bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 14 February 2013

یہ محتاجی نہیں اِک راز ہے۔


میں میلاد النبی صلی اللہُ علیہ وسلم کے حوالے سے لکھنے کیلئے ایک خاکہ اپنے ذہن میں تیار کررَہا تھا۔ لیکن موبائیل پر متواتر  بجنے والی  ٹیونز میرے تخیل کو کسی ایک نقطے پر مرکوز ہُونے ہی نہیں دے رہی تھی۔۔۔ بلاآخر میں نے مجبورہُوکر مُوبائیل کو چارجر سے جُدا کرنے کے بعد اپنے ہاتھ میں اُٹھا ہی لیا۔۔۔۔۔۔۔ السلامُ علیکم۔۔۔۔۔ وعلیکم السلام ۔۔۔ جی میں عشرت اقبال وارثی سے بات کرنا چاہتی ہُوں۔۔۔  جی محترمہ میں حاضر ہُوں فرمایئے۔۔۔۔ آواز سے میں نے اندازہ لگایا کہ،، شائد فون پر کوئی اُنیس یا بیس برس کی طالبہ مُوجود ہیں۔۔۔ اگرچہ بعد میں میرا خیال بالکل غلط ثابت ہُوا۔ جب دُوران گفتگو اُنہوں نے ہمت جمع کرکے کمال جراٗت سے مجھے سچ سچ  بتادیا کہ،، وُہ میری ہم عمر  ہیں۔ اُور ابھی حال ہی میں بیرونِ مُلک سے پاکستان تشریف لائیں ہیں۔ حالانکہ خواتین سب کچھ بتاسکتی ہیں۔ سِوائے اپنی صحیح عُمر کے۔۔۔!

عشرت وارثی صاحب  میں آپکے اکثر کالم ایک خاموش اُور گُمنام قاری کے طُور پر عرصہ دراز سے مُسلسل پڑھ رَہی ہُوں۔۔۔ آپ کے کالم فیضانِ اسم اعظم    کی سیریز میں خاصےاِشتیاق سے پڑھتی رَہی ہُوں۔۔۔ جِس میں مُوجود اکثر وظائف سے مجھے رُوحانی سکون بھی نصیب ہُوا۔ اُور کافی مسائل بھی  اُن وظائف کے توسل سے حل ہُوگئے۔۔۔ لیکن آج ایک سوال میرے ذہن کو پراگندہ کئے جارہا ہے۔اِسلئے مجھے آپ سے ایک بات معلوم کرنی ہے۔ کیا آپ میرے سوال کا جواب دینا پسند کریں گے۔۔۔؟

جی ضرور اگر  میرے کِسی کالم سے آپ کے ذہن میں تشنگی پیدا ہُوئی ہے۔ تُو میں کوشش کرونگا کہ اُس بات کو مزید وضاحت سے آپکو سمجھانے کی کُوشش کروں۔۔۔ میرا خیال تھا کہ وُہ محترمہ مجھ سے کسی رُوحانی مسئلے کے متعلق اِستفسار کریں گی۔۔۔ لیکن بعد میں میرا یہ خیال بھی خیالِ خام ثابت ہُوا۔

میرے حامی بھرنے کے بعد اُنہوں نے اپنی گفتگو کو مزید بڑھاتے ہُوئے کہا۔۔۔دراصل  پاکستان آنے کے بعد سے میرے مُعاشی حالات کافی ابتری کا شِکار ہُوگئے ہیں۔۔۔  اُور میں جتنا اِنہیں سُلجھانے کی کُوشش کرتی ہُوں۔ یہ مزید  بِگڑتے چلے جارہے ہیں۔۔۔  ابھی گُذشتہ دِنوں  میری  ایک چھوٹی بہن کا رِشتہ طے ہُوگیا۔۔۔ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا کہ  ہمارے معاشی حالات کچھ عرصے سے بہتر نہیں ہیں۔ اُور لڑکے والوں کا اِصرار تھا کہ جلد از جلد شادی کی تاریخ  دے دی جائے۔ اسلئے ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا۔ کہ شادی کے اِخراجات کیلئے رقم کا بندوبست کہاں سے کیا جائے۔ ۔۔چند دِن اِسی سُوچ و بچار کی نظر ہُوگئے۔ پھر ایک دِن مجھے خیال آیا کہ آپ نے اپنے ایک کالم میں صلواۃُ الاسرار کے متعلق لکھا تھا۔ کہ اِس نفلی نماز کی برکت سے  بڑے سے بڑا مسئلہ حل ہُوجاتا ہے۔


 لِہذا میں نے چند دِن ہی صلواۃ الاسرار پڑھی تھی کہ،، میری چند فرینڈز نے مجھے  اِس شرط پر مطلوبہ رقم فراہم کردی کہ،، میں جلد از جلد یہ رقم لُوٹادُوں گی۔۔۔ مجھے بھی قوی اُمید تھی۔ کہ مجھے پاکستان میں کوئی نہ کوئی بہتر جاب مِل جائے گی۔ اُور میں وُہ رقم واپس لُوٹا دُونگی۔۔۔ لیکن بہن کی شادی سے فارغ ہُونے کے بعد کافی کُوشش کے باوجود بھی مجھے کوئی مُناسب جاب نہیں مِل پائی۔  جبکہ دُوسری طرف میری فرینڈز کا تقاضہ بڑھنے لگا۔ کہ میں وُہ رقم اُنہیں واپس لُوٹادُوں۔۔۔ لیکن آخر میں کہاں سے رقم لُوٹاسکتی تھی۔  کیوں کہ میرے پاس نہ ہی کوئی جاب ہے اُور نہ ہی کوئی اُور ذریعہ مُعاش۔۔۔ اسلئے میں نے اپنی فرینڈز کو تمام صورتحال بتاتے ہُوئے کہا۔۔۔ کہ میں رقم ادا کردونگی۔ لیکن اُس کیلئے کوئی  ٹائم فریم نہیں دے سکتی۔ کیوں کہ جب میرے پاس کوئی ذریعہ معاش ہی نہیں ہے۔ تو میں ٹائم ٹیبل کیسے دے سکتی ہُوں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ میں خود قرض کے اِس وزن سے جلد از جلد اپنا دامن چُھڑانا چاہتی ہُوں۔

لیکن چند  ہفتے انتظار کے بعد ہی میری اُن دیرینہ فرینڈز کے رَویوں میں مُحبت اُور خُلوص کی جگہ۔۔۔ سرد مہری اُور درشتگی کا عنصر نمایاں ہُونے لگا۔۔ ۔  اُور جب اُنہیں یہ یقین ہُوگیا کہ،، میں فی الحال اُنکی رقم لُوٹانے کی پُوزیشن میں نہیں ہُوں۔ تو اُنہوں نے   میرے ساتھ بے رُخی کا ایسا برتاوٗ برتا۔۔۔ ۔ کہ،، جِسکا تصور میں کبھی خُواب میں بھی نہیں کرسکتی تھی۔ میری جتنی تذلیل کی گئی۔ وُہ نہ ہی میں بیان کرسکتی ہُوں۔ اُور نہ ہی آپ شائد اُس تذلیل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔۔۔ اِن مسلسل پریشانیوں کی وجہ سے  ایک وقت میری زندگی میں ایسا بھی آیا کہ مجھ میں جینے کی خاہش ہی ختم ہُوگئی۔۔۔ کیونکہ میں ذلت کی زندگی سے عزت کی مُوت کو پسند کرتی ہُوں۔ لیکن زندگی نے ایسے دُوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ کہ نہ اپنے پروردیگار کی امانت اِس زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہُوں۔۔۔۔ اُور نہ ہی قرض ادا کرنے کی پُوزیشن میں ہُوں۔

لیکن آج اِن تمام حالات کی وجہ سے میرے ذہن میں ایک سوال بار بار  پیدا ہُورہا ہے۔۔۔ جسکا کوئی جواب میرے ذہن کو مطمئن نہیں کرپارَہا ہے۔ اس لئے آپ سے رُجوع کررہی ہُوں۔ اُور میرا سوال یہ ہے ۔ کہ،،  جب سب کو مال و دُولت اللہ کریم عطا فرماتا ہے۔ تو ہمیں لُوگوں کا محتاج کیوں بنادیا۔؟  میرا مطلب یہ ہے۔ کہ،،  جب ہمیں کسی شئے کی ضرورت ہُوتی ہے۔ تو وُہ شئے ہمیں لوگوں سے کیوں مانگنی پڑتی ہے۔ آسمان سے کیوں ہمارے لئے نازل نہیں ہُوجاتی۔ ۔۔؟

ٹھیک ہے محترمہ ! میں آپکی تمام گفتگو  کا مافی الضمیر سمجھ گیا ہُوں۔ اُور آپکے سوال کی الجھن بھی۔۔۔۔  لیکن میں کوئی عالم فاضل تو ہُوں نہیں کہ ہر سوال کا سب کو تشفی بخش جواب دے پاوٗں۔۔۔۔ البتہ اللہ کریم سے مدد طلب کرتے ہُوئے  میں کوشش ضرور کروں گا۔ کہ آپکی الجھن  کو سُلجھا پاوٗں۔ باقی  بات کو  دِل میں اُتارنے والی ذات تو اللہ کریم کی ہے۔ وُہ جسکے لئے چاہے بات کو سمجھنا آسان کردے۔ میں نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہُوئے تہمید باندھی۔

 میری ناقص معلومات کے مُطابق اللہ کریم نے جب انسان کی تخلیق فرمائی۔ تو یہ تخلیقی عمل صرف ایک مخلوق کی پیدائش کا عمل نہیں تھا۔ بلکہ اللہ کریم نے جب چاہا کہ کوئی ایسی مخلوق ہُونی چاہیئے۔ جس میں فرماں برداری کیساتھ ساتھ نافرمانی کا مادہ بھی موجود ہُو۔ جس میں صرف اطاعت کا جذبہ ہی موجزن نہ ہُو ۔ بلکہ اُس میں نفسانی خواہشات بھی ہُوں۔ اُس میں شعور و آگہی کی نعمت بھی ہُو۔ تو اسکے پاس سفلی جذبات بھی ہُوں۔ اُسکے دِل میں جنت کی خواہش بھی ہُو۔ لیکن جلد پانے کی بے چینی بھی ہُو۔ اُسکے سامنے دُنیا کی رعنائیاں بھی ہُوں۔ تو اُس کے پیشِ نظر آخرت کے انعامات بھی ہُوں۔ پھر ان تمام چیزوں کیساتھ اُس کے پاس عقل کی نعمت بھی ہُو۔ جسکے ذریعے سے وُہ اچھے بُرے میں امتیاز کرسکے۔اُور اتنے سارے معملات میں گھرنے کے باوجود بھی اگر وُہ صحیح فیصلہ کرپائے۔ اُور عقبی کو دُنیا پر فوقیت دے پائے تو یقیناً ایسی مخلوق کے سر پہ ہی اپنی نیابت کا تاج سجانا چاہیئے ۔ چُنانچہ اللہ کریم نے حضرت انسان کو نہایت محبت کیساتھ یہ کہہ کر تخلیق فرمایا۔ کہ بے شک ہم نے انسان کو سب سے احسن صورت پر پیدا فرمایا۔

پھر صرف حضرت انسان کو پیدا نہیں فرمایا۔۔ بلکہ اُنکے لئے زمین میں تاثیر رکھی۔ کہ اناج پیدا کرسکے۔ چاند کی روشنی میں مٹھاس کو پُوشیدہ کردیا۔ تاکہ پھلوں میں لذت قائم رہے۔ سورج کی رُوشنی میں زندگی کی حرارت کو پنہاں کردیا۔ موسموں کو پیدا فرمایا۔ بادل کی ڈیوٹی لگائی کہ وُہ پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاسکے۔ زمین میں استقامت کیلئے پہاڑ پیدا فرمائے۔ درختوں میں جسم کی تازگی کا سامان مُہیا کردیا گیا۔ جسم کو طاقتور رکھنے کیلئے  گوشت کے ذخائر چوپایوں میں رکھ دیئے گئے۔ اُور کچھ جانوروں کو سواری کا ذریعہ بنادیا گیا۔ الغرض صرف حضرت انسان کو نہیں بنایا۔ بلکہ اُسکے لئے ایک مکمل اُور مربوط سسٹم بنایا گیا۔ جس سے کوئی بھی ذی عقل اندازہ لگا سکتا ہے۔ کہ،، اس مخلوق کی تخلیق میں اللہ کریم کی محبت کس درجہ کمال کی ہُوگی۔ جسکے لئے اسقدر انتظام  اُور وسائل پیدا کیئے گئے ہیں۔۔۔

اُور جب اللہ  کریم نے اپنی  اِس خُوبصورت مخلوق کو زمین میں اپنا  خلیفہ بنانے کا اعلان فرمایا تو۔ شیطان نے احتجاج کیا،،، اُور اِس مخلوق کو حقیر جانا ۔ اللہ کریم نے اِسی مخلوق کی محبت میں معلم ملائکہ ابوالجنات شیطان کو اپنی بارگاہ سے مردود کہہ کر نکال دیا۔ پھر فرشتوں نے بڑے ادب سے عرض کیا اے پروردیگار یہ انسان تیری عظمت کا حق ادا نہیں کرپائے گا۔ دُنیا میں جاکر شر پھیلائے گا۔ خُون ریزی کرے گا۔ تو اللہ کریم نے علم اسماء کے نور سے حضرت انسان کو مزید جِلا بخشی۔ اُور فرشتوں  کو یاد دِلایا کہ جو میں جانتا ہُوں۔ وُہ تُم نہیں جانتے۔

اُور  انسانوں کے علاوہ میری کوئی ایسی مخلوق نہیں جسے میں نے نفس و شہوت عطا کی ہُو۔۔۔۔ لیکن یہ بھی صرف میں رَب ہی جانتا ہُوں ۔ کہ اِس نفس و شہوت کے باوجود بھی اِنہی انسانوں میں ایک گروہ  ہُوگا۔ جِسے نفسانی خُواہشات کے مقابلے میں میری رضا درکار ہُوگی۔ جو کھانا، پانی وافر مقدار میں موجود ہُونے  اُور  حاجت و جسمانی طلب کے باوجود اِس لئے نہیں کھائیں گے۔ کہ  اُس  وقت  کھانا میری مرضی نہ ہُوگی۔۔۔۔ حسین چہرے اُور خوشبودار بدن صرف میرے حکم کے باعث اُنہیں  اپنی طرف متوجہ نہیں کرپائیں گے۔ دُنیا کی رعنائیاں اُنکی نظر التفات کی متمنی ہُونگی۔ جب کہ وُہ مال و زر سے بیزار ہُونگے۔ میں کبھی دُولت کے انبار عطا کرتے ہُوئے اُنہیں آزماوٗں گا۔ تو کبھی مفلسی دے کر۔۔۔۔ لیکن میرے وُہ بندے جو خاص میرے ہُونگے  میری ہر آزمائش پر پُورا اُتریں گے۔۔۔۔۔ اِس لئے اے فرشتوں جب تُم اُنہیں دیکھ لو۔۔۔ تُو گواہ ہُوجانا کہ وُہ آزمائش پر پُورا اترنے والے ہیں۔

جواب بُہت آسان  ہے۔۔۔۔ کہ،، خدا قادر مطلق ہے۔ چاہے تو ہر مانگنے والے کو نعمت آسمان سے نازل کردے۔  لیکن پھر اِس بزم دُنیا کی ضرورت کیا تھی۔ خُدا نے جب تمام ارواح کو پیدا فرمایا۔ پیدا فرماتے ہی جنت عطا فرمادیتا۔ نہ کوئی مشقت ہُوتی نہ کوئی آزمائیش۔ لیکن فرشتوں کا سوال ادھورا رِہ جاتا کہ،، بلاآخر اِس انسان میں ایسا کیا ہے۔ ؟ کہ جسکی وجہ سے خلافت کا تاج حضرت انسان کو عطا کیا گیا۔ فرشتوں کے سر پہ نہیں سجایا گیا۔

اسلئے یہاں اپنی کمائی دوسروں کو دینے والا بھی آزمائش میں ہے۔ اُور لینے والا بھی۔ اب کون کیسے دیتا ہے۔ یا نہیں دیتا۔۔۔۔۔ اُور کون لیتا ہے۔ اُور کیسے واپس لُوٹاتا ہے۔ سب کا حساب رکھا جارہا ہے۔ جسے دُنیا میں جتنا کم مِلا ہے۔ اُسکا حساب بھی جلدی ختم ہُوجائے گا۔ اُور وُہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اُس بھیڑ اُور سختی کے دِن جنت میں بھی پہلے چلا جائے گا۔ اُور جو دیکر ذلیل کرتا رَہا۔ حساب تو اُسے بھی دینا ہے۔ لیکن آخر ہے تو وُہ بھی اپنا۔ اسلئے اُسکے  حق میں بھی دُعا کردیا کریں۔۔۔۔۔ لیکن ہمیشہ کی زندگی کا لطف لینے سے قبل۔۔۔۔ امتحان تو دینا ہی پڑے گا۔۔۔۔
یہ وظیفہ محترمہ عاصمہ جی کی طرف سے اُن خاتون کیلئے جو  اس کالم کی وجہ تحریر ہیں

8 comments:

  1. یہ محتاجی نہیں راز ہے"۔ "

    درست فرمایا۔ اللہ تعالٰی ہمیں ھقیقت کا عرفان اور ادراک عطا کرے۔ آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی افتخار بھائی۔۔۔۔ اگر زندگی میں امتحان نہ ہُوتے تو شائد زندگی میں اتنے رنگ بھی نہ ہُوتے اُور زندگی پھیکی پھیکی سی نظر آتی۔ اُور لوگ ان رنگوں کیلئے بھی ترس جاتے

      Delete
  2. Beshak hm aam insan nhi smjh skty ALLAH k raaz or hikmatn ko......

    ReplyDelete
    Replies
    1. ہر انسان اپنی جگہ اپنے تمام تر گناہوں کے باوجود بھی بُہت خاص ہے۔ لیکن حکم یہی ہے کہ خُود کو عام سمجھ کر عام لوگوں کی خدمت میں لگ جاوٗ یہی زندگی کی کامیابی کا راز بھی ہے۔ اُور یہی مطلوب زندگی بھی جو سمجھ جاتا ہے ْ وُہ واقعی خاص ہُونے کا حق ادا کردیتا ہے۔ اُور جو نہیں سمجھ پاتا۔ اپنی زندگی کے اِن ایام کو ضائع کر بیٹھتا ہے۔ لیکن پھو کیا ہُوت ہے۔۔۔۔ جب چڑیاں چُگ جائے کھیت ۔ اِس لئے عقلمند وہی ہے ۔ جو وقت مقررہ ختم ہُونے سے قبل کھیل کے اصول سمجھ جائے۔ اُور کھیل کو قاعدے سے جیتنے کیلئے کھیلے

      Delete
  3. bohat achay... itnay achchay kalim per sab sy pehly mein hee comments dainay lagi thi per Hidyat milay Mehkama Bijli ko k aik dam bijli chali gai...aur hasrat unn ghuncho pe...

    ye haqeeqat hae k ham insaan kisi ki madad ker k apny aapko kuch alag hee samjhnay shooroo ker daitay hein.

    aur aaj kal ye hamaray muashray ka mamool ka rawaiyya hae...
    per dua hae k ALLAH KAREEM dainay wala hath banaey aur har tarah k takabber sy mahfooz rakhay,AAMEEN

    JAZAKALLAH... itna acha likhnay per

    always duago

    ReplyDelete
  4. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  5. Thnx g mri bhejhi hui dua add ki aap ne....

    ReplyDelete