bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 30 May 2015

عامل کامل ابو شامل (سلطان تبریزی) قسط 40.akas



گُذشتہ سے پیوستہ۔

کامل جونہی گیٹ کو لاک لگا کر گاڑی میں سوار ہُونے کیلئے کار کی طرف بڑھا تو وہی بوڑھا فقیر اُسے کار سے ٹیک لگائے نظر آیا۔ کامل کو  حیرت ہُوئی کہ،، آج فقیر رُوپوش ہُونے کے بجائے ڈھٹائی سے اُسکا منتظر تھا۔ فقیر کے قریب پُہنچ کر کامل علی کو ایک جھٹکا اُور لگا۔ کہ ،، جس فقیر کو  کامل علی دُور سے ابتک ایک بُوڑھا سمجھ رَہا تھا۔ وُہ کوئی ذیادہ سے ذیادہ پچیس چھبیس برس کا نوجوان تھا۔  اُ س فقیر کےچہرے  کی جلد انتہائی چکنی تھی۔ جس پر داڑھی کا ایک بال بھی شائد نہیں اُگ پایا تھا۔ جبکہ سر پر موجود اُلجھے مٹیالے گرد آلود  بال  کسی گھونسلے کامنظر پیش کررہے تھے۔ کامل علی بیخودی میں فقیر کے اتنے قریب پُہنچ چُکا تھا۔کہ،، اُس فقیر کے  پسینے کی خوشگوار خُوشبو کو محسوس کرسکتا تھا۔  

اب مزید پڑھیئے۔
کیا خیال ہے خُدائی خدمتگار!!! یہیں بات کروگے یا گاڑی میں بیٹھ کر سفر کے درمیان گفتگو کریں؟ نوجوان درویش نے استہزائیہ انداز میں کامل کو اپنی سُرخ آنکھوں سے گھورتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔۔ کامل علی کسی معمول کی طرح ڈرائیونگ  کرتے ہُوئے کن اَنکھیوں سے نوجوان درویش کو دیکھ رَہا تھا۔کہ،، فقیر نے گفتگو کا آغاز کرتے کامل کو مخاطب کیا۔۔۔ کب تک اُس ڈھونگی جن زادے کے اِشاروں پر ناچتے ہُوئے زندگی کے اصل مقصد سے دُور بھاگتے رہو گے۔؟؟؟۔۔۔  مجھے اپنی زندگی کو اپنے ڈھنگ سے آزاد گُزارنے کیلئے  کسی کے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔ کامل نے ہمت  جُٹا کر  قدرےتلخی سےجواب دیتے ہُوئے اپنی نگاہیں شاہراہ پر مرکوز کرلیں۔۔۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کامل نے پھر درویش سے مخاطب ہوتے ہُوئے ایک سوال کرڈالا۔ آپ کیوں میرے پیچھے پڑے ہیں؟؟؟برائے مہربانی مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔ کیونکہ  نہ میں آپ کو جانتا ہُوں۔ اُور نہ ہی مجھے آپکی مدد کی ضرورت ہے۔۔۔۔

اگر تمیں ہماری ضرورت نہیں ہے۔ تو ہمیں بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اگر تمہیں گڑھے میں گرنے کا اتنا ہی شوق ہے۔ تو ہماری بلا سے بھاڑ میں جاوٗ۔ یا گھاٹی میں چھلانگ لگادو۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ اُور سُنو!!! بس گاڑی یہیں رُوک دُو۔ ۔۔کامل کے سوال پر درویش نے بھی دُرشت لہجہ اپناتے ہُوئے ۔بریک لگتے ہی  گاڑی کا دروازہ ایک جھٹکے سےکھولا اُور اُلٹی سمت میں  یہ کہتے ہُوئےروانہ ہُوگیا۔،، جب چاروں طرف سے خُوب پھنس جاوٗ تب مجھے یاد کرلینا،، لوگ ہمیں سلطان تبریزی ،،کے نام سے پُکارتے ہیں۔

گھر پُہنچتے  پہنچتے کامل کا موڈ کافی خراب ہوچُکا تھا۔ بنگلے کے لان میں ابوشامل اور جاناں  گفتگو کرتے ہُوئے چائے سے لطف انداوز ہُورہے تھے۔ کامل کو دیکھ کر جاناں یہ کہتے ہُوئے کچن کی جانب روانہ ہوگئی۔آپ بیٹھیں میں آپکے لئے  بھی گرماگرم چائے لاتی ہُوں ۔ جاناں کے جاتے ہی کامل، ابو شامل پر برس پڑا،، میں کئی دِن سے یہ بات محسوس کررہا ہُوں کہ،، جب مجھے تمہاری اشدضرورت ہُوتی ہے۔ تُم عین اُسی لمحے رفوچکر ہُوجاتے ہُو۔۔۔۔۔نہیں یار کامل میں تمہیں کسی مشکل میں کبھی تنہا چھوڑنے کا سُوچ بھی نہیں سکتا۔لیکن یار میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کرو۔کہ میں،، سلطان تبریزی جیسے درویشوں کا سامنا بھی نہیں کرسکتا۔۔۔ ویسے کیا کہا سُلطان تبریزی نے تُم سے؟؟؟ ابو شامل کے لہجے سے تجسس صاف عیاں تھا۔۔۔ کہنا کیا تھا۔ بس تمہارے متعلق بکواس کررہا تھا۔ کامل نے جھنجلاتے ہُوئے جواب دیا۔۔۔۔ یار کامل علی!!! مجھے تعجب ہےکہ،، تُم جیسا بندہ بھی درویشوں کی گفتگو کو بکواس کہہ رہا ہے۔ ابو شامل سے تاسف سے ہاتھ ملتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔یار ابو شامل تُم بھی عجیب احمق  ہُو۔ وُہ بندہ تمہیں ڈھونگی،فراڈی، گمراہ ، اُور نجانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔مگر تُم پھر بھی اُسکی طرفداری میں مرے جارہے ہُو۔ دوسری بات یہ ہےکہ،، اللہ والوں سے میں بھی بُہت محبت رکھتا ہُوں۔ مگر اُس شخص کو تُم اللہ والا کیسے کہہ سکتے ہُو۔جو گندے سندے بالوں کا گھونسلہ سر پر لئے گھوم رَہا ہے؟؟؟؟

یار کامل میں ایک جن زادہ ہُوں۔ اگرچہ مجھے بُہت قوت بھی حاصل ہے۔اِس کے باوجودبھی میں خُود کو سلطان تبریزی جیسے درویش کی جوتی کے برابر نہیں سمجھتا۔ کیونکہ یہی  وُہ لُوگ  ہیں جو صاحب لولاک کہلائے جانےکے قابل ہیں۔  اُور یہی وُہ لُوگ ہیں جنکے سروں پر نیابت کا تاج جگمگارہا ہے۔اِنہی لوگوں نے اپنے وجود کو عشق الہی میں جلا کر راکھ بناڈالا ہے۔اُور تمہاری یہ بات سچ ہے کہ،، ہمارا دین ہم سے صفائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن کیا ظاہری صفائی کو ہی نصف ایمان کا تمغہ مِلا ہے۔ چاہے باطن آلودگیوں اُور غلاظت سے لتھڑا رہے؟؟؟؟۔۔۔ ویسے میں نے ایک دِن میاں صاحب  کا  ایک واعظ سُنا تھا۔ میاں صاحب ایک حدیث سُنارہے تھے۔ جس میں گرد آلود بالوں کے باوجود عشق الہی کے چراغ سے معمور لوگوں کا تذکرہ ہُورہا تھا۔کہ،، وُہ لوگ اگر کسی معاملے میں اللہ کی قسم اُٹھالیں۔ تو اللہ اُنکے دِل میلے نہیں کرتا۔ ۔۔۔ پھر ہم کیسے کسی عاشق کو فقط ظاہری آلودگی پر طعنہ دے سکتے ہیں۔۔۔  گفتگو کرتے ہُوئےابو  شامل کا لہجہ نمناک ہُوچکا تھا۔

اچھا بابا  مجھے معاف کردو۔میں اپنا جملہ واپس لیتا ہُوں۔ اب  تم اپنا موڈ خراب مت کرو۔ ویسے ہی میرا موڈ کافی خراب ہُوچکا ہے۔۔۔ یار ابوشامل کیا خیال ہے آج کچھ تفریح اُور موج میلا نہ ہُوجائے۔۔۔۔ اچھا تو جناب کا موڈ  آج رنگیلا ہورہا ہے۔ ۔ پھرکیوں نہ آج لانڈھی چھاونی چلیں۔ وہاں زبردست نمائش لگی ہے۔ابوشامل نے بھی کامل کو چہکتا دیکھ کر چہکنا شروع کردیا۔۔۔ نہ بابا نہ۔۔۔ نمائش اُور وُہ بھی چھاوٗنی کی بغل میں۔یار ابو شامل کیا مروانے کا اِرادہ ہے؟؟؟؟؟ ۔۔۔اُو میرے  بُدھو رام دُوست  یہ بھی تو سُوچ کہ جب چھاوٗنی کیساتھ نمائش لگی ہے۔ تب اِسکی  پرمیشن بھی تو خاص لوگوں نے ہی دی ہُوگی نا۔کیا سمجھے۔؟  ابو شامل نے اپنے مخصوص انداز میں آنکھ مارتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ ہاں یار یہ بات تو ہے۔کامل نے ابوشامل کی ہاں میں ہاں ملاتے ہُوئے اقرار کیا۔
نمائش میں سوائے رقص و سُرودکی محفل کے کچھ نہیں تھا۔ البتہ کچھ لوگ کھیل کے نام  پرمختلف شامیانوں میں جُوئے میں مصروف تھے۔ کامل علی کی طبعیت تھوڑی ہی دیر میں اِس کھیل تماشے سے اُکتانے لگی تھی۔۔۔ یار ابو شامل یہاں تو اپنے مطلب کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔  اِس سے تو بہتر تھا گھر پر ٹی وی ہی دیکھ لیتے۔۔۔ کام کی چیز بھی ہے ۔میرے یار اُور ہمارے لئے کام بھی،، بس دیکھنے والی نظر چاہیئے ابوشامل نے گُم سُم لہجے میں جواب دیتے ہُوئے کامل کو ایک شامیانے کی جانب متوجہ کیا۔ جس کے پردے نما دروازے پرایک ڈرائیور ٹائپ شخص ایک تیرہ چودہ برس کے خُوبصورت بچے کی پٹائی میں مصروف تھا۔

دل کی بات۔

مجھے معلوم ہے کہ،، میرے بلاگ پر میری تحریریں پڑھنے کیلئے بُہت سے صاحب علم دوست بھی تشریف لاتے ہیں اُور میری تحریروں کو پسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ لیکن وُہ اتنی خاموش سے  بِلا تبصرہ ،،واپس لُوٹ جاتے ہیں۔ جیسے باد نسیم کے جھونکے بنا کچھ کہے جسم کو چُھو جاتے ہیں۔۔۔ میں اُنکی خدمت میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہُوں۔کہ،، میں تمام نامساعد حالات کے باوجود لکھنے کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک پُوری کرنے کی کوشش کررہا ہُوں۔۔۔۔ لیکن آپکی خاموشی۔۔۔۔ بے اعتنائی، بے توجہی، یا بے حسی کے زمرے میں تو شُمار نہیں ہُوتی۔۔۔ اس سوال کا بہترین  جواب، صرف آپکا دِل ہی دے سکتا ہے۔۔۔۔

آپ سب کی دُعاوں کا طلبگار
عشرت اقبال وارثی۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔


1 comment:


  1. یار کامل میں ایک جن زادہ ہُوں۔ اگرچہ مجھے بُہت قوت بھی حاصل ہے۔اِس کے باوجودبھی میں خُود کو سلطان تبریزی جیسے درویش کی جوتی کے برابر نہیں سمجھتا۔ کیونکہ یہی وُہ لُوگ ہیں جو صاحب لولاک کہلائے جانےکے قابل ہیں۔ اُور یہی وُہ لُوگ ہیں جنکے سروں پر نیابت کا تاج جگمگارہا ہے۔اِنہی لوگوں نے اپنے وجود کو عشق الہی میں جلا کر راکھ بناڈالا ہے۔اُور تمہاری یہ بات سچ ہے کہ،، ہمارا دین ہم سے صفائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن کیا ظاہری صفائی کو ہی نصف ایمان کا تمغہ مِلا ہے۔ چاہے باطن آلودگیوں اُور غلاظت سے لتھڑا رہے؟؟؟؟۔۔۔ ویسے میں نے ایک دِن میاں صاحب کا ایک واعظ سُنا تھا۔ میاں صاحب ایک حدیث سُنارہے تھے۔ جس میں گرد آلود بالوں کے باوجود عشق الہی کے چراغ سے معمور لوگوں کا تذکرہ ہُورہا تھا۔کہ،، وُہ لوگ اگر کسی معاملے میں اللہ کی قسم اُٹھالیں۔ تو اللہ اُنکے دِل میلے نہیں کرتا۔ ۔۔۔ پھر ہم کیسے کسی عاشق کو فقط ظاہری آلودگی پر طعنہ دے سکتے ہیں۔۔۔ گفتگو کرتے ہُوئےابو شامل کا لہجہ نمناک ہُوچکا تھ

    ALLAH hazart bahi ko or hmm sab ko in ALLAh walun k perron ki Khakk bna dy AMEEEEEEEEEENnnnn

    ReplyDelete