bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 16 May 2015

عشق کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ آخری قسط نمبر11



گُذشتہ سے پیوستہ

اچھا  پھر یہ بتاوٗ۔ اگر  تُم نہ شراب  پیتے ہُو۔ اُور نہ ہی خنزیر کا گُوشت کھاتے ہُو۔۔۔ تو ایک ایسی لڑکی سے کیوں شادی کرنا چاہتے ہُو۔ جو یہ دونوں  چیزیں حلال جانتی ہے۔۔۔۔ اُور میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ کیسے دے سکتا ہُوں ۔ جو ہمارے کھانے پینے کو حلال نہیں سمجھتا۔؟؟؟؟۔ اب یا تو تُم شراب و کباب میں ہمارا ساتھ دیکر ثابت کرو۔کہ،، تم ہمارے جیسے ہی ہُو۔ اُور ٹریسا کے قابل ہُو۔ یا پھر وعدہ خلافی کا اعتراف کرتے ہُوئے ہمیشہ کیلئے تبوک سے چلے جاوٗ۔۔۔۔  راہب نشے کی حالت میں چِلا چلا کر بُول رہا تھا جسکی وجہ سے تمام مہمان متوجہ ہُوکر بوڑھے راہب اور شیخ کے قریب سِمٹنے لگے تھے۔ اور اَب سب یہی نعرہ لگارہے تھے۔ کہ ثابت کرو یا واپس جاوٗ۔۔۔۔۔ شیخ صنعان کچھ لمحے تمام تماشائیوں کو دیکھتے رہے۔۔۔ اُور پھر اچانک خنزیر کے کباب نُوچ نُوچ کر اپنے حلق سے اُتارنے لگے۔ اتنے میں کسی شراتی  یہودی نے شیخ صنعان کے سامنے   شراب کا جام بھی پیش کردیا۔ اُور   شیخ صنعان نے بغیر کسی تاثر کے اُسے بھی اپنے حلق سے انڈیل لیا۔۔۔۔۔

اَب مزید پڑھیئے۔

شیخ محمود  اُور شیخ فرید اپنے مرشد کریم کی حالت دیکھ کر چیختے ہُوئے یہودیوں پر جھپٹ پڑے لیکن شیخ صنعان نے اُنہیں خبردار کرتے ہُوئے کہا کہ،،  مجھ پر یہودی کوئی جبر نہیں کررہے۔ جسکی وجہ سے تُم انہیں انتقام کا نشانہ بناسکو۔ بلکہ کیا تُم نے نہیں دیکھا کہ،، میں نے اپنی مرضی اُور اختیار سے  سب کچھ کھایا پیا ہے۔ لہذا اگر تمہارے دِل میں میری  تھوڑی سی بھی عزت باقی ہے۔ تو فوراً اِس محفل سے نکل جاوٗ۔

تھوڑی دیر بعد ہی  بوڑھےراہب کا ملازم یہ تمام واقعہ بلا کم و کاست ٹریسا کو سُنا رہا تھا۔۔۔ کیا  تُم نے اپنی آنکھوں سےشیخ صنعا ن کو شراب و کباب کھاتے دیکھا ہے۔ اُن کے چہرے پر تاثرات کیسے تھے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ،،  وُہ تو مسلمانوں کے مذہبی پیشوا ہیں ۔ پھر اپنے مذہب میں حرام  کردہ چیزوں کو کیسے کھا سکتے ہیں۔۔؟؟؟؟ ٹریسا نے تجسس سے کئی سوالات ایک ساتھ کرڈالے۔۔۔۔ جی خانم میں نے اپنی آنکھوں سے اُنہیں سب کچھ  تیار کرتے اُور کھاتے پیتے دیکھا ہے۔ البتہ اُنکی حالت دیکھ کر میں وثوق سے کہہ سکتا ہُوں۔کہ وُہ سب کچھ بڑی بےبسی اُور بیچارگی کی حالت میں صرف آپکو حاصل کرنے کیلئےکررہے ہیں۔ البتہ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے وُہ آسیب زدہ ہُوں۔ نہ کوئی فالتو بات کرتے ہیں۔ نہ کوئی احتجاج۔ بس جیسے اُنہوں نے خُود  کو حالات کے سپرد کردیا ہُو۔ ملازم نے نہایت تاسف سے شیخ صنعان کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ یہ تبصرہ سُننے کے بعد ٹریسا کے دل میں آج شیخ صنعان کیلئے کچھ نئے جذبے پنپنے لگے تھے۔

اُس رات بوڑھے راہب کا خیال تھا کہ،، سُور کاٹنے اُور کباب بنانے کیلئے شیخ صنعان کبھی راضی نہ ہُونگے۔ لیکن جب شیخ صنعان اِس مرحلے سے بھی گُزر گئے۔ تو خلاف توقع راہب نے شراب و کباب کھانے کیلئے اصرار کرڈالا حالانکہ پہلے اُس کے دماغ میں ایسی کوئی بات سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ لیکن شیخ صنعان نے اُسکی یہ خاہش بھی پُوری کرکے گُویا جلتی پر تیل چھڑک دیا تھا۔ جسکی وجہ سے راہب نے شیخ صنعان کو نیا حُکم جاری کردیا کہ،، اب ہر ہفتے ایک سُور کاٹ کر ہمارے گھر پُہنچانا ہُوگا۔ اور ہمارے ساتھ تناول بھی کرنا ہُوگا شیخ صنعان نے یہ شرط بھی  بلا چُون چرا تسلیم کرلی تھی۔

جلد ہی یہ خبر تبوک  میں بہت سے لوگوں تک پُہنچ چکی تھی۔کہ اصفہان سے آنے والے عظیم شیخ نے اپنا مذہب ایک لڑکی کی خاطر بوڑھے یہودی راہب کے  ہاتھ فروخت کردیا ہے۔ اُور  ہر ہفتہ نا صرف شیخ اپنے ہاتھوں سے خنزیر کا گوشت بناتا ہے۔ بلکہ شراب و کباب  سے بھی شُغل کرنے لگا ہے۔ لوگوں کے دل سے شیخ صنعان کی عقیدت نکل کر نفرت کا رُوپ دَھار چکی تھی۔۔۔ اُور اِس تبدیلی  کا سہرا بہرحال  یہودی راہب کے سر جاتا تھا۔

شیخ فرید اُور شیخ محمود اپنے شیخ کی واپسی کے آج بھی تبوک میں منتظر تھے۔ لیکن اب تو لُوگوں کے سوالات سے عاجز آکر اُنہوں نے حجرے سے نکلنا بھی بند کردیا تھا۔ یہ  بھی بُہت غنیمت تھا ۔کہ،، اُنہیں رہنے کیلئے اِمام مسجد نے جو حجرہ دیا تھا ۔ وُہ ابھی تک خالی کرنے کیلئے کوئی اِشارہ تک نہیں دِیا تھا۔ بلکہ اِمام مسجد بھی دِل کی گہرائیوں سے چاہتے تھے ۔کہ شیخ باعزت طریقے سے لُوٹ آئیں۔ تاکہ مسلمانوں پر یہودیوں کو جو ہنسنے کا جواز میسر آگیا ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہوجائے۔۔۔۔

رات آدھی سے ذیادہ بیت چُکی تھی۔ لیکن شیخ فرید غُم مُرشد میں نرم بستر پر اِس طرح کروٹیں بدل رہے تھے۔ جیسے دُونوں اطراف سے بُہت سے سانپ اُنہیں جکڑ لینے کی کوشش کررہے ہُوں۔۔۔۔ کیا بات ہے بھائی فرید میں بُہت دیر سے دیکھ رہا ہُوں کہ،، آج تم مرغِ بسمل کی طرح اذیت سے دُوچار ہُو؟؟؟۔۔۔ شیخ محمود نے بستر سے اُٹھ کر فرید کی پیشانی کو چُھوتے ہوئے استفسار کیا۔ شیخ فرید بھی محمود کی  قربت کو محسوس کرنے کے بعد بستر سے اُٹھ بیٹھے۔ اُور اچانک بلک بلک کر رُوتے ہُوئے کہنے لگے ۔ بھائی ہمارے مُرشد کریم کی عظمت و رِفعت کو کس کی نظروں نے گہنا کر رکھ دیا۔ وُہ  بدر کامل کی طرح پورے اصفہان کو جگمانے والے تھے۔ کس طرح خُود ظلمتوں کی وادی میں ڈُوب گئے؟؟؟۔۔۔۔ میرے بھائی فرید مجھے تو خُود اِس معاملے کی سمجھ نہیں آرہی ۔کہ جِن کی ایک نگاہ سے ولی پیدا  ہُوتے تھے۔ وُہ خُود کیسے دامِ فریب میں مُبتلا ہُوگئے۔۔۔۔۔ لیکن محمود بھائی مجھے کچھ کچھ سمجھ آرہا ہے۔ شیخ فرید نے کھوئے کھوئے لہجے میں سُوچتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ کیا سمجھ آرہا ہے بھائی فرید مجھے بھی بتاوٗ ۔ خُدا کی قسم اگر میرے اختیار میں ہُوا۔ تو میں اپنے مُرشد کیلئے اپنی جان بھی نچھاور  کرنے کیلئے تیار ہُوں۔

محمود تمہیں یاد ہے حج کیلئے آنے والا وُہ قافلہ جو بغداد سے تبوک پُہنچا تھا۔ اُور امیر قافلہ نے جب شیخ بغداد  عبدالقادر الجیلانی  (رحمتہ اللہ علیہ)  کا یہ قول ہمارے مُرشد کے سامنے پیش کیا تھا کہ،، تمام اُولیا کی گردن ہمارے قدم تلے ہے،، جسکے جواب میں مرشد کریم نے کہا تھا۔ کہ میں تو خُود محبوبین میں سے ہُوں۔ اُور میری گردن ہر ایک ولی کے قدم سے آزاد ہے۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں فرید بھائی مجھے یاد ہے۔ اُس واقعہ کے بعد ہم میں بھی جُرات نہیں تھی۔کہ  مرشد کریم کے جلال کا سامنا کرسکیں۔شیخ محمود نے جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔ پتہ نہیں کیوں لیکن محمود بھائی میرا دِل گواہی دیتا ہے۔ کہ،، ہمارے شیخ اُسی دِن سے بیمار پڑتے چلے گئے۔  میرے منہ میں خاک مگر یہی شیخ کا  کلمہ ہوسکتا ہے اُنکی رجعت کا باعث بن گیا ہُو۔ اِس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے۔کہ،، میں کل ہی بغداد روانہ ہُوجاوٗں گا۔ اُور شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) کی بارگاہ میں اپنے شیخ کی آسانی کیلئے سوال کروں گا۔۔۔۔پھر ٹھیک ہے میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلوں گا۔ شیخ محمود نے فوراً جواب دیا۔۔۔۔ نہیں میرے بھائی یہاں مسلمان تک ہمارے شیخ کی جان کے دُشمن ہُوئے جاتے ہیں۔ ایسا غضب نہ کرو۔ بلکہ یہاں شیخ کی حفاظت کیلئے تُم ثابت قدم رَہو۔ اُور بغداد جانے کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دُو۔

اگلی صبح بغداد  جانے والے ایک  شامی قافلہ کے ہمراہ شیخ فرید عازم سفر تھے۔۔۔۔ قافلےمیں  خُوش قسمتی سے شیخ فرید کی مُلاقات ایک کم گُو نوجوان رافع سے ہُوگئی ۔جو اتفاق سے سیدنا عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)  کا عاشق و مُرید تھا۔ جب اُسے معلوم ہُوا کہ،، شیخ فرید خاص طور میرے  مُرشد کریم کی زیارت کیلئے تبوک جارہے ہیں۔ تو وُہ راستے شیخ فرید پر خاص مہربانی کرتا رَہا۔ اُس نے بتایا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)  نے جب سے  سیادت اولیا کا اعلان فرمایا ہے۔ مشرق  و مغرب اُور شُمال تا جنوب سے اُولیائے کرام کی جماعتیں جُوق در جُوق   اپنی گردنیں   عملی طور پر آپکے قدموں تلے پیش کرنے آرہی ہیں۔سُنا ہے کسی ایک بدنصیب عارف کے علاوہ کائنات میں موجود ہر ایک ولی نے آپکی قیادت کو قبول کرکے خُود کو رجعت سے محفوظ کرلیا ہے۔ رافع کے اِس جملے  کو سُن کر شیخ فرید کے چہرے پر کئی رنگ آکر گُزر گئے۔۔۔ 

بغداد پُہنچ کر رافع جب سُورج ڈھلنے کے بعد شیخ فرید کو لیکر مدرسہ  قادریہ پُہنچا۔ تو   لوگوں کا  جم غفیر مدرسہ کے احاطے میں دیکھ کر حیران ہُو کر پوچھنے لگا۔ کیا یہاں آج کوئی جلسہ ہے۔؟؟؟ میرے بھائی صرف آج ہی نہیں یہاں روزانہ ایسا ہی لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا ہے۔ اُور ابھی تو چوتھائی حصہ لوگ بھی نہیں پُہنچے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ہی یہاں تِل دھرنے کو بھی جگہ باقی نہ رہے گی۔ یہاں صرف غُوث پاک (رحمتہ اللہ علیہ)  کے کلام کو  محفوظ کرنے والوں کی تعداد ہی ستر ہزار سے ذیادہ ہوجاتی ہے۔ جبکہ کئی ہزار لوگ وُہ ہُوتے ہیں ۔ جو روزانہ یہاں توبہ کی توفیق حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔ اُور کئی  جوان و پیر ہر مجلس میں عشقِ الہی میں ایسے گُم ہُوجاتے ہیں ۔ کہ  ،، اپنی جان  جانِ آفرین کے سُپرد کرتے ہُوئے دُنیا سے ہمیشہ کیلئے ناطہ تُوڑ لیتے ہیں ۔
جُوں جُوں وقت گُزرتا گیا ۔رافع کے قُول کی تائید ہُوتی چلی گئی شیخ فرید نے جب کلامِ غوث الاعظم کی آبشار سُنی تو اُسے یُوں محسوس ہُونے لگا۔ جیسے وُہ غموں کے آزار سے نکل کر جنت کی سیر کو آنِکلا ہُو۔ آپ کے سادہ جملوں کی تاثیر بِلا شُبہ آب حیات سے بڑھ کر ۔ اُور آپکے چہرے کے گرد نُور کا ہالا چاند کو شرمانے اُور دِلوں کو مُوہ لینے کیلئے کافی تھا۔سُبحان اللہِ وبحمدہ ِ سُبحان اللہ العظیم۔

آپ کی آواز اتنی نرم و رَسیلی  تھی کہ"  جیسے کانوں میں رَس گھولتی ہُوئی  نس  نَس میں عشق ِ الہی  کی قندیل آویزاں ہو رہی ہُوں ۔ اُور  دل کے تمام دریچوں  میں تاثیر کے شگوفے پھوٹتے محسوس ہُونے لگے تھے۔ جس پر کمال یہ بھی کہ" اتنی دھیمی آواز بھی لاکھوں کے مجمے میں سب کو یکساں سُنائی دے۔ الفاظ اتنے دلکش و سادہ ہونے کے باوجود ذہن میں ایسے عجیب و غریب مفاہیم کو جنم دینے لگے ۔ جیسے سُننے والا لُوح محفوظ کا مطالعہ و مُشاہدہ کررہا ہو۔

شیخ فرید کی یُوں تو تمام زندگی ہی  ایک سیلانی  کی مانند اسفار میں گُزری تھی۔ آپ نے رُومی نقوش کی کاٹ بھی دیکھ رکھی تھی۔ اُورہند کے نمکین حُسن کو بھی  مُلاحظہ کیا تھا۔ فارس کے گلاب و زعفران کی آمیزش سے خد و خال کیساتھ ساتھ سُرخ و سپید ترُکوں کا بھی مُشاہدہ کیا تھا۔لیکن چہرہ ءِ غُوث الاعظم پر نگاہ پڑتے ہی خود بخود نگاہیں جھکا لینے کو جی چاہنے لگا۔کہ" مُبادا مسلسل دید بے اَدبی میں نہ شُمار ہوجاۓ۔ دل کی دھڑکنیں بیتابی سے صدا بلند کرنے لگی تھیں۔کہ" واقعی رَسول اللہ ﷺ کے خُون کی یہی شان ہے۔ کہ" اِنہیں اُولیاء اللہ کی سرداری سُونپی جاۓ۔ لاریب اِنہی حُسن و جمال کے پیکر کو سزاوار ہے یہ کہنا۔ کہ" میرا قدم ہر ایک ولی کی گردن پر ہے۔ اُور بیشک میں گواہی دیتا ہُوں کہ" آپ قدم ذیشان میری بھی گردن و پیشانی بلکہ چشم و  قلب  پر بھی ہے۔شیخ صنعان کی بس اب ایک ہی آرزو تھی کہ" بس کسی طرح نگاہِ غوث الاعظم اِس ادنیٰ فقیر پر پڑ جائیں۔ اور آپ اداۓ ناز سے فرمائیں۔ کہ" مانگ اے بھکاری کیا مانگتا ہے۔ اور میں اپنے من کی مُراد مانگ کر ہمیشہ کیلیۓ اَمر و سرخرو ہوجاؤں۔

رافع نے شیخ فرید کو پیشکش کی تھی کہ آپ میرے ساتھ میرے  گھر چل کر رہیں۔ لیکن شیخ فرید کا اصرار تھا۔کہ جب تک دِل کی مُراد پُوری نہ ہُوگی اِس آستاں سے ایک لمحے کیلئے بھی جُدا ہُونا گوارا نہیں۔ شیخ فرید نے مدرسہ غوث الاعظم میں مسقل ڈیرے ڈال لئے تھے۔ آپکا دن روزہ اور تلاوت میں گُزر جاتا۔ جبکہ رات وعظ کے بعد قیام الیل کیلیے وقف ہوچکی تھی۔ آپ کئی دن سے منتظمین مدرسہ سے اپنے لیۓ کوئی خدمت کا سوال کررہے تھے۔ لیکن ہمیشہ ایک ہی جواب سُننے کو ملتا کہ" مدرسہ کی تمام ذمہ داریاں ایک عرصے سے از خود لوگوں نے سنبھال رکھی ہیں۔ اُور اِن میں سے کوئی اس نعمت کے ایثار کیلئے تیار نہیں۔ ایک دن شیخ فرید کے اصرار پر رافع نے بھی بُہت کوشش کی لیکن کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اِسی دوران کہیں سے آواز بُلند ہوئی کہ" کسی کو خاکروب کی بھی خبر ہے۔ وُہ کئی دن سے غیر حاضر ہے۔ جسکی وجہ سے طلبا کو بیت الخلا میں اذیت کا سامنا کرنا پڑرَہا ہے۔ یہ سُن کر شیخ فرید کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔

شٰیخ فرید نے اَز خُود اپنے لئے  ایک کام تلاش کرلیا تھا۔ آپ فجر  سے قبل اُور عصر کی نماز کے بعد لباس تبدئل کرکے طلباٗ کے بیت الخلا کی صفائی کیلئے پُہنچ جاتے۔ اُور جب صفائی سُتھرائی سے فارغ ہُوجاتے تب غُسل  و لباس کی تبدئلی کے بعد دُوبارہ عبادت و تحصیل علم  میں سرگرداں ہُوجاتے۔ ایک دِن کافی حبس کے بعد اچانک موسم سُہانہ ہُوگیا۔ اُور عصر کی نماز کے بعد موسلادھار بارش برسنے لگی۔ یہ وہی وقت تھا۔ جب شیخ فرید غلاظت کا ٹوکرہ ،اپنے  ہاتھوں میں تھامے اُسے جنگل کے سُپرد کرنے جارہے تھے۔

بارش کی بوچھاڑ کی وجہ سے  کھجور  کے پَتوں سے بنی ٹوکری غلاظت کو خُود میں مقید رکھنے میں ناکام ہُوتی نظر آنے لگی۔ تو شیخ فرید کو خطرہ محسوس ہُونے لگا کہ،، کہیں ٹُوکری سے غلاظت بہہ کر  مدرسہ کے صحن کو آلودہ نہ کردے۔ یہ خیال آتے ہی شیخ محمود کے ذہن میں ایک تدبیر آئی ۔ اُور آپ نے ایک ہاتھ سے  ٹوکری کو سنبھالا جبکہ دُوسرے ہاتھ سے کاندھوں پر پڑی چادر  کو سمیٹ کر سَر پر رَکھنے کے بعد دُونوں ہاتھوں کی مدد سے غلاظت کی ٹوکری کو  اُس چادر پر رَکھ لیا۔ اَب گندگی بہہ بہہ کر سَر پر موجود چادر   و قمیص کو آلودہ کرنے لگی تھی۔ لیکن شیخ فرید  بُہت تیز چلتے ہُوئے مدرسے کی حُدود سے نِکلنے میں کامیاب ہُوچُکے تھے۔ آپ کو اُس وقت معلوم ہی نہیں ہُوسکا کہ،،  سُلطانُ اُولیا ، شاہ جیلانی، محبوب سُبحانی، پروازِ لامکانی ۔ (رحمتہ اللہ علیہ) اپنی نگاہِ کریمانہ  سے آپکی تمام کشمکش کو نہایت اشتیاق سے دیکھ کر تبسم فرمارہے ہیں۔

بوڑھا راہب شیخ صنعان کی مستقل مزاجی سے ایک  نفسیاتی مریض بَن چُکا تھا۔ اب اُسے ہر وقت بس یہی ایک  دھڑکالگا رہتا تھا۔کہ،، کہیں شیخ صنعان واقعی  اُسکی بیٹی کو اِس سے جُدا کرنے میں کامیاب تو نہیں ہُوجائے گا۔ اُور ویسے بھی اُسکے لئے یہ بات بھی کسی تکلیف سے کم نہ تھی۔کہ،، جُوں جُوں راہب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہُونے لگا تھا۔ وُہ شیخ صنعان کیساتھ مزید سختی سے پیش آنے لگا تھا۔ لیکن چند دِن سے وُہ محسوس کررہا تھا۔ کہ ٹریسا دبے دَبے لفظوں میں شیخ صنعان کی حمایت میں بُولنے لگی تھی۔ ۔۔ جسکی وجہ سے شیخ صنعان نے آج ایک جُوا کھیلنے کا اِرادہ کیا تھا۔ اُور نجانے کیوں  ہزار اندیشوں کے باوجود بھی اُسے لگتا تھا کہ،، یہ بازی ہر گز شیخ صنعان نہیں جیت پائے گا۔

تھوڑی دیر بعد جب بوڑھے راہب کے ایما پر شیخ صنعان کمرے میں نظریں جھکائے داخل ہُوئے ۔ اُنہیں دیکھ کر ایسا لگ رَہا تھا۔ جیسے کسی مریض نے مُدتوں سے کھانا پینا چھوڑ دیا ہُو۔ نقاہت کی وجہ سے چہرے کی آب و تاب بھی ماند پڑچُکی تھی۔ لیکن وُہ آج بھی ہمیشہ کی طرح بغیر کسی سہارے کے ایسے کھڑے تھے۔ جیسے کوئی بُوڑھا برگد کا پیڑ ہَزاروں ٹہنیوں کا بُوجھ خُود پر لادے جھکنے کیلئے تیار نہ ہُو۔۔۔ راہب نے شیخ کے چہرے پر نگاہیں جماتے ہُوئے گفتگو کا آغاز کیا۔ شیخ صنعان میں آج تُم سے  حتمی اُور آخری بازی کھیلنے جارہا ہُوں۔ جس میں جیت کسی ایک کا مُقدر ٹہرے گی۔ جبکہ دوسرے کے مقدر میں دائمی ہار ہُوگی۔ لیکن اِس بازی میں   میری طرف سے کوئی جبر نہیں ہے ۔ اگر تُم  یہ کھیل نہ کھیلنا چاہو۔ تو میری طرف سے تُمہیں مکمل چُھوٹ حاصل ہے۔کہ،، تُم خاموشی سے واپس لُوٹ جاوٗ۔ اُور اِس تمام  واقعہ اور ٹریسا کی محبت کو ڈراوٗنا خواب سمجھ کر بھولنے کی کُوشش کرنا۔

راہب  کیاتُم  نہیں جانتے ۔کہ،، ٹریسا کی محبت میرے لئے کوئی کھیل نہیں ہے۔ اُور اُسے چھوڑنا یا بھولنا بھی میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں تمہارے تمام ستم صرف ٹریسا کی وجہ سے برداشت کررہا ہُوں۔ اُور میں نے تُمہاری تمام جائز اُور ناجائز شرائط کو بنا کسی حیل و حجت کے پُورا کیا ہے۔ میری تو یہی استدعا  ہے۔کہ اَب تم  بھی ٹریسا سے میری لازوال محبت کے جذبے کی قدر کرتے ہُوئے جبر کی راہ سے باز آجاوٗ۔ اُور ٹریسا کا ہاتھ مجھےاِس یقین کیساتھ سُونپ دُو۔ کہ دُنیا میں مجھ سے ذیادہ ٹریسا کو کوئی محبت نہیں دے پائے گا۔۔ شیخ صنعان نے راہب کو جواب دیتے ہُوئے پُراُمید نگاہوں سے دیکھا۔

ٹھیک ہے ابھی معلوم ہُوجائے گا۔ کہ،، تمہاری باتوں میں کتنی صداقت ہے۔ اُور تُم ٹریسا کیلئے واقعی کیا کچھ کر سکتے ہُو۔۔۔ بس ایک آخری امتحان اُور باقی ہے۔ اُور وُہ امتحان یہ ہے کہ،، میں چاہتا ہُوں۔کہ،، اگر واقعی تُمہیں ٹریسا دنیا کی ہر شئے سے بڑھ کر عزیز ہے تو یہ کتاب کھول کر دیکھو اُور پھر ٹریسا کی خاطر اِس کتاب کے ورق ورق کو پھاڑ کر جلتے ہُوئے آتشدان کی نذر کردو۔ میں وعدہ کرتا ہُوں کہ اِس امتحان  میں کامیابی کے بعد میں تمہارے اُور ٹریسا کے راستے کی دیوار نہیں بنونگا۔ یہ کہتے ہُوئے بُوڑھے راہب نے ایک کتاب شیخ صنعان کی جانب بڑھادی۔۔۔۔ شیخ صنعان نے جب کتاب  کو کھول کر دیکھا تو اُنکی پیشانی پسینے کے قطرات سے شرابور ہُونے لگی۔ کیوں کہ راہب نے جو کتاب اُسکے ہاتھ میں تھمائی تھی۔ وُہ قران مجید تھی۔۔۔۔۔۔ بُوڑھے راہب  نے شیخ  کے چہرے پر تغیر کے رنگ دیکھ لئے تھے۔ اُور وُہ دِل ہی دِل میں اپنی فتح کا جشن منانے لگا تھا۔ دوسری طرف آہستہ آہستہ شیخ صنعان خود کو سمجھانے میں مصروف تھے۔ کہ،، آج کسی بھی طرح ہار میرا مقدر نہیں ہُوگی۔ چاہے مجھے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑجائے۔


حُضور سیدنا غُوث اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) نے شیخ فرید کو دیکھ کر  فوراً ایک نشست کا اِرادہ ظاہر فرمایا تھا۔ جسکی وجہ سے  مدرسے میں چہار جانب اعلانات ہورہے تھے۔کہ سُلطانُ اُولیا ئے جن و انس  (رحمتہ اللہ علیہ) بیان فرمائیں گے۔ اسلئے سب جلد از جلد  مدرسے میں پُہنچ جائیں۔شیخ فرید بھی اعلان سُن کر فوراً حمام سے غُسل کرآئے تھے۔ اُور ایک پاکیزہ پُوشاک زیب تن کئے محفل میں  آگےموجود تھے۔۔۔ کچھ لمحوں بعد شاہِ بغداد(رحمتہ اللہ علیہ)  تشریف لے آئے آپ کے چہرے پر  آج بھی وہی نوری ہالہ موجود تھا ۔لیکن آج آپکے چہرہ مبارک پر تشویش کے رنگ بھی نُمایاں تھے۔۔۔۔ یکایک آپ کے لبہائے ناز نے جُنبش فرمائی ۔ اُور شیخ فرید کی سماعت سے یہ الفاظ ٹکرائے۔۔۔۔ آج  کی یہ نشست بہت اہمیت کی حامل ہے۔کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ،، کِسی کا پیر ،، جو کل تک محبوبین کے مقام پر فائز تھا۔ہماری بے ادبی کے سبب آج کافر ہُونے جارہا ہے۔!!!

شیخ فرید  ایک ہی لمحے میں جملے  میں چھپے پیغام  کا  بخوبی اِدراک حاصل کرچُکے تھے۔ اُور خُوب اچھی طرح جان چُکے تھے۔ کہ شیخ صنعان کا ایمان خطرات کے طوفان میں بالکل اُسی طرح ہچکولے لے رَہا ہے۔۔۔ جیسے طلاطم خیز موجوں میں  کوئی  کشتی بغیر ملاح  کے ڈولنے لگتی ہے۔۔۔۔شیخ فرید نے مُلتمس نگاہوں سے سیدنا غُوث پاک کی جانب دیکھا،، تو آپ (رحمتہ اللہ علیہ) شیخ فرید کی جانب  ہی متوجہ کرم تھے۔ شیخ فرید نے موقع غنیمت جان کر عرض کیا،، حضور آپ سب جانتے ہیں میرے دِل کا حال،، آپکو آپکی آلِ پاک کا واسطہ، اُور واسطہ اُس عزت و کرامت کے تاج کا، جسے رَبِّ کریم نے آپ کے سر پر سجایا ہے۔ حضور اُنہیں معافی عطا کردیں۔۔۔ ورنہ اُن کیساتھ ہزاروں  راہِ حق کے مسافر بھی ہلاک ہُوجائیں گے۔۔۔۔ نجانے شیخ فرید کی التجاوٗں میں کیسا درد پنہاں تھا۔ کہ،، یکا یک دریائے غوثیت ماب میں  جُوش پیدا ہُوا۔ اُور حضور سیدنا غُوث الاعظم (رحمتہ اللہ علیہ) نے قریب رکھے آفتابے سے ایک چِلو پانی لیکر ہَوا میں یہ کہتے ہُوئے اُچھال دیا۔۔۔ ہُوش میں آجاوٗ شیخ کہ،، غفلت کا وقت ایک عاشق مُرید کے سبب  اپنے اختتام کو پُہنچتا ہے۔


وہاں بغداد میں جس وقت شیخ فرید جناب غُوث الاعظم میں فریاد پیش کررہے تھے۔ عین اُسی وقت تبوک میں شیخ صنعان قران مجید کو جلانے کیلئے خُود کو تیار کرچُکے تھے۔ اچانک اُن کے چہرے پر پانی کی چھینٹیں پڑی۔۔۔۔ غفلت کے پردے اُتر گئے۔۔۔ اُور اُنہیں بغداد میں جہاں ایک طرف شیخ فرید التجا کرتے ہُوئے دِکھائی دیئے ۔ تو دوسری جانب حضور غُوثِ الاعظم (رحمتہ اللہ علیہ)  کی بے پناہ سخاوت،  عفو و درگزر سے مُزین ہستی شیخ فرید کی التجا کو قبولیت کا شرف عطا کرتے دِکھائی دی۔۔۔۔ ظلمتوں کی دبیز تہہ رُوح  کو آزاد کرچُکی تھی۔  جا بجا روشنی کے مینار شیخ صنعان کو مبارکباد پیش کررہے تھے۔۔۔۔ جبکہ شیخ صنعان (رحمتہ اللہ علیہ) شرمندگی سے بار بار قران مجید کے بُوسے لے رہے تھے۔

شیخ صنعان کے بدلتے تیور دیکھ کر راہب نے پھبتی کسی،، شیخ کیا پھر اِرادہ بدل گیا ہے؟؟؟۔۔ شیخ صنعان (رحمتہ اللہ علیہ) نے نہایت متانت سے جواب دیا۔۔۔۔ نہیں  بس سَراب   اُور منزل کا فرق معلوم ہُوگیا ہے۔ سُنو راہب!!! میں  تُم سے ہار کر بھی جیت گیا ہُوں۔۔۔ جبکہ تُم مجھ سے بظاہر جیت کر بھی یہ بازی ہار چُکے ہُو۔ اتنا کہہ کر شیخ صنعان مُڑے ہی تھے کہ،، دیوار کی آڑ سے ٹریسا نکل آئی اور شیخ صنعان سے استفسار کرنے لگی۔۔۔ شیخ جاتے جاتے یہ بھی بتادیجئے ۔کہ،، اِس تمام کھیل میں میرا کیا قصور تھا۔ آپ کہاں جارہے ہیں۔ اُور مجھے یہاں کس کیلئے چھوڑے جاتے ہیں؟؟؟

سُنو ٹریسا!!! میں اپنے دعوے سے تائب ہُوچکا ہُوں۔۔۔ بُہت دقت سے غفلت کی نیند سے جاگا ہُوں۔ مجھے اِس غفلت کی نیند سے جگانے والا میرا آقا بغداد میں میرا منتظر ہے ۔ سُو شرف غلامی کی سعادت و سَند حاصل کرنے کیلئے سُوئے بغداد جارہا ہُوں۔۔۔شیخ صنعان یہ کہتے ہُوئے دروازے کی جانب بڑھے۔ تبھی ٹریسا نے  بُوڑھے راہب کو مخاطب کرتے ہُوئے آخری جملے کہے ،، بابا آپ واقعی یہ شرط ہار چُکے ہیں۔ اب چونکہ شیخ نے یہ بازی جیت لی ہے اسلئے میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شیخ کیساتھ جارہی ہُوں۔ اب یہ بغداد رہیں یا اصفہان۔۔۔ جہاں جہاں شیخ صنعان کے قدم پُہنچیں گے اِنکی باندی بھی اِنکے ساتھ موجود رہے گی۔ 
ختم شُد۔۔۔۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ،، یہ کہانی لکھتے ہُوئے نادانستگی میں کوئی گستاخی یا بے ادبی کا ارتکاب ہُوگیا ہُو ۔۔۔ اِس عاجز و گنہگار کو معافی عطا کردی جائے۔۔آمیں بجاہِ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

2 comments:

  1. ماشاءاللہ..... بہت زبردست اور خوبصورت ..... سادگی بیان اس تحریر کا حسن ہے.

    البتہ ایک دو کتابت کی غلطیاں یقیناً سہواً ہوئی ہیں.
    1: خواہش کی بجائے لفظ خاہش لکھا گیا ہے
    2: شیخ فرید صاحب رافع کے ہمراہ بغداد کو روانہ ہوئے. اور یہاں غلطی سے تبوک کی جانب عازم سفر لکھ دیا گیا. اسے درست کر دیجئے.
    3: ایک جگہ جہاں بوڑھے یہودی راہب کی آخری چال کا جوا کھیلنے کا ذکر آیا ہے وہاں غلطی سے راہب کی جگہ شیخ صنعان لکھا گیا. اسے بھی درست فرما دیجئے.
    اور اس قدر ایمان افروز کہانی سنانے پر ڈھیروں داد قبول فرمائیے.
    جزاک اللہ

    خاک نشین : جوگی

    ReplyDelete
  2. JZAK ALLAH BHAI bohat nasehat amez waqia hai ALLAH KAREEM ham ko apney PIYARON sey khob FAIZ leyny our un sey khob MOHABBAT our un ka ADAB karney ki tofeeq ata famayay. AAMEEN.

    ReplyDelete