bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday 26 September 2014

میں دُنیا کو بدل سکتا ھُوں۔

اسکول تقریر 


معزز  حاضرین، اساتذہ کرام،  اُور جناب صدر اَلسلامُ علیکم

خُودی کو کر بُلند اِتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خُدا بندے سے خُود پُوچھے بتا تیری رضا  کیاہے

جنابِ صدر میری آج کی تقریر کا موضوع ہے ،، میں دُنیا کو بدل سکتا ھُوں،،
جناب صدر  اگرچہ میری عمر کے لحاظ سے  میری تقریر کا یہ عنوان کہ،، میں دُنیا کو بدل سکتا ھُوں،، بُہت عجیب سا مِحسوس ہُورَہا ہُوگا۔ لیکن میں اپنی تقریر میں دلائل کیساتھ یہ  بات ثابت کرنے کی کوشش کرونگا۔ کہ جب کوئی انسان اپنی ذات میں  اللہ کریم کی مدد سےاچھے خصائل پیدا کرنے میں کامیاب ہُوجاتا ہے اُور دلجمعی کیساتھ اپنے اِرادوں کی تکمیل کیلئے ہر لمحہ کوشاں رِہتا ہے ۔ تو  وُہ دراصل دُنیا کیلئے ایک آئیڈیل کی صورت اختیار کرتا چلا جاتا ہے جسکی   پاکستان میں دُو مثالیں ماضی قریب میں ارفع کریم اُور حال ہی میں ملالہ یوسف زئی کی صورت میں موجود ہیں۔

جنابِ صدر ۔۔۔۔۔۔ اِس وقت دُنیا  کے ہر گوشے میں  ایک عجیب بے چینی کا راج مسلط ہے ۔ جسکی وجہ سے دُنیا  ظُلمت ، معاشرتی تفریق، اُور  بدحالی کا شکار ہُوتی چلی جارہی ہے۔  کچھ اقواموں نے  اگرچہ معاشرتی طور پر تو خُود کو مستحکم کرلیا ہے۔ لیکن  خُوشحالی کے ثمرات کو صرف خُود تک محدود رَکھے ہُوئے ہیں ۔ شائد یہی وجہ ہے ۔کہ معاشرتی ترقی کے باوجود بھی اُن میں سے اکثریت ایسی اقوام کی ہیں۔ جُنکے قُلوب رُوحانی خوشی سے خالی ہیں۔

جناب صدر ۔۔۔۔۔دُنیا میں تبدیلی کیلئے ہمیشہ انقلابات آتے رہے ہیں۔ اُور اِن انقلاب کے بعد یقیناّ  فلاحی ریاستوں کا تصور  بھی اُبھر کر سامنے آتا رَہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیققت ہے۔کہ اِن انقلابات کے بعد یہ تبدئلیاں انسانوں کی خُود غرضیوں  کی نذر ہُوتی رہی ہیں۔  اللہ کریم کی مشیت بھی یہی ہے کہ انسان  اللہ کریم کی معرفت حاصل کرکے  اپنی نیابت کے احساس کو ذِمہ داری سے پہچان کر ۔زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ پامردی سے کرتا رہے۔ اُور لوگ ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کرتے رہیں ۔

جناب صدر۔۔۔۔۔۔ دُنیا کو بدلنے کیلئے تین اشیاٗ کی اہمیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ 
نمبر ۱ سچائی۔
نمبر ۲ انصاف
نمبر ۳ علم

جناب صدر دُنیا کی وُہ قومیں جنہوں نے اِن تین اُصولوں کی پاسداری کی ہے ۔ اُنکا مقام دُنیا کی دیگر اقوام میں ایسا ہی ہے۔ جیسا کہ  ایک بادشاہ کا مقام اپنی رعایا میں ہُوتا ہے۔۔۔۔ جناب والا۔۔۔۔  جیسا کہ ہر ذی شعور انسان جانتا ہے۔کہ دُنیا میں تبدئلیاں  لانے والوں لوگوں میں سب سے اُونچا مقام انبیاٗ کرام علیم السلام کا رَہا ہے ۔ اُور تمام انبئیا کرام علیم السلام ہمیشہ سچائی، انصاف، اُور علم کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ  صرف  اُنکے اپنے ہی نہیں بلکہ اُنکے بدترین دُشمنوں کی زُبانوں پر برملا یہ جملہ آجاتا۔ کہ،، ہمیں آپکی صداقت ، دیانت، اُور علم پر کوئی شُبہ نہیں۔۔۔

جناب والا  سچائی انسان کو  صرف باہر سے ہی نہیں تراشتی بلکہ سچائی انسان کو اندر سے بھی بہادر بنادیتی ہے۔ اور یہ سچائی  کا ہی معجزہ ہے۔ کہ ایک نہ ایک دن یہی سچائی انسان کو ہر دُوسرے انسان کیلئے قابل تقلید کی راہ دِکھاتی ہے۔۔۔۔ اور جب معاشرے میں انصاف کا چلن عام ہُوجاتا ہے۔ تو ایک غریب گڈریا بھی اِس قدر طاقتور ہُوجاتا ہے۔ کہ وُہ اُس شخص کے بھی  کُرتے کا اِحتساب کرلیتا ہے جنکے نام سے رُومن امپائر تھرا جاتی ہے قیصر و کسری بھی جنکی ہیبت سے تھرتھراتے ہیں۔

اُور جناب والا یہ علم کی معراج ہے کہ نبیوں کے سالار، دُو جہاں کے تاجدار کی جانب پہلی وحی اِسی علم کے متعلق بھیجی جاتی ہے۔ اللہ کریم نے جہاں جہاں علم و حکمت میں غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ تب تب اہل علم و دانش کو خاص طور پر مخاطب فرمایا ہے۔ اُور رسولِ کریم نے علم کی دعوت دیتے ہُوئے  اُسکی اہمیت اس طرح جتائی کہ،، علم حاصل کرو ماں کی گُود سے زندگی کی آخری شام تک۔۔۔۔ جبکہ دوسری جگہ اِرشاد فرمایا۔کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔۔۔

جناب والا   اسلئے صرف میں ہی نہیں یہاں موجود  ہر ایک بچہ دُنیا کو علم کی رُوشنائی سے ظلمت کدوں سے نکال سکتا ہے۔  بس ہمیں   اسکے لئے علم کی شمع سے شمع جلاتے جانا ہے۔ سچائی اُور انصاف کے دامن کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے۔ اور اِس علم کے سفر میں صرف مردوں کی اجارہ داری قائم نہیں کرنی خواتین کو بھی شامل کرنا ہے ۔کیونکہ علم حاصل کرنا  صرف مَرد وں پر ہی فرض نہیں۔ ہر عورت پر بھی فرض  ہے ۔کیونکہ ہر مرد کی تربیت  بھی سب سے پہلے ایک عورت ہی کرتی ہے۔۔۔  شائد اِسی لئے نپولین بُونا پارٹ نے اپنی قُوم سے مُخاطب ہُوتے ہُوئے کہا تھا۔۔۔۔ کہ،، تُم مجھے پڑھی لکھی مائیں دُو۔ میں اسکے بدلے میں تمہیں ایک بہترین معاشرہ دُونگا۔۔۔۔

میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذِہن میں اُجالا
مجھے کیا دَبا سکے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی ظُلمتوں کا پالا   

1 comment: