ابھی اِس واقعہ کو کُچھ ذیادہ دِن نہیں ہُوئے کل ہی کی سی بات لگتی ہے۔
جب گُڈو میاں کسی بَلائے ناگہانی کیطرح ہمارے آفس میں داخل ہوئے تھے
ویسے تُو گُڈو میاں کا اصل نام آصف خان ہے لیکن سب پیار سے گُڈو میاں ہی پُکارتے تھے حَالانکہ شکل و صورت سے ہمیں کبھی بھی گُڈو نہیں لگے البتہ میاں ضرور لگا کرتے تھے۔
تکلفات کے ذرا بھی قائل نہیں تھے اکثر فرماتے میاں تکلفات سے کبھی دوستی پائیدار نہیں ہُوسکتی لہذا ہمیں بھی اکثر تُو تڑاخ سے مُخاطِب کیا کرتے ، ہر وقت خَبروں کی تلاش میں مارے مارے پِھرا کرتے تھے جبکہ اُنکا کہنا تھا کہ مِیاں مجھے خَبروں میں دِلچسپی نہیں ہے بلکہ خَبریں میری تاک میں رِہتی ہیں۔
جب کِسی سے مُلاقات ہُوجاتی پہلا فقرہ اُنکی زُبان سے یہی نِکلتا میاں کُچھ خَبر ہے ، یا میاں آپکو بھی پتہ چَلا ۔ اور اُنکا یہ ایسا تیر بَہدف نُسخہ تھا کہ اِسکے بعد لامُحالہ سامنے والے کو اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہُوئے استفسار کرنا ہی پڑتا۔۔۔۔ نَہیں گُڈو بھائی کیا ہُوا۔۔۔۔؟
اور اُسکے بعد جب گُڈو مِیاں شروع ہُوتے تُو اپنی قابلیت ، با خَبری ، اور علمیت کا اعتراف کرائے بِنا جان نہیں چُھوڑتے۔
تُو صاحِبو جونہی ہماری نظر گُڈو میاں پر پڑی ہم سمجھ گئے تھے کہ آج ہمارے ستاروں کی چال ضرور اُلٹی ہے اور ہمیں اپنی شامت اعمال صاف نظر آنے لگی تھی اکثر جب کبھی دوستوں کی مِحفل میں گُڈو میاں آدھمکتے تُو ہم اکثر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر رَفو چَکر ہُوجایا کرتے تھے لیکن اُس دِن ہمیں واقعی کوئی راستہ سُجھائی نہ دِیا کہ موصوف آفِس آدھمکے تھے اور وہ بھی قبل از دوپہر اَب ہَم جاتے بھی تُو کہاں جاتے نہ نماز کا وقت تھا اور نہ ہی ظُہرانے کا۔
بِہرحال ہَم نے آدابِ میزبانی بجاتے ہُوئے نہ صرف کھڑے ہُوکرمُسکراتے ہُوئے اُنکا استقبال کیا بلکہ اُنہیں چائے کا بھی پُوچھ بیٹھے وہ فرمانے لگے میاں چائے کا مُوڈ تُو نہیں لیکن ہَم جانتے ہیں کہ اگر ہَم منع کریں تُو آپ کا اِصرار مَزید بَڑھ جائے گا سو ہَم چائے پی لیں گے لیکن شَرط یہ ہے کہ کِسی پَٹھان کے ہُوٹل کی چائے پَلوایئے اور ڈبہ پیک بسکٹ کے بجائے صِرف سادہ کیک منگوالیجئے کیونکہ ہَم سے آپکی اِس ناہنجار مشین کی چائے ہَضم نہیں ہُوگی گُڈو میاں ہَمارے ٹِی میکر کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے کُرسی پر براجمان ہُوگئے۔
ہَم نے دِل ہی دِل میں خُود کو کوستے ہُوئے جیب سے سُو روپیہ کا نُوٹ نِکالا اور چپڑاسی کے حَوالے کردیا ہمارے کُرسی پر بیٹھتے ہی اُنہوں نے حَسبِ عادت وہی رَٹا رَٹایا جُملہ دُھرایا میاں کُچھ خَبر بھی شِہرمیں کیا کُچھ ہورہا ہے ہَم نے بُہت مُحتاط انداز اَپناتے ہُوئے کہا نجانے آپ کِس خَبر کے مُتعلق پُوچھ رہے ہیں کُچھ حَوالہ دِیں تُو شائد بَتاسکوں ۔ مُجھے مِحسوس ہُوا کہ گُڈو میاں کو ہمارا یہ انداز ایک آنکھ نہیں بھایا کیونکہ ہمارے جواب سے اُنکے چہرے پر ایک رَنگ آکر گُزر گیا اور یہ قطعی بات تھی کہ وہ رَنگ مُحبت کا ہر گِز نہیں تھا۔
عشرت میاں کل شب غریب آباد میں ایک خاتون نے اپنے شوھر کو قتل کیا تھا اُسی کے مُتعلق پُوچھ رہے تھے ،آپکو تُو خَبر ہی ہوگی گُڈو میاں نے آخری جُملہ استہزائیہ انداز اپناتے ہُوئے کہا۔
اِس خَبر نے وقتی طور پر مُجھے دِہلا کر رکھ دِیا اور میرے مُنہ سے وہ جُملہ خُود بَخود نِکل گیا جِسے سُننے کیلئے گُڈو میاں کے کان کافی دیر سے ترس رہے تھے
نہیں گُڈو میاں یہ حادثہ کیسے اور کب رُونما ہُوگیا؟
گُڈو میاں کے چہرے پر ایک اطمینان کی لَہر دوڑ گئی ہُوسکتا ہے اُس لمحے وہ دِل ہی دِل میں اپنی فتح کا جَشن مناتے ہُوئے کہہ رہے ہُوں۔۔۔۔ ہُونہہ۔۔ بیٹا اب آیا نا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ اور صرف گُڈو میاں نے اِسی پر اِکتفا نہیں کیا بلکہ دِل کی بھڑاس نِکالتے ہُوئے ہَم پر یہ جُملہ بھی کَس دِیا،، عشرت میاں کیا انٹرنیٹ پر سارا دِن جَھک مارتے رہتے ہُو اور اپنے شہر کی ذرا خَبر نہیں۔
گُڈو مِیاں کی خَبر ایسی سنسنی خیز تھی کہ ہم یہ پھبتی فی الحال ہَضم کرگئے ہَمیں دِلچسپی تھی تُو اِس خَبر کی تفصیلات میں جِس نے ہمارے جِسم کی ہَر رَگ میں تَجسس بیدار کردیا تھا۔
گُڈو میاں ہماری بے چینی سے بے خَبر نہیں تھے شائد اِسی لئے بَڑی بے اعتنائی سے اَخبار اُتھا کر پڑھنے میں مصروف ہُوگئے کُچھ لمحوں میں ہَمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہُوگیا اور بلاآخر ہم پُوچھ بِیٹھے،، آخر ایسی کیا وجہ رہی ہُوگی کی ایک شادی شُدہ خَاتون نے اپنا ہی سُہاگ اُجاڑ لیا؟
گُڈو میاں نے اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر بَڑی لاپرواہی سے کہا عشرت میاں اِتنے اُتاولے کیوں ہُو رہے ہیں آپ ذرا چائے آجائے تب تلک میں یہ اِداریہ پڑھ لوں پھر تفصیل سے سُناتا ہُوں آپکو خبر !
اور ہم مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق برقی اخباروں میں اُس خبر کو تلاشنے میں مصروف ہُوگئے تاکہ گُڈو میاں پر اپنی علمیت کا سِکہ بِٹھا سکیں لیکن شائد اُس دِن قسمت گُدو میاں پر مہربان تھی کافی سرچنگ کے باوجود بھی ہَم اِس خبر کا سراغ لگانے میں ناکام ہی رہے اِس دوران چائے آبھی گئی اور تمام کی تمام کیک سمیت گُڈو میاں کے پیٹ میں پُہنچ بھی گئی۔
جب ہَماری نظر گُڈو میاں پر پڑی تو وہ چائے اور کیک سے اِنصاف کے بعد مُنہ میں پان کی گلوری ٹھونس رہے تھے ہمیں اپنی جانب متوجہ دیکھ کر فرمانے لگے عشرت میاں کَل کے واقعے نے تمام شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
لیکن آخر ہُوا کیا تھا ؟ ہَم نے بَڑی بے صبری سے رَریافت کی
ارے عشرت میاں ہُونا کیا تھا بَس کل شبراتی میاں اپنا گیراج بند کر کے گھر کیلئے جارہے تھے اور اُنہوں نے دروازے میں روزینہ بیگم کو کھڑے دِیکھ لیا۔
میں نے گُفتگو قطع کرتے ہُوئے معلوم کیا اب یہ روزینہ بیگم کہاں سے درمیان میں آگئیں اور وہ دروازے میں کیوں کھڑیں تھیں؟
اَرے حَد کرتے ہیں آپ بھی عشرت میاں روزینہ بیگم زوجہ ھیں شُبراتی میاں کی اور دروازے میں کھڑا ہونے سے پہلے ہَم سے اِجازت نہیں لی تھی اُنہوں نے ہوسکتا ہے کِسی بَچّے کو تلاش رہی ہُوں کوئی سودا منگوانا ہُو اُنہیں گھر کا لیکن شبراتی میاں کِسی غلط فہمی کا شِکار ہُوگئے اور دروازے ہی سے چُٹیا تھام کر اندر رَگیدتے ہوئے لے گئے اور اُن پر بَد چلنی کا اِلزام لگاتے ہُوئے دو چار ہاتھ بھی رَسید کردئے روزینہ بیگم کے۔
اُس وقت تُو رُوزینہ بیگم چُپکے سُو رہیں لیکن نجانے آدھی رات کو اُنہیں کیسا دُورہ پَڑا کہ موصلی مار مار کر شبراتی میاں کا سر پاش پاش کردِیا۔
گُڈو میاں جِس انداز سے یہ واقعہ بیان کررہے تھے اُس نے میرے تمام بدن کو سرد کردیا تھا اور ھلاکت کا یہ انداز سُن کر مجھے جُھرجُھری سی آگئی، میرے اِسٹاف کے تمام لوگ بھی تجسس کے مارے اپنی اپنی سیٹوں سے کھسک کر گڈو میاں کے گِرد جمع ہُوچُکے تھے میں نے مُداخلت کے پیش نظر تمام ٹیلیفوں سیٹوں کے ریسیور سیٹ سے جُدا کردئیے اور دوبارہ ہَمہ تن گُوش ہُوگیا پھر کیا ہُوا گُڈو میاں؟
میرا سوال سُن کر گُڈو میاں بھی تن کر بیٹھ گئے اور سلسلہ وہیں سے جُوڑ دِیا
ہُونا کیا تھا عشرت میاں شبراتی میاں کا دَم نِکل گیا مگر روزینہ بِیگم پر تُو ایسی وحشت سوار ہُوئی کہ شبراتی کو ہلاک کرنے کے بعد بھی رُوزینہ بیگم کا دِل نہیں بھرا اور وہ بُگدا نِکال کر شبراتی میاں کی بُوٹیاں بنانے لگ گئی۔
قتل کی یہ حیرت انگیز داستان سُن کر مجھے ایسا محسوس ہُورہا تھا کہ جیسے میرا گلہ خُشک ہوچُکا ہو یمام جِسم کا رُواں رُواں کھڑا ہُوچُکا تھا۔ میں نے تُھوک حلق میں نِگلتے ہُوئے اگلا سوال کیا مگر یہ راز کُھلا کیسے؟
ارے عشرت میاں کیسی بات کرتے ہُو کبھی خُون اور عشق بھی کِسی کے چُھپائے سے چُھپے ہیں بہرحال تُھوڑی دیر بعد جب رُوزینہ بیگم کا اِنتقام کا نَشہ ہَرن ہُوا تو وہ خُون اور انسانی ٹکڑے دیکھ کر خُوفزدہ ہِرنی کی طرح کمرے کے ایک کونے میں دُبک کر بیٹھ گئی۔
اور بِس وہ جو کہتے ہیں نا نیند تُو سُولی پر بھی آجاوے ہے بس رُوزینہ بیگم کی بھی آنکھ لَگ گئی جیسے ہی وہ سوئی اُسکے خُواب میں ایک سفید ریش بابا جی آگئے اور رُوزینہ بیگم کو تسلی دینے لگے کہ بیٹا جو ہُونا تھا سِو ہُوگیا اب گھبراؤ نہیں بلکہ ہِمت سے کام لُو تمام لاش کے ٹکڑوں کو ایک بُوری میں بند کردو اور اپنے کپڑوں سے خُون کے داغ بھی صاف کردو۔
تبھی کِسی کی پیچھے سے آواز آئی کوئی نیک بُزرگ ہُونگے جو اُس بیچاری کی مدد کیلئے آئے ہونگے
گُڈو میاں نے اثبات میں گردن ہِلاتے ہُوئے ایک مرتبہ پھر سلسلہ شروع کیا بَس جناب اچانک رُوزینہ بیگم کی آنکھ کُھل گئی اُس نے ہِمت کرکے لاش کے تمام ٹکڑوں کو ایک بُوری میں بند کیا سارا کمرہ پانی سے دُھو کر صاف سُتھرا کیا اور اتنی مِحنت کے بعد تھکن سے نِڈھال ایک مرتبہ پھر سوگئی اَب کیا دیکھتی ہے کہ وہی بابا جی پھر اُسکے پاس آئے ہیں اور ناراضگی کا اِظہار کرتے ہُوئے کہہ رہے ہیں تُم نے ابھی تک اپنے کپڑوں سے خُون کے داغ صاف نہیں کئے؟
رُوزینہ بیگم روتے ہُوئے اُن بابا جی سے کہنے لگی بابا جی میں نے لاش کے تمام ٹکڑے بُوری میں بھر دئیے تمام کمرے سے بھی خُون کے نِشانات مِٹا ڈالے لیکن شُبراتی کے خُون کے داغ میرے کپڑوں سے نہیں جارہے۔
اِتنا کہہ کر گُڈو میاں نے اِشارے سے پان کی پِچکاری پھینکنے کی اِجازت مانگی جو کہ ہَم نے بادِل نخُواستہ دِی
گُڈو میاں نے دروازہ کھول کر پان کی پِچکاری قریب رکھے ایک گَملے پر ماری اور دروازے میں کھڑے کھڑے ہی کہنے لگے عشرت میاں جانتے ہُو اُن بابا جی نے رُوزینہ بیگم سے کیا کہا تھا؟
ہَم نے گَردن نفی میں ہِلا کر اپنی لاعلمی کا اِظہار کی
تبھی گُڈو میاں نے ایک اور پچکاری گَملے پر رسید کی اور دروازے کو پکڑ کر کہنے لگے
عشرت میاں وہ بابا جی مُسکرائے اور جیب سے ایک تھیلی نکال کر رُوزینہ بیگم کو تھماتے ہُوئے کہنے لگے
ارے بے وقوف گھبراتی کیوں ہے
سرف ایکسل ہے نا !
یہ کہتے ہُوئے گُدو میاں نے دروازے سے باہر دوڑ لگادی۔۔۔
ہمیں جب تک گُڈو میاں کا جُملہ سمجھ آیا گُڈو میاں ہماری دسترس سے باہر جا چُکے تھے اور ہِم صرف اِتنا ہی کہہ سَکے۔
لاحَول ولا قوۃ الا باللہ
اَب آپ جو کہنا چاہیں گُڈو میاں سے کمنٹس باکس میں کہہ سکتے ہیں
جب گُڈو میاں کسی بَلائے ناگہانی کیطرح ہمارے آفس میں داخل ہوئے تھے
ویسے تُو گُڈو میاں کا اصل نام آصف خان ہے لیکن سب پیار سے گُڈو میاں ہی پُکارتے تھے حَالانکہ شکل و صورت سے ہمیں کبھی بھی گُڈو نہیں لگے البتہ میاں ضرور لگا کرتے تھے۔
تکلفات کے ذرا بھی قائل نہیں تھے اکثر فرماتے میاں تکلفات سے کبھی دوستی پائیدار نہیں ہُوسکتی لہذا ہمیں بھی اکثر تُو تڑاخ سے مُخاطِب کیا کرتے ، ہر وقت خَبروں کی تلاش میں مارے مارے پِھرا کرتے تھے جبکہ اُنکا کہنا تھا کہ مِیاں مجھے خَبروں میں دِلچسپی نہیں ہے بلکہ خَبریں میری تاک میں رِہتی ہیں۔
جب کِسی سے مُلاقات ہُوجاتی پہلا فقرہ اُنکی زُبان سے یہی نِکلتا میاں کُچھ خَبر ہے ، یا میاں آپکو بھی پتہ چَلا ۔ اور اُنکا یہ ایسا تیر بَہدف نُسخہ تھا کہ اِسکے بعد لامُحالہ سامنے والے کو اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہُوئے استفسار کرنا ہی پڑتا۔۔۔۔ نَہیں گُڈو بھائی کیا ہُوا۔۔۔۔؟
اور اُسکے بعد جب گُڈو مِیاں شروع ہُوتے تُو اپنی قابلیت ، با خَبری ، اور علمیت کا اعتراف کرائے بِنا جان نہیں چُھوڑتے۔
تُو صاحِبو جونہی ہماری نظر گُڈو میاں پر پڑی ہم سمجھ گئے تھے کہ آج ہمارے ستاروں کی چال ضرور اُلٹی ہے اور ہمیں اپنی شامت اعمال صاف نظر آنے لگی تھی اکثر جب کبھی دوستوں کی مِحفل میں گُڈو میاں آدھمکتے تُو ہم اکثر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر رَفو چَکر ہُوجایا کرتے تھے لیکن اُس دِن ہمیں واقعی کوئی راستہ سُجھائی نہ دِیا کہ موصوف آفِس آدھمکے تھے اور وہ بھی قبل از دوپہر اَب ہَم جاتے بھی تُو کہاں جاتے نہ نماز کا وقت تھا اور نہ ہی ظُہرانے کا۔
بِہرحال ہَم نے آدابِ میزبانی بجاتے ہُوئے نہ صرف کھڑے ہُوکرمُسکراتے ہُوئے اُنکا استقبال کیا بلکہ اُنہیں چائے کا بھی پُوچھ بیٹھے وہ فرمانے لگے میاں چائے کا مُوڈ تُو نہیں لیکن ہَم جانتے ہیں کہ اگر ہَم منع کریں تُو آپ کا اِصرار مَزید بَڑھ جائے گا سو ہَم چائے پی لیں گے لیکن شَرط یہ ہے کہ کِسی پَٹھان کے ہُوٹل کی چائے پَلوایئے اور ڈبہ پیک بسکٹ کے بجائے صِرف سادہ کیک منگوالیجئے کیونکہ ہَم سے آپکی اِس ناہنجار مشین کی چائے ہَضم نہیں ہُوگی گُڈو میاں ہَمارے ٹِی میکر کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے کُرسی پر براجمان ہُوگئے۔
ہَم نے دِل ہی دِل میں خُود کو کوستے ہُوئے جیب سے سُو روپیہ کا نُوٹ نِکالا اور چپڑاسی کے حَوالے کردیا ہمارے کُرسی پر بیٹھتے ہی اُنہوں نے حَسبِ عادت وہی رَٹا رَٹایا جُملہ دُھرایا میاں کُچھ خَبر بھی شِہرمیں کیا کُچھ ہورہا ہے ہَم نے بُہت مُحتاط انداز اَپناتے ہُوئے کہا نجانے آپ کِس خَبر کے مُتعلق پُوچھ رہے ہیں کُچھ حَوالہ دِیں تُو شائد بَتاسکوں ۔ مُجھے مِحسوس ہُوا کہ گُڈو میاں کو ہمارا یہ انداز ایک آنکھ نہیں بھایا کیونکہ ہمارے جواب سے اُنکے چہرے پر ایک رَنگ آکر گُزر گیا اور یہ قطعی بات تھی کہ وہ رَنگ مُحبت کا ہر گِز نہیں تھا۔
عشرت میاں کل شب غریب آباد میں ایک خاتون نے اپنے شوھر کو قتل کیا تھا اُسی کے مُتعلق پُوچھ رہے تھے ،آپکو تُو خَبر ہی ہوگی گُڈو میاں نے آخری جُملہ استہزائیہ انداز اپناتے ہُوئے کہا۔
اِس خَبر نے وقتی طور پر مُجھے دِہلا کر رکھ دِیا اور میرے مُنہ سے وہ جُملہ خُود بَخود نِکل گیا جِسے سُننے کیلئے گُڈو میاں کے کان کافی دیر سے ترس رہے تھے
نہیں گُڈو میاں یہ حادثہ کیسے اور کب رُونما ہُوگیا؟
گُڈو میاں کے چہرے پر ایک اطمینان کی لَہر دوڑ گئی ہُوسکتا ہے اُس لمحے وہ دِل ہی دِل میں اپنی فتح کا جَشن مناتے ہُوئے کہہ رہے ہُوں۔۔۔۔ ہُونہہ۔۔ بیٹا اب آیا نا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ اور صرف گُڈو میاں نے اِسی پر اِکتفا نہیں کیا بلکہ دِل کی بھڑاس نِکالتے ہُوئے ہَم پر یہ جُملہ بھی کَس دِیا،، عشرت میاں کیا انٹرنیٹ پر سارا دِن جَھک مارتے رہتے ہُو اور اپنے شہر کی ذرا خَبر نہیں۔
گُڈو مِیاں کی خَبر ایسی سنسنی خیز تھی کہ ہم یہ پھبتی فی الحال ہَضم کرگئے ہَمیں دِلچسپی تھی تُو اِس خَبر کی تفصیلات میں جِس نے ہمارے جِسم کی ہَر رَگ میں تَجسس بیدار کردیا تھا۔
گُڈو میاں ہماری بے چینی سے بے خَبر نہیں تھے شائد اِسی لئے بَڑی بے اعتنائی سے اَخبار اُتھا کر پڑھنے میں مصروف ہُوگئے کُچھ لمحوں میں ہَمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہُوگیا اور بلاآخر ہم پُوچھ بِیٹھے،، آخر ایسی کیا وجہ رہی ہُوگی کی ایک شادی شُدہ خَاتون نے اپنا ہی سُہاگ اُجاڑ لیا؟
گُڈو میاں نے اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر بَڑی لاپرواہی سے کہا عشرت میاں اِتنے اُتاولے کیوں ہُو رہے ہیں آپ ذرا چائے آجائے تب تلک میں یہ اِداریہ پڑھ لوں پھر تفصیل سے سُناتا ہُوں آپکو خبر !
اور ہم مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق برقی اخباروں میں اُس خبر کو تلاشنے میں مصروف ہُوگئے تاکہ گُڈو میاں پر اپنی علمیت کا سِکہ بِٹھا سکیں لیکن شائد اُس دِن قسمت گُدو میاں پر مہربان تھی کافی سرچنگ کے باوجود بھی ہَم اِس خبر کا سراغ لگانے میں ناکام ہی رہے اِس دوران چائے آبھی گئی اور تمام کی تمام کیک سمیت گُڈو میاں کے پیٹ میں پُہنچ بھی گئی۔
جب ہَماری نظر گُڈو میاں پر پڑی تو وہ چائے اور کیک سے اِنصاف کے بعد مُنہ میں پان کی گلوری ٹھونس رہے تھے ہمیں اپنی جانب متوجہ دیکھ کر فرمانے لگے عشرت میاں کَل کے واقعے نے تمام شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
لیکن آخر ہُوا کیا تھا ؟ ہَم نے بَڑی بے صبری سے رَریافت کی
ارے عشرت میاں ہُونا کیا تھا بَس کل شبراتی میاں اپنا گیراج بند کر کے گھر کیلئے جارہے تھے اور اُنہوں نے دروازے میں روزینہ بیگم کو کھڑے دِیکھ لیا۔
میں نے گُفتگو قطع کرتے ہُوئے معلوم کیا اب یہ روزینہ بیگم کہاں سے درمیان میں آگئیں اور وہ دروازے میں کیوں کھڑیں تھیں؟
اَرے حَد کرتے ہیں آپ بھی عشرت میاں روزینہ بیگم زوجہ ھیں شُبراتی میاں کی اور دروازے میں کھڑا ہونے سے پہلے ہَم سے اِجازت نہیں لی تھی اُنہوں نے ہوسکتا ہے کِسی بَچّے کو تلاش رہی ہُوں کوئی سودا منگوانا ہُو اُنہیں گھر کا لیکن شبراتی میاں کِسی غلط فہمی کا شِکار ہُوگئے اور دروازے ہی سے چُٹیا تھام کر اندر رَگیدتے ہوئے لے گئے اور اُن پر بَد چلنی کا اِلزام لگاتے ہُوئے دو چار ہاتھ بھی رَسید کردئے روزینہ بیگم کے۔
اُس وقت تُو رُوزینہ بیگم چُپکے سُو رہیں لیکن نجانے آدھی رات کو اُنہیں کیسا دُورہ پَڑا کہ موصلی مار مار کر شبراتی میاں کا سر پاش پاش کردِیا۔
گُڈو میاں جِس انداز سے یہ واقعہ بیان کررہے تھے اُس نے میرے تمام بدن کو سرد کردیا تھا اور ھلاکت کا یہ انداز سُن کر مجھے جُھرجُھری سی آگئی، میرے اِسٹاف کے تمام لوگ بھی تجسس کے مارے اپنی اپنی سیٹوں سے کھسک کر گڈو میاں کے گِرد جمع ہُوچُکے تھے میں نے مُداخلت کے پیش نظر تمام ٹیلیفوں سیٹوں کے ریسیور سیٹ سے جُدا کردئیے اور دوبارہ ہَمہ تن گُوش ہُوگیا پھر کیا ہُوا گُڈو میاں؟
میرا سوال سُن کر گُڈو میاں بھی تن کر بیٹھ گئے اور سلسلہ وہیں سے جُوڑ دِیا
ہُونا کیا تھا عشرت میاں شبراتی میاں کا دَم نِکل گیا مگر روزینہ بِیگم پر تُو ایسی وحشت سوار ہُوئی کہ شبراتی کو ہلاک کرنے کے بعد بھی رُوزینہ بیگم کا دِل نہیں بھرا اور وہ بُگدا نِکال کر شبراتی میاں کی بُوٹیاں بنانے لگ گئی۔
قتل کی یہ حیرت انگیز داستان سُن کر مجھے ایسا محسوس ہُورہا تھا کہ جیسے میرا گلہ خُشک ہوچُکا ہو یمام جِسم کا رُواں رُواں کھڑا ہُوچُکا تھا۔ میں نے تُھوک حلق میں نِگلتے ہُوئے اگلا سوال کیا مگر یہ راز کُھلا کیسے؟
ارے عشرت میاں کیسی بات کرتے ہُو کبھی خُون اور عشق بھی کِسی کے چُھپائے سے چُھپے ہیں بہرحال تُھوڑی دیر بعد جب رُوزینہ بیگم کا اِنتقام کا نَشہ ہَرن ہُوا تو وہ خُون اور انسانی ٹکڑے دیکھ کر خُوفزدہ ہِرنی کی طرح کمرے کے ایک کونے میں دُبک کر بیٹھ گئی۔
اور بِس وہ جو کہتے ہیں نا نیند تُو سُولی پر بھی آجاوے ہے بس رُوزینہ بیگم کی بھی آنکھ لَگ گئی جیسے ہی وہ سوئی اُسکے خُواب میں ایک سفید ریش بابا جی آگئے اور رُوزینہ بیگم کو تسلی دینے لگے کہ بیٹا جو ہُونا تھا سِو ہُوگیا اب گھبراؤ نہیں بلکہ ہِمت سے کام لُو تمام لاش کے ٹکڑوں کو ایک بُوری میں بند کردو اور اپنے کپڑوں سے خُون کے داغ بھی صاف کردو۔
تبھی کِسی کی پیچھے سے آواز آئی کوئی نیک بُزرگ ہُونگے جو اُس بیچاری کی مدد کیلئے آئے ہونگے
گُڈو میاں نے اثبات میں گردن ہِلاتے ہُوئے ایک مرتبہ پھر سلسلہ شروع کیا بَس جناب اچانک رُوزینہ بیگم کی آنکھ کُھل گئی اُس نے ہِمت کرکے لاش کے تمام ٹکڑوں کو ایک بُوری میں بند کیا سارا کمرہ پانی سے دُھو کر صاف سُتھرا کیا اور اتنی مِحنت کے بعد تھکن سے نِڈھال ایک مرتبہ پھر سوگئی اَب کیا دیکھتی ہے کہ وہی بابا جی پھر اُسکے پاس آئے ہیں اور ناراضگی کا اِظہار کرتے ہُوئے کہہ رہے ہیں تُم نے ابھی تک اپنے کپڑوں سے خُون کے داغ صاف نہیں کئے؟
رُوزینہ بیگم روتے ہُوئے اُن بابا جی سے کہنے لگی بابا جی میں نے لاش کے تمام ٹکڑے بُوری میں بھر دئیے تمام کمرے سے بھی خُون کے نِشانات مِٹا ڈالے لیکن شُبراتی کے خُون کے داغ میرے کپڑوں سے نہیں جارہے۔
اِتنا کہہ کر گُڈو میاں نے اِشارے سے پان کی پِچکاری پھینکنے کی اِجازت مانگی جو کہ ہَم نے بادِل نخُواستہ دِی
گُڈو میاں نے دروازہ کھول کر پان کی پِچکاری قریب رکھے ایک گَملے پر ماری اور دروازے میں کھڑے کھڑے ہی کہنے لگے عشرت میاں جانتے ہُو اُن بابا جی نے رُوزینہ بیگم سے کیا کہا تھا؟
ہَم نے گَردن نفی میں ہِلا کر اپنی لاعلمی کا اِظہار کی
تبھی گُڈو میاں نے ایک اور پچکاری گَملے پر رسید کی اور دروازے کو پکڑ کر کہنے لگے
عشرت میاں وہ بابا جی مُسکرائے اور جیب سے ایک تھیلی نکال کر رُوزینہ بیگم کو تھماتے ہُوئے کہنے لگے
ارے بے وقوف گھبراتی کیوں ہے
سرف ایکسل ہے نا !
یہ کہتے ہُوئے گُدو میاں نے دروازے سے باہر دوڑ لگادی۔۔۔
ہمیں جب تک گُڈو میاں کا جُملہ سمجھ آیا گُڈو میاں ہماری دسترس سے باہر جا چُکے تھے اور ہِم صرف اِتنا ہی کہہ سَکے۔
لاحَول ولا قوۃ الا باللہ
اَب آپ جو کہنا چاہیں گُڈو میاں سے کمنٹس باکس میں کہہ سکتے ہیں
0 comments:
Post a Comment