گُذشتہ
سے پیوستہ۔
نمائش میں سوائے رقص و سُرودکی محفل کے کچھ نہیں تھا۔ البتہ
کچھ لوگ کھیل کے نام پرمختلف شامیانوں میں
جُوئے میں مصروف تھے۔ کامل علی کی طبعیت تھوڑی ہی دیر میں اِس کھیل تماشے سے
اُکتانے لگی تھی۔۔۔ یار ابو شامل یہاں تو اپنے مطلب کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔ اِس سے تو بہتر تھا گھر پر ٹی وی ہی دیکھ لیتے۔۔۔
کام کی چیز بھی ہے ۔میرے یار اُور ہمارے لئے کام بھی،، بس دیکھنے والی نظر چاہیئے
ابوشامل نے گُم سُم لہجے میں جواب دیتے ہُوئے کامل کو ایک شامیانے کی جانب متوجہ
کیا۔ جس کے پردے نما دروازے پرایک ڈرائیور ٹائپ شخص ایک تیرہ چودہ برس کے خُوبصورت
بچے کی پٹائی میں مصروف تھا۔
اَب مزید پڑھیئے۔
ایسا نہیں تھاکہ،، نمائش میں موجود سبھی لُوگ اِس تماشے سے بے خبر تھے۔ لُوگ اُن
کے قریب جارہے تھے۔لیکن نجانے وُہ شخص اُنہیں ایسا کیا بتا رہا تھا۔ کہ،، کوئی بھی
اُس بچے کو بچانے کے بجائے وہاں سےکھسک کر دوبارہ نمائش کی رُونق کا حصہ بن
جاتا۔۔۔۔ ابو شامل کو بڑھتا دیکھ کر کامل علی کے قدم بھی بچے کی جانب بڑھنے
لگے۔۔۔۔ کامل علی نے جب اُس شخص سے دریافت کیا کہ،، کیوں وُہ اِس بچے کو اتنی
بیدردی سے پیٹ رہا ہے۔ تو اُس شخص نے دہاڑتے ہُوئے کامل کو وہاں سے خاموشی سے دفع ہُوجانے کا مشورہ دیا۔
کامل علی کا خُون اُس شخص کے ہتک آمیز روئیے سے کھولنے لگا تھا۔۔۔ جبکہ بچہ
اپنے پھٹے ہُوئے ہُونٹوں سے بہتے خُون کو
رُوکنے کی ناکام کوشش کرتے ہُوئے رحم طلب نگاہوں سے اب کامل کی جانب دیکھنے لگاتھا۔ اچانک اُس شخص نے بچے کو ایک
مزید ٹھوکر رسید کردی۔ جسکے جواب میں اُس بچے نے ہاتھ جُوڑتے ہُوئے فریاد
کی۔ اُستاد معاف کردیں آپکو آپکے بچوں کا واسطہ۔
کامل کو اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی۔کہ،، یہ شخص اِس بچے
کا باپ نہیں ہے۔بلکہ کوئی اُستاد ٹائپ چیز ہے۔ تبھی اتنی بے رحمی سے پرائےبچے کو رُوئی کی طرح دھنک رَہا ہے۔۔۔ اُس
شخص پر نجانے کیسا جنون طاری تھا۔کہ،، بچے کےمعافی طلب کرنے پر ایکبار پھر بھڑک
کر بچے کو لاتوں اُور گھونسوں پر رکھ
لیا۔ اب بات کامل کی برداشت سے باہر ہُوچُکی تھی۔ کامل نے بھی اپنے والدین کو کھویا تھا۔لیکن اتنی سفاکی تو اُس نے
بھی کبھی برداشت نہیں کی تھی۔ بچے کی چیخوں نے کامل میں جیسے جنون پیدا کردیا تھا۔
لہذا کامل نے تمام باتوں سے بے پرواہ
ہُوکر ایک زُور دار ہاتھ اُس شخص کی گُدی پر جَڑ دیا۔ وُہ شخص اِس معاملے کیلئے
ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں تھا۔ اِس لئے پہلے لڑکھڑایا پھر کامل پر حملے کیلئے
جونہی آگے بڑھا۔ کامل نے اُس شخص پر جنونی انداز میں جوابی حملہ کردیا۔۔۔۔ چند
لمحوں میں نجانے کہاں سے اُس شخص کے مزید چار حمایتی بھی کامل پر حملہ آور ہُوچکے
تھے۔ لیکن اکیلا کامل اُن پانچوں کو ایسے
اُٹھا اُٹھا کر پٹخ رہا تھا۔ جیسے لباس میں بدمعاشوں کے جسم کے بجائے ٹیڈی بئیر
موجود ہُوں۔۔۔۔ لُوگوں کو صرف کامل علی ہی نظر آرہا تھا۔ اِسلئے بُہت سے لوگ یہ
تماشہ دیکھتے ہُوئے کامل کو سپرمین گردان
رہے تھے۔ جبکہ پس پردہ اِس ساری اُٹھا پٹخی میں مصروف ابوشامل کسی کو دکھائی نہیں
دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں کامل کے گرد ہجوم جمع ہُونے لگا تھا۔ جبکہ
وُہ پانچوں بدمعاش ٹائپ افراد زمین چاٹ
رہے تھے۔۔۔۔ تبھی ابوشامل نے کامل کے کان میں سرگوشی کی،، اِس سے پہلے کہ،، پولیس آجائے بچے کو لیکر یہاں
سے نکلو۔ ۔۔۔۔ کامل بچے کا ہاتھ پکڑےبھیڑ
کوچیرتے ہُوئے نمائش سے باہر نکل آیا تھا۔ تبھی بُہت دُور سے پولیس کی
گاڑیوں کی روشنی نظر آنے پر ابو شامل نے
کامل کے ہاتھ کو پکڑ کر جھٹکا مارا۔ کامل نے گرنے سے قبل بچے کا ہاتھ مضبوطی سے
پکڑ کر اُس بچے کو اپنے سینے پر گرا لیا تھا۔ کامل نے جھٹکے سے سنبھل کر ابو شامل کو گھورا ۔ تو ابو شامل نے مسکرا کر سامنے دیکھنے کا اِشارہ کیا۔ تو کامل
کو معلوم ہُوا۔کہ ابوشامل نے آج پھر وہی سابقہ حرکت کی تھی۔ جسکی وجہ سے وُہ اپنے
بنگلے سے ذیادہ سے ذیادہ ہزار میٹر کے
فاصلے پر موجود تھے۔ کامل سمجھ گیا۔کہ،، اتنا فاصلہ بھی ابوشامل نے بچے کی وجہ سے
چھوڑا ہُوگا۔تاکہ بچے کو عجیب نہ لگے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی کامل نے جاناں کو اپنا منتظر پایا۔ ابو شامل بھی دروازے
میں داخل ہوتے ہُوئے ظاہر ہُوچکا تھا۔ جاناں کی نظر جونہی زخمی بچے پر پڑی وُہ ہائے ربَّا !!!کی ہُویا۔
اِس نکے نُوں۔ ؟ کیا خُدانخواستہ آپکی
گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہوگیا اِس بچے کا۔؟ اُور
آپ ہسپتال کے بجائے گھر کیوں لے آئے اِس بیچارے کو۔۔ جاناں نے ممتا بھرے لہجے میں
بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر کر اُسکے
زخموں پر نگاہ ڈالی۔
خُدا کی بندی ایک ہی سانس میں کتنے سوال کرڈالے تُم نے۔۔۔ ہمیں نہیں پتا یہ بچہ کُون ہے۔اُور کہاں سے آیا ہے۔۔۔ ہمیں تو یہ زخمی حالت میں راستے پر پڑا دِکھائی دیا۔ تو انسانی ہمدردی میں گھر اُٹھالائے۔ مرہم پٹی کے بعد اِسے گھر چھوڑ آئیں گے۔ تُم ایسا کرو اِس کیلئے ہلدی والا دُودھ لے کر آوٗ ساتھ ہی مرہم پٹی والا بکس بھی لے آنا۔ جاناں کے کمرے سے نکلتے ہی کامل نے کرید کُرید کر بچے سے سوالات پُوچھنے شروع کردیئے۔ بچے کی دلخراش داستان نے کامل ہی کو نہیں ابوشامل کی آنکھوں کو بھی نم کر ڈالا۔
خُدا کی بندی ایک ہی سانس میں کتنے سوال کرڈالے تُم نے۔۔۔ ہمیں نہیں پتا یہ بچہ کُون ہے۔اُور کہاں سے آیا ہے۔۔۔ ہمیں تو یہ زخمی حالت میں راستے پر پڑا دِکھائی دیا۔ تو انسانی ہمدردی میں گھر اُٹھالائے۔ مرہم پٹی کے بعد اِسے گھر چھوڑ آئیں گے۔ تُم ایسا کرو اِس کیلئے ہلدی والا دُودھ لے کر آوٗ ساتھ ہی مرہم پٹی والا بکس بھی لے آنا۔ جاناں کے کمرے سے نکلتے ہی کامل نے کرید کُرید کر بچے سے سوالات پُوچھنے شروع کردیئے۔ بچے کی دلخراش داستان نے کامل ہی کو نہیں ابوشامل کی آنکھوں کو بھی نم کر ڈالا۔
بچے نے اپنا نام
رجب حُسین بتایا۔ وُہ ایبٹ آباد کے مضافات کا رہنے والا تھا۔ گھر میں چھ
بہنوں کے بعد اکلوتا بھائی ہُونے کے باوجود والدہ نے صرف اسلئے قریبی گاوٗں کے ٹرک مالک دِلاورخان کے ساتھ روانہ کردیا تھا۔ کہ ،، رجب کی آمدنی سے
شائد وُہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے
بچ جائیں۔ رجب کا والد راج گیر مستری تھا۔
جو چند سال قبل ایک مکان کا بیرونی
پلستر کرتے ہُوئے کوازے سے پھسل کر اپنی کمر تُڑوا بیٹھا تھا۔۔۔۔ اُستاد دِلاور خان یُوں تو پنج وقتہ نمازی تھا۔ لیکن
اُسکا باطن ظلمات کا اسیر تھا۔ جبکہ طبیعتا! وُہ بھی بیشتر ڈرائیوروں کی طرح ہم جنس پرست تھا۔ ہردن نہ چاہتے ہُوئے بھی رجب کو دِلاور خان کا
وُہ مکروہ چہرہ دیکھنا پڑتا ۔ کہ،، جس چہرے میں دِلاور خان انسان کے بجائے
ایک بھیڑیئے نما شیطان کی شکل دھار
کر وحشی بن جاتا۔ رجب کا خیال تھا۔کہ،، اس مرتبہ اُستاد جونہی ایبٹ
آباد پُہنچے گا۔ تو وُہ رُو ۔رُو کر امی
سے فریاد کرے گا۔کہ،، امی مجھے اِس شیطان سے بچالیں۔ اُور اُسکا دل کہتا تھا۔کہ،،
اُسکی بہنیں اُور امی اُسے شیطان خان کے پنجے سے بچالیں گی۔
گُذشتہ کچھ دنوں سے
ٹرک میں خرابی کی وجہ سے وُہ ایک
ٹرک اڈے پر ٹہرے ہُوئے تھے۔ اُور ۲ دنوں سے دلاور خان رجب کے ساتھ نمائش دیکھنے
کیلئے آرہا تھا۔جہاں رقاصاوٗں کے ہیجان انگیز بیہودہ رقص دیکھنے کے بعد دِلاور خان پر شیطانی دورہ
پڑنے لگتا۔ جسکے بعد دلاور خان درندگی
اُور سفاکیت کا ایسا مظہر بن جاتا ۔کہ،،فلک
اُور فضائیں بھی رجب حُسین کی سسکیوں اُور آہوں سے بیقرار ہُوکر شرم سے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنے کیلئے مجبور ہوجاتیں۔ کامل کی شفقت اُور مہربانی دیکھ کر رجب نے اپنی
داستان سُنا تو دی تھی۔ لیکن اُس نے
انسانوں کے چہرے پر پڑی غلیظ نقاب کوبھی دیکھا تھا۔ اِس لئے اب وُہ بلک بلک کر
کامل علی اُور ابوشامل کے سامنے ہاتھ جُوڑ کر فریاد کررہا تھا۔کہ،، خُدا کیلئے
مجھے واپس اُس شیطان کے حوالے نہ کیجیئے گا۔
بلکہ میرے گھر والوں کو اطلاع کردیں۔ تاکہ وُہ میرے لئے ٹکٹ کے پیسے بھیج
کر مجھے واپس بُلا لیں۔ رجب کی گفتگو میں چھپی خُودداری نے کامل کے دل میں رجب
کیلئے مزید ہمدردی پیدا کردی۔
رجب کی مرہم پٹی اُور کھانا کھلا کر ۔رجب کوجاناں کے حوالے کرنے کے بعد
ابوشامل ، کامل کیساتھ چھت پر چلا آیا تھا۔۔۔۔رجب کی داستان سُننے کے بعد ابوشامل
نے کامل پر اپنا خیال ظاہر کرتے ہُوئے بتایا کہ،، وُہ کل رات رجب کو اُسکے گھر
چھوڑ آئے گا۔ اور اپنی فرضی (این جی اُو)
کی طرف سے اتنی بڑی رقم کا انتظام بھی کردے گا۔کہ،، پھر کبھی رجب کو ملازمت کے نام
پر اپنی روح کو اذیت سے دوچار نہ کرنا پڑے۔۔۔۔ کل کیوں۔آج کیوں نہیں چھوڑ آتے اِس
بیچارے کو اپنی فیملی کے پاس۔۔۔۔ کامل نے مشورہ دیتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ آج اِس لئے
نہیں لیجاسکتا۔ کہ مجھے یہاں سے وہاں
پُہنچنے میں پانچ منٹ بھی نہیں لگیں گے۔ اور اگر خُدانخواستہ اُس شیطان نے رجب کی
گمشدگی کی اطلاع اُس کے گھر کرتے ہُوئے یہ بتادیا کہ،، یہ آج رات کا ہی واقعہ ہے۔
تو گڑ بڑ ہُوجائے گی۔ کیونکہ رجب نے سفر کیلئے ہوائی جہاز تو استعمال نہیں کرنا۔نا!!!
رجب کا خوف اُور اُسکی وحشتیں جاناں کی محبتوں کی چھاوٗں
میں فی الوقت کہیں گُم ہُوچُکی تھیں۔ ابو شامل نے ٹیلی پیتھی کے ذریعے سے اِس بات
کا خاص خیال رکھا تھا۔کہ،، رجب کسی بھی
طرح جاناں سے اپنے علاقے کا ذکر نہ کرے۔ دوسری شام ابو شامل نے رجب کو کار میں
بٹھا کر اُس پر نیند طاری کی اُور ایبٹ آباد کیلئے نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ جاناں کو شک نہ
ہو۔ اس لئے ابو شامل نے کامل کو بتادیا تھا۔ کہ،، اُسکی واپسی چار گھنٹے بعد ہی
ہُوگی۔ اِس دوران میں رجب کی فیملی سے ملنے کے بعد کچھ خبر اپنوں کی بھی لیتا
آوٗنگا۔۔۔۔۔ ابوشامل کو گئے بمشکل آدھا
گھنٹہ بھی نہیں گُزرا ہُوگا۔ کہ،، ڈور بیل کی آواز سُن کر کامل دروازے پر پہنچ گیا۔ دروازے کھولتے ہی کامل کی نظر دروازے پر کھڑے چند
مستعد پولیس سپاہیوں اُور ایک انسپکٹر پر پڑی۔۔۔۔ ایک سپاہی نے کامل کی شناخت کرتے
ہُوئے اعلان کیا۔ صاحب یہی تھا وُہ شخص جس نے کل رات نمائش میں پانچ بندوں کو زخمی
کیا تھا۔ کامل کے چہرے پر سپاہی کی بات سُن کر ہوائیاں اُڑنے لگی تھیں۔
دل کی بات۔
دِل کی بات کہنے کا کیا فائدہ ؟؟؟ جب کوئی سب کچھ سمجھ کر بھی ناسمجھ بنارہے۔
آپ سب کی دُعاوں کا طلبگار
عشرت اقبال وارثی۔
(جاری
ہے)
اُسکا
کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں
کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔
مجھکو
ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو
نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!! ۔بُرا لگتا ہے۔