bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Sunday, 24 May 2015

عامل کامل ابو شامل (عامل در عامل) قسط 34



گُذشتہ سے پیوستہ۔

ایک دِن دلشاد کی نگرانی کرتے ہُوئے مجھے یہ بات معلوم ہُوئی۔کہ،، موصوف ویک اینڈ منانے کیلئے  اپنے  ایک جگری دوست کو مانسہرہ سے لیکر وادی کاغان  میں گُزارنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ یہ سفر دلشاد سے ذیادہ میرے لئے اہمیت کا باعث تھا۔۔۔ اُور اِس سفر میں سب سے بڑی بات یہ تھی۔کہ،،  سفر کے دوران دلشاد نے اکثر  سفرپہاڑوں پر بنی تنگ گُزرگاہوں پر کرنا تھا۔جہاں لینڈ سلائیڈنگ معمول کی بات تھی۔ اُور اکثر گاڑیاں دریائے کُنہار کے عشق میں ڈوب جایا کرتی تھیں۔پھر وُہ وقت بھی  جلد آگیا،، جب دلشاد خُوب تیار ہُوکر عازم سفر ہُوا۔۔۔ میرا ارادہ تھا کہ وادی کاغان کو ہی ہمیشہ کیلئے دلشاد کا دائمی ٹھکانہ بنادوں۔ لیکن مانسہرہ آنے سے قبل ہی دلشاد نے جونہی فرح کے نمبر کی پیڈ پر پنچ کرنے شروع کئے ۔تو میرا دماغ اُلٹ گیا۔ اُور ساتھ ہی دلشاد کی گاڑی بھی سینکڑوں فٹ گہری کھائی کی نذر ہُوگئی۔ میں نے جب نیچے جا کر دیکھا تو وُہ  باقی ماندہ گاڑی میں خُون میں لت پت زندگی کی آخری سانسیں گِن رہا تھا۔ میرے جگر سے اُور میری زندگی سے کانٹا نکل رَہا تھا۔ اُور میں خُوشی سے یاھو ،،کا نعرہ بُلند کررہا تھا۔ وادیوں میں میرے نعرے کی گُونج سے ایکو پیدا ہُورہا تھا۔ جیسے تمام وادی بھی میرے ساتھ جشن مناتے ہُوئے یا ھو، یاھو ۔۔۔۔کے نعرے بُلند کررہی ہُو۔

اب مزید پڑھ لیجئے۔

مجھ میں اتنی اِخلاقی ہمت نہیں تھی۔کہ،، میں اپنی محبوبہ کو اُس رقیب دلشاد کیلئے رُوتا تڑپتا دیکھ سکوں۔ اسلئے میں نے  دلشاد کو ٹھکانے لگانے کے بعد بہتر یہی سمجھا۔کہ،، کیوں نہ کچھ دن دِل پر پتھر رکھ کر یہاں سے دُور چلا جاوٗں۔ اُور یہ وقت اپنی والدہ کیساتھ گُزاروں!!! میں تقریباً پندرہ دِن بعد اِس اُمید کیساتھ واپس لُوٹا تھا۔کہ،،  دلشاد کا غم کافی حد تک فرح کے دِل سے رفو ہُوچُکا ہُوگا۔ اُور اب مجھے فرح کو اپنے قریب لانے میں ذیادہ دُشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔۔۔۔ لیکن جب میں سیالکوٹ پُہنچا تو مجھے یہ رُوح فرسا خبر سُننے کیلئے مِلی۔کہ،، دلشاد نہایت ڈھیٹ  قسم کا انسان واقع ہُوا تھا۔ وُہ اُس حادثے سے نہ صرف جانبر ہُوچُکا تھا بلکہ  اُسے علاج کیلئے کراچی لیجایا گیا ہے۔ جہاں وُہ بُہت تیزی سے رُو بہ صحت بھی تھا۔۔۔۔ جب مجھے معلوم ہُوا کہ،،  کراچی میں دلشاد کی ٹوٹی ہُوئی ہڈیوں کو ڈاکٹر محمدعلی شاہ جوڑنے میں کامیاب ہُوچکے ہیں۔ تو اُسی وقت میرے دِل میں یہ تدبیر آئی۔کہ،، اِس مرتبہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ ۔۔۔ یہی سُوچ کر جب میں کراچی  ہاسپٹل میں داخل ہُونے لگا۔ تبھی   میاں صاحب نے میرا راستہ رُوک کر مجھے خبردار کرتے ہُوئے کہا۔کہ،،  اگرمیں سلامت رہنا چاہتا ہُوں۔ تو اپنے ارادے سے باز آجاوٗںُ ۔قُدرت کے کاموں میں مداخلت نہ کروں اُور واپس لُوٹ جاوٗں۔ وگرنہ ہمیشہ کیلئے قید کرلیا جاوٗں گا۔ ۔۔ ۔۔ یہ میاں صاحب کون تھے۔اُور کیا تُم اُنہیں پہلے سے جانتے تھے؟؟؟ کامل علی، میاں صاحب کا نام سُن کر چُونک اُٹھا۔ اُس نے بےصبری سے دریافت کیا۔


مجھے معلوم تھا۔ تُم میاں صاحب کا تذکرہ سُن کر رہ نہیں پاوٗ گے۔ ابو شامل نے مسکراتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ ہاں میں اُنہی میاں صاحب کا تذکرہ کررہا ہُوں۔ جو عبدالرشید عرف شیدے کے پیر صاحب ہیں ۔ اُور فی زمانہ مُقام غوثیت پر فائز ہیں۔اُورمجھے یہ بھی معلوم ہے تم میاں صاحب کے پاس پہلی مرتبہ  ایک سرد رات میں گئے تھے اجازت  طلب کرنے کسی موکل کو قابو کرنے کیلئے!!! میاں صاحب کے ہماری قوم اُور میرے گھرانے پر بے شُمار احسانات ہیں۔ ہمارے خاندان  کے اکثر جنات نے قران مجید کی تعلیم اِنہی کے مدرسے سے حاصل کی ہے۔ اُور مسلمان جنات جوق در جوق اُنکے واعظ میں نہایت اہتمام سے شامل ہُوتے ہیں۔۔۔ اسلئے میری ہی   کیا مجال  ،،کسی بھی گروہِ  جِنات میں اتنی طاقت نہیں ہے۔ کہ،، وُہ میاں صاحب  کی  روحانی قُوت کا سامنا کرسکیں۔۔۔۔ اِس لئے میں بھی  اُس دن بااَدب طریقے سے واپس لُوٹ گیا۔۔۔۔ ویسے بھی مجھے اتنا تو یقین تھا۔کہ،، سینکڑوں فٹ کی بلندی سے گرنے کے بعد ڈاکٹر دلشاد اب عام لُوگوں کی طرح صحتمند زندگی نہیں گُزار پائے گا۔ اُور دُنیا کے کوئی بھی والدین اپنی ہونہار  صحت مند بچی کو ایک معذور کے حوالے نہیں کریں گے۔۔۔۔۔ لیکن میرے تمام خیالات  صرف مفروضے ہی ثابت ہُوئے۔ ڈاکٹر دلشاد ۲ ماہ بعد واپس سیالکوٹ لُوٹ آیا۔ اگر چہ اُسکی چال میں نقص پیدا ہُوچُکا تھا۔ اُور جسم بھی کافی لاغر ہُوچکا تھا۔۔ لیکن آج بھی فرح اُسی کیساتھ زندگی گُزارنے پر بضدتھی۔

مجھے ایک بات اچھی طرح سمجھ آچکی تھی۔کہ،، دلشاد  کو میں کسی بھی طرح سے فرح کے دِل و دماغ سے محو نہیں کرپاوٗں گا۔ اُور یہ بات میرے لئے  بُہت ذیادہ اذیت کا باعث تھی۔ مجھے زندگی میں آج تک کوئی ہرا نہیں پایا تھا۔ لیکن فرح کی دلشاد کیلئے جو چاہت تھی۔ یہ مجھے دھیرے دھیرے ناسور کی طرح اندر ہی اندر چاٹ رہی تھی۔ پھر مجھے ایک عجیب تدبیر سُوجھی۔ کہ،، کیوں نہ فرح کے حُسن کو عارضی طور پر اتنا گہنا دیا جائے۔ کہ ،، اگرچہ فرح کے والدین نے خُواہ اپنی بیٹی کی  ضد کی خاطر دلشاد کی معذوری قبول کرلی تھی۔ لیکن جب فرح کا حُسن ماند پڑنے لگے گا۔ اُور وُہ ناقابل علاج مریضہ دکھائی دینے لگے گی۔ تو یقیناً دِلشاد کی والدہ سوچنے پر  مجبور ہُوجائے گی۔ کہ،، اِس رشتہ کو باقی بھی رکھا جائے یا کہ ،، ختم کردیا جائے۔۔۔ میں فرح کو ایذا دینے کے متعلق سُوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن میری محبت نے مجھے اُس وقت خُود غرض بناڈالا تھا۔۔۔

میں فرح کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار تھا۔ چاہے اُسکے لئے مجھے کوئی بھی قدم اُٹھانا پڑے۔ پھر میں کونسا ہمیشہ کیلئے فرح کو بدصورت بنانے جارہا تھا۔ بس چند ماہ کی بات تھی۔ یہ رشتہ ختم ہُوجاتا۔ تو مجھے معلوم تھا۔کہ حکیم بطلیموس میری فرح کو واپس پہلے سے بھی ذیادہ حسین و جمیل بنانے کا گُر جانتے تھے۔ اِس لئے میں نےبُہت آہستگی سے فرح کے کھانے پینے میں ایک ایسی بُوٹی کا سفوف مِلانا شروع کردیا۔ جسکا استعمال  میں نے ایک جوگی کو اپنے جسم  کو فربہی سے بچانے کیلئے کرتے دیکھا تھا ۔۔۔  اِس سفوف کے استعمال کی وجہ سے کھانا مکمل طور پر ہضم نہیں ہُوپاتا۔ اُور جسم کا پانی سُوکھنے لگتا ہے۔  چند دِن کے بعد ہی فرح کے جسم پر اِس سفوف کا اثر ظاہر ہُونے لگا۔۔۔۔کبھی اُلٹی اُور کبھی دست کی ذیادتی نے  فرح کے جسم کو گھلانا شروع کردیا۔ فرح کیلئے والدین فرح کی گرتی صحت کے سبب شہر بھر کے قابل ڈاکٹروں سے رجوع کرنے لگے۔۔۔لیکن تمام رپورٹس دیکھنے کے بعد ہر ایک ڈاکٹر یہی کہہ رہا تھا۔ کہ،، جسم میں تمام اعضا کی کارکردگی  پرفیکیٹ ہے۔ کوئی جسمانی مرض  بھی سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ یا شائد  کوئی ایسا وائرس  فرح کے جسم میں جگہہ بناچُکاہے ۔ جسے ابھی تک پہچانا نہیں گیا۔۔۔

جب تمام میڈیکل رپورٹس سے  بھی بیماری کی تشخیص ممکن نہ ہُوسکی۔ تو عزیز رشتہ داروں  کو حسب سابق یہ  تمام معاملہ سفلی ،، جادو کا شاخسانہ دکھائی دینے لگا۔۔۔ فرح کی والدہ بھی  اِس رائے سے متفق تھیں۔ لہذا شام کو  فرح کے والدعلاقے کی مسجد کے قاری صاحب کو پکڑ لائے۔ اِن کے متعلق علاقے میں مشہور تھا۔کہ،، جنات اِنکا نام سُن کر تھرتھرانے لگتے ہیں۔ اُور جادو کی کاٹ کے تو وُہ ایسے ماہر ہیں ۔کہ،، جادو کرنے والوں پر جادو  اسطرح پلٹاتے ہیں۔کہ،، وُہ آئندہ جادو کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔۔۔ جب قاری صاحب کمرے میں داخل ہُوئے تو اپنی طوطے جیسی ناک کمرے میں یُوں  بُلند کرنے لگے۔ جیسے جادو ، یا جنات کی بُو کا سراغ لگارہے ہُوں۔۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے کسی عامل کی آمد کا تذکرہ سُنا تھا۔ تو کچھ نہ کچھ تشویش  بہرحال مجھے بھی لاحق ہُوئی تھی۔۔۔۔ لیکن جونہی میں نے قاری عبدالمنان کو دیکھا تو میری ہنسی نکل گئی۔۔۔ وُہ ایک بے پیرا عامل تھا۔ جو سرے سے تکوینی معملات سے بے خبر تھا۔ اُور اپنی ذات  کی خُودی میں ایسا گُم تھا۔ کہ،، عملیات کی دنیا میں آنے سے قبل یہ جان ہی نہیں پایا کہ،، عملیات میں تاثیر اُنکے ہوتی ہے۔ جن پر کسی کامل اللہ والے کی نظر ہُو۔ وگرنہ ساری ریاضت لپیٹ کر بلعم بن باعورا کی طرح مُنہ پر مار دی جاتی ہے۔  قاری عبدالمنان  کو دیکھ کر میرے اندر کا شرارتی بچہ انگڑائی لیکر جاگ رہا تھا۔ میری حالت بھی بالکل اُس بچے کی مانند تھی۔۔۔۔ جوکسی دوسرے بچے  کے کھلونے کو دیکھ کر مسلنے اُور توڑنے کے پلان بنانے لگتا ہے۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment