُٹیا بندھی تھی۔ سر اُور داڑھی کے تمام بال سفید ہُونے کیوجہ سے  کامل علی کا ندازہ تھا کہ وُہ بوڑھا سادھو کم ازکم عمر کی  آٹھ دہایئاں دیکھ چُکا ہُوگا۔ لیکن اسکی پیشانی پر ایک بھی سلوٹ موجود نہیں تھی۔ تمام چہرے پر بھبوت کی سفیدی میں سُرخ رنگ کے تین تلک صاف نطر آرہے تھے۔۔۔ اُور اب وُہ اپنے ہاتھ میں خنجر لئے کامل علی کی جانب ہی بڑھ رہا تھا۔  کامل علی نے اندازہ لگالیا کہ وُہی گھنشام داس ہے۔ جسکے شکار کیلئے وُہ یہاں آیا تھا۔ اُور خود شکار ہُوگیا تھا۔۔۔کامل علی نے مدد کیلئے یہاں وہاں دیکھنے کی کوشش کی لیکن تبھی  سادھو کے چند چیلوں نے مضبوطی سے اُسے پکڑ کر زمین پراسطرح  اُوندھا ڈال دیا۔ جیسے جانور کو ذبح سے قبل پچھاڑا جاتا ہے۔

اب مزید پڑھیئے۔

کامل علی کو جب مُوت  واضح طُور پر   سامنے دِکھائی دینے لگی۔ تو اُسے اچانک مُولوی رمضان صاحب کی وُہ بات یاد آنے لگی۔ جس میں
 مولوی صاحب واعظ کے دُوران  لوگوں کو بتارہے تھے۔ کہ،، انسان کی سب سے قیمتی متاع  ایمان ہے۔ اُور کامیاب لُوگ وہی ہُوتے ہیں۔ جو دُنیا سے رُخصت ہوتے ہُوئے اپنا ایمان بچانے میں کامیاب ہُوجاتے ہیں۔ لِہذا کامل علی کو مولوی رمضان کی بات جُونہی یاد آئی۔ اُسکی زُبان کلمہ طیبہ کے وِرد میں مشغول ہوگی۔ کامل علی کی زُبان پر کلمہ کا ورد جاری ہُونے کی دیر تھی۔ کہ،، کامل علی کو ایک سکون کی لہر اپنے  سینے میں  نازِل ہُوتی محسوس ہُونے لگی۔ جسکی وجہ سے کامل علی کے خُوف نے شُوق کی صورت اختیار کرلی۔


کامل علی زندگی میں پہلی مرتبہ ذکرِ اِلہی  کی لذت سے سرشاری کے لُطف میں مستغرق تھا۔ کہ،، اچانک اُس کے کانوں نے  ماحول میں بپا  شور و شرابے کی طرف اُسکے ذہن تک پیغام رسانی کی جِسکی وجہ سے کامل علی کو احساس ہُوا۔ کہ اُس کے جسم سے گھنشام داس کے چیلیوں کی گرفت کمزور پڑتے پڑتے یکسر ختم ہُوچکی ہے۔ کامل علی نے تعجب سے چاروں جانب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کردیا۔ حیرت انگیز طُور پر گھنشام داس کے تمام چیلے منظر عام سے ایسے غائب ہُوچکے تھے۔ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔ جبکہ گھنشام داس کی خود کی حالت بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔۔۔ وُہ اپنے دونوں ہاتھ جُوڑے خلاوٗں میں کسی نادیدہ ہستی کو ریحان شاہ مہاراج کے نام سے مخاطب کرتے ہُوئے۔۔۔ شماکردیں۔۔۔ شما کردیں مہاراج۔ کا راگ اَلاپنے میں مصروف تھا۔۔۔


کامل علی نے گھشام داس کو گڑگڑاتے دیکھا۔ تو اِسے یاد آیا ۔کہ،، وُہ تو یہاں گھنشام داس کو زخمی کرنے کیلئے آیا تھا۔۔۔ لہذا کامل  علی نے کمالِ پھرتی سے  ابو شامِل کے دیئے خنجر کو ہاتھ میں تولتے ہُوئے اچانک بے خبری میں گھنشام داس پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے۔۔۔۔ چونکہ گھنشام داس کی توجہ کسی نادیدہ ہستی کی جانب مبذول تھی۔۔۔ اسلئے  اُسے سنبھلنے کا موقع بھی میسر نہیں آیا۔۔۔۔ اُور وُہ  چُوتھے ہی وار میں زمین پر مُرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا۔۔۔۔زمین پر پڑے خُون اور گھنشام داس کے تڑپتے جسم کو دیکھ کر کامل علی کے حواس بھی مختل ہُوچکے تھے۔۔۔ اُسے بالکل سمجھ نہیں آرہا تھا۔ کہ،، اب اُسے آگے کیا کرنا ہے۔۔۔ تبھی قدموں کی چاپ سُن کر جب کامل علی نے اپنے عقب میں پلٹ کر دیکھا۔ تو ایک سفید رِیش درویش جسکی پیشانی سے عبادت کا  نور نمودار ہُورہا تھا۔ خشمگین نِگاہوں سے اُسکی جانب دیکھتے ہُوئے اُس سے مخاطب  تھے۔۔۔ نوجوان تُم نے یہ اچھا نہیں کیا۔۔۔۔ میں یہاں تُمہاری مدد کیلئے آیا تھا۔۔۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا۔ کہ مدد مِلنے پر تُم  اتنے حواس باختہ ہُوجاوٗ گے۔ کہ ایک انسان کی جان سے اپنے ہاتھ رنگ لُوگے۔


حضرت آپ کُون ہیں۔۔۔۔ ؟ اُور یہاں میری مدد کرنے کہاں سے آگئے۔۔۔۔؟ اُور آپ مجھے حواس باختہ  قاتل کہہ رہے ہیں۔۔۔ جبکہ  چند منٹ پہلے ہی یہ گھنشام داس خود  بِلا وجہ میرے خون کا پیاسہ تھا۔۔۔ کامل علی نے خود کو سنبھالتے ہُوئے اپنے عمل کی تاویل کیساتھ چند سُوالات بھی کرڈالے۔۔۔۔ بلاوجہ کوئی کسی کے خون کا پیاسہ نہیں ہُوتا نوجوان! اُس درویش نے بدستور ناراضگی کا اِظہار کرتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ میرا نام ریحان شاہ تبریزی ہے۔۔۔۔ اُور اِس وقت تُم جِس علاقے میں کھڑے ہُو۔۔۔ یہ میری عملداری میں آتا ہے۔۔۔ اِسلئے جب میں  نے تمہیں گھنشام داس کے چیلوں کے نرغے میں دیکھا۔تو تمہاری مدد کیلئے چلا آیا۔۔۔ گھنشام داس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔۔۔ کہ،، وُہ میری مُداخلت کے بعد تمہیں ایذا پُہنچا سکتا۔۔۔ لیکن تُم نے جلد بازی میں ناحق ایک خون کرڈالا۔۔۔ میں جانتا ہُوں یہ سب کچھ تُم نے کسی شریر اُور من چلے کے  ایماٗ پر کیا ہے۔۔۔ لیکن میں پھر یہی کہوں گا۔کہ،، تُم نے اچھا نہیں کیا ہے۔۔۔ اُور تمہاری بھلائی بھی اِسی میں ہے۔ کہ اُس جن زادے سے ہمیشہ کیلئے دُور ہُوجاوٗ۔۔۔۔۔ اچھا اب جتنی جلد ممکن ہُو سیالکوٹ سے باہر نکل جاوٗ۔۔۔۔۔ کیونکہ گھنشام داس کے قتل کی خبر۔۔۔۔ جنگ کی آگ کی طرح اُسکے چیلوں تک پُہنچ رہی ہُوگی۔ اُور وُہ لوگ ابھی کچھ ہی دیر میں اپنے گُرو کے قاتل کی تلاش میں سرگرمِ عمل ہُوجائیں گے۔۔۔ ریحان شاہ تبریزی نے بے چینی سے فضاوٗں میں گھورتے  ہُوئے کہا۔۔۔

ریحان شاہ تبریزی کی گفتگو نے کامل علی کو احساس دِلایا کہ،، اُس سے ایک عدد انسان کا قتل سرذد ہُوچُکا ہے۔  جسے وُہ ریحان شاہ تبریزی سے گفتگو کرتے ہُوئے بھول چکا تھا۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے ریحان شاہ تبریزی بھی درختوں کی جانب چل دیا۔ اب گھنشام داس کی لاش کے پاس کامل علی تنہا کھڑا تھا۔ جبکہ رکشہ درائیور کا بھی دُور دُور تک کوئی اتَّا پتہ نہیں تھی۔۔۔ کامل علی نے خوف کی وجہ سے ایک جھرجھری سی لی۔۔۔ اُور تیز تیز قدم سے واپسی کے راستے پر دوڑنا شروع کردیا۔۔۔۔ مسلم آباد سے نکلتے ہی۔ کامل علی کا ابو شامل سے ذہنی رابطہ بحال ہُوچکا تھا۔۔۔ ابو شامل  نے بھی کامل علی سے یہی استدعا کی تھی۔ کہ،، وُہ جلد از جلد ۔ اسٹیشن کے پاس چلا آئے۔۔۔ کیونکہ گھنشام داس کے 
چیلے پاگل کتوں کی طرح اپنے گرو کے قاتل کی تلاش میں سارے شہر میں سرگرداں ہیں۔


کامل علی جب قلعہ کی سیڑھیوں کی جانب بڑھا چلا جارہا تھا۔ اُسے دُور سے چند نوجوان نظر آئے۔ جو رات کی تاریکی میں کسی کی تلاش  میں بڑی بے چینی سے یہاں وَہاں جھانکتے دِکھائی دیئے۔ وُہ سائڈ کی ایک گلی میں گھستا چلا گیا۔ جسکے ساتھ دار الشفقت کی تختی نمایاں تھی۔ جہاں غالباً یتیم بچوں کی پرورش کی جاتی ہُوگی۔۔۔۔ کامل علی کے گلی میں داخل ہُوتے ہی شائد اُن نوجوانوں کو کامل علی پر شک ہُوگیا تھا۔ ۔۔۔جسکی وجہ سے   بھاگتے ہُوئے اُن کی چپلوں کی گونج رات کے اِس پہر صاف سُنائی دے رہی تھی۔۔۔۔ کامل علی جانتا تھا ۔ کہ اگر اِس وقت وُہ گھنشام داس کے چیلوں کو ہاتھ آگیا۔۔۔ ۔ تو وُہ اسکی چیر پھاڑ میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کریں گے۔۔۔ اسلئے بدحواسی میں وُہ ایک گھر کے دووازے کھلے دیکھ کر۔۔۔۔اپنی جان بچانے کیلئے اُس   گھر میں داخل ہُوگیا۔۔۔۔ اندر داخل ہُوتے ہی اُس نے دروازے کی کنڈی لگالی۔۔۔ اُن نوجوانوں نے شائد کامل علی کو اِس گھر میں داخل ہُوتے ہُوئے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔  اِس لئے بھاگتے قدموں کی چاپ دھیرے دھیرے دُور ہُوتی چلی جارہی تھی۔کہ اچانک ایک نسوانی آواز نے کامل علی کو متوجہ کرتے ہوئے مُخاطب کیا۔۔۔۔ اے مِسٹر کون ہُو تم۔ اُور گھر میں داخل کیسے ہُوئے۔۔۔۔؟ کامل علی نے بوکھلا کر خاتون کی جانب دیکھا تو۔۔۔حیرت سے اُس کی چیخ نِکلے نکلتے رِہ گئی۔۔۔۔ اُس کی نرگس اُسکے سامنے موجود تھی۔۔۔۔ لیکن نرگس کو دیکھ کر ایک لمحے کیلئے کامل علی کو ایسا لگا جیسے،، نرگس نے اپنی زندگی کی دس منزلیں مزید طے کرلی ہُوں۔۔۔۔ اُور اُسکے حُسن میں مزید وقار پیدا ہُوگیا ہُو۔۔۔۔ خاتون نے دوسری مرتبہ جب درشت لہجے میں سوال کیا۔۔۔۔ تو کامل علی کے مُنہ سے صرف اتنا ہی جملہ نِکل سکا۔۔۔۔۔ نرگس تُم یہاں۔۔۔۔؟؟؟۔

جاری ہے۔۔۔


اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے۔

Friday 22 March 2013

استخارہ کیا ہے۔۔۔؟۔ معلومات اُور اِحتیاط۔

اِستخارہ کیا ہے۔۔۔؟

اَحادیث مبارکہ کی رُوشنی میں استخارہ کا معنی ہیں۔ اللہ کریم سے کسی عمل کے متعلق مشورہ طلب کرنا۔۔۔۔ اُور بے شک اللہ کریم سے بہتر مشورہ کُون دے سکتا ہے۔ اُور اللہ کریم کے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں اتنی کثرت کیساتھ استخارے کی تاکید فرمائی ہے۔کہ،، مشہور صحابی رسول صلی اللہ علیہ و۔آلہ وَاصحابہ وسلم حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔
(ترمذی شریف)۔
جبکہ استخارہ کی اہمیت و فضیلیت سمجھنے کیلئے یہ ایک حدیث بھی کافی ہے۔مجمع  الاسانید میں ایک حدیث پاک کامفہوم ہے کہ،، اِبن آدم کی بدبختی ہے یہ بات کہ،، وُہ اللہ کریم سے استخارہ کرنا چھوڑ دے۔

اُور اِسی طرح  مشکواۃ شریف کی ایک حَدیث میں  سعد بن وقاص  (رضی اللہ عنہُ) ایک روایت اِرشاد فرماتے ہیں۔ کہ،، اللہ کریم کے مدنی محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) اِرشاد فرماتے ہیں۔کہ،،  انسان کی سعادت اورنیک بختی یہ ہے کہ ،، وُہ اپنے کاموں میں استخارہ کرے اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے،اور انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کیے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرے۔

طبرانی شریف کی بھی ایک حدیث مُلاحظہ فرمائیں۔۔۔کہ،، جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو۔ وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو۔ اس کو کبھی شرمندگی یا پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔۔۔۔ یعنی جو اپنے معملات زندگی میں استخارے کو شامل کرلیتا ہے۔ اللہ کریم اُسکے فیصلوں  کے اثرات میں خیر و برکت رکھ دیتا ہے۔

استخارے کا مسنون طریقہ۔

جب بھی استخارہ کرنا مقصود ہو۔ اُس وقت ۲ رکعت نفل نماز پڑھیں۔ صرف مکروہ وقت یا جن اُوقات میں نِفل نماز نہیں پڑھی جاتی۔ اُس وقت سے پرہیز لازم ہے۔ نفل نماز سے فارغ ہُونے کے بعد دُعائے استخارہ پڑھیں۔ اور جب ھَذالامر۔ پر پُہنچیں تو جِس مقصد کے لئے استخارہ کررہے ہیں۔ وُہ بیان کریں ۔ یعنی ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لینا ہے۔، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔


دُعائے اِستخارہ یہ ہے۔
اَللهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ وَ أَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَ أَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيْمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَ لَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ، اَللّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِىْ فَاقْدُرْهُ لِيْ وَ يَسِّرْهُ لِيْ ، ثُمَّ بَارِكْ لِيْ فِيْهِ ۔ وَ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِّيْ فِيْ دِيْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ وَ اقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهِ ۔ 

ترجمہ: اے اللہ ميں تجھ سے بھلائى طلب كرتا ہوں تيرے علم كے ذريعے سے، اور تجھ سے طاقت مانگتا ہوں تيرى طاقت كے ذريعے سے، اور تجھ سے سوال كرتا ہوں تيرے فضل عظيم كا ، اس ليے كہ تو طاقت ركھتا ہے اور ميں طاقت نہیں ركھتا، اور تو جانتا ہے اور ميں نہیں جانتا ، اور تو جاننے والا ہے تمام غيبوں كا ۔اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ بےشك يہ كام بہتر ہے ميرے ليے ميرے دين ميں اور ميرے معاش ميں اور ميرے انجام كار ميں تو تو اس كو ميرے ليے مقدر كر دے۔ اور اسے ميرے ليے آسان فرما دے، پھر ميرے ليے اس ميں بركت ڈال دے۔ اور اگر تو جانتا ہے كہ بے شك يہ كام ميرے ليےبرا ہے ميرے دين ميں اور ميرے معاش ميں اور ميرے انجام كار ميں، تو تو اس كو پھیر دے مجھ سے اور مجھ كو پھیر دے اس سے ، اور مقدر كر دے ميرے ليے بھلائى ، جہاں بھی وہ ہو ، پھر مجھے اس پر راضى كر دے۔

استخارہ خُود کرنا بہتر ہے۔ استخارہ ایک مرتبہ سے لیکر ایک ماہ تک بھی کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگوں کا دل ایک مرتبہ کے بعد  ہی کسی ایک فیصلے پر جم جاتا ہے جبکہ بعض لوگوں کو ایک ماہ کے بعد بھی دلجمعی حاصل نہیں ہُوپاتی۔۔۔۔ کیونکہ استخارہ کرنے والے کا مقصد یہی ہُوتا ہے ۔ کہ وُہ اپنے کاموں میں اللہ کریم کی مشاورت و رضا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسلئے اگر وُہ خود استخارہ کرنے کے بجائے کسی اُور کو اپنے استخارے کیلئے وکیل قائم کرے تب بھی اُسکا مقصد یہی ہُوتا ہے۔ کہ،، وُہ اُس کام کیلئے اللہ کریم کی رضا کا طالب ہے۔ لہذا کسی اُور سے بھی استخارہ کروانا جائز اَمر ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ کہ ،،چونکہ استخارہ کا مقصد اللہ کریم کی مشاورت و رضا حاصل کرنا ہُوتا ہے۔ اِس لئے استخارے کے معاملہ میں بے صبری اُور مذاق شامل نہیں ہُونا چاہیئے۔۔۔ اُور نہ ہی روز روز یہاں وہاں سے استخارہ کروا کر اُن کے نتائیج کو آپس میں  جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کریں ۔۔۔کہ یہ عمل اللہ کریم کے غضب کو دعوت دینے کے مُترادف ہے۔دوسری بات یہ بھی یاد رکھنی چاہیئے ۔کہ دُعا تقدیر بدل دیتی ہے۔ اِس لئے ممکن ہے۔ کہ جو بات آج استخارے میں ممنوع ہُو۔ کل اُسی بات کی اجازت استخارے میں مِل جائے۔ کیونکہ میرے مشاہدے میں ایسے بُہت سے معملات ہیں۔ کہ اسلامی بھائیوں یا بہنوں نے رشتہ کیلئے استخارہ کروایا۔ اُس وقت رشتہ کی اجازت نہیں مِلی۔ بعد میں اُنہوں نے صلواۃ الحاجات یا  صلواۃ الاسرار پڑھ کر دعا کی۔۔۔ اور چند دِن بعد جب  دُوبارہ استخارہ کروایا گیا۔ تو اُسی رشتے کی استخارے میں اجازت مِل گئی۔۔۔ بے شک دعائیں  حالات و واقعات کو تبدئل  کرنے کا اثر رکھتی ہیں۔۔۔اللہ کریم ہمیں اپنے 
تمام اعمال میں استخارے کو شامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔

اِستخارہ میں کیا معلوم نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔؟؟؟

جب ہمیں یہ عِلم ہُوگیا۔کہ،، اِستخارہ اللہ کریم سے مشورہ کرنے کا نام ہے۔ تو یہ مشورہ اِس اَمر کا متقاضی ہے۔ کہ اللہ کریم کی بارگاہِ بے نیاز میں مشورہ نہایت اَدب و اِحترام سے پیش کیا جانا چاہیئے۔۔۔ اِستخارے میں ایسے سَوالوں سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ جِن میں بے حیائی کا عنصر موجود ہُو۔ یا بے ادبی کا شائبہ محسوس ہُو۔ دُوسری بات یہ بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ ،، مشورے میں ایسے سوال ہر گز شامِل نہ کئے جائیں۔ جس میں غیب کے معملات سے آگاہی کی خواہش ہُو۔۔۔ مَثلاً۔۔۔ میرا رِزلٹ کیا نِکلے گا۔ ،،میرا کام ہُوگا۔ یا نہیں ہُوگا۔ شادی ہُوگی یا نہیں ہُوگی۔۔۔ فُلاں شخص کے دِل میں کیا بات ہے۔۔۔؟ وُہ شادی کے بعد دھوکہ تُو نہیں دے گا۔۔۔؟ وَغیرہ وَغیرہ۔ جیسے تمام لغو سوالوں سے بچتے ہُوئے سوال مشورے کے انداز میں ہُوں۔۔۔ جیسے۔ کہ،، مجھے یہ کام کرنا چاہیئے یا نہیں۔۔۔؟ یا فلاں شخص کیساتھ رشتہ کرنا چاہیئے یا نہیں۔ یا فُلاں شخص کیساتھ شراکت مُناسب ہے یا نہیں۔ یا مجھ پر کوئی جادو یا جنات کے اثرات تو نہیں ہیں۔۔۔؟ وغیرہ وغیرہ









عشق کے رنگ شیخ صنعان قسط ۱۰



سابقہ پیراگراف۔

شیخ صنعان کے جاتے ہی ٹریسا ،،جو کہ،، دروازے کی اُوٹ سے اپنے باپ اُور  شیخ صنعان کی تمام گفتگو بڑے تحمل سے سُن رہی تھی نِکل آئی۔ اُور شکایتاً کہنے لگی۔ بابا کیا آپ نے مجھے واقعی اِس  بوڑھے شیخ کو سُونپنے کا اِرادہ کرلیاہے۔۔۔؟؟؟ نہیں میری لخت جگر ایسا ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہماری پہلی کامیابی ہے ۔کہ،، میں نے  کتنی آسانی سے اِس بِلا کو  یہاں سے ہٹا کر جنگل میں پہنچانے کا انتظام کردیا ہے۔ مجھے قوی اُمید ہے۔کہ،،  بُوڑھا شیخ جلد ہی جنگل میں درندوں کا شکار بن جائے گا۔ یا جب اُسے معلوم ہُوگا کہ،، میں جن مویشیوں کا تذکرہ کررہا تھا ۔ وُہ خنزیر ہیں۔ تب بھی  وُہ ہار مان لے گا۔ کیونکہ مسلمان خنزیر سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی مجھے اِس شیخ سے ہے۔ بوڑھا یہودی قہقہ لگاتے ہُوئے سُونے کیلئے اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔ جبکہ ٹریسا سُوچنے پر مجبور ہُوگئی۔ کہ،، ہائے یہ عشق بھی کیا بَلا ہے۔ کسی عمر کا بھی لحاظ کرتی ہے نہ کسی کے مرتبے کا۔ لیکن کیا واقعی شیخ صنعان مجھے حاصل کرنے کیلئے خنزیروں کو چَرانے کی ذمہ داری قبول کرلیگا۔یا اپنے عشق سے دستبردار ہُوجائے گا؟؟؟؟


اب مزید پڑھیئے۔

گُذشتہ  ۱۰ دِن سے شیخ فرید اور شیخ محمود نے تبوک کا چپہ چپہ چھان مارا تھا۔ لیکن شیخ صنعان کو تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔ تھک ہار کر شیخ محمود نے اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ کہ،، ہو نا ہُو ۔ شیخ صنعان کی گمشدگی میں بوڑھے راہب کا ہاتھ محسوس ہُوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بوڑھے راہب نے اپنی عزت بچانے کیلئے شیخ صنعان کو قتل کروا کر اُنکی لاش کو ٹھکانے لگا دیا ہُو۔۔۔۔ شیخ محمود نے شیخ فرید کی موجودگی میں جب  اِمام ِ مسجد کے سامنےاپنے اندیشے کا اظہار کیا تو اِمامِ صاحب نے اِس مفروضے کو رَد کرتے ہُوئے جواب دیا۔ بوڑھا راہب اگرچہ مسلمانوں سے کینہ رکھتا ہے۔ لیکن وُہ ایک بُزدل شخص ہے۔ کسی بھی صورت میں اقدام قتل کا مِرتکب نہیں ہُوسکتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بُوڑھے راہب نے کوئی سازشی چال چل کر شیخ صنعان کو قید کرلیا ہُو۔ لیکن وُہ ایک چالاک شخص ہے۔ اِس لئے مجھے نہیں لگتا کہ،، اُس نے شیخ صنعان کو اپنے گھر میں چھپایا ہُوگا۔ اگر تُم لُوگ شیخ صنعان کو تلاش کرنا چاہتے ہُو۔ تو اِس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ،، بوڑھے راہب کی تمام حرکات و سکنات پر نگاہ رکھو۔ اللہ چاہے گا۔ تو بوڑھے راہب کی کوئی نہ کوئی غلطی ہمیں ضرور شیخ صنعان سے مِلوا دے گی۔۔۔۔۔۔۔ کافی بحث و اعتراضات کے بعد بلاآخر فرید و محمود کے پاس اِمام صاحب کی تجویز پر عمل کرنے کے سِوا کوئی راستہ  باقی نہ رَہا۔

شیخ محمود و شیخ فرید کو باری باری بوڑھے راہب پر نگاہ رکھتے ہُوئے آج تیسرا دِن نمودار ہُوچکا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد دونوں چہل قدمی کرتے ہُوئے بازار سے گھر کی جانب جارہے تھے۔ کیونکہ بوڑھا راہب عموماً   خُوب سورج چڑھنے کے بعد ہی گھر سے نمودار ہوتا تھا۔  اچانک شیخ محمود نے کن انکھیوں سے  فرید کو شاہراہ کی بائیں جانب دیکھنے کا اِشارہ کیا۔ شیخ فرید نے نگاہیں گھما کر دیکھا تو اُسے بھی حیرت کا جھٹکہ لگا۔کہ،،  خلافِ معمول بوڑھا راہب اپنے گھوڑے پر سوار شہر کی شمالی سمت میں خراماں خراماں چلا جارہا ہے۔ جبکہ اُسکا مُلازم بھی گھوڑے کے پیچھے پیچھے دوڑنے کے سے انداز میں چل رہا تھا۔ جبکہ گھوڑے کی فتراک سے اشیائے خُورد  و نوش بھی چھلک رہا تھا۔ گھوڑے کی رفتار اسقدر دھیمی تھی کہ،،  شیخ فرید  اُور شیخ محمود نے  فوراً فیصلہ کرڈالا  کہ،، ہم  مناسب فاصلہ رکھ کر بُوڑھے راہب کا پیچھا کرسکتے ہیں۔

تقریباً تین کوس کا فاصلہ کرنے کے بعد بوڑھا راہب بھی گھوڑے سے نیچے اُتر آیا تھا۔ اُور ایک تنگ سی پگڈنڈی کے ذریعے سے جنگل میں داخل ہُورہا تھا۔ شیخ فرید اُور شیخ محمود نے مزید فاصلہ رکھ کر تعاقب جاری رکھا۔ اُور تھوڑی ہی دیر بعد شیخ فرید کی بھنچی بھیچی آواز نکلی۔  محمود  اُس  ٹیلے کی طرف دیکھو جہاں کوئی چرواہا  مویشیوں کیساتھ موجود ہے۔ اُور مجھے نجانے کیوں ایسا محسوس ہُورہا ہے۔کہ،، وُہ ہمارے مُرشد کریم ہی ہیں۔۔۔   ہاں بھائی فرید لگ تو مجھے بھی یہی رَہا ہے۔ اللہ کا شُکر ہے کہ،، ہمارے شیخ صحیح سلامت ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔  ۔۔۔ البتہ  مجھے یہ مویشی پالتو خنزیروں کے مُشابہ دِکھائی دے رہے ہیں۔ اور مزید کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد  شیخ محمود کا شک یقین میں بدل چُکا تھا۔ وُہ واقعی  پالتو خنزیروں  کا ہی رِیوڑ تھا۔ جنہیں اصفہان کا عظیم صُوفی بُزرگ چَرارہا تھا۔۔۔۔

کچھ لمحوں بعد بوڑھا راہب ٹیلے کے کافی قریب پُہنچ چکا تھا۔ اُور جب شیخ صنعان کی نگاہ  بوڑھے راہب  پر پڑی تو وُہ بھی مویشیوں کو ہانکتے ہُوئے ٹیلے سے نیچے درختوں کے جھنڈ میں چلے آئے۔ شیخ فرید اُور شیخ محمود نے فیصلہ کیا ۔کہ،، ہمیں فی الحال بُوڑھے راہب کے سامنے ظاہر نہیں ہُونا چاہیئے۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ وُہ ہمارے شیخ کیساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ اُور اگر وُہ کوئی غیر اخلاقی حرکت کئے بغیر واپس لُوٹ جاتا ہے۔ تب ہم اپنے شیخ سے مُلاقات کریں گے۔ البتہ ہم شیخ سے اتنا قریب ضرور رہیں گے۔ کہ،، کہ اپنے شیخ اُور راہب کی گفتگو سُن سکیں۔

ہاں  معزز شیخ سُناوٗ کیسا وقت گُزر رہا ہے یہاں میرے مویشیوں کیساتھ؟؟؟ اور کوئی پریشانی، یا اُکتاہٹ محسوس ہُو برملا بتا دینا۔ میں اپنے وعدے پر قائم ہُوں تمہیں خاموشی سے تبوک سے نِکل جانے میں مدد کروں گا۔ بوڑھے راہب نے بظاہر اپنے لہجے کو ہمدردانہ بناتے ہُوئے شیخ کو پیشکش کی۔۔۔۔۔۔۔ نہیں مجھے یہاں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ یہاں کے درندوں سے بھی  میری شناسائی ہُوگئی ہے۔ وُہ بھی  اِن خنزیروں کو سنبھالنے میں میری مدد کرتے ہیں۔ بس تُم اپنا  وعدہ یاد رکھنا۔کہ،، میری استقامت کے عوض تمہیں ٹریسا کو میری زُوجیت میں دینا ہے۔ اُور ہاں اپنے مویشی خُوب اچھی طرح دیکھ لُو۔ یہ پہلے میں مُقابلے میں فربہی کی جانب مائل ہیں۔

بوڑھے رَاہب کا خیال تھا کہ،، جنگل کی تنہائی اُور دَدندوں کی موجودگی کے باعث شیخ  بہت ذیادہ خُوفزدہ ہُوگا۔لیکن شیخ کے مطمئن لہجے نے اُس کے اَرمانوں پر اُوس ڈال دی تھی۔ جسکی وجہ سے اُسکا بناوٹی لہجہ یکلخت  بدل گیا۔  ہاں ہاں دیکھیں گے۔ ابھی میری مزید شرائط   بھی باقی ہیں۔ جنہیں تُم نے پُورا کرنا ہےراہب نےجھلاہٹ  بھرے لہجے میں جواب دیکر اپنے مُلازم کو فتراک سے سامان نکال کر شیخ کے حوالے کرنے  اُور واپس چلنےکا حکم جاری کردیا۔ گھوڑے پر سُوار ہُونے کے بعد بوڑھے راہب کو جیسے کچھ یاد آگیا تھا۔ لہذااُس نے گھوڑے کو شیخ کے نذدیک لا کر نیا حکم جاری کیا۔ سُنو  آنے والی سنیچر کو میرے گھر پر ایک دعوت کا اہتمام ہے۔ جس میں مذہبی رسومات بھی ادا کی جائیں گی۔ لہذا میرا حکم ہے کہ،، سنیچر کو تُم ۲ خنزیر کاٹ کر شہر چلے آنا اُور اُنکے لذیز کباب تیار کرکے میرے مہمانوں کی تواضع کرنا۔ لیکن خیال رکھنا کہ شہر میں  اندھیرا ہونے کے بعد ہی داخل ہُونا اُور صبح ہُونے سے قبل واپس  جنگل  کو لُوٹ آنا۔ اُس رات  خنزیروں کی نگرانی کیلئے  میں اپنا مُلازم یہاں بھیج دُونگا۔

بُوڑھے راہب کے  واپس جاتے ہی شیخ فرید اُور شیخ محمود سسکتے ہُوئے شیخ صنعان کے سامنے ظاہر ہُوئے اُور بلک بِلک کر اپنے شیخ کے قدموں سے لِپٹ کر رُونے لگے۔۔۔۔۔کتنے ہی لمحے گُزر گئے لیکن   فرید و محمود کی ہچکیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔۔۔ شیخ صنعان نے دُونوں کے بالوں میں گنگھی کرتے ہُوئے  اُنہیں حُکم دیا۔ کہ   وُہ دونوں  اب خاموش ہُو کر بیٹھ جائیں۔ کیونکہ وقت  مجرم ضائع کرتے ہیں محرم نہیں۔۔۔۔ حضور ہم سے آپکی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی۔ بھلا کس نے سُوچا  ہُوگا کہ،، اصفہان کا عظیم تاج ایک دِن تبوک کے جنگل میں گُمنام ہُوجائے گا۔۔۔حضور اب ہم آپ کو لئے بغیر واپس نہیں جائیں گےوگرنہ ہمیں بھی اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دیں۔۔۔شیخ فرید نے نہایت دلگیر لہجے میں فریاد کرتے ہُوئے عرض کی۔

میرے بچوں مجھے معاف کرنا۔ میں تمہاری دونوں ہی خاہش پوری کرنے سے قاصر ہُوں۔ میں نے  یقیناً ایک مرتبہ پہلے بھی اپنی حدود سے  تجاوز  کیا اُور نجانے کُونسے وعدے کو پس پشت ڈال کر خُود کو مبتلائے بلا کیا۔ اب پھر دوبارہ وعدہ خلافی کا عذاب برداشت نہیں کرپاوٗں گا۔نہ میں ٹریسا کو حاصل کئے بغیر پلٹ سکتا ہُوں اور نہ ہی اپنی مصیبت میں تُم کو شامل کرسکتا ہُوں۔ کہ یہ صریح وعدہ خلافی ہُوگی۔ جو کام مجھے سُونپا گیا ہے۔ وُہ مجھے ہی بھوگنے دُو۔ اُور واپس لُوٹ جاوٗ اگر اپنے گھر نہیں جانا چاہتے تو کم از کم اِس جنگل میں مجھے تنہا چھوڑ دو۔۔۔۔۔ شیخ کی گفتگو سُن کر وُہ دونوں پھر بلک بِلک کر رُونے لگے۔۔۔۔ جسکے جواب میں شیخ صنعان نے اُنہیں سمجھاتے ہُوئے کہا۔کہ،، دیکھو تُہارے  اِس طرح رُونے سے میں مزید کمزور پڑجاوٗنگا۔ مجھے ابھی ایسی اُور بُہت سی آزمائشوں سے گُزرنا ہے۔۔۔۔ البتہ میں نے یہودی سے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا کہ،، کوئی مجھ سے ملاقات کرنے کیلئے جنگل نہیں آسکتا۔ لہذا چاہو تو ہفتے میں ایکبار  ملاقات کیلئے چلے آنا۔

شیخ  فرید اُور شیخ محمود  نے ہزار جتن کئے کہ،، شیخ صنعان اِنہیں خُود سے جُدا نہ کریں لیکن شیخ صنعان  کسی صورت راضی نہیں ہوئے۔ جسکی وجہ سے اِنہیں مجبوراً  تبوک واپس لُوٹ کر آنا پڑا۔ ۔۔۔۔سنیچر کے دِن  دُونوں نے باہمی رضامندی سے اس بات پر اتفاق کیا کہ،، کسی نہ کسی بہانے سے  بوڑھے راہب کی دعوت میں شریک ہُوکر شیخ صنعان کی زیارت کا موقعہ حاصل کرنا چاہیئے۔  اور یہ موقعہ انہیں راہب کے ملازم نے خاصی بڑی رقم اینٹھ کر فراہم کردیا۔ یہ دعوت  کسی یہودی کےکھجور کے باغ میں منعقد کی گئی ۔ جہاں پر محمود اُور فرید دیہاتیوں کے رُوپ میں برتنوں کی دُھلائی اُور صفائی پر مامور کئے گئے تھے۔۔۔۔ ایک جانب شیخ صنعان  تمام لوگوں سے بے پرواہ  بڑے انہماک سے خنزیر کے گوشت سے کباب تیار کرنے میں مصروف تھے۔ تو دوسری جانب شیخ محمود و فرید بڑی مشکل سے اپنی آنکھوں میں آنسو  ضبط کئے ہُوئے تھے۔۔۔

دعوت جس وقت اپنے عروج پر تھی۔ لُوگ شراب اُور کباب سے لُطف اندوز ہُورہے تھے۔ بوڑھے راہب نے شیخ صنعان کو کباب کی ایک پلیٹ لانے کا حُکم دیا۔ شیخ صنعان خاموشی سے خنزیر کے پلیٹ لیکر راہب کے پاس پُہنچ گئے۔ لیکن اگلے ہی لمحے بوڑھے راہب  نے خُکم دیا کہ،، تمام لُوگ  شراب و کباب کے مزے لے رہے ہیں ۔لیکن  شیخ میں دیکھ رہا ہُوں۔ کہ تُم نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔ اس لئے میرے سامنے اس پلیٹ سے کباب اُٹھا کر کھاوٗ۔ اُور جام بھی نُوش کرو۔یہ فرمائش سُن کر  شیخ صنعان پریشان نظر آنے لگے۔ لیکن اگلے ہی لمحے سنبھل کر کہنے لگے،، آپ جانتے ہیں کہ،، مسلمان شراب اُور خنزیر نہیں کھاتے پیتے۔۔۔۔

اچھا  پھر یہ بتاوٗ۔ اگر  تُم نہ شراب  پیتے ہُو۔ اُور نہ ہی خنزیر کا گُوشت کھاتے ہُو۔۔۔ تو ایک ایسی لڑکی سے کیوں شادی کرنا چاہتے ہُو۔ جو یہ دونوں  چیزیں حلال جانتی ہے۔۔۔۔ اُور میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ کیسے دے سکتا ہُوں ۔ جو ہمارے کھانے پینے کو حلال نہیں سمجھتا۔؟؟؟؟۔ اب یا تو تُم شراب و کباب میں ہمارا ساتھ دیکر ثابت کرو۔کہ،، تم ہمارے جیسے ہی ہُو۔ اُور ٹریسا کے قابل ہُو۔ یا پھر وعدہ خلافی کا اعتراف کرتے ہُوئے ہمیشہ کیلئے تبوک سے چلے جاوٗ۔۔۔۔  راہب نشے کی حالت میں چِلا چلا کر بُول رہا تھا جسکی وجہ سے تمام مہمان متوجہ ہُوکر بوڑھے راہب اور شیخ کے قریب سِمٹنے لگے تھے۔ اور اَب سب یہی نعرہ لگارہے تھے۔ کہ ثابت کرو یا واپس جاوٗ۔۔۔۔۔ شیخ صنعان کچھ لمحے تمام تماشائیوں کو دیکھتے رہے۔۔۔ اُور پھر اچانک خنزیر کے کباب نُوچ نُوچ کر اپنے حلق سے اُتارنے لگے۔ اتنے میں کسی شراتی  یہودی نے شیخ صنعان کے سامنے   شراب کا جام بھی پیش کردیا۔ اُور   شیخ صنعان نے بغیر کسی تاثر کے اُسے بھی اپنے حلق سے انڈیل لیا۔۔۔۔۔

جاری ہے۔

Tuesday 19 March 2013

عشق کے رنگ شیخ صنعان ۹



یہودی گھر واپس آیا تو اپنے گھر کے سامنے   شیخ صنعان کے گرد لڑکوں کی بھیڑ دیکھ کر رُکا۔ لیکن جب نوجوان نے باآواز بُلند پھبتیاں کسنا شروع کردیں تو یہودی یہ سُوچ کر گھر میں داخل ہُوگیا۔۔۔۔ کہ،، جلد ہی شیخ نوجوانوں کی شرارت کے باعث یہاں سے چلا جائے گا۔۔۔ وگرنہ شہر کے قاضی کی مدد سے اِس مصیبت سے جان چُھڑالُوں گا۔۔۔۔ اِتفاقاً اُسی وقت قافلے سے چند لُوگ شیخ صنعان سے قافلے کے کُوچ کی بابت معلوم کرنے کیلئے شہر میں آئے تھے۔ اُنہوں نے جب اپنے شیخ کی یہ حالت دیکھی۔ تو قافلے میں واپس پُہنچ کر دُوسروں تک بھی یہ بات پُہنچا دی۔ جِسکے سبب تمام قافلے میں چہ میگویوں کا بازار گرم ہُوگیا۔ اُور لُوگ شیخ صنعان کی حرکت سے بدظن ہُوکر آپس میں ایک دُوسرے سے مشورے کرنے لگے۔

اَب مَزید پڑھیئے۔
شیخ صنعان کو ٹریسا کے گھر کے سامنے ڈیرہ جمائے  کئی دِن گُزر چُکے تھے۔ محلے کے منچلوں نے بھی رفتہ رفتہ شیخ صنعان کی خاموشی اُور بے توجہی کے سبب  اُسے ستانا چھوڑ دیا تھا۔  شیخ صنعان  کے ہمراہ بیت المقدس کو جانے والے مُریدین  بھی  دھیرے دھیرے شیخ صنعان کو چھوڑ کر جا چُکے تھے۔ اُن میں سے صرف چند ہی لُوگوں نے بیت المقدس کے سفر کو جاری رکھا باقی اکثریت  یہ کہہ کر اپنے وطن کو لُوٹ چُکی تھی۔ کہ ،، جب رَاہنما ہی گُمراہ  ہُوگیا تو نشان منزل بھلا کُون بتائے گا۔ صرف شیخ محمود ، اُور شیخ فرید تنہا اِس آس پر تبوک  میں  موجود تھے۔ کہ،، جلد  یا بدیر کوئی کرشمہ نمودار ہُوگا۔ اُور شیخ واپس اپنی اصل حالت میں لُوٹ آئیں گے۔

    بظاہر تمام معملات پُرسکون دِکھائی دے رہے تھے۔ البتہ ٹریسا کا بُوڑھا باپ اِن تمام حالات سے اندر ہی اندر کُڑھے جارہا تھا۔ وُہ اِس ناگہانی مصیبت سے نمٹنے کیلئے کسی ایسی تدبیر کی تلاش میں تھا۔کہ،، جس سے سانپ بھی مَرجائے اُور عزت کی بیساکھی بھی برقرار رہے۔ گُزشتہ شب اِسی سُوچ و بچار کے دُوران اُسکے ذہن میں ایک شیطانی منصوبے نے جنم لیا تھا۔ جِسے عملی جامہ پہنانے کیلئے اُسے آج شیخ صنعان سے گفتگو کرنی تھی۔۔۔۔۔ بُوڑھے یہودی نے ایک مُلازم کے ذریعے سے شیخ صنعان کو خفیہ پیغام بھیجا تھا۔ کہ،، میں ٹریسا کے معاملے میں تُم سے رات  تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہُوں۔۔۔

شیخ صنعان کو جب سے بُوڑھے یہودی کی جانب سے مُلاقات کا پیغام مُوصول ہُوا تھا۔ اُسے  یقین ہُوچلا تھا کہ قُدرت  بلاآخر اُس پر مہربان ہُوچکی ہے۔ اُور بوڑھا یہودی اُسکی استقامت اُور سچی طلب کا قائل ہُوچکا ہے۔ اُور شائد اب وُہ ٹریسا کا ہاتھ اِسکے ہاتھ میں دینے کیلئے ذہنی طُور پر تیار ہُوچُکا ہے۔۔۔۔  رات ڈھلتے ہی بُوڑھے  یہودی کا ملازم گھر سے نمودار ہُوا۔ اُور گلی کا جائزہ لینے کے بعد شیخ صنعان کا بازُو پکڑے عجلت میں دُوبارہ گھر میں داخل ہُوگیا۔ مہمان خانے میں بُوڑھا یہودی شیخ صنعان کا منتظر تھا۔  شیخ پر نگاہ پڑتے ہی بوڑھے یہودی نے سپاٹ لہجے میں اُسے اپنے سامنے والی نشست پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ کافی لمحے بیت گئے لیکن کمرے میں ایسی خاموشی  طاری تھی۔جیسے یہاں کوئی موجود ہی نہ ہُو۔ شیخ صنعان نظریں جھکائے یہودی کے کلام کا منتظر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آخر کار یہودی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہُوئے شیخ کو مُخاطب کیا۔ سُنا ہے اصفہان سے  لیکر  جزیرہ  ٗعرب تک آپکے ہزاروں یا شائد لاکھوں پیروکار مُوجود ہیں۔ جو آپکو اپنا مذہبی اُور رُوحانی  پیشوا مانتے ہیں؟؟؟۔۔۔۔ ہاں کبھی ایسا  تھا۔۔۔۔ لیکن اب ایسا  مُعاملہ نہیں ہے۔ اُور نہ ہی مجھے اِس بات کی کوئی خاہش ہے کہ،، میری پیروی کی جائے۔ شیخ صنعان نے مختصر جواب دیتے ہُوئے کہا۔

آپ کیا چاہتے ہیں۔ یا آپ کس رتبے کی حامل شخصیت ہیں۔ اگرچہ براہِ راست مجھے بھی اِس بات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن آپ نے اتنا گیان  و مرتبہ حاصل کرنے کے بعد بھی مجھ غریب کو  جس طرح سے تمام تبوک میں تماشہ بنا کر رکھ دِیا ہے۔  یہ بات ضرور میرے لئے انتہائی تکلیف کا باعث ہے۔میں  ایک جوان بیٹی کا باپ ہُوں  اُور  میں نہیں چاہتا کہ،، میری بیٹی کا نام ایک غیر مذہب کے  بوڑھے شخص کیساتھ جُوڑا جائے۔  یااُسے  میری بیٹی کے عاشق کے طور پر پہچانا جائے۔ اگر آپکو اپنی عزت کا خیال نہیں ہے۔ تو اِسکا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے۔کہ،، آپ دُوسروں کی عزت کو سرعام نیلام کریں۔۔۔۔

میں ٹریسا کو بدنام کرنے سے قبل موت کو ترجیح دُونگا۔ رَہا سوال عِلم و فضیلیت کا تو یقین جانیئے اگر میں   صرف نکاح کی خاہش کا اظہار ہی کردیتا تو فارس سے عرب تک کے سردار ، و، سرمایہ کار اپنی بچیوں کے رشتے دینے میں ایک دوسرے پر ضرور سبقت لیجانے کی کوشش کرتے ۔لیکن میرے دِل میں کبھی اِسطرح  گھر بسانے کا خیال ہی نہیں آیا۔ پہلے میرا خیال تھا کہ،، زندگی اتنی مختصر ہے۔ کہ،، بیک وقت  عاشق ۲ معشوقوں کی محبت کا متحمل نہیں ہُوسکتا۔ لیکن ٹریسا کو دیکھنے کے بعد نہ جانے کیوں میرا خُود پر کوئی اختیار نہیں رَہا۔  حالانکہ میں نے دُنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین چہرہ دیکھا ہے۔ لیکن کوئی نقش میرے وجود کی پاکیزگی میں ہلچل برپا نہیں کرسکا۔ ۔۔۔ اسلئے میرے مہربان مجھ پر طنز و تشنیع کے تیر برسانے کے بجائے میری تکلیف کو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔ یقیناً ٹریسا کو  نہایت خوبرو نوجوان جیون ساتھی میسر آسکتا ہے۔ جو اُسے بہت ذیادہ چاہے۔۔۔ لیکن میں ٹریسا کے خیال سے کسی بھی صورت دستبردار نہیں ہونگا۔ اگر آپ نے ٹریسا کا ہاتھ مجھے تھمادیا  تو میں تمام زندگی آپکا مشکور رَہوں گا۔ اُور اگر آپ نے مجھے دھتکار دِیا تب بھی میں زندگی کی آخری سانس تک ٹریسا  کو پانے کی جستجو کرتا رَہوں گا۔۔۔۔ گفتگو کرتے ہُوئے شیخ صنعا ن کی آواز بَھَّرانے لگی تھی۔

میں ایک ایسے بے وطن شخص پر جِسے نہ میں  جانتا ہُوں ۔ جو  نہ ہی  میرا ہم مذہب ہُو۔ میں  اُس پرکسطرح بھروسہ کرسکتا ہُوں۔ کہ،، وہ میری پھول جیسی بچی کیساتھ وفا کرے گا۔  یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ،،  تُم فی الوقت سفلی جذبات  کے گرداب میں مبتلا ہو۔ اُور جلد ہی عشق کا یہ بھوت تُمہارے سر سے اُتر جائے ۔ اُور تم اپنی جنسی تسکین کے بعد میری بچی کو ہمیشہ کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دُو۔؟؟؟  بوڑھے راہب نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہُوئے کہا۔میں ہرگز ہرگز اپنی بیٹی کیساتھ ظلم نہیں ہُونے دُدنگا۔

آخر میں  کسطرح تُمہارے تمام اندیشوں کو  دُور کرسکتا ہُوں!!!! شیخ صنعان نے بیچارگی سے بوڑھے یہودی کو دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔
اگر تُم واقعی اپنے دعوے میں سچے ہُو۔ تو۔ میں تمہارا امتحان لینا چاہونگا۔ اگر تم  امتحان میں ثابت قدم رہے تو میں ٹریسا کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دینے کیلئے سُوچ سکتا ہوں۔ بُوڑھے یہودی نے اپنے منصوبےکو عملی جامہ پہنانے کیلئے پہلا تیر چلایا۔ اُور یہ تیر بالکل نشانے پر لگا تھا۔ کیونکہ دوسرے ہی لمحے شیخ صنعان نے بِلا توقف یہ کہہ کر حامی بھر لی تھی۔ کہ،، اگر تقدیر میں ایک مزید امتحان دینا بھی لکھا جا چُکا ہے۔ تو میں ضرور یہ امتحان دُونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ٹھیک ہے  ۔۔۔۔تُمہارا پہلا امتحان کل سُورج  کے طلوع ہُوتے ہی شروع ہُوجائے گا۔ ۔۔ تبوک شہر سے تین کُوس  دُور شُمال کی جانب میری ایک چراہگاہ ہے جہاں  تمہیں کچھ عرصہ میرے  مویشیوں کی خدمت کرنی ہُوگی۔ اگر تمہاری  مُسلسل محنت اُور استقامت سے میرے مویشی فربہ ہوگئے تو میں  اگلی شرائط بیان کروں گا۔ اُور اگر میرے مویشی کمزور ہوگئے ۔ یا اُنہیں درندوں نے چیڑ پھاڑ ڈالا تو یہ معاہدہ ختم ہُوجائے گا۔ اُور تمہیں ٹریسا کی محبت سے  بِلا حیل و حجت دستبردار ہُوکر واپس اپنے وطن جانا پڑے گا۔ کہو کیا اپنے پروردیگار کو  گواہ بنا کر یہ عہد کرتے ہُو۔  ؟؟؟ بوڑھے یہودی نے اپنے جُوش کو چھپاتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے مجھے تمہاری شرط منظور ہے۔ شیخ صنعان نے  بے بسی اُور اُمید کی مِلی جُلی کیفیت میں جواب  دیا۔

شیخ صنعان کے جاتے ہی ٹریسا ،،جو کہ،، دروازے کی اُوٹ سے اپنے باپ اُور  شیخ صنعان کی تمام گفتگو بڑے تحمل سے سُن رہی تھی نِکل آئی۔ اُور شکایتاً کہنے لگی۔ بابا کیا آپ نے مجھے واقعی اِس  بوڑھے شیخ کو سُونپنے کا اِرادہ کرلیاہے۔۔۔؟؟؟ نہیں میری لخت جگر ایسا ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہماری پہلی کامیابی ہے ۔کہ،،میں نے کتنی آسانی سے اُسے یہاں سے ہٹا کر جنگل میں پہنچانے کا انتظام کردیا ہے۔ مجھے قوی اُمید ہے۔کہ،،  بُوڑھا شیخ جلد ہی جنگل میں درندوں کا شکار بن جائے گا۔ یا جب اُسے معلوم ہُوگا کہ،، میں جن مویشیوں کا تذکرہ کررہا تھا ۔ وُہ خنزیر ہیں۔ تب بھی  وُہ ہار مان لے گا۔ کیونکہ مسلمان خنزیر سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی مجھے اِس شیخ سے ہے۔ بوڑھا یہودی قہقہ لگاتے ہُوئے سُونے کیلئے اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔ جبکہ ٹریسا سُوچنے پر مجبور ہُوگئی۔ کہ،، ہائے یہ عشق بھی کیا بَلا ہے۔ کسی عمر کا  لحاظ کرتی ہے نہ کسی کے مرتبے کا۔ لیکن کیا واقعی شیخ صنعان مجھے حاصل کرنے کیلئے خنزیروں کو چَرانے کی ذمہ داری قبول کرلیگا۔یا اپنے عشق سے دستبردار ہُوجائے گا؟؟؟؟


جاری ہے۔

Monday 18 March 2013

عشق کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ قسط .۸


عشق کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ  قسط ۸

گُذشتہ سے پیوستہ۔

سُنت الہیہ میں یہ راز پُوشیدہ کردیا گیا۔۔۔ کہ،، دشمن کے حقوق  کی بھی حفاظت کی جائے۔ اُور معاہدے کو چُھپایا بھی نہ جائے۔۔۔ چاہے اُس معاہدے کے اِظہار سے  بظاہر دُشمن کو کتنا ہی فائدہ پُہنچنے کا اندیشہ نہ ہُو۔۔۔ اُور نہ ہی دُشمن پر جبر کیا جائے تاآنکہ وُہ خُود معافی کا طلبگار بن کر نہ آجائے۔ اُور نہ ہُی اُسکے تذکرے کو دبایا جائے۔بلکہ جسطرح دُوست کی باتوں کو اہمیت دِی جاتی ہے۔۔۔ دُشمن کی باتوں کو بھی نمایاں کیا جائے۔۔۔۔ اسلئے جب بھی اللہ کریم کے پسندیدہ بندے انبیا کرام  علیہ  السلام کی شکل میں مبعوث ہُوتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے اللہ کریم کی سُنت کے احترام میں دُشمنوں کو تمام رعایت دی ہیں۔۔۔ اُور یہی حال اُولیائے کرام کا بھی ہے۔ اُن سے یہ ممکن ہی نہیں کہ،، وُہ اللہ کریم کی سُنت کو نہ اپنائیں۔۔۔ اسلئے جب کروڑوں اُولیائے کرام کے مقابلے میں ایک شخص نے سیدنا غُوث الاعظم کی سیادت کو چیلنج کیا۔ تو آپ  نے سُنت اِلہیہ پر عمل کرتے ہُوئے کروڑوں کے مقابلے میں اُس مُخالف پر نہ جبر کیا۔ اُور نہ ہی اُسے غیر اِہم سمجھا۔۔۔ بلکہ اُسے بھی خاص طُور پر نمایاں لفظوں سے اپنے کلام کی بدولت ہمیشہ کیلئے اَمر کردیا۔۔۔

اَب مزید پڑھیئے۔

 اگرچہ اَبو یوسف ریحان کی گفتگو سے شیخ فرید اُور شیخ محمود دُونوں ہی ُبہت  محظوظ ہُورہے تھے۔۔۔لیکن رات کافی گُزر جانے اُور سفر کی صعوبت کے اثرات ابو یُوسف کے چہرے پر  تھکن کی صورت میں نظر آنے لگے تھے۔ جِسے محسوس کرنے کے بعد  شیخ فرید نے ابو یوسف ریحان کیلئے بستر دراز کردیا۔ بستر پر پُہنچنے کے کچھ  ہی دیر بعد ابو یُوسف رِیحان نیند کی گہری وَادیوں میں داخل ہُوگیا۔۔۔۔ اُور صبح فجر کی نماز کے بعد اجازت طلب کرتے ہُوئے  یہ کہتے ہُوئےروانہ ہُوگیا۔کہ،، شہر تبوک  میں لُوگوں سے مُلاقات کے بعد وُہ جلد اگلے سفر کیلئے روانہ ہُونا چاہتا ہے۔۔۔ شیخ فرید اُور شیخ محمود سے بغلگیر ہُوتے ہُوئے ابو یوسف نے اِن دُونوں سے  یہ استدعا بھی کی۔کہ،، اگر کبھی آپ لُوگوں کا بغداد آنا  مقدر ٹہرے تو مجھے  بھی ضرور خدمت کا موقعہ دیجئے گا۔

ابو یوسف کے چلے جانے کے بعد شیخ محمود نے شیخ فرید کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا،، فرید نجانے کیوں لیکن مجھے ابو یوسف کی باتوں سے بُہت خُوف محسوس ہُورہا ہے۔۔۔ رات اُسکی گفتگو سُنتے ہُوئے مجھے بار بار ایسا محسوس ہُوا ، جیسے وُہ ہمارے شیخ کے متعلق ہی باتیں کررہا ہُو۔کیا تمہیں ابو یوسف کی گفتگو سے خُوف محسوس نہیں ہُوا۔؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ  حال تو میرا بھی تُم سے قدرے مختلف نہیں تھا محمود بھائی لیکن میں یہ سُوچ کر اپنے دِل کو تسلی دیتا رَہا۔کہ،، آخر ایک  کردار کہاں تک  کہانی کے سانچے میں  خُود کو ،، ڈھال سکتا ہے۔ کبھی نہ کبھی  تو بڑے کردار  نبھانے والےبھی غلطی کرہی جاتے ہیں۔ شائد اسی لئے بُزرگانِ دین  ہمیشہ  خالق سے توفیق کی استمداد طلب کرتے رِہنے کیلئے زُور دیتے رِہتے ہیں۔ شیخ محمود کے استفسار پر شیخ فرید نے کچھ سُوچتے ہُوئے جواب دیا۔۔۔ لیکن  محمود بھائی کل رات کی تمام باتوں کے بعد میں نے خُود سے ایک عہد ضرور کیا ہے۔کہ،، ہمارے شیخ کے ہم پر بے پناہ اِحسانات ہیں جو ہم سے تقاضہ کرتے ہیں۔کہ حالات چاہے کتنے ہی کیوں نہ بگڑ جائیں۔ کم از کم میں اپنے شیخ کو اِس امتحان  کے وقت تنہا نہیں چھوڑوں گا۔

فرید میرے بھائی ! خُدا گَواہ ہے۔کہ،، کل رات ایک ایسا ہی عہد و پیمان میں نے بھی خُود سے  بستر پر جانے سے قبل کیا ہے۔ اُور انشا اللہ اِس معاملے میں تُم مجھے بھی پیچھے ہٹتا نہیں دِیکھو گے۔۔۔ شیخ محمود نے جذباتی لہجے میں جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک کی آواز سُنائی دی۔۔۔ شیخ محمود نے بڑھ کر دروازہ کھولا تو شیخ صنعان کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر عرض کرنے لگا۔یا شیخ آپ نے زحمت کیوں فرمائی آپ کسی غلام کو اِرشاد فرمادیتے ۔  ہم خُود آپکی خِدمت میں حاضر ہُوجاتے۔۔۔۔محمود پیاس کی میزان بھی بدلتی رِہتی ہے۔۔کبھی پیاسہ کنویں کا متلاشی ہُوتا ہے۔ اُور کبھی کُنواں اپنی پیاس مٹانے کیلئے تشنہ نظر آتا ہے۔۔۔ یہی زندگی کے رَنگ ہیں۔۔۔ جو کبھی پیاسے کو دُوڑاتے ہیں۔ تو کبھی کُنویں کو۔۔۔ شیخ صنعان  کُھوئے کھوئے لہجے میں محمود کو جواب دیتے ہُوئےاندر حجرے میں داخل ہُوگیا۔

کل  ساری رات میں تُم دُونوں کے انتظار میں جاگتا رَہا ہُوں۔۔۔۔کیا تُم لوگوں نے کوئی  ایسی تدبیر سُوچی ہے۔کہ،، جِس سے میرے دِل کی بیقراری کو قرار حاصل ہُوجائے۔۔۔شیخ صنعان نے فرید و محمود کےچہروں کو تکتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔؟؟؟۔۔محترم شیخ  ہم اِسی تدبیر کے ادھیڑ بن میں ہر لمحہ کُوشاں ہیں۔ اُور خُلوص دِل سے یہی چاہتے ہیں۔ کہ،، آپکی خُواہش کو کسی بھی طرح حقیقت کے جامے میں   آپ کے سامنے پیش کریں۔۔۔۔لیکن شیخ محترم ہم اِس کوشش میں ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ اتنا کہنے کے بعد شیخ فرید نے اپنی کاوشوں کی  تمام داستان شیخ صنعان کے گُوش گُزار کرتے ہُوئے تمام کہانی بشمول یہودی   اور ٹریسا کے جوابات کیساتھ نہایت اَدب سے شیخ کو سُنا دالی۔

ہُم ٹھیک ہے۔۔۔ تُم دُونوں نے واقعی اپنی ذمہ داری اِحسن انداز میں  بھرپور طریقے سے نبھانے کی کوشش کی ہے۔شائد میرے نصیب میں ابھی کُچھ مزید امتحان باقی ہیں۔۔ لیکن میں یہودی کے اِنکار کے باوجود بھی تبوک سے خالی ہاتھ لُوٹ کر نہیں جاونگا۔۔۔لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ،، میری وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں مخلوق خُدا بے سروسامانی کی حالت میں پریشان ہُوں۔ اسلئے میں چاہتا ہُوں۔کہ،، تُم دُونوں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیت المقدس کی جانب کُوچ کرجاوٗ۔ اگر میرے مقدر نے یاوری کی تو میں بھی جلد تُم لوگوں سے آ مِلوں گا۔۔۔ وگرنہ یہیں کُوچہ یار میں مرنے کو ترجیح دُونگا۔۔۔ شیخ صنعان دِل گرفتہ لہجے میں کہتا ہُوا واپس لُوٹ گیا۔۔۔ شیخ فرید اُور شیخ محمود کی آنکھوں سے آنسو وں کا ریلا بہنے لگا تھا۔ لیکن اُنکی زُبان پر جیسے قفل پڑے تھے۔۔۔ وُہ دُونوں اپنے شیخ کو  مَلول و دِل گرفتہ حالت میں لُوٹتا دیکھتے رہے۔ لیکن ایک بھی جملہ اُنکی زُبان سے نہ نِکل سکا۔

شیخ صنعان   کے دِل پر یہودی کے انکار کا  نجانے کیسا اثر ہُوا تھا۔۔۔۔کہ،، وُہ  شیخ فرید کے حجرے سے نِکل کر سیدھا ٹریسا کے گھر کے عین سامنے جاکر زمین پر نظریں جما کر بیٹھ گیا۔۔۔ لُوگوں نے جب اصفہان کے مشہور شیخ اعظم کو ٹریسا کے دروازے کے عین مقابل زمین پر بیٹھے دیکھا تو اُنہیں بُہت تعجب ہُوا۔ لیکن  کِسی میں بھی اِتنی ہمت نہیں تھی۔کہ،، وُہ شیخ صنعان سے اِس طرح زَمین پر بیٹھنے کا سبب معلوم کرسکے۔۔  تھوڑی دیر میں بات اِمام  جامع مسجد تک پُہنچی تو وُہ خود وَہاں پُہنچ گئے اُور شیخ سے ماجرا معلوم کیا۔۔۔ شیخ صنعان پر یاسییت نے قبضہ جمالیا تھا۔۔۔ اُس  نے اپنی عزت اُور رُتبے کا ذرا بھی خیال نہ کیا ۔۔اُور اپنے دِل کا  تمام ماجرا سُناتے ہُوئے  آخر میں کہا۔ کہ،، ٹریسا میری زندگی کی ڈُور ہے جسکے بنا میں اب ایک قدم  بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔۔۔  گلی کے چند منچلے نوجوانوں کے کانوں نے بھی یہ جملے  سُن لئے۔ اُور تھوڑی دیر میں ہی اصفہان کا عظیم درویش  تبوک کی گلیوں میں صرف ایک مذاق بن  کر رِہ گیا۔۔۔ اِمام مسجد نے حالات کا یہ رُخ دیکھ کر وَہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت دیکھی۔ اُور خاموشی سے  شیخ صنعان کو منچلے نوجوانوں کے  رِحم و کرم پر چھوڑ کرنِکل گئے۔ اب گلی میں  شیخ  صنعان تھے اُور چند آوارہ نوجوان جنہوں نے شیخ صنعان کا تماشہ بنا لیا تھا۔

یہودی گھر واپس آیا تو اپنے گھر کے سامنے  لڑکوں کی بھیڑ دیکھ کر رُکا۔ لیکن جب نوجوان نے باآواز بُلند پھبتیاں کسنا شروع کردیں تو یہودی یہ سُوچ کر گھر میں داخل ہُوگیا۔۔۔۔ کہ،، جلد ہی شیخ نوجوانوں کی شرارت کے باعث یہاں سے چلا جائے گا۔۔۔ وگرنہ شہر کے قاضی کی مدد سے اِس مصیبت سے جان چُھڑالُوں گا۔۔۔۔ اِتفاقاً اُسی وقت قافلے سے چند لُوگ شیخ صنعان سے قافلے کے کُوچ کی بابت معلوم کرنے کیلئے شہر میں آئے تھے۔ اُنہوں نے جب اپنے شیخ کی یہ حالت دیکھی۔ تو قافلے میں واپس پُہنچ کر دُوسروں تک بھی یہ بات پُہنچا دی۔ جِسکے سبب تمام قافلے میں چہ میگویوں کا بازار گرم ہُوگیا۔ اُور لُوگ شیخ صنعان کی حرکت سے بدظن ہُوکر آپس میں ایک دُوسرے سے مشورے کرنے لگے۔

جاری ہے۔