bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 2 March 2013

کاش میں اِک گجر ہُوتا۔


  کاش میں بھی اِک گجر ہُوتا۔

چند دِن قبل ایک ویب سائٹ پر ایک کالم دیکھا۔ جسے پڑھنے کے بعد مجھے سخت حیرت کیساتھ دِلی رنج بھی ہُوا ۔ کہ لُوگ کیوں سستی شہرت حاصل کرنے  کیلئے ایسے کام کرجاتے ہیں۔۔۔ کہ،، جسکے سبب احسان فراموشی کے طوق کیساتھ لوگوں کی دِل آزاری کا سامان بھی  پیدا ہُوتا ہے۔ اُس کالم کا نام تھا۔ ،، گجروں کی رنگین مزاجیاں،، لیکن کالم میں اخلاقیات کی ایسی دھجیاں اُڑائی گئ۔ کہ،،  الامان الحفیظ،، کسی سطر میں گجروں کو جھگڑالو کہا گیا۔ تو کسی سطر میں واہیات رقصوں کا شیدائی۔ کہیں ان پڑھ کہا گیا تو کبھی بے وقوف اُور ضدی۔۔۔ لیکن موصوف کے دِل کو پھر بھی قرار نہ آیا تو آخر میں سانپ سے ذیادہ نقصان دہ گردان لیا۔ پتہ نہیں اتنا کچھ کہنے کے بعد بھی اُنکی تشفی ہُوپائی یا نہیں۔۔۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ،، یہ کالم لکھنے کے بعد اُنکے ضمیر نے اُنہیں چین سے رہنے دِیا ہُوگا۔۔۔

کہیں آپ یہ تو نہیں سُوچ رہے کہ،، میں بھی ایک گجر ہُوں۔ اُور اب اُس کالم کا بدلہ لینے کیلئے جوابی کالم تحریر کررہا ہُوں۔۔۔ تو ایسا بالکل نہیں ہے۔  حالانکہ میرا تعلق اُردو بولنے والے گھرانے سے ہے۔ جنہیں اُردو کے علاوہ کوئی علاقائی  زُبان ڈھنگ سے بولنی نہیں آتی۔ اُور ہمیں آج بھی کئی لُوگ پاکستانی کہنے کے بجائے ہجرت کی بنا پر ہندوستانی  ہی پُکارتے ہیں۔لیکن لوگ چاہے ہمیں کسی بھی نام سے پُکاریں ہمیں فخر ہے کہ اِس مُلک کی بنیادوں میں ہمارے لاکھوں آبا وٗ اجداد کا خون شامل ہے۔ اُور ہمیں پاکستانی ہُونے پر فخر ہے۔ لیکن میرے دِل کی خواہش ہے کہ ،، کاش میں بھی اِیک گجر ہُوتا۔ اِس لئے اپنے کالم کا عنوان بھی یہی رکھنا پسند کیا ہے۔

ایک سال قبل تک مجھے بھی گجروں کے متعلق ذیادہ معلومات نہیں تھی۔ اسلئے سرراہ چلتے ہُوئے جب کسی پوسٹر پر،، وحشی گجر،، یا ضدی گجر ٹائپ نام  لکھا دیکھ لیا کرتا۔ تو مجھے بھی ایسی ہی بدگُمانی ہُوتی۔۔۔ کہ شائد گجر بُہت مار دھاڑ کرنے والی قُوم ہُوگی۔۔۔۔لیکن۔۔۔  ہوسکتا ہے واقعی گجروں میں تعلیمی شرح اسقدر ذیادہ نہ ہو۔ لیکن پچھلے سال میرے ایک دُوست لاہور سے تشریف لائے ۔(حالانکہ میرے وُہ دوست گجر نہیں ہیں)۔تب مجھے پہلی مرتبہ اُنکی زُبانی گجروں کی ایک ایسی خُوبی کا علم ہُوا۔ جس پر لاکھوں تعلیم یافتہ قربان کئے جاسکتے ہیں۔۔۔ اُور اِس خوبی پر میں گجروں کی جوتی اپنے سر پر رکھنے میں اپنی خوش بختی سمجھوں گا۔۔۔۔ جی ہاں مجھ سے ذیادہ بھلا اُور کون اُنکی اِس خوبی کی قیمت جان سکتا ہے۔

کیوں کہ گجروں کو جو خوبی ورثے میں مِلی ہے۔ میں نے اُس خوبی کی ایک ادنی جھلک کیلئے اپنی زندگی داوٗ پر لگادی ۔ تب جاکر اُس خُوبی کا ایک معمولی حصہ اپنی جھولی میں سمیٹ پایا ہُوں۔۔۔۔ جن دِنوں میرے یہ دُوست لاہور سے میرپورخاص تشریف لائے اُن دِنوں داتا کی نگری میں داتا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا عرس مبارک منایا جارہا تھا۔ میں اپنے شوق کی وجہ سے کرید کرید کر اپنے اُس دوست سے داتا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے عرس کی تقریب کے متعلق استفسار میں مگن تھا۔ تب ہی میرے دُوست نے مجھے بتایا کہ ،، گجر جنکا آبائی پیشہ دودھ فروخت کرنا ہے۔ وُہ داتا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر دُودھ فروخت نہیں کرتے۔۔۔۔ بلکہ اپنا تمام دُودھ زائرین میں مفت تقسیم کردیتے ہیں۔ ۔۔میرے لئے یہ بات انہونی تھی۔۔۔۔ بھلا کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کرسکتا ہے۔ کہ جس سے محبت کرتا ہُو۔۔۔ اُسکی خوشی پانے کیلئے اپنے بچوں کی روزی رُوٹی ہی پیش کردے۔۔۔۔ میرے تجسس کو بھانپ کر میرے دُوست نے مجھے مزید بتایا کہ گجر قُوم ہی ایسی ہے۔۔۔ جو اُولیائے کرام کی محبت کو زندگی کا حاصل جانتی ہے۔۔۔یہ  اپنے بچوں کو تو بھوکا دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اللہ کریم کے محبوب بندوں سے مُنہ نہیں مُوڑ سکتے۔۔۔

یہ پہلا واقعہ تھا۔ جسے سُننے کے بعد میری ایک ایک نس میں گجروں کی محبت رچ بس گئی۔ اُور میں دِل سے اُنکا شیدائی ہُوگیا۔ ۔ اگرچہ اچھے بُرے لُوگ کہاں اُور کِس قُوم میں نہیں ہُوتے۔۔؟  لیکن مجموعی طُور پر مجھے گُجر برادری سے بُہت محبت ہے۔

رمضان البارک کی غالباً دوسری رات تھی۔ جب ایک چمکتے چہرے والے  خُوبرو نوجوان سے میری  پہلی مُلاقات ہُوئی۔ نام تھا محمد ارسلان گجر انتہائی تعلیم یافتہ ہُونے کیساتھ مجھے اُنکی جس عادت نے انکا گرویدہ بنادیا۔ وُہ تھا اُن کے  خُون میں شامل ادب اُور عشق کی روانی۔۔۔ اُور مجھے اُس نوجوان کی ایک اُور عادت بھی نہایت پسند آئی کہ چاہے سامنے کتنے ہی بڑے اسٹیٹس کا حامل افسر کھڑا ہُو۔ یہ حق بات کہنے میں ذرا نہیں جھجکتا۔ چاہے اس کے بعد اُسے اپنی بات کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ پھر انہی کے توسط سے مجھے معلوم ہُوا۔ کہ مجھے حق کی تلاش میں جس انسان نے سب سے ذیادہ مدد فراہم کی۔ میرے وُہ محسن شریف بھائی اِن کے ہُونے والے سُسر ہیں۔ یعنی جس شخص نے مجھے نابیناوٗں کی بستی سے آنکھ والوں کی جانب ہجرت میں مدد فراہم کی وُہ بھی ایک گجر تھے۔


پھر گجر قُوم کو کم عقل جھگڑالو اُور کم تعلیم یافتہ کہنے والوں کو اپنی بات کی دلیل میں مفتی منیب الرحمن دامت برکاتہم عالیہ کے پائے کا کوئی عِلمی انسان بھی سامنے لانا چاہیئے۔ کہ اُن جیسا اعلی تعلیم یافتہ معاملہ فہم  اُور نفیس گفتگو کرنے والا عالم میں نے زمانے میں کہیں نہیں دیکھا۔ اُور مفتی پاکستان منیب الرحمٰن بھی گجر ہیں۔ پھر پاکستان کا نام زُبان پر لینے سے قبل یہ سُوچ لینا چاہیئے کہ،، لفظِ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی بھی گجر تھے۔ اُور صاحبِ سیف الملوک میاں محمد بخش  (کھڑی شریف والے) رحمتہ اللہ علیہ بھی گجر تھے۔

کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں اکثریت گجروں کی ہے۔ اُور رُوس سے لیکر امریکہ تک کو خاک چٹانے والے افغانیوں میں اکثر  گجر ہیں۔ اُور ملک  پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ہاتھ بھی اکثر گجروں کے ہیں۔۔۔ یعنی اِن گجروں کے ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ قرض چکانے کو ایک عمر درکار ہے۔

گجر چاہے دنیاوی تعلیم کے میدان میں پیچھے ہُوں۔۔۔ لیکن عشق و ادب میں دُور دُور تک کوئی اِنکا ثانی نظر نہیں آتا۔ اُور یہ وُہ دُولت ہے کہ،،جسکے سامنے تخت سکندری کی بھی کوئی  وقعت نہیں ہے۔۔۔۔ اسی لئے تو میں کہتا ہُوں ۔کہ،، کاش میں بھی اِک گجر ہُوتا۔



7 comments:

  1. انتہائی معلومات افزا کالم ہے۔ جسکی وجہ سے گجر قوم کے کچھ پوشیدہ کارناموں سے آگاہی حاصل ہُوئی
    جزاک اللہ خیر ۔۔

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. salam bhai ALLAH TALA AP KO SAHAT DAY

    ReplyDelete
  4. salam bhot malomat mile bhai BHOT ALAA ......

    ReplyDelete
  5. or ALLAH ke karam se doodh jo ALLAH KA noor hai jis ki nehry janat mein hein...wo ALLAH ny humein diya howa hai...or hum ALLAH ke noor Doodh ko logo mein banty hein....MASHALLAH kyun na proud ho akhir ALLAH ny apna noor diya hai humein....
    AMIR ALI KHATANA FROM ITALY.

    ReplyDelete