قاف کا عنصر پانی ہے۔ دِل پانی کی طرح نرم ہے
لام کا عنصر خاکی ہے۔ اِ سلئے تمام خُواہشات کو
بسا اُوقات خاک میں مِلا دیتا ہے۔
ب کا عنصر بادی ہے۔ یعنی خاک ایک دِن ہَوا کی
صورت اختیار کرجاتی ہے۔
یُوں قلب کے تینوں حرف اپنی اپنی جگہ اِک اَٹل
حقیقت کا سبق پڑھاتے ہیں۔
حقیقتِ قلب کیا ہے۔۔۔؟
قلب کا
عربی میں معنی ہیں۔ حالت بدلنے والی شئے۔ اِس لئے مثل مشہور ہے کہ،، قلب منقلب
ہوتا ہے۔ کبھی فقیر کبھی بادشاہ بھی ہُوتا ہے۔ یہ لطائف کی آماجگاہ ہے۔ کبھی ایسا
بھی ہُوتا ہے۔ کہ جو ہمیشہ ساتھ رہے۔ وُہ اِسے نہیں بھاتا۔ اُور کبھی ایسا بھی
ہُوتا ہے کہ جِسے دیکھا بھی نہ ہُو۔۔۔ یہ اُسکے لئے بھی مچلنے لگتا ہے۔۔۔ کبھی سخی
کی صورت میں جلوے بکھیرنے لگتا ہے۔۔۔ تو کبھی بخل میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
کبھی رُلاتا ہے۔۔۔۔ تو کبھی ہنساتا ہے۔۔۔ کبھی
راحت کا احساس۔۔۔ تو کبھی غم کی آماجگاہ۔۔۔ کبھی احساسِ ٖ فخر سے سرشار۔۔۔ تو کبھی
نِدامت کے آنچل میں خود کو چھپائے ہُوئے۔۔۔۔ نہ جانے یہ دِل اگر نہ ہُوتا۔۔۔ تو کیا ہُوتا۔۔۔۔ محبت کی بزم
یہی سجاتا ہے۔ امید کے دیئے یہی جگاتا ہے۔۔۔ کبھی پھول کی مانند شگفتہ تو کبھی سنگ
کی مِثل سخت۔۔۔۔ کبھی جھرنے کی طرح
لطیف۔ تو کبھی خار کی طرح ایذاگر۔۔۔
یہ جس سے سناشائی کرلے ۔ اُسی کے رنگ میں رنگ
جاتا ہے۔۔۔۔ اِسی کے ٹوٹنے سے شاعر پیدا ہُوتے ہیں۔۔۔۔ اِسی کے مہمیز دینے سے ادیب
جنم لیتے ہیں۔۔۔۔۔ اِ سے ٹھکرایا جانا پسند نہیں۔۔۔۔ لیکن اسکی شکستگی اِسے انمول
بنادیتی ہے۔۔۔ یہ ٹوٹ جائے تو دُنیا بے رنگ ہُوجاتی ہے۔۔۔۔ اُور جب یہ خوش ہُوتا
ہے۔ تو بچے کی طرح ہمکنے لگتا ہے۔
کبھی یہ چاند تاروں سے کھلینے کی ضد کرنے لگتا
ہے۔۔۔۔ تو کبھی خود کو اتنا حقیر جان لیتا ہے۔۔۔۔ کہ اپنی قیمت مٹی کے دھیلے سے کم
جاننے لگ جاتا ہے۔۔ جو اسکی قدر کرتے ہیں۔۔۔ وُہ سنور جاتے ہیں۔۔۔۔ جو بے قدری
کرتے ہیں بہک جاتے ہیں۔۔۔۔ یہ سکڑے تو مُٹھی میں آجائے۔۔۔ یہ پھیلے تو آسمانوں کی
وسعت کو خود میں سمیٹ لے۔۔۔۔ جو اسکے راز
جان جاتے ہیں۔۔۔ وُہ اَمر
ہُوجاتے ہیں۔۔۔ جو نہیں جان پاتے وُہ مٹی میں مِل جاتے
ہیں۔
0 comments:
Post a Comment