bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday 29 March 2013

اپنی پہچان دکھانے کا اک طریقہ ہے۔


آج نجانے کیوں۔۔۔؟ مجھے بابا وقاص سے اپنی پہلی مُلاقات بُہت یاد آرہی ہے۔ اُور میں نے زندگی کے تجربات سے یہی سیکھا ہے۔ کہ ہماری زِندگی میں کوئی بھی بات،کوئی بھی عمل بے مقصد ہرگز نہیں ہُوتا۔ہر عمل ہر بات میں کوئی نہ کوئی اِشارہ ، کوئی نہ کوئی پیغام ضرور چھپا ہُوتا ہے۔ اُور یہی اِدراک کا آئینہ ہُوتا ہے۔ جِس کے فہم سے انسان ماضی سے سبق سیکھتا ہے۔ اُور کبھی مستقبل کی  پُراَسرارجھیل میں جھانک کر آگہی کے راز جان لیتا ہے۔

جِس دِن میں پہلی مرتبہ بابا وقاص کے گھر میں بیخودی کے عالم میں بغیر اجازت داخل ہُوا تھا۔۔۔ وُہ دِن میری زِندگی کا نہایت عجیب وغریب دِن تھا۔ ایک انتہائی پراسرار دِن جِس  دِن میں نے کشف کی طاقت بھی دیکھی تھی۔ ایک الگ دُنیا بھی، انتہائی حسین مخلوق کو بھی دیکھا تھا۔ تو زِندگی کے بیش قیمت راز بھی جانے تھے۔ اُس دِن بابا وقاص میرا نام سُن کر کافی دیر تک قہقہے بھی بُلند کرتے رہے تھے۔ تو کسی کے جانے پر بُہت غمگین بھی تھے۔

میں چُونکہ نووارد بھی تھا۔ اُور شائد بِن بُلایا مہمان تو نہیں تھا۔ لیکن حیران و پریشان ضرور تھا۔ اِسلئے میں سار وقت خاموش تماشائی کی حیثیت سے اُس بزم میں ضرور شامل رَہا۔ جو میرے لئے باقاعدہ پَلان کیا گیا تھا۔۔۔۔۔ بابا وقاص احمد کے بقول وُہ   میرے آنے سے قبل  بُہت مَلول تھے۔ کیونکہ آج اقبال کراچوی اُنہیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔۔ بابا احمد وقاص گُذشتہ آٹھ برس سے اقبال کراچوی کی تربیت فرمارہے تھے۔ لیکن نتیجہ وہی نِکلا جو جبرائیل علیہ السلام کے سامری کی پرورش کے بعد نِکلا تھا۔۔۔۔۔ یعنی اقبال کراچوی نے بھی بابا وقاص احمد سے سب کچھ سیکھنے کے باوجود کچھ نہیں سیکھا۔۔۔۔ اُور منزل کی تلاش میں اپنے حساب اپنی پسند کے رستے کھوجنے میں منہمک ہوگیا۔

بابا وقاص صاحب نے اپنی زندگی بھر کی کمائی۔ اپنا آستانہ، اپنا تجربہ، اپنی ریاضت سب کچھ اقبال کراچوی کو سُونپ دی تھی۔۔۔ بس  ایک آستانے کا نام نہیں بدلا تھا۔ اُور اقبال کراچوی کو لگتا تھا۔کہ،، آستانے کے پُرانے نام کی وجہ سے اُسکی شناخت کہیں کھو سی گئی ہے۔۔۔وُہ اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا۔ خُود کو زمانے والوں سے منوانا چاہتا تھا۔۔۔۔ لیکن آستانے کے پُرانے نام کی وجہ سے اُسکی کوئی شناخت نہیں بن پارہی تھی۔۔۔


جبکہ بابا وقاص احمد اِشارۃ اُسے گاہے بگاہے یہ سمجھانے کی کوشش کررہے تھے۔کہ،، بیٹا میں زندگی کی آخری سرحد پر صرف وصال یار کی خاطر وِسل کا منتظر ہُوں۔۔۔ نجانے کب وِسل بج جائے۔ اُور مجھے کھیل چھوڑ کر جانا پڑجائے۔۔۔۔۔ لیکن میرے جانے کے بعد تُمہارا ہی انتخاب کیا جائے گا۔۔۔ اِس بات کی میں ہرطرح سے ضمانت دینے کیلئے تیار ہُوں۔۔۔۔ لیکن اقبال کراچوی کے گرد جمع ہُوتی بھیڑ اُسکے نفس کو ایک ہی بات سمجھانے میں لگی تھی۔۔۔۔کہ،، جب تک تُم اپنا نشیمن بابا وقاص سے جُدا نہیں کروگے۔۔۔ کوئی تمہیں نہیں پہچان پائے گا۔۔۔۔ یہی جذبہ اُس دِن اُسے بابا وقاص صاحب سے بُہت دُور  ایک ایسے راستے پر لے گیا۔ جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہیں تھی۔۔۔ بابا صاحب نے بتایا تھا۔ کہ،، وُہ آج  اقبال کراچوی کے جانے پربُہت رُوئے ہیں۔۔۔ اُنکا کہنا تھا کہ،، وُہ اقبال کی واپسی کی دعا کررہے تھے۔ اقبال کراچوی تو لُوٹ کر نہیں آیا۔۔۔ لیکن عشرت اقبال وارثی ضرور آگیا۔۔۔ جو میرا ہم نام ہے۔۔۔۔ اِس بات پر وُہ بُہت دیر تک قہقہے لگاتے رہے۔۔۔


پھر سرگوشی کے انداز میں مجھ سے فرمانے لگے۔۔۔ قُدرت کا انتظام کتنا اعلی ہے۔۔۔؟؟ جسکا حصہ ہُو۔ وُہ آکربغیر محنت بھی  وصول کرلیتا ہے۔حالانکہ ہم جِسے اُسکا مستحق سمجھ رہے ہُوتے ہیں۔۔۔ وُہ سمندر کنارے رِہ کر بھی پیاسہ ہی لُوٹ جاتا ہے۔۔۔ میں نے اُس کمبخت کیلئے کیسے کیسے خُواب دیکھے تھے۔ اپنی عمر بھر کی ریاضت۔ جمی جمائی دُکان و گاہک اُسے سُونپنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ مگر وُہ سائن بُورڈ پر اَٹک کر رِہ گیا۔


بابا وقاص احمد سے میری مُلاقات شائد ایک برس رہی ہُو۔جِس کے بعد وُہ اِس دُنیا سے اپنے مالک حقیقی کی جانب کُوچ کرگئے۔۔۔ لیکن اُنہوں نے زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا کر جو علم حاصل کیا تھا۔۔۔ دھیرے دھیرے، جام پر جام کی طرح میرے حلق سے سینے میں یہ کہہ کر انڈیلتے رہے۔ کہ،، یہ بخیلوں کی دُنیا ہے۔ یہاں کوئی کسی کو کچھ سکھانے کو تیار نہیں ہوتا۔ لیکن تُم ایسا مت کرنا۔ کہ،، بخیلوں پر انعامات کی بارش نہیں ہوتی۔۔۔ وُہ خالی برتن کی طرح ہُوتے ہیں۔ جو شُور تو بُہت مچاتے ہیں۔۔۔لیکن اُن خالی برتنوں سے پیٹ کسی کا نہیں بھرتا۔۔۔


بابا وقاص احمد کے وِصال کے کئی برس بعد۔میں نے ایک دِن صدرکراچی میں ایک شخص کو فٹ پاتھ پر طوطوں کے ذریعے  پانچ پانچ روپیہ میں ٖفال نِکالتے دیکھا۔مفلسی، تنگدستی، اُور بدحالی کی جیتی جاگتی اِس تصویر نے اپنے قریب ایک بورڈ آویزاں کیا ہُوا تھا۔۔۔معلوم ہے اُس بورڈ پر کیا لکھا تھا۔ جس نے مجھے چلتے ہُوئے اُسکی جانب متوجہ کردیا تھا۔ اُس بورڈ پر اُس نے اپنا نام لکھ رکھا تھا۔۔۔ پروفیسر اقبال کراچوی جبکہ نذدیک سے گُزرتے لُوگ بھیڑ کی صورت میں گُزرتے ہُوئے اُسے صرف حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ وُہ اپنی الگ پہچان بنانے میں واقعی کامیاب ہوگیا تھا۔ لیکن ایک ایسی پہچان۔ جسکی وجہ سے اُس کے حصے میں صرف ایک چیز آئی تھی۔۔۔۔ اُور وُہ چیز تھی حقارت!!!

اپنی پہچان دکھانے کا اک طریقہ ہے

نہ صفتِ قلندر ہے نہ “ وَضعء “ مومن
ظاہر میں تو غازی ہے لا باطنء مومن

درویش کی کُٹیا سے منہ پھیرے کھڑا ہے
جو شاہ کے دربار کا سگ بَن کے کھڑا ہے

اپنی پہچان دکھانے کا اک طریقہ ہے۔

8 comments:

  1. Asslam-o-alykum
    khud parasti our ana insan ko tabah kar dayti hai insan hawa main urnay kay chakkar main zameen per chalnay say bhi mehroom ho jata hai
    ALLAH ham sab ko dikhaway, ana parasti our hr sheytani chal say mehfoz rakhay.
    MERAY BHAI ALLAH AAP KO HAMEYSHA KHUSH RAKHAY.
    AMEEN SUMMA AMEEN.

    ReplyDelete
  2. Asslam-o-alykum
    Bhai agli qist kab aa rahi hai.
    Tazkira aik pari ki Muhabbat ka ?

    ReplyDelete
    Replies
    1. انشا اللہ اگلی قسط جلد ہی لکھ دُونگا۔۔۔۔۔ویسے آپس کی بات ہے۔
      اگر ذرا سا غور فرماتے۔۔۔ تو یہی تذکرہ۔۔ میں اُس عنوان سے بھی لکھ سکتا تھا۔۔۔ کیونکہ کردار تو سب وہی ہیں نا۔۔۔؟؟

      Delete
  3. As salam o alykam.
    Bila shuba bary hi badbakht hoty hy essy log.
    Boht alla pygam .

    ReplyDelete
  4. Asslam-o-alykum
    Theek kaha aap nay 1 qist ka izafa ho jata.

    ReplyDelete
  5. SALAM BHAI BOHAT ZABARDAST ...SHOHRAT KA BHOKHA LOGO KA LEA BOHAT ACHA MASSAGE HA.......... ALLAH AP KO AJAR DA..........AMEEN

    ReplyDelete