bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Wednesday 27 February 2013

گیلی مٹی عائشہ چوہدری کے قلم سے


تمہیں یاد ہے۔۔۔۔؟  پچھلے برس کے وعدے ۔جب پرندے  اپنے گھونسلوں کو لوٹ رہے تھے۔ جب  سارے دن کی مسافت کے تھکے ہارے یہ پرندے اپنے گھونسلوں میں جا چکے تھے۔  تبھی تم نے مجھ سے کہا تھا کہ،، ان پرندوں کا بھی تو اپنا خود کا  گھونسلہ ہوتا ہے۔ پر میرا  گھر کہاں ہے۔۔۔؟   تم نے میری طرف  خوفزدہ  اور بے اعتبار  نظروں سے دیکھا۔ تمھارے لہجے کی اُداسی اُور  اُس کی مٹھاس  گزشتہ برس کے  عہدو پیماں  اب سوچتا ہوں۔  تو سب ایک  خواب  لگتا ہے  ۔کتنا اندھا یقین  تھا تمہارے وعدوں پر!  تمیں  خود ہی اپنی پر خلوص محبت پر تم خود کتنی نازاں تھی۔  مگر پھر کیا ہوا۔۔۔؟  تمہاری سب آرزوں ،تمہارے سارے خواب ہوا ہو گئے۔ ریت کے ذروں کی مانند بکھر گئے۔ غرور عشق کا وہ بانکپن ضبط احتیاط  کےگہرے  پانیوں کی نظر ہو گیا۔  اور تم شک  اور تحفظات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔  جو کچھ بھی لوح دل پر رقم تھا۔  سب حرف غلط کی  طرح مٹ گیا۔

  تم میری بات مت کرو۔ میں تو  پہلے ہی  اندیکھی راہوں کا باسی تھا۔ جس پر  عذاب و آگہی کا ناگ  کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔  میں جو ابن آدم تھا۔  بنت حوا کی ازلی  تقدیر سے باخبر تھا۔  اور جانتا تھا۔  یہ  دونوں تقدیر کی دلدل میں پھنس کر  ہمشہگ کائنات کی  بنائی ہوئی انسانی چکی  کے درمیاں آکر  پستے چلے آرہے ہیں۔ میں خود خوفزدہ ہو جاتا تھا ۔ جب تیری آنکھوں میں  تیرے لہجے میں تیری روح میں  محبت کی بڑہتی پھولتی نازک کونپلیں  دن بدن  پھلتے پُھولتے دیکھتا تھا۔ جب یہ نازک کونپلیں  تقدیر کی چکی میں پسی جائیں گیں تو کیا ہو گا۔۔۔۔؟ 

میں اسی خوف سے  کچھ نہ  کہہ پایا تھا تب۔   کہ،، کہیں تم بدگمانی  کا شکار نہ ہو جاؤ۔  میں تمہیں بتانا چاہتا تھا  زندگی کی تلخ  حقیقت۔   بنجر خواب   بےضمیر انسانی  معا شرے کی رسموں رواج میں لپٹی ہوئی جکڑی ہوئی  بنت حوا ۔ تمہاری سوچوں سے تمہاری محبت کی نازک کونپلوں سے بہت مختلف  بنت حوا  میں نے کوشش کی  کہ،، تمہیں دِکھا سکوں۔ وُہ بنت حوا جسے خواب دیکھنے کا حق تو حاصل تھا ۔ پر اُن پر حکمرانی کا 
حق حاصل نہیں تھا۔ 

مگر میں کچھ بھی نہیں کہہ پایا کچھ بھی تو  نہیں کر سکا۔۔۔۔!   شجر محبت کی  چھاؤں میں بیٹھ کر  تمہارے لئے  درد و فراق کے   صحرا  کا تصور شاید ممکن ہی نہ تھا۔  اُور آج جب میں  تم سے ملنے آیا ہوں۔ تو مجھے تمہاری اُداس آنکھوں کا وہ خوف وہ بے یقینی یاد آرہی ہے۔ جب تم نے  گھروں کو جاتے پرندوں کو دیکھ کر اپنا گھر نہ ہونے کا گلہ کیا تھا !!! اُور اب تمہیں اس شہر خاموشاں میں منوں مٹی کے اندر   ڈالتے ہوے  سوچ رہا  ہُوں۔۔۔ اے کاش بنت حوا کی بیٹی تو محبت کو نازک کونپلوں پر  اپنے خواب بنُنا چُھوڑ دے ۔تا کہ پھر کوئی ابن آدم تیرے خوابوں کی تذلیل نہ کر سکے۔ تیری کونپلوں کو مسل کر نہ رکھ سکے۔  

..............................................
عائشہ چودھری
- See more at: http://www.magpaki.com/2013/02/blog-post.html#sthash.wyeu3Ysr.dpuf


2 comments:

  1. بہت شکریہ میری تحریر شیر کرنے کا

    ReplyDelete
  2. it mine pleasuer...........and will waiting for more aricle of your,s

    ReplyDelete