bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 27 June 2015

عامل کامل ابوشامل (جاگ بنا دُودھ)قسط 54.akas



گُذشتہ سے پیوستہ۔

اگلے آٹھ دن بعد جب وُہ بچی دوبارہ  دَم کروانے اپنی والدہ کیساتھ  کامل کے گھرآئی تو اسکا رنگ ہی بدلا ہُوا تھا۔ اُس نے بتایا۔ کہ،، وہ خبیث اب اِسکے نذدیک نہیں آتا۔ پہلے دن اُس نے کافی دھمکیاں دیں۔ پھر منت ترلے کرنے لگا۔کہ،، اپنے گھر سے اِن لیمووں کو نکال دُو۔کیونکہ اِن سے چنگاری نکلتی ہیں۔جو میرے وجود میں آگ بھڑکادیتی ہیں۔ جبکہ میں تمہارے بغیر نہیں رِہ سکتا۔۔۔۔۔۔وُہ خواتین کامل کو  بے انتہا دُعاوں سے نواز رہی تھیں۔۔۔ جبکہ جاناں بھی کامل کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔اِس واقعہ نے جہاں کامل کو اعتماد فراہم کیا تھا۔ تو دوسری جانب غیر محسوس انداز میں جنات کے ستائے ہُوئے مریضوں کی  آمد میں اضافہ کی وجہ سے اب ہفتے  کا کوئی دن نہیں بچا تھا۔ جب لوگ کامل سے علاج کیلئے رُجوع نہ کررہے ہُوں۔

اب مزید پڑھ لیجئے۔

تین سال کیسے گُزر گئے کچھ پتہ ہی نہیں چلا! وہی کامل علی جسے محلے والے بھی ٹھیک سے نہیں جانتے تھے۔ شہرت کی ایسی بلندی پر پہنچا کہ  پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک اُسکی  دھوم کا ڈنکا بجنے لگا۔ کیا بیوروکریٹس۔کیا سیاستدان۔فلمی  ستارے، عدلیہ کے نمائندے، فوجی افسران  غرض ہر  ایک شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سبھی افراد  کامل کی محبت کے اسیر ہُوتے چلے گئے۔۔۔۔ لیکن اتنی بھیڑ ہونے کے باوجود بھی کامل علی کے اندر ایک عجیب سی بےچینی بڑی خاموشی سےاپنی جگہ بنائے چلی جارہی تھی۔۔۔۔ حالانکہ نہ تو  وُہ آج ابوشامل کے سہاروں  کا محتاج تھا۔اُور نہ  ہی دوبارہ سلطان تبریزی  نے اُسکی زندگی میں کوئی دستک دی تھی۔ لیکن نجانے کامل علی کو یہ وہم کیوں کھائے جارہا تھا۔کہ،، اچانک ایک دِن یہ کیفیت بھی  ختم ہُوجائے گی۔اُسے کبھی یہ بات بھی سمجھ نہیں آسکی۔کہ،، کسطرح وُہ ایسے مریضوں کا علاج بھی کرنے میں کامیاب ہُوجاتا ہے۔جنہیں زمانے بھر کے عامل کامل کا دعویٰ کرنے والے بھی لاعلاج قرار دے چُکے ہُوتے ہیں۔

اُسکی بےچینی اُور بیقراری پر  بلاآخرایک شام قدرت کو رِحم آہی گیا۔۔۔ وُہ حسب معمول اُس شام گھر جانے کیلئے آفس سے نکلا ہی تھا۔۔۔ کہ اُسکی نظر ایک بوڑھے شخص پر پڑی۔ جسکی عمر قریباً ۷۰ برس کے قریب ہُوگی۔وُہ بوڑھا شخص جسمانی طور پر کافی صحت مند دکھائی دے رَہا تھا۔ گھنی زُلفوں اُور داڑھی کے بالوں میں سفیدی سے ذیادہ سیاہ بال چمک رہے تھے۔ ۔۔  سفید قمیص شلوار پر چیک  کا کُوٹ بھی بوڑھے شخص کے رُعب میں اضافہ کررہا تھا۔ جب کہ،، ہاتھ کی انگلیوں میں دبی سگریٹ کو وُہ  بار باراپنے ہونٹوں سے لگا کر سفید دھویں کے مرغولے فضا میں بکھیر رہا تھا۔

اُسی آنکھوں میں بلا کی چمک موجود تھی۔جو کامل علی کو اپنی جانب متوجہ کئے ہُوئے تھی۔ وُہ شخص کہیں سے بھی گداگر (بھکاری) دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مگر نجانے کیوں کامل علی کا ہاتھ جیب میں رینگ کر پچاس کے نُوٹ کو باہر کھینچ لایا تھا۔ بے اختیاری  طور پر کامل علی نے وُہ نوٹ بوڑھے شخص کی جانب بڑھادیا۔۔۔ بوڑھے شخص  کی جگمگاتی آنکھیں  پچاس کا نُوٹ دیکھ کر  غضب سے سُرخ ہُونے لگی تھی۔ اُس نے کامل علی کو متوجہ کرتے ہُوئے نہایت حقارت سے جواب دیا۔۔۔۔ اپنی اُوقات میں رِہ تماشہ گر۔۔۔ تیری ابھی اتنی اُوقات نہیں ہے۔کہ،، تو میری جھولی میں کچھ ڈال سکے۔


 کامل علی نے کھسیانی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہُوئے  اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ  کر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔۔۔ جناب میں  اپنے عمل پر شرمندہ ہُوں۔ اُور آپ سے معافی چاہتا ہُوں۔۔۔لیکن آپ نے مجھے تماشہ گر کیوں کہا تھا۔حالانکہ میں کوئی تماشہ گر نہیں ہُوں۔۔۔ لوگوں کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر۔اور اپنے چہرے پر عامل کامل کا نِقاب چڑھا کر تم جو لوگوں کیساتھ خود کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہو۔ اُسکے بعد بھی تُم اِس خوش فہمی میں مُبتلا ہُو کہ،، تُم تماشہ گر نہیں ہُو۔۔۔ بوڑھے شخص نے اپنے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہُوئے اپنی گفتگو ختم کی۔۔۔

حضور !!! جب آپ سب کچھ جانتے ہیں تو آپکو یہ بھی معلوم ہُوگا۔ کہ،، میں اِس تالاب میں اپنی مرضی سے نہیں اُترا ہُوں۔بلکہ مجھے کسی نادیدہ ہاتھ نے دھکا دیکر اِس تالاب میں پھینک دیا ہے۔۔۔ جسکی وجہ سے میرے اندر ایک عجیب سی بےچینی پینپنے لگی ہے۔۔۔کیا آپ مجھے کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے۔یا کوئی ایسا مشورہ دیں گے۔کہ،، میں اِس نقاب کیساتھ اپنی بےچینی سے  بھی چھٹکارہ حاصل کرسکوں۔۔۔

اگر تمہاری رُوح اِس کھیل تماشے سے واقعی بیزار ہُونے لگی ہے تو اسکا مطلب ہے۔کہ،، اب واقعی نصیحت کا وقت آچکا ہے۔ اسلئے اب جو کچھ میں تمہیں کہنے لگا ہُوں اُسے بہت غور سے سُننا۔ اور اگر ممکن ہُو تو اپنی ذات کے سحر سے نکل کر اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کرو تاکہ تم فلاح پاسکو۔۔۔ بوڑھے شخص نے ایک ہنکارہ بھر کر اپنا گلا صاف کیا۔اُور آگے بڑھ کر کامل کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر براجمان ہُوگیا۔ کامل کو بوڑھے شخص کی اِس حرکت پر ذرہ بھی اچھنبا  نہیں ہُوا کہ،، کسطرح اُس بوڑھے شخص نے گاڑی کے لاک کو اپنی انگلی کی مدد سے بےضرر کرڈالا تھا۔۔۔

کہتے ہیں کوئی پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے۔اُور کوئی پستی میں اُتر جاتا ہے۔ لیکن وقت کسی کیلئے ٹہرتا نہیں ہے۔ وُہ لوگوں کو سبق دیتا ہُوا آگے کی جانب بڑھتا رہتا ہے۔ اب یہ وقت کیا ہے؟ کیوں ہے۔؟ کہاں ہے۔؟ اُور کہاں نہیں ہے؟ یہ باتیں بھی تو خود میں بیشمار سوالات سمیٹے ہُوئے ہیں۔ اللہ کریم جسکے لئے چاہتا ہے۔ ادرک کے دروازے کھول دیتا ہے۔ پھر وُہ وقت کی قیمت  اور اسکی ماہیت کو خوب سمجھ لیتا ہے۔ لیکن سب سے پہلے انسان کو خود کو سمجھنا پڑتا ہے۔ جو خود کو پہچان لیتا ہے۔ اُسے آب حیات کا پیالہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جسے ،،میں اُور تو،، کا فارمولہ سمجھ آجاتا ہے۔ اُسے پھر کسی رستہ دِکھانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اندر ہی اندر تمام راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ایک پہریدار کی ضرورت البتہ ہمیشہ رہتی ہے۔ جو چور ڈاکووں سے ہمیشہ خزانے کو بچائے رکھتا ہے۔

اِس لئے بیٹا!!! اب پہریدار تلاش کرنے کا وقت آن پُہنچا ہے۔ کیوں کہ خزانے کا چرچا بُہت ذیادہ ہُوگیا۔ بچانے والوں نے اگرچہ خوب ساتھ نبھایا۔۔۔لیکن اب وقت آگیا ہے۔کہ،، اپنا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں دے کر باقی کی سیڑھیاں بےفکری سے طے کرتے جاوٗ۔ کیونکر دھیان اگر سیڑھی پر ہُو۔تو اکثر کندھے پر موجود بار سلامت نہیں رہتا۔ اُور توجہ اگر بار پر رہے تو سیڑھی سے پاوٗں رپٹ جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ اِسلئے مسافت طے کرنے کیلئےکسی مشاق  کوہ پیماکی ضرورت ضرور رہتی ہے۔ جو دشمن کو خوب پہچانتا ہُو۔ قذاق جس کی بہادری سے خوف کھاتے ہوں۔ جو پھسلن میں بھی قدم جماکر ،ناصرف خود  چل سکے بلکہ ہمسفر کو بھی نہ پھسلنے دے۔۔۔ جسے سمندر کی لہروں کے ارادوں کی خبر ہُو۔ جسے طغیانی اور طوفانوں سے لڑنے میں مزہ آتا ہو۔ جو تعداد کے بجائے جمعیت اور قوت یقین کا علم جانتا ہُوں۔

جو نہ صرف ٹھگوں کو پہچاننے والا ہُو۔ بلکہ قدم قدم پر اُنہیں مات دینے والا ہُو۔ ایسا ہی کوئی جانباز تمہیں آگے کی جانب کا رستہ دِکھا سکتا۔ تماش بین اور تماشہ گر ایسے رستے پر ہرگز نہیں چلتے جہاں جان کو خطرہ ہُو۔ بلکہ وُہ تو صرف نگاہوں کے جھپکنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں نگاہ جھپکی۔ وہاں شعبدہ تیار۔۔۔۔ میں ایک ایسے جانباز کو جانتا ہُوں۔ جسے باز پالنے کا بیحد شوق ہے۔ اُور جو عقاب اُسکی تربیت  کی بھٹی سے ایکبار گُزر جاتا ہے۔ اُسے کوئی سنار ناقص نہیں کہتا۔ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ ہے۔ چاہو تو لڑجاوٗ۔ اور ہمیشہ کیلئے امر ہُوجاوٗ۔ وگرنہ کرگس کی جھپٹ کا انتظار کرو۔وہ گوشت کی تھیلی کو ذیادہ دیر تمہارے ہاتھ میں رہنے نہیں دےگی۔ بوڑھے شخص نے گفتگو رُوک کر کامل کے چہرے پر نظریں جمادیں۔۔۔۔۔۔۔مجھے منظور ہے! کامل نے پہلی مرتبہ لب کشائی کرتے ہُوئے اپنی رضامندی ظاہر کی۔میں خود بھی سیاحت کرتے کرتے  اِس سیلانی زندگی سے اُکتا کربےحد تھک چُکا ہُوں۔اُور اب یہی چاہتا ہُوں۔کہ،، باقی کا سفر بھول بھلیوں کے بجائے مقصد کی راہ پر سکون سے گُزار سکوں۔۔۔۔ سکون؟؟؟؟ بوڑھے شخص نے لفظ سکون سُن کر اتنا زوردار قہقہ لگایا۔جیسے کامل نے کوئی لطیفہ سُنادیا ہُو۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔


0 comments:

Post a Comment