شیخ محمود اُورشیخ فرید کا شُمار شیخ صنعان کے اُن مُریدوں
میں ہُوتا تھا۔ جو اپنے مُرشد کی ابرو کے ایک اِشارے پر اپنی جان تک نچھاور کرسکتے تھے۔۔لیکن شیخ صنعان کی خُواہش نے اِن دُونوں کو عجیب اِمتحان میں مُبتلا کردیا
تھا۔۔۔ شیخ صنعان کی صحبت نے اِن دُونوں مُریدین کے قلوب کو دمکتے ہُوئے آئینے کی
مِثل اُجلا کردیا تھا۔۔۔ دیدار محبوب کے جَلوے بِکھرنے کو ہی تھے۔کہ،، رَہنما کی
آنکھ سے ہی رُوشنی رُخصت ہُوگئی۔۔۔ وُہ دُونوں سُوچ بچار کیلئے صبح تک کی مہلت
لیکر اپنے کمرے میں چلے آئے تھے۔ اُور اب ایک دُوسرے سے گلے لگ کر پُھوٹ پُھوٹ کر
رُورہے تھے۔ شیخ محمود شیخ فرید سے رُوتے
ہُوئے استفسار کرَہا تھا۔۔۔ فرید ہمارے
مُرشد کو کس کی نظر لگ گئی۔۔۔؟؟؟ وُہ تو ہمیشہ عورت کو شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار کہتے تھے۔ وُہ تو
جنس مُخالف کے ترکش سے ہمیں بچاتے آئے
تھے۔۔۔ وُہ خُود کیسے اِس فتنے کے شر رسے خاکستر ہُوسکتے ہیں۔۔ وُہ جنہیں کبھی
حُوران خلد کی بھی طلب نہ رہی ۔ وُہ ایک ناری کی زُلف کے اَسیر کیسے ہُوسکتے
ہیں۔۔۔؟
اَب مزید پیاس بَڑھا لیجئے۔۔۔
محمود میرے بھائی !میں جانتا ہُوں۔ کہ،، ہمارے مُرشد کریم
کیوں اِس اِمتحان میں مُبتلا ہُوئے ہیں۔۔۔ فرید نے نہایت یاسیت سے گردن جُھکاتے
ہُوئے شکستہ لہجے میں اِنکشاف کیا۔۔۔۔ فرید کیا تُم واقعی جانتے ہُو۔۔۔ ؟شیخ محمود نے
حیرت سے آنکھ خُشک کرتے ہُوئے فرید سے اِستفسار کیا۔۔۔ محمود بھائی کیا تُمہیں بغدادی
قافلے کے وُہ بُزرگ یاد ہیں۔ جِنہوں نے سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہُ کا قُول
مُرشد کریم تک پُہنچایا تھا۔ اُور مُرشد کریم نے وُہ قُول سُن کر کہا تھا۔کہ میری
گردن، قدم غوث الاعظم سے بری ہے۔۔۔ شیخ فرید نے محمود کو یاد دِلانے کی کوشش کی۔
ہاں فرید مجھے یاد ہے۔کیونکہ میں بھی اُس وقت شیخ کی صحبت میں مُوجود تھا۔ اُور اِس واقعہ نے
شیخ کو بُہت مَلول کردیا تھا۔۔۔ لیکن اُس واقعہ کا شیخ کے اِس اِمتحان سے بھلا کیا
تعلق ہے۔۔۔۔ شیخ محمود نے بغور فرید کے چہرے کو دیکھتے ہُوئے سوال کیا۔
میرے بھائی مجھے شک
ہی نہیں بلکہ یقین ہے۔کہ،، دراصل یہی واقعہ ہمارے شیخ کے اِمتحان کی اَصل بنیاد ہے۔۔۔ کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔
کہ اُس بغدادی بُزرگ نے بااصرار یہ بات کہی تھی کہ،، شیخ شہاب الدین سہروردی،
خواجہ معین الدین چشتی، ابن العربی، علی
بن ہیتی سمیت تمام عظیم مشائخ اپنی اپنی
گردنوں کو اِس قُول کے بعد خم کرچُکے ہیں۔۔۔ جِس سے مجھے بھی یہی اندازہ ہُوتا
ہے۔کہ،، آپکا یہ قُول مُبارک حالت سکر کی وجہ سے نہیں تھا۔بلکہ اَمر الہی کے سبب
ہوگا۔ اُور اُس دِن شیخ نے اُس بغدادی
بُزرگ کی آمد سے قبل خُود فرمایا تھا۔کہ،،جب
کوئی اَمر اِلہی کے درمیان میں آنے
کی کُوشش کرتا ہے۔ تو دُنیا میں ذلیل کردیا جاتا ہے۔۔۔ لیکن نجانے کیا بات ہُوئی۔کہ،،شیخ جُو بات ہمیں سمجھارہے
تھے۔ خُود اُسی کے مقابل کھڑے ہُوگئے۔۔۔۔ جسکی وجہ سے میرے خیال میں شیخ مُبتلائے
امتحان ہُوگئے۔شیخ فرید نے تاسف کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔
فرید میرے بھائی۔ اگر یہ اِمتحان بقولِ تُمہارے اِسی وجہ سے
ہمارے شیخ پر نازل کیا گیا ہے۔۔۔ تو اب شیخ کے اِس اِمتحان سے نکلنے کی صورت کیا
ہُوگی۔ ۔۔؟؟؟ اُور یہ کیسے ممکن ہے کہ،، جِس بات کو ہم اتنی آسانی سے سمجھ گئے ہیں۔ وُہ
شیخ کی سمجھ میں کیوں نہیں آئی ہُوگی۔۔اُور کیا ہمیں تمام مُریدین شیخ کیساتھ مِل
کر اللہ کریم کی بارگاہ میں استغفار نہیں کرنا
چاہیئے۔۔۔؟؟؟ شیخ محمود نے کچھ سُوچ کر
شیخ فرید سےمشورہ طلب کیا۔
محمود بھائی اگر یہ امتحان شاہِ بغداد کی بے ادبی کی وجہ سے
ہی نازل ہُوا ہے۔۔۔ تو معافی کیلئے بھی شاہ بغداد کی بارگاہ میں حاضر ہُونا پڑے
گا۔کیونکہ ہم سب کا مِل کر استغفار کرنا بھی شیخ کو اِس اِمتحان سے نہیں نِکال
پائےگا۔ جب تک کہ،، شاہ گیلان معاف نہ فرمادیں۔دوسری بات یہ ہے۔کہ،، جب تک ممکن
ہُو ہمیں باقی مُریدین کے سامنے شیخ کی کمزوری ظاہر نہیں کرنی ہے۔ حالانکہ شیخ جِس
رَاہ پر چَل پڑے ہیں۔ اُسکی وجہ سے یہ بات ذیادہ دیر چُھپی نہ رِہ سکے گی۔۔۔تیسری
بات یہ ہے کہ،، اگر یہ امتحان نہیں ہے۔ اُور شیخ کی جسمانی ضرورت کی وجہ سے یہ
معاملہ پیش آیا ہے۔ تو ہم اُس یہودی سے مُلاقات کریں گے ۔اُور اُسے قائل کرنے کی
کوشش کریں گے۔کہ،، اپنی صاحبزادی کا ہاتھ شیخ کے ہاتھ میں دیدیں۔ اگر وُہ یہودی
راضی ہُوگیا۔تو یہ معاملہ آسانی سے نِمٹ سکتا ہے۔کیونکہ بہرحال شادی کرنا کوئی
گناہ کی بات
نہیں بلکہ باعث ثواب ہے۔ شیخ فرید نے تفصیل سے جواب دیتے ہُوئے کہا۔
ماریہ۔ماریہ۔مجھ سے چھپنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے میں شرط جیت
چُکی ہُوں۔ اِس لئے شرافت سے میرے سامنے آجاوٗ۔ اُور وعدے کے مُطابق اپنے گلے کا
ہَار نِکال کر مجھے دیدو۔ ٹریسا نے ماریہ
کو دروازے کے باہر سے پُکارتے ہُوئے
کہا۔۔۔۔۔ وَاہ شرط ابھی جیتی نہیں اُور مہارانی صاحبہ انعام کی طلبگار ہیں۔ ماریہ
نے دَروازے کے پٹ وا کرتے ہُوئے ٹریسا کا مذاق اُڑایا۔۔۔۔ کُون کہتا ہے کہ،، میں
نے شرط نہیں جیتی۔؟؟؟ تُم نے کہا تھا۔کہ عرب سے ایک شیخ آیا ہے۔جسے عورتوں میں
دلچسپی نہیں ہے۔ اگر میں اُسے اپنی طرف مائل کرلُوں تو تم مجھے اپنے گلے کا
ہار انعام میں دُوگی۔۔۔ اُور وُہ شیخ جب
مینار پر آذان دینے آیا تھا۔ تب میں بھی
بظاہر بال سنوارنے کیلئے چھت پر پہنچ کر بڑی بے پرواہی کا مظاہرہ کرتے
ہُوئے اُسے کن اَنکھیوں سے دیکھتی رَہی تھی ۔۔۔اُورجب ایک مرتبہ اُس شیخ کی مجھ پر نظر پڑی ۔ تب وُہ میرا سراپا دیکھ کر ایسا مسحور ہُوا۔کہ،، مجھے
دیکھتا ہی چلا گیا۔۔۔ اسلئے اب تُم شرافت
سے مجھے میرا انعام تھما دُو۔۔۔ ٹریسا نے مصنوعی خفگی کا اِظہار کرتے ہُوئے ماریہ
کی کلائی مروڑ ڈالی۔۔۔ محترمہ یہ صرف آپکا
بیان ہے۔ مجھے جب تک اِس واقعہ کی تصدیق حاصل نہ ہُوجائے میں قطعی یہ ہار تُمہارے
حوالے نہیں کرونگی۔ ماریہ نے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دیتے ہُوئے جھٹکے سے اپنی
کلائی آزاد کروالی۔
شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد شیخ محمود اُور شیخ فریدخُود کو چادر میں چھپائے
یہودی کے گھر کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔۔ شیخ محمود نے مکان تک پُہنچنے کے بعد چادر گردن میں حائل کرتے ہُوئے دروازے پر آہستہ
سے دستک دِی ۔۔۔جسکے نتیجے میں اندر سے
کسی نوجوان لڑکی نے نہایت رسیلے اُور ششتہ لہجے میں دریافت کیا۔۔۔ کُون
ہے۔۔؟؟؟ جواب میں شیخ محمود نے گھر کے مالک سے مِلنے کی خُواہش کا اِظہار کیا۔۔۔۔۔
چند لمحے بعد یہودی اپنے مکان کے دروازے
سے باہر برآمد ہُوا۔۔۔ اُور شیخ محمود
اُور شیخ فرید سے مصافحے کے بعد آنے کی وجہ دریافت کرنے لگا۔۔۔ جناب ہم
لُوگ عرب سے آنے والے عظیم قافلےکے اِہم رُکن
ہیں۔ اُور ایک معاملے میں آپ سے گفت و شنید کے خُواہشمند ہیں۔ اگر آپ ہمیں کچھ وقت
عنایت کردیں تو جناب کی ہم مسافروں پر بُہت نوازش ہُوگی۔ شیخ فرید نے اپنی آمد کامقصد بیان کرنے کیلئے اجازت طلب نظروں سے یہودی کو دیکھتے ہُوئے مدعا بیان کیا۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔
JZAK ALLAH BHAI.
ReplyDelete