bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday 26 August 2013

بارگاہ رسالت کی مرغوب غذا ۔۔۔۔ کدو شریف ۔ ۔




تحریر: محمد کامران خان عظیمی

کدو کو عربی میں یقطین کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ عام عرب اسے ‘دباء’ یا ‘قرع’ کہتے ہیں۔ احادیث میں اسے ان دونوں ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کدو سے محبت کرتے تھے۔
(
ابن ماجہ)

حکیم بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک کدو تھا ، میں نے پوچھا یہ کیا چیز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کدو ہے اور ہم اسے بہت کھاتے ہیں
(
ابن ماجہ)

حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کدو کو لازم پکڑو اس لئے کہ یہ دماغ کو بڑھاتا ہے۔ مزید تمھارے لئے مسور کی دال ہے جسے کم از کم ستر انبیاء علیھم السلام کی زبان پر لگنے کا شرف حاصل رہا ہے۔
(
طبرانی)

ایک واقعہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک غلام کو آزاد کردیا۔ اس نے درزی کا کام شروع کیا۔ اللہ نے برکت ڈالی اور ممنونیت کے اظہار میں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خادم خاص سمیت کھانے کی دعوت کی۔ اس دعوت کی روئیداد حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ یوں بیان کرتے ہیں ایک درزی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھانے کی دعوت کی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گیا۔ اس نے جو کی روٹی اور سوکھے گوشت کے سالن میں کدو پیش کیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھالی کے اطراف سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھاتے تھے۔ اس دن کے بعد سے مجھے کدو سے محبت ہوگئی۔
(
بخاری، ترمذی، ابوداود)

نوٹ کیجئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کدو سے اس لئے محبت ہوگئی کہ وہ تاجدارِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ اور بے شک یہی محبِ صادق کی پہچان ہے کہ وہ اپنی پسند ناپسند کو محبوب کی پسند نا پسند میں فنا کردیتا ہے۔ محب صادق وہی چاہتا ہے جو اس کا محبوب چاہے اور اسے ہرگز نہیں چاہتا جسے اس کا محبوب نہ چاہے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کدو سے ایسی محبت کیوں تھی۔۔؟؟؟

اس کی وجہ اسماعیل حقی حنفی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یہ بتاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کدو سے کیوں محبت فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

یہ میرے بھائی یونس علیہ السلام کا درخت ہے۔
(
روح البیان ، پ 23 ، سورتہ الصافات)

آخری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت امام قاضی ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے کہ اگر کسی نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا تو اگر کسی دوسرے نے کہدیا کہ مجھے پسند نہیں تو وہ کافر ہوگیا۔
(
تفسیر روح البیان جلد 2 صفحہ 489 )

لہٰذا ہمیں لازماً ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ
با ادب با نصیب

Thursday 22 August 2013

مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے حالات ۔۔۔۔۔ تحریر عاصمہ شوکت خان



مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے حالات کشمیر کی ریاست پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک بہت بڑا مسلہ ہے جو کہ تقسیم برصغیر سے لے کر اب تک بغیر کسی فیصلہ کے ویسے کا ویسا ہےبرصغیر میں نگریزوں کے دور حکومت میں ٦٣۵ ریاستیں جہںاں نواب یا راجے داخلی طور پر حکمران تھے ان میں سے ایک ریاست جموں کشمیر بھی ہے .١٩۴٧ کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی کل آبادی چالیس لاکھ کے قریب تھی ، آبادی کا بہت بڑا حصہ مسلمان آبادی پر مشتمل تھا . برطانوی حکومت نے اس ریاست کو ایک ڈوگرە راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ صرف ٧۵ لاکھ میں فروخت کر دیا تھا . ڈوگرە گلاب سنگھ اسکے جانشینوں نے مسلم رعایا پر ظلم جبر کے پہاڑ توڑے . معمولی جراٴم کی پاداش میں مسلمانوں کو کڑی سزاٴیں دی گئیں، تنگ آ کر ١٩٣٠ میں کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرە راجہ کے خلاف آزادی کی تحریک شروع کر دی اور راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کر لیا تب کشمیری عوام نے راجہ کے خلاف ہتھیار اٹھاۓ اور کشمیر کا کچھ حصہ حاصل کر لیا جو کہ آزاد جموں کشمیر کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا اور باقی حصہ پر بھارت نے اپنی افواج بھیج کر قبضہ کر لیا . اب کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں پر سات لاکھ سے زائد بھارتی افواج موجود ہیں . بھارتی فوجوں کے مسلمان کشمیریوں پر ظلم و ستم نسل کشی کی حد تک پہنچ گۓ ہیں کشمیر کی یہ حالت سٹیٹ سپونسرڈ ٹیروریزم کی بہت بڑی شکل ہے. کشمیر کے لوگ ایکطرف تو بھارتی افواج کا ظلم و تشدد برداشت کر رہے ہیں اور دوسری طرف یونائیٹڈ نیشنز کی سیکیورٹی کونسل کشمیری عوام کو بغیر کسی خوف و حراس اور ظلم و ستم کے بہتر مستقبل کا وعدە کر رہی ہے جبکہ حقیقت میں کشمیری عوام کی امن حاصل کرنے کی کوششوں اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو بہت بری طرح سے پامال کیا جا رہا ہے یہ لوگ مسلسل بھارتی افواج کی بربریت کا شکار ہیں . بنیادی انسانی حقوق کے تمام چارٹر جن میں " ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس " ( ) اور "ہیومن رائٹس کوونینٹ" ( ) شامل ہیں سب بہت بری طرح سے پامال ہو رہے ہیں انڈیا کی افواج کشمیر کے اردگرد ایک لوہے کی دیوار کی طرح کھڑی ہیں جو کہ تمام بین الاقوامی بنیادی انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر کے اندر جانے کی راە میں رکاوٹ ہیں جبکہ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو کہ کشمیر کے اندر جا کر وہاں کی عوام کے پرتشدد پر رپورٹ ہر دوسرے دن پیش کر رہی ہیں مگر بھارتی افواج کے خلاف انٹرنیشنل لیول پر کوئ ایکشن نہیں لیا جا رہا، یہاں تک کہ انٹرنیشنل کمیونٹی میں نہ تو کسی نے اس رویہ کو برا کہا ہے اور نہ ہی اسے روکنے کی کوئ خاطر خواە کوشش کی ہے. کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ١٩٨٩ سے شدید حد تک بڑھ گئ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیری عوام پاکستان سے الحاق چاہتی ہے. اکتوبر ١٩٦٦ میں جموں کشمیر کے ہائ کورٹ کے جج نے کہا کہ ریاست میں قانون کا اصول اور استعمال ختم ہو چکا ہے اور دوسری طرف بھارتی حکومت کا دعوی ہے کہ بھارت کی جموں و کشمیر کے حوالے سے پالیسی بہت شفاف اور کھلے ذہن کی ہے جبکہ بھارت ہر طرح سے یونائٹڈ نیشنز کے پیش کردە طریقہ امن سے کوئ بھی تعاون کرنے سے انکار کر رہا ہے اسکا یہ انکار ہمیشہ سے برقرار ہے. بھارت کسی بھی بین الاقواممی تنظیم کو کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کا سروے کرنے کی اجازت نہیں دے رہا. مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے اور کشمیریوں کو دبانے کے لۓ متعددبدنام کالے قانون نافذالعمل ہیں ٹاڈا نیشنل پاور ایکٹ ، پونا نیشنل سیکیورٹی ایکٹ شامل ہیں ان ایکٹس کے تحت کشمیری عوام کے حقوق کی پامالی سرعام کی جا رہی ہےجبکہ ان سب حالات پر حقوق انسانی تنظیموں نے آنکھیں موند رکھیں ہیں . ٹاڈا جیسے کالے قانون کا نفاذ١٩٨۵ میں عمل میں لایا گیااور اسکے تحت بھارتی افواج کو سپیشل اختیارات دئیے گۓ کہ وە کسی بھی نہتےمظلوم کشمیری کو بغیر کسی وجہ کے ایک سال کے لیۓ جیل بھیج سکتے ہیں مقبوضہ علاقے میں سے ٹاڈا کے تحت ٧٧٢ افراد کو حراست میں لے کر بھارت کی مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا،اسکے ساتھ سپیشل پاور ایکٹ جو کہ ١٩٩٦ میں نافذ کیا گیا اس ایکٹ کے تحت بھارتی افواج کو کشمیریوں کی املاک تباە کرنے ، خواتین کی عصمت دری بے گناە افراد کی گرفتاری کے اختیارات دئیے گیۓ . اس کے بعد بدنام زمانہ قانون پونا ٢٠٠٠ کے تحت بھارتی افواج کو اضافی اختیارات دئیے گۓہیں اسکے تحت بھارتی افواج کسی بھی بے گناە کشمیری پر مسلک ہتھیار رکھنے کا الزام عائد کر کے اسے انسداد دہشت گردی کی شے میں بغیر مقدمہ چلاۓ تین ماە کے لیۓ جیل بھیجا جا سکتا ہے. ١٩٨۵ سے لے کر اب تک ٦٩٦۵ افراد ناجائز حراست میں ہیں . سفاک فوج دس ہزار نوجوانوں کو اغواٴ کر کے گمنام قبروں میں ابدی نیند سلا چکی ہے. ٩٢ ہزارخواتین بیوە اور ایک لاکھ سے زائد بچے عالمی طاقتوں کے غیر منصفانہ رویےکی وجہ سے باپ کی شفقت سے محروم یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں . ایک سروے کے مطابق مقبوضہ علاقے ہانڈی پورە ، بارە مولا اور کپواڑە کے ۵۵ دیہاتوں میں ٢٧٠٠کے قریب گمنام قبریں دریافت ہو چکی ہیں ،. اکتوبر ١٩٨٩ سے اب تک ٣٨٠٠٠ سے زائد کشمیری بھارتی افواج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں ( ) نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن ١٩٩٦۔١٩٩٧ کے مطابق ١٣٧۵ کشمیری مارے گۓ اور ٢٢٣١ کشمیری ١٩٨٨سے ٣٠ اپریل ١٩٩٧ کے درمیان زخمی ہوۓ . قابل اعتماد پریس رپورٹس کے مطابق ١٩٩٧ میں ١١١۴ ملیٹیٹ افراد مارے گۓ. ١۵ اکتوبر ١٩٩٦ کی ایمنیسٹی انٹرنیشنل پریس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت ، جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی بہت بری طرح سے پامالی کر رہی ہے اور اس رپورٹ کے مطابق ٢٠٠ شہریوں کو ناجائز حراست میں لے کر مار دیا گیا اور ۵٠٠، ٦٠٠افرد کو غائب کر دیا گیا، جو کہ ابھی تک لاپتہ ہیں بہت ساری رپورٹس کے مطابق کشمیری افراد جن میں زیادە تر مسلمان ہیں بھارتی افواج کے شدید تشدد کا نشانہ ہیں گزشتہ دو عشروں میں حراست اور جعلی مقابلوں کے درمیان ہزاروں افراد کو شہید کیا جا چکا ہے لیکن ان کے کے بارے میں تاحال کوئ تحقیقات نہیں کی گئ ہیں اکتوبر ١٩٨٩ سے لے کر اب تک ۵٠٠٠ خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے . ایک رپورٹ کےمطابق ٢٣ فروری ١٩٩١ میں ایک بہت خاص واقعہ پیش آیا جس کے مطابق جموں کشمیر کے ایک گاوٴں کو نان فاسفوواە میں ٨٠٠٠ بھارتی فوجیوں نے گاوٴں پر قبضہ کر کے مردوں کو حراست میں لے لیا اور گھروں میں گھس گۓ اور اس رات میں ٢٣ سے ٦٠ عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا . وہاں پر یہ واقعات بھی دیکھنےمیں آۓ ھیں کہ جوان لڑکیوں کو کچھ دن کے لیۓبھارتی افواج کے اڈے پر لیجایا جاتا ہے وہاں پر انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر انہیں مار دیا جاتاہےیاپھر گھر واپس چھوڑ دیا جاتا ہے جن میں سے کچھ حاملہ ہونے کی صورت میں خودکشی کر لیتی ہیں زیادە تر بھارتی افواج ہی کشمیری خواتین کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں نہ کہ دوسرے میلٹیٹ . زیادە تر یہ واقعات پیش آتے ہیں تب فوجی مایوسی کاشکار ہوں یا پھر شراب کے نشہ میں . بھارتی افواج کے تشدد کا نشانہ وە لوگ بنتے ہیں جو آزادی کی تحریکوں میں حصہ لیتے ہیں اور جو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں . بھارتی افواج تشدد کے بہت سارے طریقے استعمال کرتے ہیں جن میں بے رحم مار پیٹ ، بجلی کے جھٹکے ، جسم کے اعضاٴ کو کاٹنا خاص طور پر ہاتھ اور پاوٴں کے انگھوٹوں سے جسم کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا . جلا دینا ، جنسی خوف و حراس پھیلانا اور زیادتی کا نشانہ بنانا،وغیرە ٢٧مارچ ١٩٩٦ کو انسانی حقوق کے وکیل جلیل اندرابی کی لاش دریاۓ جہلم میں پائ گئ مگر اسکے قاتلوں کو کوئ سزانہیں دی گئ. جنوری ١٩٩٨ میں ١١ افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے کو جموں کشمیر کے گاوٴں کادرانہ میں آگ لگا کر جلا دیا گیالیکن اب تک ان کے قاتل بھارتی افواج کو کوئ سزا نہیں دی گئ اس طرح کے تشدد کے واقعات آۓ روز پیش آتے ہیں مگر اس پر کوئ تنظیم کام نہیں کر رہی، مظلوم کشمیریوں کے قاتل سر عام پھر رہے ہیں تشدد کے واقعات میں یہ طریقہ بہت دیکھنےمیں آیا ہے کہ لوگوں کی ٹانگوں کو لکڑی سے دبا دیا جاتا ہےجس سے انکے مسلز ڈیمج ہو جاتے ہیں جو کہ گردوں کے فیل ہونے کا سبب بنتے ہیں ڈاکٹرز کے مطابق ١٩٩٠ تک ٣٧ افرد گردوں کے مرض میں مبتلا تھے جو کہ اب تک لا تعداد ہو چکے ہیں انڈین فورسز کے تشدد کی وجہ سے ٧۵ لاکھ افراد ذہنی مریض بن چکے ہیں ٦ لاکھ سے زائد افراد معزور ہو چکے ہیں ٢ لاکھ ٨ ہزار افراد بینائ سے محروم ہو چکے ہیں رپورٹ کے مطابق ١٩٩٠ سے ٢٠٠١ تک مقبوضہ علاقے میں ظلم و تشدد کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی امراض کے شکار افراد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے مقامی ماہر نفسیات کے مطابق ہر چھٹا کشمیری کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہے انڈین افواج کا تشدد صرف افراد، گھروں ،سڑکوں یا جیلوں تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ نہ صرف ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ کرتےہیں بلکہ وہاں پر ملیٹینٹ زخمی افراد کو مار دیتے ہیں یا پھر اپنی حراست میں لے لیتے ہیں اس کے علاوە وہاں پر موجود ڈاکٹرز اور ہسپتال کے دوسرے عملہ کو ڈراتے دھمکاتے ، تشدد کرتے اور کبھی مار بھ دیتےہیں سچ تو یہی ہے کہ بھارتی افواج کو کوئ سزا نہیں دی جاتی . آزادی کی تحریکوں یا انکوائری اور رپورٹس لکھ کرکشمیری عوام کو ان کے بنیادی حقوق اور آزادی نہیں دلائ جا سکتی.

Saturday 3 August 2013

دَر سے اُٹھو تو اِسطرح(الودع ماہِ رمضان)۔


اُٹھو تو اسطرح (اعتکاف اسپیشل)۔
(ishrat iqbal warsi, mirpurkhas)

محترم قارئین کرام السلامُ علیکم

ہر سال دُنیا بھر میں لاکھوں مسلمان رمضانِ کریم کے آخری عشرے میں مساجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھتے ہیں جِن میں ایک کثیر تعداد نوجوانوں کی بھی ہُوتی ہے۔

اعتکاف میں بیٹھنے کی سب سے بڑی فضیلیت تو میری نِگاہ میں یہی ہے کہ یہ میرے آقا کریم علیہ السلام کی سُنت مبارکہ ہے اس عظیم نسبت کے بعد تمام فضائل ضمنی نظر آتے ہیں کہ جس عمل کو پیارے آقا علیہ السلام سے نسبت حاصل ہُوجائے اُس کے بعد کسی فضیلت کسی دلیل کی حاجت باقی نہیں رِہ جاتی۔

البتہ ایک سوال ایسا ضرور ہے جو اکثر نوجوان کے ذہن میں اس عظیم سعادت کو حاصل کرلینے کے باوجود بھی دِماغ میں باقی رہ جاتا ہے کہ آخر ہم لوگ کیوں تقریباً 10 دِن تلک اپنے گھر والوں سے دور رہے اور آخر وہ کیا مقصد تھا کہ جس کی وجہ سے ہم نے یہ خلوت نشینی اختیار کی تھی؟

جواب اگر چہ انتہائی آسان ہے مگر عموماً ہماری نگاہ اور ہماری فراست اس جواب کا ادراک حاصل نہیں کرپاتی

فضیلت کے اعتبار سے کئی احادیث کریمہ موجود ہیں جنکی رُو سے اعتکاف کا ثواب کبھی نفلی حج کے برابر تو کبھی عمرہ کے برابر کہیں مغفرت کی بشارت تو کہیں انوار الہی کے جلوؤں کی نوید سُنائی دیتی ہے۔

لیکن میں پھر کہوں گا کہ تمام فضائل اپنی جگہہ لیکن کریم مُصطٰفی علیہ السلام کی عظیم سُنت کی نسبت اِن تمام فضائل سے بڑھ کر ہے کہ اللہ کریم نے قران مجید میں جابجا اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کا حُکم عطا فرمایا ہے۔

میں یہاں سُنت کی مُحبت کے پیش نظر ایک روایت پیش کرنا چاہتا ہُوں جو انشاءَاللہ آپکے شوق کو مزید فِزوں کرنے کا سبب بنے گی روایت ہیکہ جب سیدنا مُوسیٰ علیہ السلام دریائے نیل سے گُزر چُکے اور فرعون کا تمام لشکر دریا بُرد ہُورہا تھا سیدنا مُوسی علیہ الصلواۃ والسلام نے دِیکھا کہ فرعون کے لشکر میں سے ایک آدمی دریا کی لہروں سے بچنے کی مسلسل سعی کررہا ہے اور بلاآخر وہ فرعون کا لشکری ڈوبنے سے محفوظ رِہ گیا۔ حضرت سیدنا موسٰی علیہ السلام کو گُمان ہُوا کہ شائد بچنے والا کوئی نیک مومن ہوگا لیکن سیدنا موسٰی علیہ السلام نے جب اُس محفوظ رہنے والے لشکری کو غُور سے دِیکھا تو آپکو دُکھ اور نہایت حیرت ہُوئی کہ وہ شخص جو اس عذاب سے محفوظ رہا تھا کوئی نیک مومن نہیں بلکہ ایک مسخرہ تھا جو کہ بازاروں میں حضرت سیدنا موسٰی علیہ السلام جیسا حُلیہ بنا کر سیدنا موسٰی علیہ کی نقلیں اُتارا کرتا تھا کبھی آپکی طرح لہجہ بناتا کبھی آپکی طرح عصا زمین پر مارتا ہر وقت لوگوں کو محظوظ کرنے کیلئے آپ جیسا لباس پہنتا اور آپ ہی کی طرح عمامہ سر پر باندھ کر آپکی جیسی چال میں خود کو ڈھال لیا کرتا تھا لوگ اُسکی اداکاری سے محظوظ ہوتے اور کُچھ نہ کُچھ سِکے اُسکی جانب اُچھال دِیا کرتے تھے جس سے اُسکا ذریعہ مُعاش قائم تھا۔

حضرت سیدنا موسٰی علیہ السلام نے بارگاہِ خُداوندی میں عرض کی اے میرے پروردیگار یہ شخص تو مجھے ایذا دِیا کرتا تھا لوگوں میں میری نقل اُتار کر میرا مذاق اُڑایا کرتا تھا تُونے اِسے کیوں عذاب سے محفوظ رکھا؟

اللہ کریم نے ارشاد فرمایا اے موسٰی آپ ٹھیک کہتے ہیں یہ شخص فرعون کا ساتھی ہے لیکن اے موسٰی اِس شخص نے تُمہاری مشابہت میں اپنا حلیہ اتنا بدل ڈالا ہے کہ جب یہ شخص دریا کی لہروں میں غرق ہُورہا تھا تب بھی مجھے اِس میں اپنے کلیم کی جھلک نظر آرہی تھی میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ جو میرے کلیم جیسا نظر آرہا ہُو میں اُسے فرعون کے ساتھ غرق کردوں۔ اِس وجہ سے میں نے اسے غرق ہونے سے محفوظ رکھا!!!!!!

محترم قارئین اگر یہ واقعہ ابھی تک آپکی سمجھ میں نہ آیا ہُو تو اِسے پھر پڑھیئے ، پھر پڑھیئے ، یہاں تک کہ یہ بات آپ کے ذہن کے ہر گوشے میں بیٹھ جائے کہ اگر موسٰی علیہ السلام کا اُمتی مذاق میں بھی سُنت اپنالے تو اللہ کریم کو سزا دینے میں حیا آجائے تو کیا مُصطٰفی کریم علیہ السلام کی مُحبت میں سُنت کو اپنانے والا رحمت خُداوندی سے محروم رہے گا؟ کیا وہ عذاب دِیا جائے گا

پس ثابت ہُوا کہ سُنت کی نسبت ہی سب سے عظیم تر دلیل ہے جسکے بعد کوئی ظاہری فضیلیت نہ بھی ہو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

لیکن ایک بات ضرور ہے اگر کوئی یہ عشرہ اعتکاف میں گُزار کر بھی دنیاوی شہوات کے قفس سے خُود کو آزاد نہ کراپائے، اپنی مغفرت کا پروانہ اپنے کریم مالک سے حاصل نہ کرپائے، ذکرِ الہی کی حلاوت کو نہ پاسکے، اپنی دینی اور دُنیاوی حاجات میں سُرخرو نہ ہوسکے تو اُسے اپنے عمل پر دِن اور رات کے ایک ایک لمحے پر ضرور غُور کرنا چاہیئے کوئی نہ کوئی کھوٹ یا کمی ضرور عمل میں باقی ہے ورنہ وہ تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے، مشکل کشاؤں کا مشکل کُشا ہے ، دنیا کے تمام خزانوں کا اصل مالک وہی ہے وہ جسے چاہتا ہے بادشاہ بنادیتا ہے جِسے چاہے حاجت روائی کے لئے چُن لیتا ہے جِسے چاہے زمینوں کے خزانوں کا مالک کردے جِسے چاہے علم عطا کردے ایسے بادشاہ کے در پر ایک عشرہ پڑے رہنے کے بعد بھی اگر کوئی خالی ہاتھ ہے تہی دامن ہے تو یہ اُسکی اپنی بدنصیبی ہے کیونکہ دینے والا تو  جَواد ۔و۔ کریم ہے دینے والے کی اگر 
شان دیکھنی ہے تو اُسکے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت دیکھ لو۔

اُسکے  کریم رب کے تو  دُوست کسی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتے۔ تو وہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے کیسے گوارہ کرے گا کہ کوئی اُسکے در پہ آئے اور خالی ہاتھ چلا جائے۔ یقیناً کھوٹ ہے تو مانگنے والے میں یا شائد ہمیں مانگنا ہی نہیں آتا یا شائد جھولی پھیلانے سے قبل ہمیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ ہماری خالی جھولی واقعی بھردی جائے گی

بقول علامہ شہیدی

اُسکے تو عام ہیں الطاف شہیدی سب پر
تُجھ سے کیا ضد تھی اگر تُو کسی قابل ہُوتا