bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday, 31 May 2013

جل پریاں حقیقت یا فسانہ۔۔۔؟


محترم قارئین السلامُ علیکم کائنات میں اللہ عزوجل نے بے شُمار مَخلوقات پیدا فرمائی ہیں ۔اِن میں بعض وہ ہیں جِنہیں دیکھنے سے ہماری آنکھ قاصر ہیں جیسے فرشتے ۔ جنّات وغیرہ اور بعض وہ مخلوقات ہیں جنہیں ہم دیکھ تو سکتے ہیں۔ لیکن وہ ہماری پُہنچ سے بُہت  دور ہیں۔۔۔ آپ نے بچپن میں اکثر پریوں اور جل پریوں کی کہانی ضرور سُنی ہوگی۔ بعض لوگ اِسے صرف کہانی کی حد تک ہی مانتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مخلوقات اجسامِ دُنیا میں ایسے ہی موجود ہیں جیسے ہم اور آپ۔۔۔ آئیے دیکھتے ہیں اِس میں کتنی حقیقت ہے اور کِتنی کہانی ہے۔

قُرآنِ مجید میں جا بَجا اللہُ سُبحانہُ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ جِنّات کا تذکرہ فرمایا ہے جِس میں سے ایک مشہور آیت آپ نے ضُرور سُنی ہوگی (وما خَلَقتُ الجِنَّ والانِسَ اِلا لِیَعبُدُون) ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ : ہم نے انسانوں اور جِنّات کو اِس لئے پیدا فرمایا کہ وہ ہماری عِبادت کریں۔

اِن آیات کے تِحت ہم پر لازم ہو گیا کہ ہم جِنّات پر یقین رکھیں کہ قُران کی آیت کا انکار کُفر ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔کہ،، کیا پریوں کا بھی وُجود ہے۔ تو مُحترم قارئین جب جِنّ کا وُجود ثابت ہوگیا تو کیا جِّنِی کا وُجود نہ ہوگا۔۔۔؟ ہم جب بیتُ الخلا میں داخِل ہوتے ہیں تو کیا دُعا پڑھتے ہیں۔۔۔؟ یہی نہ کہ اے اللہ عزوجل میں تیری پناہ چاھتا ہوں خَبِیث جِنُّوں اور جِنّیوں سے۔۔۔ اب معلوم یہ ہُوا کہ جِنِّی کا وَجود بھی ہے تو محترم قارئین پری بھی جِنّی ہے یہ کوئی الگ مَخلوق نہیں ہے۔ بلکہ عام جِنّی اور پَری میں وَہی فَرق ہے جیسے ایک عام دراز گوش اور عربی نسل گُھوڑے میں فرق ہوتا ہے۔ ایک عام جِنّیِ کے پر نہیں ہوتے جبکہ پری کے پر بھی ہوتے ہیں اور یہ دیکھنے میں بھی جاذِب نظر ہوتی ہے۔ اِن میں قبائل بھی ہوتے ہیں اور جِس طرح ہمارے یہاں نسل اور قبائل پہ فَخر کیا جاتا ہے بالکل ویسے ہی اُن میں بھی اعلٰی قبائل دوسروں پر فخر کرتے ہیں۔۔۔ مثال کے طور پر قبیلہ ایمن یہ قبیلہ نہائت مُعزز قبیلہ مانا جاتا ہے۔

اِسی طرح بیشُمار قبائل پریوں میں بھی موجود ہیں یہ تو بات ہوگئی پریوں کی اور مُجھے اُمید ہے آپ کو یہ مضمون پڑھنے میں لُطف بھی آرہا ہوگا آئیے اب کچھ بات جل پریوں کے بھی مُتعلق کرلیتے ہیں۔

جل سنسکرت زُبان کا لفظ ہے جسکے معنٰی ہیں پانی اور پری فارسی زُبان کا لفظ ہے جسکے لغوی معنٰی ہیں انتہائی ،، حسین ،، اسطرح یہ اُردو میں اسطرح مستعمل ہوتا ہے۔ کہ،،  اِس کے لغوی معنٰی بنتے ہیں پانی کی پری،، یا پانی میں رہنے والی انتہائی حسین مِخلوق۔  بچپن میں  میرے ذہن میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا تھا ۔ کہ،، جب ہَوا میں جِنّ اور پرّی ہوسکتے ہیں۔ زمین پر ہوسکتے ہیں۔۔۔ تو آخر پانی میں کیوں نہیں ہوسکتے۔۔۔؟ میں اُن لوگوں پر جو اِسے افسانوی مَخلوق مانتے ہیں۔ زبردستی اپنی رائے نہیں تھوپنا چاہتا۔صرف وہ دلائل جو میرے ذہن سے اِبہام کو رفع کرتے ہیں شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔تاکہ آپ بھی غور کریں شائد میں آپکو قائل کر سکوں۔ ورنہ لازمی نہیں کہ آپ میرے خیالات سے 100 فی صد اِتِفاق کریں۔ لیکن میں آپ کو حضرت کمال الدین الدمیری کی کتاب حیاتُ الحیون سے یہ تحریر ضرور پڑھانا چاہوں گا ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ 742 ھجری سے 808 سن ھجری تک کا ہے۔

آپ اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ِٔ لطیف میں مضمون دریائی انسان کے تحت ارشاد فرماتے ہیں

(انسانُ الماءَ دریائی انسان)

یہ بھی ہمارے جیسے انسان کے مشابہ ہوتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پانی کے انسان کے دُم ہوتی ہے۔ شیخ قزوینی رحمتہ اللہ علیہ نےعجائبُ المخلوقات میں کہا ہے کہ ایک مرتبہ پانی کا آدمی ہمارے بادشاہ مقدر کے زمانہ میں نکل آیا تھا بعض حکما نے کہا ہے کہ دریائے شام میں یہ پانی کا انسان بعض اوقات اسی (ہمارے جیسے) انسان کی شکل و صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کی سفید داڑھی بھی ہوتی ہے، لوگ اسے (شیخ البحر) کہتے تھے ۔۔۔چنانچہ جب لوگ اسے خواب میں دیکھتے تو اس کی تعبیر شادابی وغیرہ ہوتی ۔

بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایک پانی کا انسان بعض بادشاہوں کے دربار میں لایا گیا ۔تو وہ بادشاہ اس آدمی سے اس کے حالات معلوم کرنا چاہتا تھا ۔ چنانچہ بادشاہ نے پانی کے انسان کی شادی ایک عورت سے کردی۔ اس عورت سے ایک لڑکا پیدا ہوا جو ماں باپ کی گفتگو کو سمجھ لیتا تھا۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے لڑکے سے سوال کیا کہ تمہارے والدین کیا باتیں کر رہے ہیں۔۔۔؟ تو اس لڑکے نے جواب دیا کہ میرے والد یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام جانوروں کی دُم ان کے پچھلے حصہ میں ہوتی ہے۔ لیکن میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ (ان کی دُم) ان کے چہرے میں ہے۔

حضرت لیث بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے دریائی انسان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ دریائی انسان (کا گوشت) کسی بھی حالت میں نہیں کھایا جاسکتا ۔واللہ تعالی اعلم۔

بِنات المأءَ

(بنات المأِءَ یٰعنی پانی کی عورت) ابن ابی الاشعت نے کہا ہے کہ یہ بحر روم کی مچھلیاں ہیں جو عورتوں سے مشابہ ہوتی ہیں ۔ جن کے بال سیدھے اور رنگ گندمی ہوتا ہے۔ نیز ان کی شرمگاہ اور پستان بڑی بڑی ہوتی ہیں۔ یہ مچھلیاں گفتگو بھی کرتی ہیں لیکن ان کی گفتگو سمجھ سے بالاتر ہے۔ نیز یہ مچھلیاں ہنستی اور قہقہہ مارتی ہیں ۔ ملاح کبھی کبھی ان مچحلیوں کو پکڑ لیتے ہیں اور ان سے وطی کر کے پھر دریا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ رویانی کہتے ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی شکاری عورتوں سے مشابہ مچھلی پکڑ کر لاتا تھا تو یہ ان سے وطی نہ کرنے کی قسم لیتے تھے۔ اما قزوینی رحمتہ اللہ علیہ نے عجائبُ الخلوقات میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ کہ،، ایک آدمی ایک بادشاہ کے پاس اس قسم کی مچھلی شکار کر کے لے گیا۔۔۔ تو جب وہ مچھلی گفتگو کرتی تو اس کی گفتگو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ پس اس آدمی نے اس مچھلی سے شادی کرلی۔ پس ان سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ پس وہ بچہ بھی فطرت کے عین مُطابق اپنے باپ اور ماں دونوں کی گفتگو کو سمجحتا تھا۔


اِس کالم میں آپکو سمجھانے کیلئے میں نے جل پری کا لغوی معنی پیش کیا ہے۔۔۔ میں نے جل پریوں پر تحقیق کی خاطر بے شُمار کتب کا مُطالعہ کیا۔ لیکن وُہ تمام کتب اِس موضوع پر خاموش ہی رہیں۔ کہ آخر جل پریوں کا شُمار کس مخلوق میں کیا جائے گا۔ انسانوں میں۔۔۔؟ مچھلیوں میں۔۔۔یا جنات میں۔ مجھے لگتا ہے۔کہ اِن کا شُمار جنات کی قسم میں کرنا  اسلئے بھی آسان دِکھائی دیتا ہے۔کہ،، جناتوں کی ایک بڑی تعداد سانپوں کی شکل میں زمین پر  پائی جاتی ہے۔ تو عین ممکن ہے کہ،، یہ پانی کے جنات ہُوں۔۔۔ مگر یہ صرف رائے ہے۔ جو کہ غلط بھی ہُوسکتی ہے۔ اُور صحیح بھی۔۔۔ بہرحال۔ اُنکا شمار چاہے جس قسم کی بھی مخلوق میں کیا جائے۔ رہے گی تو  یہ مخلوق ہی۔۔۔ لیکن آثار اِسلاف سے یہ تو ثابت ہُوگیا ۔کہ،، جل پریوں کا وجود ہے۔ یہ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ میں نے انیس سُو پچاسی کے دوران ایک اخبار ی تصویر میں کیلفورنیا کے ساحل سمندر کے کنارے ایک جل پری کو مُردہ حالت میں دیکھا تھا۔۔۔پھر انیس سُو اَٹھاسی کے قرب میں  پنجاب کے مشہور شہر لیاقت پُور میں میری مُلاقات ایک ایسے شخص سے ہُوئی۔ جِس نے مجھ سے حلفیہ بیان کیا تھا۔کہ ،، ایوب خان کے دُور میں ایک مُردہ مچھلی جو کہ عورت کی مشابہ تھی۔ سکھر بیراج کے قریب اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔۔۔ واللہُ اعلمُ و رسولہ اعلمُ

2 comments:

  1. Asslam-o-alykum
    BHAI TAZKIRA AIK MUHABBAT KI PARI KA OUR AMIL KAMIL ABU SHAMIL KA SHIDDAT SAY INTIZAR HAI.
    ALLAH PAK AAP KO KHUSH RAKHAY JZAK ALLAH.

    ReplyDelete
  2. Main is bat ko Na hi rad kar sakta hon aur Na hi confirm
    K kal pari hoti hai ya nhn lekin inter net par Jo parha hai dekha hai is sub ko dekh parh kar ye keh sakta hon k ALLAH Pak ne shayad is tarah Ki makhlooq b banai ho

    ReplyDelete