جو
لوگ اللہ تعالی کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں انکے لئے اللہ تعالی قرآن پاک میں
ارشاد فرمایا ہے۔
ترجمہ
۔ جو اپنے مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر دئیے پیچھے احسان نہ رکھیں نہ
تکلیف دیں ان کا ثواب (نیگ) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم ۔
حضور
پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سے صدقہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
۔
حضرت
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ۔
۔ جب اللہ تعالی نے زمیں کو پیدا فرمایا تو زمین ہلنے لگی تو اللہ تعالی نے پہاڑ کو
اس میں گاڑھ دیا جس سے زمین ٹہر گئی۔۔۔ فرشتے پہاڑوں کی مضبوطی سے متعجب ہوئے اور عرض
کیا الہی! کیا تونے پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت وشدید کوئی مخلوق پیدا فرمائی ہے۔۔۔؟
اللہ
تعالی نے فرمایا! ہاں وہ لوہا ہے۔ انہوں نے عرض کی ! الہی کیا تونے لوہے سے بھی زیادہ
کوئی مضبوط مخلوق بنائی ہے۔۔۔؟ اِرشاد فرمایا
ہاں! وہ آگ ہے۔ فرشتوں نے عرض کیا مولی! کیا
آگ سے بھی زیادہ قوی کوئی مخلوق پیدا فرمائی ہے؟
ارشاد
ہوا وہ پانی ہے فرشے عرض گزار ہوئے! اے رب ! کیا کوئی مخلوق پانی سے بھی زیادہ طاقتور
پیدا فرمائی ہے؟
ارشاد
ہوا وہ ہوا ہے۔ پھر عرض کرنے لگے ! اے پروردگار! کیا ہوا سے بھی زیادہ سخت کسی مخلوق
کو پیدا فرمایا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا! ہاں وہ انسان جب داہنے ہاتھ سے صدقہ کرے
تو اسے بائیں ہاتھ سے چھپائے (سبحان اللہ)
حضرت
سیدنا علی کرم اللہ وجہُ الکریم کا فرمان ہے:جس دن تم اپنے دن کا آغاز صدقے سے کرتے
ہو، اس دن تمہاری کوئی دُعا رَد نہیں کی جائے
گی اور اچھی بات بتانا بھی صدقہ ہے (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ)۔
(صدقہ وہ عطیہ ہے جو اللہ تعالی کی بارگاہ سے ثواب کی امید پر دیا
جائے)
صدقہ
سے مراد ہر خیرات ہے چاہے وہ خیرات فرض ہو۔ یا نفلی اور یہ بات قرآن و حدیث اور تاریخی
واقعات سے واضع ہے کہ صدقات دینے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ اضافہ ہوتا
ہے اور دونوں جہانوں دنیا اور آخرت میں اجر عظیم ملتا ہے۔
اس
حدیث مبارکہ سے ہم صدقہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ صدقہ دنیا میں ہر
چیز سے زیادہ طاقتور ہے،۔صدقہ صرف یہ نہیں ہےکہ ہم اپنا مال و دولت اللہ تعالی کی راہ
پر خرچ کریں ۔۔۔بلکہ نیکی کی بات بتانا بھی صدقہ ہے۔ اور صدقہ کی اقسام کا اندازہ ہم
اس حدیث مبارکہ سے لگا سکتے ہیں۔
ترجمہ۔
تمہارا اپنا بھائی کے لئے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔نیکی کی دعوت دینا بھی صدقہ ہے۔ برائی
سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ بھٹکے ہوئے کی راہ نمائی کرنا بھی صدقہ ہے۔ کمزور نگاہ والے
کی مدد کرنا بھی صدقہ ۔ راستے سے پتھر ہٹانا، کانٹا اور ہڈی کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے اپنے بھائی
کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے۔
پھر
فرمایا! ہر قرض صدقہ ہے۔
اگر
کوئی انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حضور افضل ترین صدقہ پیش کرے تو اُسے چاہئے
کہ وہ ناراض لوگوں کے درمیان صلح کروادیا کرے، ناراض لوگوں کی صلح کروانے کے بارے میں
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
ترجمہ۔
آپس میں صلح کروانا افضل ترین صدقہ ہے۔
انسان
جب اللہ تعالی کی راہ پر خرچ کرتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں فوائد
حاصل ہوتے ہیں ۔۔۔دنیا میں تو مال خرچ کرنے پر دس گناہ ثواب اور نعم البدل ملتا ہے
۔۔۔اور جو اللہ تعالی کی راہ پر خرچ کرنے سے جو اجر عظیم آخرت میں دیا جائے گا اُسکا
حساب تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔
اگر
انسان کو دنیاوی مال میں کمی لگ رہی ہو تو انسان کو چاہئے ۔کہ،، وہ اللہ تعالی کی راہ پر صدقہ دے زیادہ سے زیادہ۔
مگر ہمارے ہاں رواج ہے کہ جب مال میں کمی ہوتو ہم صدقہ سے بھی ہاتھ روک لیتے ہیں حالانکہ
صدقہ ہمیشہ مال بڑھاتا ہے۔
حضرت
علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ جب تمہیں اپنے مال میں کمی محسوس ہو تو اللہ
تعالی سے تجارت کر لیا کرو۔
اسکا
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی راہ پر خرچ کرو تو کئی گناہ اجر دیا جائے گا۔
قران
پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ۔
ترجمہ۔
اللہ کی راہ میں جو خرچ کروگے تمہیں پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہوگے۔
صدقہ
کرنے کا جو اجر عظیم ملتا ہے سکی حقیقت تو اللہ تعالی کے علاوہ شائد اسکے انبیاء اکرام
اور اولیائے کرام ہی جان سکتے ہیں اور اللہ تعالی کو کب کسکا دیا جانے والا صدقہ پسند
آجائے اور کب صدقہ اسکے غضب کو ٹال دے یہ تو وہی بہتر سمجھ سکتا ہے۔
حدیث
مبارکہ میں ہے کہ ۔ ۔ ۔
ترجمہ
۔ صدقہ،، خدا کے غضب و جلال کا ٹھنڈا کرتا ہے۔۔۔ اُور بری موت کو دور کرتا
ہے۔
اس
حدیث مبارکہ کو اور صدقہ کی اہمیت کو ہم اس چھوٹے سے ایک واقعہ سے بہت اچھی طرح سمجھ
سکتے ہیں۔
حضرت
عیسی علیہ السلام کے زمانے میں ایک دھوبی تھا، جو لوگوں کے کپڑے آپس میں تبدیل کردیتا،
لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اسکے متعلق بتایا تو آپ نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کی (اے اللہ
عزوجل! اسے ہلاک فرمادے ؛ ایک دن دھوبی اپنے معمول کے مطابق نکلا اسکے پاس میں روٹیاں تھیں، ایک سائل آیا تو ایک روٹی اُس نے اُسے دے دی۔ اس پر سائل نے اُسے
دعا دی
(اللہ تعالی تجھ سے جملہ آفات سمایہ کا شر دور فرمائے)
دھوبی
نے اس دعا سے متاثر ہوکر اسے ایک اور روٹی دے دی، اس پر اس سائل نے دعا دی۔
(اللہ تعالی تجھے جملہ آفتوں سے محفوظ رکھے)
تو
دھوبی نے تیسری روٹی بھی اسے دے دی؛ اس پر سائل نے دُعا دی
(اللہ تعالی تجھے توبہ کی توفیق عطا فرمائے)
اُسی
دوران ایک بہت بڑا سانپ اسکی کپڑوں کی گھٹری میں داخل ہوچکا تھا، جب دھوبی نے کپڑے
لینے کا ارادہ کیا تو اس سانپ نے اسے ڈسنا چاہا۔ ایک فرشتے نے اس لمحے اس سانپ کو لوہے
کی ایک لگام ڈال دی اور دھوبی سلامتی کے ساتھ واپس آگیا۔
لوگوں
نے حضرت عیسی علیہ السلام سے عرض کیا ! یا روح اللہ ! وہ دھوبی تو صحیح سلامت واپس
آگیا ہے! آپ نے اس دھوبی کو بلایا اور فرمایا، تونے کونسی بھلائی کی ہے؟ تو اس نے
عرض کی میں نے ۔تین روٹیاں صدقہ کی تھیں
پھر
آپ نے اس سانپ سے پوچھا تونے اسے قتل کیوں نہ کیا؟
سانپ
نے عرض کی! اے اللہ کے نبی! اللہ تعالی نے آپکی دعا قبول فرمائی اور مجھے اسے ہلاک
کرنے کے لئے بھیجا مگر جب اس دھوبی نے سائل کو صدقہ دیا تو ایک فرشتے نے آکر مجھے
لوہے کی لگام ڈال دی۔ لوگ اس بات سے بہت متعجب ہوئے اور دھوبی نے توبہ کرلی۔
جب
اللہ تعالی کے بندے اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں اور گناہ صغیرہ کبیرہ کر لیتے ہیں تو ان کے لئے اللہ تعالی نے صدقہ کے
ساتھ توبہ کے در کھول دئے ہیں ۔ حضور پاک ﷺ کی احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے۔ کہ،،
صدقہ انسان کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے۔ اُور اسکی برائیوں اور گناہوں کو مٹا دیتا
ہے۔ اس بارے میں کچھ احادیث مبارکہ ہیں جو کہ کچھ اس طرح ہیں ۔ ۔ ۔
ترجمہ۔
صدقہ دیا کرو، بے شک صدقہ تمہارے لئے جہنم سے بچاو کا ذریعہ ہے۔
ایک
اور جگہ ارشاد ہوا۔ ۔ ۔
ترجمہ
۔ صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا
ہے۔
حضرت
ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ
بیان فرمایا کہ،، بنی اسرائیل میں ایک بہت عبادت گزار راہب تھا اس نے اپنے عبادت خانے
میں ساٹھ برس تک اللہ تعالی کی عبادت کی پھر ایک روز زمین پر بارش ہوئی جس سے زمین
سر سبز ہوگئی۔ راہب نے اپنی عبادت گاہ سے جھانکا تو اس نے سوچا کہ اگر میں نیچے اترا
تو اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ہوجاوں ۔تو اسطرح اپنی نیکیوں میں اضافہ کرلوں گا۔
چناچہ وہ نیچے اترا تو اسکے پاس ایک یا دو روٹیا ں تھیں۔۔۔ اسی دوران اسے ایک عورت
ملی دونوں میں باتیں شروع ہوئیں حتی کہ اس نے اس عورت سے زنا کرلیا۔ پھر اس پر غشی
طاری ہوگئی۔ افاقہ ہونے پر غسل کرنے کے لئے ایک تالاب میں اترا تو ایک سائل آیا؛ اس
نے اشارہ کیا کہ وہ دونوں روٹیاں لے جائے، پھر وہ راہب مر گیا۔ تو اسکی ساٹھ سالہ عبادت کا اس زنا سے موازنہ کیا گیا تو
وہ زنا اسکی نیکیوں پر غالب ہوگیا۔۔۔ پھر اسکی نیکیوں کے پلڑے میں وہ ایک یا دو روٹیاں (جو اس نے سائل کو صدقہ کی تھیں) رکھی گئیں تو اسکی
نیکیاں غالب آگئیں اور بفضلِ اللہ اسکی مغفرت فرمادی گئی۔
صدقہ
دینے کےاور بہت سارے فوائد کے علاوہ ایک یہ بھی اجر ملتا ہے کہ اللہ تعالی صدقہ کرنے
والے کی عمر بڑھا دیتا ہے اور اس بری موت سے بچاتا ہے۔ جیسا کہ احادیث میں بتایا گیا
ہے کہ۔ ۔ ۔
ترجمہ۔ بے شک مسلمان کا صدقہ عمر کو بڑھاتا ہے اور بُری
موت کو دور کرتا ہے۔
ایک
اور جگہ پر فرمایا گیا۔ ۔ ۔
ترجمہ۔
بےشک صدقہ اور صلہ رحمی، ان دونوں سے اللہ تعالی عمر بڑھاتا ہے اور بری موت کو دفع
کرتا ہے اور فِکراور اندیشہ کو دور کرتا ہے۔
ایک
نوجوان حضرت داوٗد علیہ السلام کی محبت میں
تھا کہ ملک الموت علیہ السلام نے حضرت داوٗد علیہ السلام کو خبر دی کہ یہ شحص تین روز
بعد مرجائے گا تو اس بات نے حضرت داوٗد علیہ السلام کو غمگین کیا، پھر آپ علیہ السلام
نے اس شخص کو تین روز بعد صحیح سلامت پایا، پھر اسکے بعد ایک ماہ تک ٹھیک ٹھاک رہا،
حضرت داوٗد علیہ السلام کو بہت تعجب ہوا، پھر آپ علیہ السلام کے پاس ملک الموت علیہ
السلام حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں اس شخص کے پاس روح قبض کرنے گیا تو اللہ تعالی
نے مجھ پر تجلی فرمائی اور فرمایا! یہ شخص اپنی عمر پوری کرنے سے قبل باہر نکلا اور ایک مسکین کا پایا، اس نے اس
مسکین کو بیس درہم دئیے تو اس مسکین نے دعا دی کہ اللہ تعالی تیری عمر میں برکت فرمائے،
پس اسکی دعا قبول کی گئی۔۔۔ اور میں نے اسے ہر درہم کے بدلے ایک ایک سال عطا فرمادیا ( سبحان اللہ)
حدیث
مبارکہ ہے کہ ۔ ۔ ۔
ترجمہ۔ صدقہ ستر قسم کی بلاوٗں کو درو کرتا ہے جن میں آسمانی
بلائیں ، بدن بگڑنا اور سفید داغ ہیں۔
اسکے
علاوہ صدقہ کے بارے میں حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا کہ ۔۔۔
ترجمہ۔
صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے۔
صدقہ
دینے کے لئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ صدقہ وصول کرنے والا مسلمان اور وہ واقعی صدقہ
لینے کا حقدار ہو۔ جیسا کہ ہاشمی خاندان کو صدقہ دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی دیا جاسکتا
ہے ۔ اسی طرح صدقہ اگر دینا ہو تو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کا خیال رکھا جائے اور
پھر دوسرے لوگوں کا ، کیونکہ ہمارے صدقات کے زیادہ حقدار ہمارے رشتہ دار ہیں اور انہیں
صدقہ کرنے کا ثواب بھی زیادہ ہے
ترجمہ
۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشا فرمایا! مسکین کو صدقہ دینے پر ایک اجر اور رشتہ داروں کو صدقہ دینے پر دو
اجر ملتے ہیں۔ ایک تو صدقہ کرنے کا اور دوسرا
صلہ رحمی کرنیکا۔
حدیث
مبارکہ کے مطابق صدقہ دینے کا بہترین وقت صبح کا وقت ہے جیسا کہ ارشاد ہوا۔۔۔
ترجمہ۔
صبح سویرے صدقہ دو کہ بلا صدقہ سے آگے قدم نہیں
بڑھاتی۔
صدقہ
کا اجر جو ہمیں دنیا میں ملتا ہے وہ تو ملتا ہی ہے اسکے علاوہ بروز قیامت صدقہ حشر
کےمیدان میں تپتی دھوپ میں اپنے صدقہ دینے والے انسان پر سایہ بن جائے گا اور اسکی
نیکیاں پڑھانے میں مدد کرے گا۔
حدیث
مبارکہ ہے کہ ۔۔۔
ترجمہ۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ نے فرمایا!
رب
تعالی فرماتاہے ! اے ابن آدم! اپنا خزانہ (صدقہ کر کے) میرے سپرد کردے، نہ جلے گا، نہ ڈوبے گا اور نہ چوری ہوگا، تیری شیدید
حاجت کے وقت (بروز قیامت) تجھے لوٹادوں گا۔
(سبحان اللہ)
حدیث
مبارکہ ہے کہ۔۔۔
ترجمہ۔ بے شک صدقہ کرنے والوں کو صدقہ قبر کی گرمی سے بچاتا
ہے اور بلاشبہ مسلمان قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے میں ہوگا۔
صدقہ
دینے والوں کے لئے قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ان الفاظ میں خوشخبری دی ہے کہ۔۔۔
ترجمہ۔
،صدقہ وخیرات کرنے والے مرد اور صدقہ وخیرات کرنے والی عورتیں ،روزہ رکھنے والے مرد
اور روزہ رکھنے والی عورتیں ،اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرمگاہ کی
حفاظت کرنے والی عورتیں ،اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اوراللہ کا کثرت سے ذکر
کرنے والی عورتیں ان کےلئے اللہ نے بخشش اور اجر عظیم تیا ر کررکھا ہے(احزاب۔۵۳) ۔(القرآن)
اب
ہم ان احادیث، واقعات اور قرآنی آیات سے صدقہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے
ہیں کہ ہمیں صدقہ کرنے کا دنیا اور آخر دونوں جہانوں میں اجر عظیم دیا جائے گا۔ اور
اس سے نہ تو ہمارے مال میں کمی ہوگی اور نہ ہی کنجوسی بڑھے گی بلکہ اس سے تو ہمیشہ
اضافہ ہی ہوتا ہے اور جو ہماری بلائیں ٹلیں گیں وہ الگ اور پھر روز قیامت حشر کے میدان
میں جو ہمارے اورپر سایہ ہوگا۔۔۔ وہ بھی ہمارا صدقہ ہی تو ہوگا۔
صدقہ
کے بدلہ میں مال کے اضافے کے بارے میں بتاتے ہوئے قرآن حکیم میں اللہ تعالی کا ارشاد
ہوا ہے
کہ۔۔۔
ترجمہ۔
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں
سات
بالیں اور ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جسکےلئے چاہے اور اللہ
وسعت والا اور علم والا ہے۔ (القرآن)
حضور
پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ۔ ۔ ۔
ترجمہ۔
جب آدمی مرجاتا ہے تو سکے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے۔
صدقہ جاریہ، علم نافع اور نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرتی ہے۔
میں
نے تو اپنی حد تک بہت کوشش کی ہے کہ اسلامی بہن ، بھائیوں کو صدقہ کی اہمیت کے بارے
میں کچھ بتا سکوں، اور شائد کسی بہن بھائی کا میری اس تحریر سے فائدہ ہوجائے۔ تو شائد
اللہ تعالی مجھے بھی معافی کے قابل سمجھ لیں۔۔۔ اور آکر میری اس تحریر سے کسی ایک
بھی انسان نے خلوص نیت سے صدقہ دینا شرع کردیا۔۔ تو میں اللہ تعالی کا شکر ادا کروں
گی ۔کہ،، کسی ا نسان کو میری وجہ سے فائدہ پہنچا اور اللہ تعالی نے مجھے اس قابل جانا
اور سمجھا کہ میں اسکے دین کا کچھ علم یا اس
علم کا کچھ حصہ ہی لوگوں تک پہنچا سکوں۔ کہ،، ہم انسان واقعی بُہت خسارے میں ہیں۔ کہ،، جِس مال کو اتنی مشقت کے بعد حاصل کرتے
ہیں۔ اُس میں سے تقدیر بھی اپنا حصہ وصول کرلیتی
ہے۔ مرنے کے بعد وارثین بھی حصے بخرے کرلیتے ہیں۔ لیکن جس نے اتنی مشقتوں سے یہ مال
حاصل کیا تھا۔ وہ بُخل کا شکار ہُوجاتا ہے۔اُور اپنا حصہ جو وُہ صدقے کی صورت میں آگے
بھیج سکتا تھا۔ اکثر نہیں بھیج پاتا۔ اُور جب تک اُسے اِس حصے کی قدر معلوم ہُوتی ہے۔
عمل کا سلسلہ موقوف ہوچُکا ہُوتا ہے۔
اللہ
تعالی اپنی رحمت سے اور اپنے محبوب اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں
نیک
اعمال
کی توفیق دے ۔ آمین
0 comments:
Post a Comment