bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Friday 7 June 2013

کُتا اُور اِنسان۔۔۔


کیا آپ جانتے ہیں۔کہ،، اِنسان اُور کُتے کا ساتھ اِتنا ہی قدیم ہے۔ جتنا کہ،، حضرت اِنسان قدیم ہے۔۔۔۔۔؟ 
مجھے لگتا ہے۔کہ،، اکثر لُوگ میری بات پڑھ کر چُونک اُٹھے ہُونگے۔۔۔ اُور کئی لُوگ یہ بات بھی سُوچ رہے ہُوں گے۔کہ،، بھلا انسان اُور کُتے میں ایسی کیا بات مُشترک ہُوسکتی ہے۔کہ،، دُونوں ہی ایک جیسے قدیم ہُوں۔۔۔

چلئے میں آپکی مشکل کو آسان بنانے سے قبل آپکو تھوڑا سا مزید حیران کردُوں۔۔۔ جی ہاں مزید حیران۔۔۔ اُور وُہ اسطرح کہ،، کے نا صرف حضرت انسان اُور کتا ایک زمانہ، ایک مقام، میں پیدائش  کے عمل سے گُزرے ہیں۔۔۔۔بلکہ۔۔۔ حضرت انسان اُور کتے  کا خمیر  بھی ایک  ہی مَٹی سے اُٹھا  ہے۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے۔کہ،، کچھ قارئین کا ذہن اُلجھنے لگا ہُوگا۔۔۔ اُور  ہُوسکتا ہے وُہ سُوچ رہے ہُوں۔کہ شائد اِرشاد بھائی کے ذہن میں گرمی چڑھ گئی ہے۔ جسکی وجہ سے اپنے دوسرے ہی کالم میں بہکی بہکی گفتگو کرنے لگے ہیں۔۔۔ تو چلیئے دُوستوں! میں سسپنس ختم کئے دیتا ہُوں۔ اُور حضرت انسان  سیدنا آدم علیہ الصلواۃ والسلام کی پیدائش کا واقعہ سُناتا ہُوں۔ تاکہ آپ لوگوں کی تشفی بھی ہُوجائے ۔ اُور میلادِ آدم پڑھنے سے ہم سب برکتوں سے بھی مالا مال ہُوجائیں۔کہ،، انبیاٗ کرام کا تذکرہ قلب کی سیاہی کو دُور کرنے کے لئے اکسیر ہے۔ اُور یہ ذکر انسان کو ہمیشہ باادب رہنے میں معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔

روایت ہے کہ،، جب سیدنا آدم علیہ السلام کا  خمیر مقدس خاک اُور جنت کے پانی سے گُوندھ کر ایک جسم کی شکل میں تیار ہُوگیا۔۔۔ اُور سیدنا آدم علیہ السلام کی پیشانی کو نُورِ مُصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سجا دیا گیا۔ تب فرشتوں اُور شیطان کو حُکم مِلا کہ،، آدم علیہ السلام کے جَسد خاکی کو سجدہ تعظیمی کیا جائے۔۔۔

لیکن سجدہ کرنے کیلئے تو جھکنا پڑتا ۔۔۔ اُور تعظیم کرنا تو اپنی برتری کے خاتمے کا نام ہے۔۔۔۔ سُو یہ سعادت فرشتوں کے نصیبوں کو ارجمند کرگئی۔ اُور ابلیس اپنی قابلیت کو دیکھ کر  تکبر اُور اپنی اَزلی بدبختی کے سبب تعظیم کی نعمت سے محروم رِہ گیا۔ فرشتوں نے جب یہ معاملہ دیکھا کہ،، جسے رَبّ کے فضل سے معلم بننے کی سعادت مِلی تھی۔ وُہ اکڑ کے باعث محروم رہا۔۔۔۔ اُور حکم کی تعمیل ہمارے  حصے میں آگئی ہے۔ تو فرشتوں نے ایک مزید سجدہ شکرانے کی خاطر ادا کیا۔۔۔ جبکہ شیطان یہ سمجھ ہی نہیں پایا۔کہ حکم تو ادب پر بھی فوقیت رکھنے والا عمل ہے۔ اُور یہی سبق تو وُہ ملائک کو ہزار بار پڑھا چکا تھا۔ لیکن۔ جب اپنی باری آئی تو ۔۔۔ جاہلوں کی طرح تاویلوں کی تلاش میں نِکل پڑا۔

شیطان  کی اِس جراٗت کی وجہ سے  اللہ عزوجل نے شیطان کو مَردُود، محروم،  نامرادی اُور  لعنت کے طُوق کیساتھ عرش کی رِفعتوں سے نِکل جانے کا حُکم اِرشاد فرمادیا۔۔۔ شیطان نے جب یہ سمجھا کہ،، حضرت انسان کی وجہ سے آج اِسے اپنے منصب سے ہاتھ دُھو کر نہایت ذِلت کیساتھ عَرش کی رِفعتوں سے نِکلنا پڑ رَہا ہے۔۔۔ تو اِس مردود نے   حسد کے غیض میں جلتے ہُوئےنہایت
،، حقارت سے،، سیدنا آدم علیہ السلام کے مُبارک جسم پر تھوک دِیا۔۔۔ فرشتے شیطان کی اِس جراٗت پر حیران تھے۔۔۔۔ کہ،، نافرمانی کا طُوق اپنی جگہ۔۔۔ لیکن حسد کی آگ نے شیطان کو یہ بھی سمجھنے کا موقعہ نہیں دیا۔۔کہ،، وُہ اپنا غلیظ تھوک ڈال کس ہستی پر رَہا ہے،، کہ،، جسکی پیشانی  نورِ مُصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُور،، لقد خلقنا الانسان فی احسنِ تقویم کے جلی حروفوں سے جگمگا رہی تھی۔۔۔۔

فرشتوں نے اپنی معصوم زُبانِ حال سے دریافت کیا،، اے ہمارے پروردیگار یہ تیرے محبوب بندے کا جسم ہے،، جِس پر شیطان نے اپنا ناپاک و غلیظ تھوک اُنڈیل دِیا ہے۔ اِس نجاست کا کیا کریں۔۔۔۔؟ اِرشاد باری تعالی ہُوا۔کہ،، اِس نجس تھوک کو میرے آدم کے جسم سے اُٹھا لیا جائے۔۔۔ چناچہ معصوم جماعتِ ملائک  نے معصوم نبی علیہ السلام کے شِکم پر پڑے شیطان کے نجس تھوک کو احتیاط سے اُٹھالیا۔ لیکن کچھ تھوک آپکے مطہر شکم کی مَٹی میں جذب ہُوچُکا تھا۔۔۔ اسلئے تھوک کے ساتھ کچھ مٹی بھی اِس مبارک مقام سے نِکل آئی۔۔۔ اب فرشتے پھر حیران تھے۔۔۔کیونکہ نجس و غلیظ رال  میں متبرک اُور منور و مطہر خاک آدم کے اجزاٗ بھی شامل ہُوچکے تھے۔ عرض کرنے لگے،، اے رَبّ ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اَب اِس پاکیزہ مٹی اور نجس رال کا کیا کریں ۔ جو کہ،، ایک مرکب کی شِکل اِختیار کرچکی ہے۔۔۔ اللہ کریم نے کُن اِرشاد فرمایا۔ تب اِس  پاکیزہ مٹی اور شیطانی رَال کے مُرکب سے کُتے کی تخلیق نمودار ہُوئی۔

لِہذا تمام جانوروں میں  کُتا ہی وُہ جانور ہے۔ جو انسانوں سے بے پناہ اُنسیت محسوس کرتا ہے۔۔۔ ایک ایسا جانور جِسے مالک لاکھ دُھتکارے تب بھی وُہ مالک کا آستانہ نہیں چھوڑتا ہے۔۔۔ اگر مالک پر کوئی حملہ کردے۔ تو یہ کُتے کی ہی خاصِیت ہے کہ،، وُہ اپنی جان بھی وار کر اپنے مالک سے آخری دَم تک وفا نِبھاتا ہے۔۔۔۔لیکن اِسکے خمیر میں شیطان کی رال آج بھی موجود ہے۔ جسکی وجہ سے اسلام میں شوق کی خاطر کُتا پالنا حرام ہے۔ اُور شائد یہی وجہ ہے کہ،، جِس گھر میں کتا موجود ہُوتا ہے۔۔۔ آج ۔۔بھی ملائکہ اُس گھر میں داخل نہیں ہُوتے۔

لیکن کتنے ظلم کی بات ہے۔کہ،،  جب اللہ کریم نے احسن تقویم کا تاج حضرت انسان کے سر پہ رکھ دیا۔ اب اگر کوئی لفاظی کا سہارا لیتے ہُوئے اُسی احسن تقویم کو کتے سے تعبیر کرے۔۔۔ یا کسی انسان کو کتا کہہ کر مُخاطب کیا جائے۔ صرف اِس لئے کہ،، وُہ آپکو پسند نہیں آتا۔تب آپ قلم ،،جو کہ اللہ کریم کا انعام ہے۔ اِس انعام کا غلط استعمال کررہے ہیں ۔جسکا جواب بھی ایک دِن آپ ہی کو دینا ہُوگا۔۔۔ لیکن ایک بات تو ہے۔۔۔ بڑے بڑے اولیاء کرام و بزرگان دین نے کُتے کی وفاداری کی وجہ سے خُود کو سگ کہنے میں عزت تلاش کی ہے۔۔۔ اگر میں بھی اپنے مُرشدی عطار کا کُتا کہلاوٗں  یا اپنے اُستاد من عشرت وارثی کے دَر کا سگ بن جاوٗں۔۔۔ تو میری آنے والی نسلیں بھی اِس تمغے پر سَدا  ناز کرتی رہیں گی۔۔۔ کیوں کہ مجھے ایسی بکری بننا ہرگز پسند نہیں ہے۔ جو مطلب نِکل جانے پر اپنے ہی مالک کے پیٹ میں سینگ ماردے۔۔۔ اِس سے تو بہتر ہے۔ کہ میں کُتا ہی کہلاوٗں۔۔۔ اور اپنے مرشد و اُستاد کا ہمیشہ وفادار رَہوں۔۔۔آمین۔۔۔آمین۔۔۔آمین۔۔

لکھنے میں اگر کچھ غلطی رِہ گئی ہُو۔تو اپنے رب سے معافی کا طلبگار ہُوں۔۔۔ اُور اُمید کرتا ہُوں کہ،، اُستادِ من پبلش  کرنےسے قبل نظر کرم فرماتے ہُوئے اِسے نِکھار دیں گے۔

آپکا: محمد ارشاد محمود عطاری(وارثیٰ)

3 comments:

  1. Asslam-o-alykum
    ALLAH pak ham ko apnay mehboob bandon ka wafa dar kutta bana day to bera hi par hai.
    JZAK ALLAH

    ReplyDelete
  2. Murshid kamil k dr ka kuta bnna ksi ksi ko nasib hota ha

    ReplyDelete
  3. اس واقعہ کا ثبوت بھی دیجیے

    ReplyDelete