bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday 15 February 2013

اللہ کو خُدا کہنا جائز یا ناجائز۔؟ ضرور پڑھیئے اُور شئیر کیجئے




بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محترم قارئین السلامُ علیکم ہو سکتا ہے کبھی آپ کیساتھ بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہو۔ کہ،، آپ نے کسی کو خُدا حافظ کہا ہو یا آپ کوئی ایسا شعر گُنگُنا رہے ہُوں ۔جِس میں لفظ خُدا کا استعمال ہوا ہو۔ اُور کسی نے آپ کو پکڑ کر جھنجوڑ دیا ہو کہ بھائی کیا کرتے ہو۔ اللہ کو خُدا کہتے ہو ۔۔۔؟ حالانکہ خُدا تو فارسی کا لفظ ہے اور فارسی تو جناب آتش پرستوں کی بھی زُبان ہے۔ لہذا توبہ کرو ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تُمہارا خاتمہ بھی آتش پرستوں کیساتھ ہو! عوامُ الناس جب اِس طرح کی باتیں سُنتے ہیں تو سِہم سے جاتے ہیں۔ اور اپنے دِل میں کہتے ہونگے۔ کہ بھئی اپنا ایمان تو خطرے میں تھا۔ اللہ بھلا کرے  اُن صاحب کا جنکی بدولت آتش پرستوں کیساتھ خاتمہ ہونے سے بچ گئے۔

بے شک اللہ کہنا لکھنا ہی سب سے افضل ہے۔ کہ یہ اسم ذات ہے کوئی صفتی اسم اِلہی اسکا مُتبادل ہُو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ہر صفتی نام میں کسی ایک مخصوص صفت کا ذکر ہوتا ہے لیکن اسم اللہ تمام صِفات کا مظہر ہے۔ یا یُوں سمجھ لیجئے کہ ہر صفتی اسم اِک خوشنما پھول ہے تو اسم اللہ تمام پھولوں کا حسین گُلدستہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اللہ کریم کو خُدا عزوجل کہنا منع ہے۔

میں نے جب اِس طرح کی کئی ایک پوسٹ کو نیٹ پر پڑھا تو مجھے تشویش لاحق ہوئی کہ اس تحریر کولکھنے کا مقصد چاہے جو بھی رہا ہو۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اس کالم میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ سے لیکر شیخ سعدی علیہ الرحمہ تک اور بر صغیر کے ہزاروں علماء کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

لہذا سب سے پہلے دارالافتاء حیدرآباد فون کیا اور فتویٰ معلوم کیا
فون نمبر 0092222621563
اسکے بعد دارالافتاء کنزالایمان کراچی
فون نمبر 00922134855174
پھر دارالافتاء نورالعرفان کراچی
فون نمبر 00922132203640
دارالافتا ء احکام شریعت میرپورخاص
فون نمبر 00923313718010
اسکے بعد مفتی محمد یعقوب سعیدی صاحب سے گفتگو  کی ۔۔۔اُور سبھی سے ایک ہی سوال دریافت کیا کہ جناب آپ اس مسئلہ کے متعلق کہ کیا اللہ کریم کو خدا کہہ کر پکارنا  جائز ہے یا ناجائز اور مجھے ہر جگہہ سے ایک ہی جواب مِلا کہ بالکل جائز ہے۔ اور سبھی علماءَ نے کہا کہ علماء اُمت کا اس پر اجماع بھی ہے لیکن بعض شر پسند عناصر مسلمانوں میں منافرت پھیلانے کیلئے ایسا پروپیگنڈہ کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے۔

اور علامہ غلام رسول سعیدی طبیعان القران جلد 3 صفحہ 361 پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں جسکا خلاصہ پیش خدمت ہے
کہ ایسے نام سے اللہ کو پکارنا جو اُس کی شان کے زیبا نہ ہو منع ہے ۔جیسے اللہ کے ساتھ میاں کا اضافہ کے یہ لفظ میاں انسانوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔  یا اللہ کیساتھ سائیں کا اضافہ کہ،، سائیں فقیر کو بھی کہتے ہیں۔ اِس لئے اس کا اطلاق ممنوع ہے۔ جبکہ ایسے الفاظ سے اللہ کو پُکارنا جو اُس کی شان کے مطابق ہیں جیسے فارسی میں خدا اور ترکی میں تنکری کہ ان کے معنیٰ میں ابہام نہیں  بالکل جائز ہیں۔

محترم قارئین کرام ۔ اَب آتے ہیں اُس حدیث کی جانب جس کو یار لوگ بڑی ڈھٹائی کیساتھ اپنے حق میں پیش کیا کرتےہیں
مفہوم،،
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ اُنہی میں سے ہوگا قیامت میں اُس کے ساتھ حشر ہوگا۔ (سنن ابو داود)۔

سیدی اعلحضرت امام احمد رضا(علیہ الرحمہ) فتاوی رضویہ جلد۸ صفحہ 622 پر ارشاد فرماتے ہیں۔

بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ'' بد مذہبوں سےمشابہت اُسی اَمر میں ممنوع ہے جو فی نفسہ شرعاً مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں

سیدی اعلحضرت نے تشبہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے جسے آپ جلد نمبر اکیس تا چوبیس میں دیکھ سکتے ہیں جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ جس فعل کو کفار مذہب کا حصہ سمجھ کر رسماً ادا کرتے ہوں مثلا سینے پر زنار باندھنا یا صلیب لٹکانا یا بغل وغیرہ کے بال بڑھانا ، مونچھوں کا بہت ذیادہ بڑھانا جِس سے کسی بد مذہب کی مُشابِہت پیدا ہو یہ مشابہت ممنوع اور حرام ہے یا یہ کہ کُفار سے مُحبت کی بنا پر اُنکی نقالی کرے۔ یا اُنکے مذہبی تہواروں میں شریک ہونا، نا کہ کسی زبان کے استعمال سے مشابہت لازم آئے گی۔

لیکن محترم قارئین اِن لوگوں نے ایک ایسے مسئلے کو اپنی جانب سے متنازع بنادیا۔۔۔ جو کہ مسئلہ تھا ہی نہیں اور جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے

اعتراضات

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کو خُدا کہہ سکتے ہیں تو  رَام اور وشنو کہہ کر کیوں نہیں پُکارتے؟

جواباً عرض ہے کہ رام کے ایک معنیٰ،، نہایت فرماں بردار،، بھی ہیں اور وشنو کے معنٰی ہِندؤں کے ہاں چار ہاتھوں والا رب،، بھی ہیں اور یقیناً یہ دونوں معنٰی مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ خدا کے لغوی معنیٰ کیا ہیں تو خدا کے لغوی معنٰی وہی ہیں جو اللہ کی شان کے مطابق ہیں یعنٰی مالک ،آقا ،باکمال ،معبود ، اور ربّ ۔

دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ عرب شریف میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور مُبارک سے لیکر آج تک اللہ عزوجل کو خُدا نہیں کہا جاتا ۔

جواب
تو بھائی عربی اسقدر وسیع زُبان ہے۔ کہ عربی کے چھ لاکھ الفاظ وہ ہیں جو آج متروک ہوچُکے ہیں صرف اِسی بات سے اِس زُبان کی وُسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہذا یہ کہنا کہ عرب شریف میں فارسی نہیں بولی جاتی تو بھائی اُنہیں کیا ضرورت ہے کہ  عربی جیسی وسیع زُبان کے ہوتے ہوئے۔ جہاں صرف ایک جانور کے عربی میں بیس تیس تک نام ہوتے ہیں وہ فارسی کا استعمال کریں۔ جبکہ اردو عربی کے مُقابلے میں ایک محدود الفاظ رکھنے والی زُبان ہے اور لفظ خُدا کو فارسی سے شعری ضرورت کے پیش نظر لیا گیا ہے ناکہ مجوسیوں کی اتباع کی خاطر لہذا دانشمندی کا تقاضہ ہے اپنی ضرورتوں کو سمجھا جائے۔

اعتراض(3) فارسی کا استعمال آتش پرست کرتے رہے ہیں فلہذا فارسی سے گُریز از بس ضروری ہے؟

جواب مودبانہ عرض ہے کہ نبی آخرُالزماں خَتَمُ المرسلین (صلی اللہُ علیہ وسلم) کی بِعثت سے قبل مشرکین عرب عربی زُبان کا استعمال کیا کرتے تھے تو کیا ہمارے کریم آقا علیہ السلام نے اس زُبان سے بیزاری کا اظہار کیا؟ جواب ہوگا قطعی نہیں کیا اللہ کریم نے ناپسند فرمایا؟ بالکل نہیں بلکہ اللہ کریم کا کلام اِسی زُبان میں نازل ہوا۔ معلوم ہُوا کہ کہ زُبان توصرف رابطہ کا ذریعہ ہے ۔ ناکہ مذہب کی پہچان!اور آپکو وہ کروڑوں مسلمان کیوں نظر نہیں آتے جو فارسی زُبان استعمال کرتے ہیں۔

اعتراض4 ۔اَصل میں لفظ خُدا فارسی زبان کا لفظ ہے آتش پرستوں کے دو ۲ الٰہ تھے اُن میں ایک کا نام خُدائے یزدان اور دوسرے کا نام خُدائے اہرمن تھا اردو میں معنی ہوگا کہ اچھائی کا خُدا اور بُرائی کا خُدا۔

جواب،، یہی عقیدہ تو مشرکین عرب کا بھی تھا اور وہ بھی اپنے بیشُمار معبودوں کو اِلٰہ کہتے تھے جسکا ذکر جا بَجا قران مجید فُرقان حمید میں موجود ہے حوالے کیلئے دو آیات سورہ الحجر اور سورہ النحل سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں

الَّذِیۡنَ یَجْعَلُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُوۡنَ ﴿۹۶ 
جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے (سورۃ الحجر آیت96)

وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثْنَیۡنِ ۚ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِیَّایَ فَارْہَبُوۡنِ ﴿۵۱ 
اور اللہ نے فرمایا دُو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے تو مجھی سے ڈرو (سورہ النحل آئت51)

اب دیکھئے کہ مشرکین عرب بھی اپنے بیشمار خداؤں کو اِلٰہ کہتے تھے تو اللہ کریم نے لفظِ اِلٰہ کہنے پر پابندی نہیں لگائی۔ بلکہ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعے یہ تعلیم دی ۔ کہ اِلٰہ صرف ایک ہے۔ اُور وہ اللہ کریم کی یکتا اور بےمثال ذات ہے۔ اسی طرح ہم یہ تو کہیں گے کہ آتش پرستوں کے دو خُدا کا عقیدہ باطل ہے لیکن خُدا کہنے پر پابندی نہیں لگا سکتے کہ اس کے معنٰی وہی ہیں جو اِلٰہ کے معنیٰ ہیں۔

اعتراض(5) کیا خُدا کہنے کی کوئی دلیل قُران سے ثابت ہے؟

جواب جی ہاں سورہ الاِسراء آیت نمبر 110 میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے
قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوۡا فَلَہُ الۡاَسْمَآءُ الْحُسۡنٰی 
تم فرماؤ اللّٰہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں

اللہ کریم نے اِس آیت میں اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے جو اللہ کریم کے ناموں میں جھگڑتے ہیں کہ سب اچھے نام اللہ کے ہیں۔
بس ہمیں بچنا ہے تو ایسے ناموں سے جو مالک حقیقی کے شایانِ شان نہ ہوں۔  اب آئیے اس آیت مبارکہ کا پس منظر بھی دیکھتے ہیں

شانِ نُزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا ایک شب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سجدہ کیا اور اپنے سجدہ میں یااللہ یا رحمٰن فرماتے رہے ابو جہل نے سنا تو کہنے لگا کہ (حضرت) محمّد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تو کئی معبودوں کے پوجنے سے منع کرتے ہیں اور اپنے آپ دو کو پکارتے ہیں اللہ کو اور رحمٰن کو (معاذ اللہ) اس کے جواب میں یہ آیت نازِل ہوئی اور بتایا گیا اللہ اور رحمٰن دو نام ایک ہی معبودِ برحق کے ہیں خواہ کسی نام سے پکارو ۔

یہاں ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کریم کے اچھے ناموں پر تنقید کرنا ابوجہل کا طریقہ ہے ناکہ صالحین کا۔

اعتراض(6) یہ جو علمائے کرام اللہ عزوجل کو خُدا کہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ اِنکی اپنی ذاتی رائے ہوتی ہے یہ اِذن قُران و سُنت سے نہیں دیتے؟

جواب ،، یہ عُلماءِ حق پر سراسر بُہتان ہے کیونکہ کوئی بھی عالم مفتی یا مُحدث قُران اور سُنت کے منافی فتوٰی صادر نہیں کرتا ۔ بلکہ اِنکا ہر فتویٰ قران اور سُنت کی ہی روشنی میں ہوتا ہے ا،سی لئے اِنہیں وارثینِ انبیاٗ  کا لقب مِلا ہے۔ 

اب یا تو اِن لوگوں کو فارسی زبان سے بغض تھا۔ یا پھر اُردو سے کینہ تھا۔ یا علماء برصغیر سے بیزاری۔۔۔ جُو بِنا سمجھے کروڑوں مسلمانوں کو بمعہ علماء کرام آتش پرستوں سے مُشابہت کی نوید سُنا کر معاذ اللہ ثمَ معاذ اللہ جہنم کی نوید سُنا ڈالتے ہیں

محترم قارئین کرام ایک حدیث کا مفہوم ہے۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ سے مروی ہیکہ رسولِ اقدس علیہ الصلواۃ والسلام کا فرمانِ عبرت نشان ہے
فرمایا کہ جس نے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا تو اُس کا گُناہ فتوٰی دینے والے پر ہوگا اور جس نے جان بوجھ کر اپنے بھائی کو غلط مشورہ دیا تو اُس نے اُس کے ساتھ خیانت کی
(۔(سنن ابو داود کتاب العلم باب التوقی فی الفتیا، جلد نمبر 3 صفحہ 449

لیکن یہاں حال یہ ہے کہ ایک حدیث سُنی کتاب دیکھنے کی نوبت نہیں آتی جو یاد رہا۔ صرف اُسی کو اپنی جانب سے قولِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) بتا کر بیان کر دیا جاتا ہے یا کسی کے نظریہ سے مُتاثر ہو کر کروڑوں مسلمانوں کو کفر کے فتوٰی سے نواز دیا جاتا ہے۔ نعوذُ باللہ۔

اور اس طرح مسلمانوں میں انتشار کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے جو قابل مذمت عمل ہے
اللہ کریم ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے ۔ اور ایسے نیم عالم خطرہ ایمان سے بھی  ہم سب کومحفوظ رکھے۔
میں نے تمام حقائق آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں اور تمام علماء کی رائے بھی آپکے سامنے پیش کردی ہے۔ لِہذا یہ اب  آپکا اخلاقی اُور دینی  فرض ہے۔کہ،، ہر ایسے شخص سے ہوشیار رہیں جو مسلمانوں میں تفرقہ بازی کا باعث ہو۔

اللہ کریم اپنے مدنی محبوب ﷺ کے طُفیل تمام مسلمانوں کو ایسے نام نہاد مذہبی لوگوں کے شر سے ہمیشہ محٖفوظ رکھے جو ہمارے ایمان کیلئے ہمیشہ خطرہ بنے رہتے ہیں۔۔
آمین بجاہِ النبی الامین وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم


9 comments:

  1. Aap itni information kaisy akhti kr lty hein sir.... MASHAALLAH. Bt gud articl ha bht bht achi batein parhny ko mil gai hein thnx .... ALLAH apko bht gud or achi c seht k sth lmbiiii zindagi dy......AMEEN

    ReplyDelete
  2. Aap itni information kaisy akhti kr lty hein sir...?
    اچھے اُور نیک لُوگوں کی صحبت سے بُہت کچھ اچھا اچھا سوچنے کو مل جاتا ہے
    باقی کمی اچھی کتابوں سے پوری ہُوجاتی ہے
    جسکی وجہ سے سوچ ہمیشہ مثبت رہتی ہے۔ اُور زندگی آسان ہوجاتی ہے۔۔۔۔
    :D

    ReplyDelete
  3. آمین بجاہِ النبی الامین وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وبارک وسلم

    ماشاء اللہ ۔ بھائ بہت ھی مفصل کالم۔ امید ء قوی ہے کہ مجھ جیسے بہت سے نادان اس سے مستفید ہوں گے اور بہتان لگانے سے پرہیز کریں گے۔

    ReplyDelete
  4. بس بھائی ہمارا کام ہم نے کردیا۔۔۔۔ باقی اللہ کریم اُن لوگوں کو بھی ہدایت عطا فرمائے جو مسلمانوں میں اپنی کم علمی سے انتشار پھیلانے کا سسب بن رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. ASSALAM ALEKUM BHAI BHOT ACHEY.BHOT MALOMAT MILE ...ALLAH TALA AP KO SAHAT DAY.....

    ReplyDelete
  6. iqbal bhai AMIL KAMIL ABU SHAMIL POST KARO....WARNA AP K GHAR AKE KHUD PARE LONGA......PLZZ BHAI

    ReplyDelete
  7. Masha Allah
    Allah Ap ki is sai ko qabool farmae.
    bohat hi Mudallal Aur nafa bhaksh tehrer.Jazak Allah

    ReplyDelete
    Replies
    1. حضرت آپ جیسے علماء کرام کی صحبت کا اثر ہے کہ کچھ تھوڑا بُہت لکھ لیتا ہُوں آپ سے دعاوٗں کی خاص درخواست ہے

      Delete
  8. ماشاء اللہ کیا خوب لکھا ہے

    ReplyDelete