کِسی درد مند کے کام آ۔۔۔۔ کِسی ڈوبتے کو اُچھال دے
یہ نِگاہِ مَست کی مسَتیاں۔ ۔کِسی بدنصیب پہ ڈال دے
یہ شعر مُدت ہُوئی شاہ عبدالکریم بُلڑی رحمتہ اللہ علیہ کے مزارِ مُبارک کی دیوار پر لِکھا دیکھا تھا۔ یہ شعر پڑھ کو مجھ پر جو کیفیت طاری ہُوئی تھی ۔ اُسکا لُطف آج پندرہ برس گُزر جانے کے بعد بھی میں بَخُوبی مِحسوس کرسکتا ہُوں۔ اِس سفر کی ایک خُوبصورت بات یہ بھی تھی یہ سفر میں نے اپنے والد کے حُکم پر اُنہی کیساتھ کیا تھا۔ جو کہ بذاتِ خُود میرے لئےایک خُوشگوار ۔و۔تعجب خیز اَمر تھا۔
بہرحال میری زندگی میں اُولیائے کرام کی مُحبت کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی۔ کہ اُولیائے کرام رَحَمُ اللہِ اجمعین کی زندگی مجھے ہمیشہ اِس شعر کے مصداق ہی نظر آئی۔ میں جتنے بھی اُولیائے کرام کی صحبت سے فیض یاب ہُوتا چلا گیا۔ مجھ پر یہ بات واضح ہُوتی چلی گئی کہ اِن اُولیائے کرام کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ اللہ کے بندوں کیلئے آسانی کا سامان مُہیا کیا جائے ۔ اُور انکی خدمت کے ذریعے اللہ کریم کی رضا کو سمیٹا جائے۔
اگر آپ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار کا مُطالعہ کریں تُو وہاں بھی کثرت سے اِس قسم کے اشعار نظر آئیں گے۔ جنکے مضامین اور مطالب میں شاہ عبدالکریم بُلڑی رحمتہ اللہ علیہ کے اِس شعر کی جھلک نظر آجائے گی۔ جس میں اللہ کریم کے بندوں کی خدمت کو مقدم رکھا گیا ہے۔۔۔ جیسے کہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یہ شعر مجھے نہایت ہی پسند ہے۔
خُدا کے بندے ہیں ہَزاروں بَنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُسکا بندہ بنونگاجِسکو۔ ۔۔۔۔۔ خُدا کے بندوں سے پیار ہُوگا
لِہذا جُوں جُوں اُولیائے کرام کی صحبت کا فیض مجھے نصیب ہُوتا چلا گیا۔ مجھ پر یہ راز عیاں ہُوتا چلا گیا کہ ،، آخر خُدا کی رضا کِس کام میں پِنہاں ہے۔ اُور میرے مُرشد کریم کی لُوگوں سے خیر خُواہی بھی مجھے ہمیشہ یہی سبق سمجھاتی نظر آئی۔۔۔ کہ خُدا کو پانے کا بہترین رستہ اُسکی مخلوق سے پیار اُور خِدمت میں چُھپا ہُوا ہے۔
مجھے اُولیائے کرام رحمہُ اللہ اجمعین کی حِکایات میں سیدنا ابراہیم بن اَدھم اُور حضرت بِہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کی حکایات نے بُہت ذیادہ مُتاثر کیا ہے۔ اُور حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ جو بیک وقت ایک فلسفی ، و ۔ دانشور کیساتھ ساتھ ایک مجذوب کا رُوپ بھی دھارے ہُوئے تھے۔ جسکی وجہ غالِباً یہ تھی کہ وہ ھارون الرشید کی جانب سے پیش کئے جانے والے قاضی کے عہدے سے بچنا چاہتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تمام سیرت میں ہزاروں ایسے واقعات موجود ہیں۔ جسمیں آپ رات دِن مخلوقِ خُدا کی پریشانیوں کو حَل کرتے ہُوئے نظر آتے ہیں۔۔۔۔
ایک مُدت سے جاوید بھائی عطاری جُو ہمارے ہر دِلعزیز مُفتی مُحمد بلال دامت برکاتہم عالیہ کے والد گرامی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر ہر مرتبہ میرا دِل گواھی دیتا ہے کہ وُہ اللہ کریم کے ولی ہیں۔ وہ بھی ہمیشہ لوگوں کی آسانی کیلئے خُود کو پیش کئے رکھتے ہیں۔ اُنہیں دیکھ کر عقل حیران ہُوجاتی ہے کہ کوئی کیسے عُمر کے اِس حصے میں دوسروں کیلئے اسقدربھاگ دُوڑ کرسکتا ہے۔ یہ اُنہی کا خاصہ ہے کہ یہاں مدد طلب کرنے والا اپنی پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔ اُور وہ فوراً ہی ایسا مشورہ پیش کردیتے ہیں۔ کہ عقل دنگ رِہ جاتی ہے۔ اُور ناصِرف مشورہ بلکہ خُود آگے بڑھ کر اُسکے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے مصروف ہُوجاتے ہیں۔
لوگوں کی خِدمت کا یہ جذبہ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ کیونکہ وہ رَسو لُ اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود وُہ صاحبِ کمال نفوسِ قُدسیہ تھے جو اللہ کریم کے مدنی محبوب ﷺ سے براہِ راست فیض یافتہ تھے۔ اُور اِنہی کے نقوشِ پا کی روشنی میں اُولیااللہ نے مخلوقِ خُدا کی خِدمت کی اہمیت کو جانا تھا۔ اِس ضمن میں ایک روایت پیش کرنے کی سعادت کا شرف حاصل کررہا ہُوں تاکہ میں اپنی بات کو مزیدبِہتر انداز میں سمجھاسَکوں۔
چُنانچہ :۔ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ) سرکار ﷺ کے ظاہری وِصال کے بعد مسجدِ نبوی شریف کی مُعطر مُعطر فِضاؤں میں اعتکاف فرما تھے۔ آپکی خِدمت میں ایک شخص حاضر ہُوا۔ جُو کہ نہایت غمگین و پریشانی کے عالم میں تھا۔
آپ رضی اللہ عنہُ نے شفقت فرماتے ہُوئے اُس شخص سے پریشانی کا سبب معلوم کیا۔۔۔؟
اُس شخص نے عرض کیا۔۔۔۔ جناب اعلٰی میں بُہت زیادہ مقروض ہُوں۔۔۔۔ اسکے بعد روضہٗ مُبارک کی جانب اشارہ کرتے ہُوئے کہنے لگا۔۔۔ اِس روضہٗ انور میں تشریف فرما نبی رحمت ﷺ کی عزت کی قسم میں اِس قابل بھی نہیں کہ قرض اُتار سکوں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ) نے ارشاد فرمایا۔ کیا میں تُمہاری سفارش اُس قرض خُواہ سے کردُوں۔۔۔؟
اُس شخص نے عرض کیا۔ جیسا آپ مُناسب سمجھیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ) یہ سُن کر فُوراً مسجد نبوی ﷺ سے باہر نِکل آئے۔
وُہ شخص حیرانی سے کہنے لگا عالیجناب آپ شائد بھول گئے ہیں کہ آپ اعتکاف سے تھے۔۔۔۔۔۔
سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ)نے جواباً ارشاد فرمایا۔ میں ہرگز نہیں بُھولا ہوں۔۔۔ بلکہ مجھ سے اِنہی صاحبِ مزار ﷺ نے ابھی کُچھ ہی عرصہ قبل پہلے اِرشاد فرمایا تھا کہ،، جُو اپنے کِسی بھائی کی حاجت روائی کیلئے چَلے اُور اِس کو پُورا کرے تُو یہ ۱۰ سال کے اعتکاف سے افضل ہے اُور جُو رضائے اِلہی کیلئے ایک دِن کا اعتکاف کرتا ہے تُو اللہ کریم اُس کے اُور جہنم کے درمیان تین خندقیں ( گڑھا) حائل فرمادے گا کہ جنکا فاصلہ مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ ہُوگا۔ اتنا فرمانے کے بعد یاد مُصطفیٰ ﷺ سے سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ) کی آنکھیں اشکبار ہُوگئیں۔
دُعائے عشرت وارثی
اے میرے کریم آقا تیرا یہ غُلام تیرے رُوبرو حاضر ہُونے کو ہے۔ مگر میرا حال یہ ہے کہ زاد راہ کے نام پر ایک بھی نیکی تیرے اِس غلام کے پاس موجود نہیں۔ میں نے سُوچا تھا کہ کُچھ نیکیاں تُجھے راضی کرنے کیلئے چُن لُوں۔ مگر ہائے میری بدنصیبی کے میں نے راہ چلتے چلتے خُود نمائی کے تار سے جو تھیلی بُنی تھی اُس میں بدگمانی اُور حسرت کی بدبو نے حریص چُوہوں کو جنم دیدیا۔ جنہوں نے میرے توشہٗ دان کو چھلنی چھلنی کرڈالا۔ تمام نیکیاں چُونکہ بُہت چھوٹی چھوٹی تھیں۔ اِس چھلنی کے راستے نکل گئیں۔ جبکہ میرے عصیاں اپنے حجم کی وجہ سے میرے ساتھ ہی رِہ گئے۔ مسافت کا وقت گُزر چُکا اُور اب منزل نہایت قریب ہے۔ پشیمانی کے عالم میں حیران و پریشان ہُوں کہ تیری بارگاہ میں کیا پیش کرونگا۔
بس فقط ایک اُمید ہے کہ تُو بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اُور نہایت کریم ہے۔ مجھ ضیعف کی نادانیوں پر اپنے فضل سے باز پُرس نا فرمائے گا ۔ اُور بے سبب مغفرت کی بھیک سے میرے خالی کاسے کو بھردے گا۔ میرے کریم آقا میری اُمید کا بھرم رکھنا۔ اُور میرے جُرموں کی پردہ پُوشی فرماتے ہُوئے مجھے فقط اپنے فضل کی بھیک اپنے مدنی محبوب ﷺ کے صدقے عطا فرمادینا۔ کیونکہ میں بالکل تہی دامن نہیں ہُوں۔۔۔ کثیر گُناہوں کے سبب میری گردن و کمر جُھکی جارہی ہے۔ اُور تیرے کرم کے سِوا مجھے کوئی بچانے والا نہیں۔۔۔۔
امتحاں کے کہاں قابل ہُوں میں پیارے مولا
بے سبب بخشش دے مالک تیرا کیا جاتا ہے
یہ نِگاہِ مَست کی مسَتیاں۔ ۔کِسی بدنصیب پہ ڈال دے
یہ شعر مُدت ہُوئی شاہ عبدالکریم بُلڑی رحمتہ اللہ علیہ کے مزارِ مُبارک کی دیوار پر لِکھا دیکھا تھا۔ یہ شعر پڑھ کو مجھ پر جو کیفیت طاری ہُوئی تھی ۔ اُسکا لُطف آج پندرہ برس گُزر جانے کے بعد بھی میں بَخُوبی مِحسوس کرسکتا ہُوں۔ اِس سفر کی ایک خُوبصورت بات یہ بھی تھی یہ سفر میں نے اپنے والد کے حُکم پر اُنہی کیساتھ کیا تھا۔ جو کہ بذاتِ خُود میرے لئےایک خُوشگوار ۔و۔تعجب خیز اَمر تھا۔
بہرحال میری زندگی میں اُولیائے کرام کی مُحبت کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی۔ کہ اُولیائے کرام رَحَمُ اللہِ اجمعین کی زندگی مجھے ہمیشہ اِس شعر کے مصداق ہی نظر آئی۔ میں جتنے بھی اُولیائے کرام کی صحبت سے فیض یاب ہُوتا چلا گیا۔ مجھ پر یہ بات واضح ہُوتی چلی گئی کہ اِن اُولیائے کرام کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ اللہ کے بندوں کیلئے آسانی کا سامان مُہیا کیا جائے ۔ اُور انکی خدمت کے ذریعے اللہ کریم کی رضا کو سمیٹا جائے۔
اگر آپ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار کا مُطالعہ کریں تُو وہاں بھی کثرت سے اِس قسم کے اشعار نظر آئیں گے۔ جنکے مضامین اور مطالب میں شاہ عبدالکریم بُلڑی رحمتہ اللہ علیہ کے اِس شعر کی جھلک نظر آجائے گی۔ جس میں اللہ کریم کے بندوں کی خدمت کو مقدم رکھا گیا ہے۔۔۔ جیسے کہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یہ شعر مجھے نہایت ہی پسند ہے۔
خُدا کے بندے ہیں ہَزاروں بَنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُسکا بندہ بنونگاجِسکو۔ ۔۔۔۔۔ خُدا کے بندوں سے پیار ہُوگا
لِہذا جُوں جُوں اُولیائے کرام کی صحبت کا فیض مجھے نصیب ہُوتا چلا گیا۔ مجھ پر یہ راز عیاں ہُوتا چلا گیا کہ ،، آخر خُدا کی رضا کِس کام میں پِنہاں ہے۔ اُور میرے مُرشد کریم کی لُوگوں سے خیر خُواہی بھی مجھے ہمیشہ یہی سبق سمجھاتی نظر آئی۔۔۔ کہ خُدا کو پانے کا بہترین رستہ اُسکی مخلوق سے پیار اُور خِدمت میں چُھپا ہُوا ہے۔
مجھے اُولیائے کرام رحمہُ اللہ اجمعین کی حِکایات میں سیدنا ابراہیم بن اَدھم اُور حضرت بِہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کی حکایات نے بُہت ذیادہ مُتاثر کیا ہے۔ اُور حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ جو بیک وقت ایک فلسفی ، و ۔ دانشور کیساتھ ساتھ ایک مجذوب کا رُوپ بھی دھارے ہُوئے تھے۔ جسکی وجہ غالِباً یہ تھی کہ وہ ھارون الرشید کی جانب سے پیش کئے جانے والے قاضی کے عہدے سے بچنا چاہتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تمام سیرت میں ہزاروں ایسے واقعات موجود ہیں۔ جسمیں آپ رات دِن مخلوقِ خُدا کی پریشانیوں کو حَل کرتے ہُوئے نظر آتے ہیں۔۔۔۔
ایک مُدت سے جاوید بھائی عطاری جُو ہمارے ہر دِلعزیز مُفتی مُحمد بلال دامت برکاتہم عالیہ کے والد گرامی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر ہر مرتبہ میرا دِل گواھی دیتا ہے کہ وُہ اللہ کریم کے ولی ہیں۔ وہ بھی ہمیشہ لوگوں کی آسانی کیلئے خُود کو پیش کئے رکھتے ہیں۔ اُنہیں دیکھ کر عقل حیران ہُوجاتی ہے کہ کوئی کیسے عُمر کے اِس حصے میں دوسروں کیلئے اسقدربھاگ دُوڑ کرسکتا ہے۔ یہ اُنہی کا خاصہ ہے کہ یہاں مدد طلب کرنے والا اپنی پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔ اُور وہ فوراً ہی ایسا مشورہ پیش کردیتے ہیں۔ کہ عقل دنگ رِہ جاتی ہے۔ اُور ناصِرف مشورہ بلکہ خُود آگے بڑھ کر اُسکے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے مصروف ہُوجاتے ہیں۔
لوگوں کی خِدمت کا یہ جذبہ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ کیونکہ وہ رَسو لُ اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود وُہ صاحبِ کمال نفوسِ قُدسیہ تھے جو اللہ کریم کے مدنی محبوب ﷺ سے براہِ راست فیض یافتہ تھے۔ اُور اِنہی کے نقوشِ پا کی روشنی میں اُولیااللہ نے مخلوقِ خُدا کی خِدمت کی اہمیت کو جانا تھا۔ اِس ضمن میں ایک روایت پیش کرنے کی سعادت کا شرف حاصل کررہا ہُوں تاکہ میں اپنی بات کو مزیدبِہتر انداز میں سمجھاسَکوں۔
چُنانچہ :۔ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ) سرکار ﷺ کے ظاہری وِصال کے بعد مسجدِ نبوی شریف کی مُعطر مُعطر فِضاؤں میں اعتکاف فرما تھے۔ آپکی خِدمت میں ایک شخص حاضر ہُوا۔ جُو کہ نہایت غمگین و پریشانی کے عالم میں تھا۔
آپ رضی اللہ عنہُ نے شفقت فرماتے ہُوئے اُس شخص سے پریشانی کا سبب معلوم کیا۔۔۔؟
اُس شخص نے عرض کیا۔۔۔۔ جناب اعلٰی میں بُہت زیادہ مقروض ہُوں۔۔۔۔ اسکے بعد روضہٗ مُبارک کی جانب اشارہ کرتے ہُوئے کہنے لگا۔۔۔ اِس روضہٗ انور میں تشریف فرما نبی رحمت ﷺ کی عزت کی قسم میں اِس قابل بھی نہیں کہ قرض اُتار سکوں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ) نے ارشاد فرمایا۔ کیا میں تُمہاری سفارش اُس قرض خُواہ سے کردُوں۔۔۔؟
اُس شخص نے عرض کیا۔ جیسا آپ مُناسب سمجھیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ) یہ سُن کر فُوراً مسجد نبوی ﷺ سے باہر نِکل آئے۔
وُہ شخص حیرانی سے کہنے لگا عالیجناب آپ شائد بھول گئے ہیں کہ آپ اعتکاف سے تھے۔۔۔۔۔۔
سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ)نے جواباً ارشاد فرمایا۔ میں ہرگز نہیں بُھولا ہوں۔۔۔ بلکہ مجھ سے اِنہی صاحبِ مزار ﷺ نے ابھی کُچھ ہی عرصہ قبل پہلے اِرشاد فرمایا تھا کہ،، جُو اپنے کِسی بھائی کی حاجت روائی کیلئے چَلے اُور اِس کو پُورا کرے تُو یہ ۱۰ سال کے اعتکاف سے افضل ہے اُور جُو رضائے اِلہی کیلئے ایک دِن کا اعتکاف کرتا ہے تُو اللہ کریم اُس کے اُور جہنم کے درمیان تین خندقیں ( گڑھا) حائل فرمادے گا کہ جنکا فاصلہ مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ ہُوگا۔ اتنا فرمانے کے بعد یاد مُصطفیٰ ﷺ سے سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہُ) کی آنکھیں اشکبار ہُوگئیں۔
دُعائے عشرت وارثی
اے میرے کریم آقا تیرا یہ غُلام تیرے رُوبرو حاضر ہُونے کو ہے۔ مگر میرا حال یہ ہے کہ زاد راہ کے نام پر ایک بھی نیکی تیرے اِس غلام کے پاس موجود نہیں۔ میں نے سُوچا تھا کہ کُچھ نیکیاں تُجھے راضی کرنے کیلئے چُن لُوں۔ مگر ہائے میری بدنصیبی کے میں نے راہ چلتے چلتے خُود نمائی کے تار سے جو تھیلی بُنی تھی اُس میں بدگمانی اُور حسرت کی بدبو نے حریص چُوہوں کو جنم دیدیا۔ جنہوں نے میرے توشہٗ دان کو چھلنی چھلنی کرڈالا۔ تمام نیکیاں چُونکہ بُہت چھوٹی چھوٹی تھیں۔ اِس چھلنی کے راستے نکل گئیں۔ جبکہ میرے عصیاں اپنے حجم کی وجہ سے میرے ساتھ ہی رِہ گئے۔ مسافت کا وقت گُزر چُکا اُور اب منزل نہایت قریب ہے۔ پشیمانی کے عالم میں حیران و پریشان ہُوں کہ تیری بارگاہ میں کیا پیش کرونگا۔
بس فقط ایک اُمید ہے کہ تُو بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اُور نہایت کریم ہے۔ مجھ ضیعف کی نادانیوں پر اپنے فضل سے باز پُرس نا فرمائے گا ۔ اُور بے سبب مغفرت کی بھیک سے میرے خالی کاسے کو بھردے گا۔ میرے کریم آقا میری اُمید کا بھرم رکھنا۔ اُور میرے جُرموں کی پردہ پُوشی فرماتے ہُوئے مجھے فقط اپنے فضل کی بھیک اپنے مدنی محبوب ﷺ کے صدقے عطا فرمادینا۔ کیونکہ میں بالکل تہی دامن نہیں ہُوں۔۔۔ کثیر گُناہوں کے سبب میری گردن و کمر جُھکی جارہی ہے۔ اُور تیرے کرم کے سِوا مجھے کوئی بچانے والا نہیں۔۔۔۔
امتحاں کے کہاں قابل ہُوں میں پیارے مولا
بے سبب بخشش دے مالک تیرا کیا جاتا ہے
0 comments:
Post a Comment