تماشہٗ اِبلیس میرے نئے افسانے کا نام ہے ۔جسکی ابتدا کرنے میں مجھے دُو برس کا عرصہ لگا۔ اِس افسانے میں راقم نے کوشش کی ہے کہ زُبان و مذہب کے نام پر کی جانے والی تجارت ابلیس کو اِس انداز سے آپ کے سامنے پیش کروں کہ آپ پر تلبیسِ ابلیس رُوز رُوشن کی طرح واضح ہُوجائے۔ کہانی کے کرداروں سے آپ جُوں جُوں متعارف ہُوتے چلے جائیں گے۔ آپ کی دِلچسپی بھی اُسی قدر افسانے میں بڑھتی چلی جائے گی۔
میں نے اِس افسانے میں بس اتنا واضح کرنے کی کُوشش کی ہےکہ،، ہر چمکتی شئے سُونا نہیں ہُوتی۔ اُور نہ ہی مادی ترقی انسانی سکون کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ہر نئے دِن کے ساتھ نئی نئی اَشیاٗ کو دیکھ کر ہمارے دِل میں اُسکی طلب کا شَدید اِحساس پیدا ہُوتا ہے۔ جو بلاآخر ایک جنون کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اُور اگر وُہ شئے ہمیں نہ مِلے تو ہمیں خُوامخواہ اِحساسِ محرومی کا عفریت ڈسنے لگتا ہے۔۔۔تب ہم یہ کیوں نہیں سُوچتے کہ اِسکی آمد سے قبل بھی ہمارا گُزارا چل رہا تھا۔اُور ہمیں اِس شئے کا پہلے کیوں اتنی شِدت سے احساس نہیں تھا۔ اُور اب کیوں یہ خُواہش دِھیرے دِھیرے ہماری زندگی کو عذاب مسلسل میں گرفتار کرتی چلی جارَہی ہے۔
آپ میرے اِس نئے افسانے کو بلاگ اِسپاٹ پر ناول سیکشن میں اِمیج فارمیٹ میں مفت آن لائن پڑھ سکتے ہیں۔۔۔
میرے لئے اِس افسانے کی اہمیت یُوں بھی ذیادہ ہے کہ،، میں نے جِس دِن یہ افسانہ لکھنا شروع کیا تھا۔ اُسی شام افسانے کی اِبتداء کرتے ہُوئے مجھے خبر مِلی کے مَلک ممتاز قادری نامی ایک شخص نے مُتنازعہ شخصیت سلمان تاثیر کا اسلام آباد میں قتل کردیا ہے۔ اِس واقعہ کی چھان بین کیلئے جب انٹر نیٹ کو گھنگالا تُو مجھے کوئی خاص خبر حاصل نہ ہُوسکی۔ البتہ تمام نیوز چینل اِس واقعہ کی کوریج میں پیش پیش تھے۔
چُونکہ اِس واقعہ کا تعلق ناموسِ مُصطفےٰ ﷺ سے تھا۔ اِسلئےاِس واقعہ سے میرا مُتاثر ہُونا لازمی اَمر تھا۔ چُنانچہ میں نےفوراً ملک ممتاز قادری کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک کالم (ملک ممتاز قادری تیرے نِثار) لکھنے کا اُصولی فیصلہ کیا۔ جو کہ بُہت پسند کیا گیا۔اُور غالباً انٹرنیٹ پر ہماری ویب کے ذریعہ سےممتاز قادری کے تعارف کایہ پہلا قطرہ تھا۔ جو بعد میں ایک سُمندر کی شِکل اختیار کرتا چَلاگیا۔
لیکن اِس کے بعد بھی میں نے تقریباً سُو کے قریب کالم لکھے ہُونگے۔ لیکن عجب تماشہٗ تھاکہ،، میں جب بھی تماشہٗ ابلیس پر مزید لکھنے کی کُوشش کرتا۔ تب عین اُسی دِن کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش ہُوجاتا جسکی وجہ سے مجھے اپنی توجہ فوری طُور پر اِس افسانے سے ہٹانی پڑتی۔۔۔ جبکہ دُوسرے کالم و افسانے لکھتے ہُوئے ایسا کوئی معاملہ نہیں ہُوتا۔۔۔ لیکن جب بار بار اِس افسانے کے سلسلے میں مجھے حادثات پیش آنے لگے تو مجھے بھی ضِد سی ہُوگئی کہ میں ہر قیمت پر اِس افسانے کو پبلِش کرکے ہی دَم لُوں گا۔
کل جب میں اِس افسانے کو اپنے بلاگ پر پُوسٹ کرنے جارہا تھا۔ تب عین اِس افسانے کو پُوسٹ کرتے ہُوئے مجھے خبر مِلی کہ میرے دَس برس کے بیٹے سعد کا ایکسیڈنٹ ہُوگیا ہے۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں۔۔۔۔لیکن کسی نے واضح طُور پر میرے کان میں کہا،، کیا اب بھی اِس افسانے کو لکھنے کی ضِد سے باز نہیں آوٗ گے۔
اللہ کریم کا بے حد شکر و اِحسان کے اتنے خطرناک ایکسیڈنٹ کے باوجود بھی میرے بیٹے کے صرف ایک انگوٹھے کے ناخن کو نْقصان پُہنچا البتہ خُون کافی ضائع ہُوگیا۔۔۔ لیکن اب وُہ خیریت سے ہے اُور اللہ کریم کی اَمان سے آئندہ بھی محفوظ رہے گا۔۔۔ اُور مجھے بہرحال اِس بات کی بُہت خُوشی ہے کہ شیطان کی تمام کوششوں کے باوجود میں اِس افسانے کو پُوسٹ کرنے میں بفضلِ خُدا کامیاب ہُو ہی گیا ہُوں۔۔۔۔ جسکے ذریعے سے میں اِبلیس کی چالوں سے اِنشاءَاللہ پردہ اُٹھاتا رہوں گا۔
0 comments:
Post a Comment