bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 6 June 2015

تذکرہ اِک پری کا (قصہ سیف الملوک) قسط 27.TIPK




گُذشتہ سے پیوستہ
 
خُدا کا قسم ہم کو پورا یقین ہے۔کہ،، نہاری میں لذت اُور خُوشبو اُس اللہ والے کے  گُوشت کو جھوٹا کرنے سے آئی ہے۔مصالحہ ڈالنے کی وجہ سے نہیں آئی۔۔۔ اُور ہم صرف یہی بات بتانے کیلئے آج صبح صبح آیا ہے۔ ورنہ یہ وقت ہمارے سُونے کا وقت ہے۔۔۔۔ خان صاحب کی نیک نامی اُور ایمانداری کی وجہ سے رِیسٹورنٹ کے مالک نے  نا صِرف  چوکیدارخان صاحب کی بات کو صدقِ دِل سے قبول کرلیا۔بلکہ اُس نے باورچی سے بھی فوراً  اپنے رویئے پر معذرت کرلی۔۔۔ جبکہ عمران کیلئے یہ خبر ہی خُوشی بڑھانے کیلئے کم نہ تھی۔کہ،، بابا صابر شہر ہی میں موجود ہیں۔۔۔۔ بلکہ اُسکا دِل گواہی دے رِہا تھا۔کہ،، بابا صاحب نے اپنے کشف سے میری یہاں آمد کو جان لیا تھا۔ اُور وُہ صرف میرے ہی لئے دیگ کے کھانے کی رُونق بڑھانے آئے تھے۔

عمران اِسی کیف و مستی کی حالت میں  بابا صابر کی تلاش میں ایک مرتبہ پھر شہر کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ اِسٹیڈیم کے باہر اُنہی درختوں کے قریب سے گُزرتے ہُوئے عمران کو پھر اُنہی معطر معطر جُھونکوں نے مسحور کردیا۔پھر اُسکے قدم  اُسی جگہ ٹہر گئے۔ کہ اچانک  درختوں کے عقب سے کوثر کی کھنکتی ہُوئی ہنسی عمران کے کانوں میں  نقرئی گھنٹیوں کی طرح  جلترنگ بکھیرنے لگی۔۔۔۔ بالم کیسی لگی نہاری  کی دعوت آپکو۔۔۔؟؟؟ عِمران نے  ذرا ترچھا ہُوکر دیکھا ۔تو  کوثر کو دیکھتا ہی چلا گیا۔۔۔۔ کوثر اپنی تمام تر حشر سامانیوں کیساتھ  اپنے حُسن کے جَلوے بکھیرنے کیلئے ایکبار پھر  عمران کے سامنے  کھڑی مسکرا رہی تھی۔

عِمران کے دِل میں کوثر کو  اپنی بانہوں میں بھرنے کی خُواہش شدت اختیار کرنے لگی تھی۔ لیکن سررَاہ۔ وُہ ایسی حرکت کے متعلق سُوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔ شائد کوثر نے بھی اُسکے دِل کی بات پڑھ لی تھی۔ اسلئے عمران کو اپنے پیچھے آنے کا اِشارہ کرتے ہُوئے وُہ ادائے بے نیازی سے دیوار کے ایک حصے کی جانب بڑھنے لگی۔ جہاں  دیوار کا کچھ حصہ بارشوں کی وجہ سے منہدم ہُوچُکا تھا۔ چار دیواری کے اندر داخل ہُونے کے بعدکوثر نے عمران کو بوسیدہ کھنڈر نما گیسٹ ہاوس میں چلنے کا اشارہ کیا۔گیٹ ہاوس کی ظاہری حالت دیکھ کر  ایسا لگتا تھا۔کہ،، اندر ضرور جانوروں نے اپنے مسکن بنارکھے ہُونگے۔لیکن اندر داخل ہُوتے ہی عمران کو یُوں لگا۔ جیسے وُہ کسی محل نما کمرے میں داخل ہُوگیاہُو۔ یہ ماحول عمران کو بُہت جانا پہچانا سا محسوس ہُوا۔ پھر اُسے یاد آیا کہ،، یہ تو وہی جگہ ہے جہاں عمران کی کوثر سے پہلی مُلاقات ہُوئی تھی۔

کمرے میں داخل ہُوتے ہی کوثر وارفتگی کے عالم میں عمران سے لپٹ گئی۔کتنی ہی دیر تک کوثر کبھی عمران کی آنکھوں کے بوسے لیتی تو کبھی اُس کے سر کو تھام کر اُسے  یُوں دیکھنے لگتی۔ جیسے عمران کو چھو کر یقین کررہی ہُو۔کہ،، وُہ حقیقت  میں اُسکے سامنے ہی موجودہے ۔یا  وُہ کوئی خوشگوار سپنا دیکھ رہی ہے!!!۔۔۔۔ بالم خُدا کا لاکھ لاکھ شُکر ہے۔ جس نے میری تشنہ نگاہوں کو تمہارا دیدار بخشا۔۔۔ عمران بھی اُسے بتانا چاہتا تھا۔کہ،، وُہ بھی اِس کے بغیر کتنا ادھورا تھا۔ لیکن کوثر نے اُسکے ہُونٹوں پر انگلی رکھتے ہُوئے کہا۔ بالم تُم کچھ بھی نہ کہو  تب بھی میں جان سکتی ہُوں کہ،، تُم بھی اُسی کرب کے سمندر سے گُزرے ہُو۔ جسکی طلاطم خیز موجوں نے مجھے جکڑ کر باندی بنارکھا تھا۔۔ کیا بات ہے کوثر آج تم مجھے میرے نام کے بجائے بالم بالم کہے جارہی ہُو۔؟ عمران کے سوال پر کوثر نے اِٹھلاتے ہُوئے  مُسکرا کر جواب دیا۔ بالم کو بالم نہ کہوں تو کیا ظالم کہہ کر پُکاروں بالما۔۔۔؟

جس نام سے تمہارا دل چاہے پُکار لُو۔۔۔ بس ایک مہربانی کرنا کہ،، اب مجھ سے دُور نہ جانا۔ عمران نے کوثر کی ہتھیلی پر بوسہ دیتے ہُوئے مخمور لہجے میں التجاکی۔۔۔ پھر جیسے عمران کو کچھ یاد آگیا۔۔۔۔ کوثر میں یہ تو پوچھنا ہی بھول گیاکہ،، تم نے مجھے نہاری کی دعوت کی مبارکباد دی تھی۔ تو کیا تمہاری بابا صابر سے مُلاقات ہُوچکی ہے۔ اُور کیا میاں صاحب ہماری مُلاقات کیلئے راضی ہُوگئے ہیں۔ اُور کیا ہمیں اب پھر تو جُدا نہیں ہُونا پڑے گا۔ عمران نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کرڈالے۔

کوثر  نے عمران کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنے قریب  جہازی سائز مسہری پر بٹھاکر جواب دینا شروع کیا۔۔۔ بیشک اللہ کریم کی مہربانی کیساتھ صابر پاک نے بھی بُہت کرم نوازی فرمائی ہے ہمارے معاملے میں۔ آپ ہی کی کوششوں سے میاں صاحب نے دس برس کی جُدائی والی شرط بھی ختم کردی ہے۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا تمہیں پانے کیلئےاب مجھے ناران آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔عمران نے خُوشی کے عالم میں کوثر کے ہاتھ ایکبار پھر اپنے ہاتھوں میں جکڑ لئے۔۔۔۔ ناران تو بالم آنا ہی پڑے گا تمہیں۔۔دراصل میں تمہیں وُہ مقام دِکھانا چاہتی ہُوں۔جہاں عشقِ مجازی سے شروع ہُونے والی کہانی عشق حقیقی تک جا پُہنچی تھی۔۔۔۔۔۔کیا مطلب کیسی کہانی؟؟؟ عمران نے  اشتیاق کے عالم میں اپنے تجسس کا اظہار کیا۔۔۔۔۔۔۔عجیب عاشق ہُو تم بھی بالما۔ جو محبت کی سیڑھیاں چڑھنے کو اتنے بیتاب ہُو۔لیکن اتنی عظیم عشق کی داستان سے بے خبر ہُو۔ورنہ ناران کا تو تذکرہ ہی سُن کر عاشقوں کا رُواں رُواں رقص کرنے لگتا ہے۔۔۔ جانِ عمران اب اتنی پہلیاں تو نہ بجھواوٗ نا!!! عمران نے اپنی بیقراری کا اظہار کرتے ہُوئے کہا

بالما یہ کہانی تو اتنی طویل ہے کہ سُنتے سُناتے برسوں بیت جائیں۔لیکن میں مختصر واقعہ بیان کئے دیتی ہُوں۔یہ بُہت پرانی بات ہے۔ جب  شاہ مصر   عاصم کے بیٹے سیف الملوک نے اپنے باباجان کے خزانے میں  محفوظ ایک صندوق میں موجود    ریشم سے لچکیلے پارچے پرشہزادی پری  بدیع الجمال کی شبیہ دیکھ لی تھی۔ اِس شبیہ کو دیکھنے کے بعد شہزادہ سیف الملوک کو عشق کا ایسا رُوگ لگا۔کہ،، وُہ کھانا پینا، ہنسنا،بولنا،سب کچھ بھول گیا۔ بلاآخر حکما نے اُسکا یہی علاج تجویز کیا۔کہ،، شہزادہ جب تک اُس پری بدیع الجمال کو پا نہیں لیگا۔یہ رُوگ  اِسے دن بدن گُھلاتا رہے گا۔قصہ مختصر شاہ عاصم نے کسی نہ کسی طرح  شہزادہ سیف الملوک اُور بدیع الجمال کے مِلن کیلئے رضامندی ظاہر کردی۔

جب شہزادے کو شاہ عاصم کی جانب سے مثبت جواب موصول ہُوگیا۔تو شہزادہ سیف الملوک  نے ایک بہری بیڑہ تیار کروایا ۔ اُور اپنے   ایک وزیر زادے دوست  اُور مختصر سی فوج کے ہمراہ جس پر دُنیا بھر کی نعمتیں لاد  ی گئیں تھیں۔وُہ شہزادی بدیع الجمال کی تلاش میں نکل پڑا۔ ایک سال کی مسلسل کوشش کے بعد اُسے صرف شہزادی بدیع الجمال کامبہم سا اتاپتہ معلوم ہُوگیا۔ اُس کے بعد کئی برس شہزادہ حالات سے لڑتے ہُوئے بدیع الجمال کے قریب ہُونے کی کوشش کرتا رہا۔

اِس کوشش کے دوران اُسے بحری قذاقوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تو کبھی راستے میں پڑنے والی ریاستوں کے والیوں نے اُسے دھر لیا۔لیکن شہزادہ بڑی پامردی سے انسانوں، شیطانوں ، حیوانوں، درندوں،  اُور عجیب عجیب مخلوقات سے لڑتا بھڑتا اپنی منزل کے قریب ہُوتا چلا گیا۔اُس نے شہزادی بدیع الجمال کی خاطر کئی سال تک مسافت جاری رکھی۔ اُور اِس دُوران کئی مرتبہ بھوک پیاس بھی برداشت کی۔ شہزادہ سیف الملوک کی مستقل مزاجی کی وجہ سے اُسے  بلاآخر ایکدن شہزادی بدیع الجمال ناران کی بالائی جھیل پر  مِل ہی گئی ۔جو کے وہاں نہانے کی غرض سے آئی ہُوئی تھی۔ اسکے بعد بھی مصیبتوں کا ایک ناختم ہُونے والا سلسلہ تھا۔جسکا شہزادے سیف الملوک نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔۔۔اُور یُوں شہزادے سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی انوکھی شادی نے دُنیا کو مسرتوں سے مالا مال کردیا۔ لیکن شہزادے سیف الملوک پر پڑنے والی مسلسل مصیبتوں اُور تکلیفوں نے اُسے انعام کی صورت میں عشق حقیقی کی جانب متوجہ کرکے عشق مجازی سے عشق حقیقی کا اسیر بنادیا۔ جسکی وجہ سے آج بھی ادب والے جس طرح بنا وضو کئے قیس و لیلیٰ کا نام نہیں لیتے ۔بالکل اِسی طرح باوضو عقیدت سے سیف الملوک اُور بدیع الجمال کا تذکرہ کرتے ہیں۔

عمران کہانی کے سحر میں کھویا ہُوا تھا۔کہ،، اچانک کوثر نے ہڑبڑا کر کہا۔ ہائے اللہ  مجھ سےیہ کیا غضب ہُوگیا۔۔۔۔ عمران بھی جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا اُور یہاں وہاں دیکھ کر کوثر سے استفسار کرنے لگا۔کیا ہُوا کُوثر کیسا غضب ہُوگیا؟؟؟؟۔ بالما صابر پاک نے مجھے کہا تھا۔کہ،، جیسے ہی عمران سے ملاقات ہُوجائے عشق کے ساگر میں بہکنے کے بجائے اُسے جلد ہماری جانب روانہ کردینا۔ لیکن میں جنم جلی تمہاری قربت میں ایسی بہکی کہ،، باباصاحب کا پیغام تم تک پُہنچانے میں تاخیر پر تاخیر کرتی چلی گئی۔۔۔۔ خُدا خیر کرے کہیں اب صابر پاک ناراض نہ ہُوجائیں۔۔۔۔۔واقعی ہم سے بُہت بڑی غلطی ہُوگئی۔اللہ پاک مہربانی فرمائے۔ اُور صابر پاک بھی ہماری کوتاہی کو درگُزر فرمائیں۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے؟ عمران نے  بھی پریشانی کے عالم میں کوثر سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔ کرنا کیا ہے اب ایک لمحہ کی بھی تاخیر کیئے تمہیں بابا صابر کی خدمت میں حاضر ہُوجانا چاہیئے۔چونکہ یہ درویش اللہ کریم کے دوست ہیں۔اس لئے میرا دِل گواہی دے رہا ہے۔ کہ،، ذرا سی خفگی دکھانے کے بعد معافی ضرور عطا فرمادیں گے۔ کوثر  کی گفتگو نے عمران کی وحشتوں کو یقین سے بدل دیا تھا۔

جاری ہے۔۔۔

پلکوں سے دَر یار پر دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا

0 comments:

Post a Comment