گُذشتہ سے پیوستہ ۔
یوسف نے بتایا کہ،، الحمدُللہ وُہ اکثر سیدنا غوث اعظم (
رحمۃ اللہ علیہ) کا درس سننے کیلئے جایا کرتا ہے۔۔ شیخ فرید نے یوسف کو پیشکش کی
کہ،، ہم لُوگ بھی مسافر ہیں ۔ اُور اپنے
مُرشد کریم کے ہمراہ بیت المقدس کی زیارت کیلئے جارہے ہیں۔ چند دِن
کیلئے تبوک میں ٹہرے ہیں۔ اگر وُہ چاہے تو ائیک رات کیلئے ہمارے ساتھ مسجد کے
مسافر خانے میں ٹہر سکتا ہے۔۔۔ یوسف کو شیخ فرید کی یہ تجویز بُہت پسند آئی۔۔۔
لہذا وُہ گھوڑے کی لگام تھامے انکے پیچھے پیچھے چل پڑا۔۔۔
اَب مزید پڑھ لیجئے۔۔
شیخ فرید کی ایما پر شیخ محمود نے اَبو ریحان کیلئے بہترین ضیافت کا انتظام کرڈالا۔۔۔۔ ابو ریحان
یوسف کھانے کا انتظام دیکھ کر بُھونچکا رِہ گیا۔ اُسے اُمید نہیں تھی کہ،، پردیس
میں اُسے اتنی زبردست پزیرائی حاصل ہُوسکتی ہے!!!
کھانے کے درمیان میں شیخ محمود نے ابو ریحان کو مخاطب کرتے ہُوئے اپنے مطلب
کی بات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہُوئے استفسار کیا۔ یُوسف بھائی کچھ بغداد کے
متعلق بھی بتائیں نا!۔۔۔۔
ابو ریحان کھانے کے دُوران بغداد کے قصے سُنانے لگا۔۔۔ لیکن
کھانے کے اختتام تک بھی یوسف نے وُہ تذکرہ نہیں چھیڑا۔کہ،، جِسے سُننے کیلئے شیخ
محمود کے کان بے چین تھے۔ بلاآخر شیخ محمود سے نہ رَہا گیا تو اُس نے خُود ہی
تذکرہ چھیڑتے ہُوئے سوال کیا۔ یوسف بھائی سُنا ہے کہ،، سیدنا غُوث الاعظم (رحمۃ
اللہ علیہ) نے اُولیا کی گردن اپنے قدم کے
نیچے کہی ہیں۔ کیا یہ بات سچ ہے۔۔۔؟؟؟ ابو یوسف کے چہرے پر سیدنا غُوث الاعظم کا
ذکر سُن کر عقیدت و احترام کے رَنگ بکھر گئے۔ جسکی وجہ سے ابو ریحان نے پُرجُوش لہجے میں جواب دیتے ہُوئے کہا۔ بے شک
آپ نے فرمایا ہے اُور بجا فرمایا ہے۔ بلکہ اَب تو اُولیا کرام کی تصدیقات کے بعد
کسی کو بھی اِبہام باقی نہیں رَہا ۔
کیا آپ ہمیں مکمل واقعہ سُنا سکتے ہیں۔۔؟؟؟شیخ محمود نے
شُوق سے دریافت کیا۔۔۔۔۔ ہاں ہاں میرے بھائی کیوں نہیں۔۔۔۔ جِس وقت آپ نے یہ جُملہ اِرشاد فرمایا تھا۔ بے
شُمار رِجال الغیب اُور اُولیا کرام کی کثیر تعداد آپ کی خِدمت میں حاضر تھی۔۔۔ اُور جب آپ نے یہ
جملہ اِرشاد فرمایا تو سب سے پہلے علی بن
ہیتی رحمۃ اللہ علیہ نے آگے بڑھ کر آپ کے
قدم مبارک کو حقیقت میں اپنی گردن پر رَکھ لیا تھا۔ اُور اُسکے بعد اُولیاٗ کرام تصدیقات فرمانے
لگے تھے۔ اَبو ریحان یوسف کی آواز شوقِ
وفور سے بُلند ہُونے لگی تھی۔۔۔۔۔ یُوسف
بھائی کیا آپ وُہ جملہ دُھرا سکتے ہیں۔۔۔؟شیخ محمود نے استفسار کیا۔ جی کیوں نہیں۔
آپ نے فرمایا تھا۔کہ،، میرا قدم تمام اُولیا کی گردن پر ہے۔۔۔۔ کچھ توقف کے بعد آپ
نے اِس جملے کو پھر دُھراتے ہُوئے اِرشاد فرمایا تھا۔کہ،، میرا یہ قدم تمام
اُولیاٗ کی گردنوں پر ہے۔ اُور اُسکی گردن پر بھی ہے۔ جو عنقریب سُوروں کا رِیوڑ
چَرائے گا۔
شیخ محمود کے لئے یہ جُملہ بالکل نیا تھا۔۔۔ یوسف بھائی کیا
آپکو کسی نے اِس اِضافی جملے کی بابت بھی کچھ بتایا تھا۔۔۔؟؟؟ شیخ محمود نے حیرت
سے استفسار کیا۔۔۔ جی بھائی! میں نے ایک بُزرگ سے اِس اِضافی جملے کے متعلق
دریافت کیا تھا۔۔۔ جسکے جواب میں اُن بُزرگ نے فرمایا تھا کہ،، تمام دُنیا کے
اُولیا اپنی گردنوں کو اِس حکم کے بعد جُھکا دیں گے۔ لیکن عنقریب کوئی بدنصیب اِس
قُول مُبارک کو جھٹلانے کی جسارت کرے گا۔ اُور وُہ بدنصیب شخص ایک عظیم اِمتحان میں مُبتلا کردیا
جائے گا۔ ابو ریحان یُوسف نے تاسف بھرے لہجے میں جواب دیا۔
تو کیا آپ کو اُن بزرگ نے یہ نہیں بتایا کہ،، وُہ بدنصیب
انسان کُون ہُوگا۔۔۔ اُور اُسکا انجام کیا ہُوگا۔۔۔ اُور سیدنا غُوث الاعظم نے
اپنی کشفی و رُوحانی طاقت کے ذریعے سے اُس منکر کے اِختیارات سلب کرکے اُسے سیدھی راہ کیوں نہ دِکھادی۔۔۔ اُور جہاں کروڑہا
اُولیائے کرام آپکی سیادت کو قبول کرچکے تھے ۔ تو آپ نے ایک منکر کا تذکرہ اتنے اہتمام سے کیوں فرمایا۔۔۔۔؟ شیخ فرید
نے ممکنہ طُور پر جوابات حاصل کرنے
کیلئے ایک ساتھ کئی سوالات کےتیر اپنے ترکش سے
نِکال کر چَلا دیئے۔۔۔۔ فرید بھائی کتنی
حیرت انگیز بات ہے۔کہ،، اُس وقت میرے ذہن میں بھی یہی سَوالات آئے تھے۔جو آج مجھ
سے آپ پُوچھ رہے ہیں۔۔۔ میرے سوالات کے
جوابات میں اُن بزرگ نے جو کچھ اِرشاد
فرمایا تھا۔ وُہ سب کچھ تو لفظ با لفظ مجھے یاد نہیں ہیں۔ لیکن اُس گفتگو کا مفہوم بہرحال میرے ذِہن میں ضرور موجود ہے۔
ابو ریحان نے وضاحت کرتے ہُوئے ایک مرتبہ
پھر سلسلہ کلام کو جُوڑتے ہُوئے گفتگو جاری رکھی۔۔۔
اُن بُزرگ نے اِرشاد فرمایا تھا۔کہ،، اِرشاد غُوث الاعظم کی
رُوشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے۔کہ،،
ممکنہ منکر شخص ولایت کے انتہائی اعلی مقام پر فائز ہُوگا۔ لیکن نفسی
خُواہش کے ایما پر ایسے کلمات اپنی زُبان
سے ادا کرے گا۔کہ،، جسکی وجہ سے اللہ کریم اُسکی ولایت کو سلب فرمالے گا۔ لیکن آپ
کا یہ کہنا کہ،، میرا قدم اُسکی بھی گردن پر ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے۔کہ،، شائد ایک
عظیم امتحان سے گُزر کر اُس ولی کو اپنی غلطی کا اِ حساس ہُوجائے۔ اُور وُہ پلٹ
آئے۔ لیکن اُسکا واپس پلٹ آنا صرف میرا قیاس ہے۔ جُو کہ،، غلط بھی ثابت ہُوسکتا
ہے۔۔۔۔ لیکن جہاں تک یہ بات ہے۔کہ،، سیدنا غوث الاعظم نے خُود اُسکے اختیارات سلب
کیوں نہیں کئے۔۔۔ اُور اپنی رُوحانی طاقت سے اُسکے خیالات پر قبضہ کیوں نہیں
جمایا۔۔۔ یہ بات سمجھنے کیلئے ہمیں ذرا پیچھے جانا پڑے گا۔ تاکہ ہمیں اللہ کریم کی
سُنت معلوم ہُوجائے۔
دیکھو جب اللہ کریم کی عبادت و فرمانبرداری اُسکی کروڑوں
نہیں بلکہ اَربوں کھربُوں مخلوق کررہی تھی۔ تو اُس خالق و مالک کیلئے کیا مشکل
تھا۔کہ وُہ ایک منکر ابلیس کی بات کو اتنی اہمیت دیتا۔۔۔۔ وُہ قادر مطلق چاہتا تو
اُسی وقت ابلیس کا محاسبہ کرتے ہُوئے اُسے اسکے منطقی انجام تک پُہنچا کر فنا کے گھاٹ اُتار دیتا۔۔۔۔ اُور کسی کو
معلوم ہی نہ ہُوپاتا۔ کہ،، کسی نے اللہ کریم کے فیصلے سے انکار و بغاوت کی جُرات
رندانہ کی تھی۔۔۔ لیکن اللہ کریم نے ایسا نہیں فرمایا۔۔۔ بلکہ اپنے دُشمن کی رائے
کو اپنے مقابل آنے دیا۔۔۔۔ بلکہ جب اُس نے
اپنی مذموم خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اللہ کریم کے مقابلے میں اللہ کریم
ہی سے مدد طلب کی۔۔۔ تو اللہ کریم نے یہ نہیں فرمایا۔کہ،، تو میرا دُشمن ہے۔
اسلئے دُشمن کی مدد کا سوال ہی نہیں پیدا
ہُوتا۔ بلکہ اُسےمُہلت کیساتھ مدد بھی فراہم کردی۔ تاکہ وُہ اللہ کریم کے مُقابلے
میں اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لے۔۔۔ اُور کتنے لُطف کی بات ہے۔کہ،، دُشمن کی بات کو
چھپایا بھی نہیں۔ بلکہ اُسکا ٹذکرہ اتنے نمایاں انداز میں تمام صحائف میں کیا گیا۔کہ،،
اِس کریمی پر ابلیس ہمیشہ شرمسار ہُوتا رہے گا۔
اُور اِس سُنت الہیہ میں یہ راز پُوشیدہ کردیا گیا۔۔۔ کہ،،
دشمن کے حقوق کی بھی حفاظت کی جائے۔ اُور
معاہدے کو چُھپایا بھی نہ جائے۔۔۔ چاہے اُس معاہدے کے اِظہار سے بظاہر دُشمن کو کتنا ہی فائدہ پُہنچنے کا
اندیشہ نہ ہُو۔۔۔ اُور نہ ہی دُشمن پر جبر کیا جائے تاآنکہ وُہ خُود معافی کا
طلبگار بن کر نہ آجائے۔ اُور نہ ہُی اُسکے تذکرے کو دبایا جائے۔بلکہ جسطرح دُوست
کی باتوں کو اہمیت دِی جاتی ہے۔۔۔ دُشمن کی باتوں کو بھی نمایاں کیا جائے۔۔۔۔
اسلئے جب بھی اللہ کریم کے پسندیدہ بندے انبیا کرام کی شکل میں مبعوث ہُوتے رہے
ہیں۔ اُنہوں نے اللہ کریم کی سُنت کے احترام میں دُشمنوں کو تمام رعایت دی ہیں۔۔۔
اُور یہی حال اُولیائے کرام کا بھی ہے۔ اُن سے یہ ممکن ہی نہیں کہ،، وُہ اللہ کریم
کی سُنت کو نہ اپنائیں۔۔۔ اسلئے جب کروڑوں اُولیائے کرام کے مقابلے میں ابلیس کی
طرح ایک شخص نے سیدنا غُوث الاعظم کی سیادت کو چیلنج کیا۔ تو آپ نے سُنت اِلہیہ پر عمل کرتے ہُوئے کروڑوں کے
مقابلے میں اُس دُشمن پر نہ جبر کیا۔ اُور نہ ہی اُسے غیر اِہم سمجھا۔۔۔ بلکہ اُسے
بھی خاص طُور پر نمایاں لفظوں سے اپنے کلام کی بدولت ہمیشہ کیلئے اَمر کردیا۔۔۔
SLAM.
ReplyDeleteSUBHAN ALLAH BHAI.
JZAK ALLAH