bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday 1 March 2013

خفیہ شادیوں کا انجام



محترم قارئین السلامُ علیکم

پہلے باخبر رہنے کیلئے میں باقاعدگی سے اخبارات کا مُطالعہ کیا کرتا تھا ۔ مگر جب سے مُلک کے حالات خانہ جنگی اور مُعاشی بھوک کی جانب محو سفر ہوئے ہیں اخبارات پڑھنے کی تاب ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ جب اخبار اُٹھاؤ یہی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کسی شخص نے بھوک بیروزگاری سے تنگ ہوکر اپنے بچوں کی گردن پہ چُھری پھیر دی۔ اور خود کو بھی ہلاک کرلیا۔ یا کہیں چند ٹکوں کی خاطر چوروں نے تمام گھر کے مکینوں کو قتل کر ڈالا، تو کہیں کوئی بچی اپنے ماں باپ کے چہرے پہ سیاہی مل کر گھر سے بھاگ گئی۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اب جوں جوں عمر اپنے اختتام کی جانب یا یوں کہیئے کہ انجام کی جانب بڑھ رہی ہے مجھ جیسے حساس دل انسان کی ہمت ایسی خبروں کی متحمل نہیں رہی-

چند دن قبل  ایک خبر دیکھی تھی جس میں ایک سلیبرٹی کی خفیہ شادی کا تذکرہ چل رہا تھا خبر سے تو میں نظر چُرا گیا لیکن دِل اور دماغ سے نظر کیسے چُراتا کہ میرے اختیار کی بات نہیں تھی کہ طبعیت میں عجیب سی بے چینی پیدا ہوگئی ۔لوگ شائد ایسے واقعات سُن یا پڑھ کر انجوائے کرتے ہوں مجھے ہمیشہ ایسی تکلیف محسوس ہوتی ہے جیسے یہ واقعہ میری فیملی میں کسی کو پیش آگیا ہو بہرحال میں بات کررہا تھا سلیبرٹی کی مبینہ خفیہ شادی کی، اگرچہ یہ معاملہ عائشہ کی طلاق کیساتھ اب بظاہر ختم ہوگیا ہے۔ اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی سلیبرٹی کی خفیہ شادی کا انکشاف ہُوا ہو بلکہ آئے دن سلیبرٹیز کی خفیہ شادیاں منظر عام پر آتی رہتیں ہیں۔

اور اب ان سلیبرٹیز کی دیکھا دیکھی عوام الناس میں بھی یہ مرض پیدا ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بیشمار خرابیاں پیدا ہوتی چلی جارہی ہیں نکاح سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے( اگرچہ خفیہ شادی سے بھی نکاح قائم ہوجاتا ہے) لیکن آپ یہ بھی غور کیجئے کہ نکاح اور زنّا میں ایک واضح فرق یہ بھی ہے کہ نکاح اعلانیہ کیا جاتا ہے جبکہ زنّا کو چُھپایا جاتا ہے-

اور نکاح کے اعلان کا حکم ہمیں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے دیا ہے اب اگر شادی کو چھپایا جائے تو اِسے آپ ہی کہیے کیا یہ اس بات کا اعتراف نہیں کہ دِل میں بد نیتی ہے چُور ہے یا پھر یہ نکاح سُنت کو پورا کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنی جنسی بھوک کو مٹانے کیلئے کیا گیا ہے۔

پھر اِس نکاح کی ایک قباحت یہ بھی ہے ایسی شادی کے بعد عورت کو اس کی مرضی کیخلاف مانع حمل ادویات استعمال کرائی جاتی ہیں اور اگر بالفرض پھر بھی حمل رہ جائے تو ایسے بچوں کو دُنیا میں نہیں آنے دیا جاتا بلکہ حمل ساقط کروا دیا جاتا ہے جو کہ ایک بُہت بڑا گُناہ ہے

ذرا سوچیئے یہ لوگ ایک سچ کو چُھپانے کیلئے کیا کیا گُناہ نہیں کرتے اللہ کریم نے عورت کی فطرت میں ممتا رکھی ہےوہ زیادہ عرصہ تک مرد کی اس فرمائش کو پورا نہیں کرسکتی کہ بچّہ نہ جنّے ۔۔۔ اُسے جو تخلیق کا حق اللہ کریم نے دیا ہے۔ وہ اُس سے محروم رہے ۔بالآخر یہی بات اکثر ناچاقی کا سبب بھی بن جاتی ہے ۔اور مجبوراً عورت طلاق لینے پر مجبور ہوجاتی ہے یا مرد اپنی جان چُھڑانے کیلئے اُسے ناحق طلاق دے دیتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں اس گُناہ میں مرد کا حصہ زیادہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس شادی کا اظہار کردے تو بُہت سے گُناہوں سے بچا جا سکتا ہے۔

اور پھر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دُنیا مکافات عمل کی جگہ ہے کل اگر کوئی ہمارا اپنا اس مصیبت میں گرفتار ہوگیا تو ہم کسے قصوروار ٹہرائیں گے-

اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو نوجوان شادی سے پہلے دودھ کی نہریں نکالنے کا عزم رکھتے ہیں ۔جب حقیقی ذمہ داری نِبھانے کا موقع آتا ہے تو اُنکے دعوے بودے ثابت ہوتے ہیں۔ اور پھر جب ناکامیاں پے در پے مصیبت کے پہاڑ کھڑے کر دیتی ہیں۔ تو یہی نوجوان اپنی ذمہ داریوں سے مُنہ چُرا کر یہ کہتے نظر آتے ہیں۔ کہ،، ہم سے والدین کی نافرمانی سرزد ہوگئی ہے۔ اُور پھر یہ اس کا ازالہ اپنی شریک حیات کو طلاق کا طوق پہنا کر کرتے ہیں ۔اگر یہ نوجوان اپنے دعوے میں واقعی سچے ہوتے تو اِنہیں والدین کی اطاعت اور فرنبرداری کا جذبہ شادی سے پہلے آتا۔۔۔ ناکہ کسی لڑکی کی زندگی کو تباہ اور برباد کرنے کے بعد۔۔۔؟  ہمارے معاشرے میں کنواری بچیوں کے لئے اچھے رشتہ وافر مقدار میں موجود نہیں تو اب طلاق یافتہ خاتون سے کون نکاح کی جرات رندانہ کرے گا۔ اور چلیں مان لیتے ہیں کہ اُس خاتون کی شادی اپنی عمر سے بیس تیس برس سے زائد کسی مرد سے ہو بھی گئی تو اب تا حیات خفیہ شادی کے طعنے اُسکا مقدر ہونگے ۔کم عمر بچیاں تو کانچ کے شیشے کی مانند ہوتی ہیں۔۔۔ اِسی واسطے سمجھدار والدین اپنی بچیوں کی بہتر پرورش کیساتھ ساتھ بہترین نگہداشت بھی کرتے ہیں ۔میری زاتی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی صورتحال اگر پیدا ہو جائے تو والدین کو کمپرومائس کرنا چاہیے شادی میں بَچوں کی پسند کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ اور اگر رشتہ دینے میں کوئی قباحت موجود نہ ہو۔ تو اُنکی پسند کو اولیت دی جائے اس سے ہمارے معاشرے میں بہتری پیدا ہوگی بچوں میں خود اعتمادی بھی  بڑھے گی۔ اور شائد ایسے واقعات کی روک تھام بھی۔ 

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

6 comments:

  1. میرے اس کالم کی وجہ سے ایک سائٹ پر ہنگامہ بپا ہُوگیا تھا کیونکہ سائٹ کے مالک کو لگا تھا کہ شائد یہ تحریر میں نے اُنہیں بے نِقاب کرنے کیلئے لکھی ہے۔ حالانکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بعد میں موصوف نے میری پوسٹ ہی ڈیلیٹ کردی۔ اسلئے آج وہاں عنوان تو موجود ہے لیکن تحریر آج بھی غائب ہے۔۔۔۔
    اللہ کریم ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ اُور اپنی اصلاح کی توفیق بھی۔

    ReplyDelete
  2. Mra khyal ha aesi shadi ki permision hi nhi hni chaheay jis mein waldain shamil na hn ... Ye qanoon bnaya jana chaheay phr shyd kch bhtri aa jae.

    ReplyDelete
  3. اسے کہتے ہیں "نبؔاض قوم"۔

    اس بڑھتے ہوئی بیماری نے ہماری قوم اور معاشرے میں جڑیں پکڑ لی ہیں۔ آپ نے ایک حقیقت کو بیان فرما دیا ہے۔ یہ تحریر بہت سوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئیے کافی ہے۔

    ReplyDelete
  4. assalam ale kum bhai bhot khob........................

    ReplyDelete
  5. Assalam-o-alyekum
    Ishrat bhai aap nay sahi kaha k larka larki ki pasand ka khayal rakhna bohat zarori hai. verna bad main bahat masail peda hotay hain our aksar oqat nobat talaq tak pohanch jati hai.ALLAh hamy apnay bachon ki achchi tarbiyat karnay ki tofeeq ata farmayay our unhain naik banay oua har fitnay our shar say ham sab ko mehfoz rakhay aamen.

    ReplyDelete
  6. agar sahi deeni taleem mil jaey tu aisi khufia shadion ki noobat hee nahi aaye gi...aik lihaz sy tu khufia shadi gunah kerny sy tu behter hae.
    hamary yahan sirf hindowana tarz e moashrat ki waja sy jaiz rishtay ko manzr e aam per laanay sy loog geriaza hotay hein warna Aarboon mein tu aik sy ziada shadian khulay aam hoti hein aur bvian mil jul ker rehti hein... per Pakistan mein naam nihaad hindowana social values ko Deen sy berh ker ahmiyat di jati hae kyoon k yahan per pasand ki shadi,dosri shadi ko aisay pesh kia jata hae k jaisay bohat bara gunah hae...

    tu agar family,parents apnay bachon ko aitmaad mein le ker itna ikhtiayr dein k jab wo kisi ko pasand karein tu unk sath share ker sakien aur parents ko bhi chaheay k apny bachon sy keh dein k agar family values k against wo kisi ko pasand kerein gy tu ye qabl e qabool nahi hoga...warna unki pasand hamari pasand

    ye meri zati raey hei aur zati tajraba hae,kyoon k mei ne apni family mein yahi rules deay hein aur ikhtiayr dia per ye bhi sach hae k itna aitmad dainay k baad kisi ne apni pasand sy shadi kerny k leay nahi kaha aur mery faisalon per Aameen kaha...ALHAMDULILLAH...

    ALLAH KAREEM parents ko apny bachon ki sahi Islami tarbiyat kerny ki rofeeq dy,Aameen

    ReplyDelete