مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے حالات کشمیر کی ریاست پاکستان
اور انڈیا کے درمیان ایک بہت بڑا مسلہ ہے جو کہ تقسیم برصغیر سے لے کر اب تک بغیر
کسی فیصلہ کے ویسے کا ویسا ہےبرصغیر میں نگریزوں کے دور حکومت میں ٦٣۵ ریاستیں
جہںاں نواب یا راجے داخلی طور پر حکمران تھے ان میں سے ایک ریاست جموں کشمیر بھی
ہے .١٩۴٧ کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی کل آبادی چالیس لاکھ کے قریب
تھی ، آبادی کا بہت بڑا حصہ مسلمان آبادی پر مشتمل تھا . برطانوی حکومت نے اس ریاست
کو ایک ڈوگرە راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ صرف ٧۵ لاکھ
میں فروخت کر دیا تھا . ڈوگرە گلاب سنگھ اسکے جانشینوں نے مسلم رعایا پر ظلم جبر کے پہاڑ
توڑے . معمولی جراٴم کی پاداش میں مسلمانوں کو کڑی سزاٴیں دی گئیں، تنگ آ کر ١٩٣٠ میں
کشمیری مسلمانوں نے ڈوگرە راجہ کے خلاف آزادی کی تحریک شروع کر دی اور راجہ نے بھارت
کے ساتھ الحاق کر لیا تب کشمیری عوام نے راجہ کے خلاف ہتھیار اٹھاۓ اور
کشمیر کا کچھ حصہ حاصل کر لیا جو کہ آزاد جموں کشمیر کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ظاہر
ہوا اور باقی حصہ پر بھارت نے اپنی افواج بھیج کر قبضہ کر لیا . اب کشمیر ایک ایسا
خطہ ہے جہاں پر سات لاکھ سے زائد بھارتی افواج موجود ہیں . بھارتی فوجوں کے مسلمان
کشمیریوں پر ظلم و ستم نسل کشی کی حد تک پہنچ گۓ ہیں
کشمیر کی یہ حالت سٹیٹ سپونسرڈ ٹیروریزم کی بہت بڑی شکل ہے. کشمیر کے لوگ ایکطرف
تو بھارتی افواج کا ظلم و تشدد برداشت کر رہے ہیں اور دوسری طرف یونائیٹڈ نیشنز کی
سیکیورٹی کونسل کشمیری عوام کو بغیر کسی خوف و حراس اور ظلم و ستم کے بہتر مستقبل
کا وعدە کر رہی ہے جبکہ حقیقت میں کشمیری عوام کی امن حاصل کرنے کی
کوششوں اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو بہت بری طرح سے پامال کیا جا رہا ہے یہ لوگ
مسلسل بھارتی افواج کی بربریت کا شکار ہیں . بنیادی انسانی حقوق کے تمام چارٹر جن میں " ڈیکلریشن آف
ہیومن رائٹس " ( ) اور "ہیومن رائٹس کوونینٹ"
( ) شامل ہیں سب بہت بری طرح سے پامال ہو رہے ہیں انڈیا کی
افواج کشمیر کے اردگرد ایک لوہے کی دیوار کی طرح کھڑی ہیں جو کہ تمام بین الاقوامی
بنیادی انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر کے اندر جانے کی راە میں
رکاوٹ ہیں جبکہ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو کہ کشمیر کے اندر
جا کر وہاں کی عوام کے پرتشدد پر رپورٹ ہر دوسرے دن پیش کر رہی ہیں مگر بھارتی افواج
کے خلاف انٹرنیشنل لیول پر کوئ ایکشن نہیں لیا جا رہا، یہاں تک کہ انٹرنیشنل
کمیونٹی میں نہ تو کسی نے اس رویہ کو برا کہا ہے اور نہ ہی اسے روکنے کی کوئ خاطر
خواە کوشش کی ہے. کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ١٩٨٩ سے
شدید حد تک بڑھ گئ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیری عوام پاکستان سے الحاق چاہتی ہے. اکتوبر ١٩٦٦ میں
جموں کشمیر کے ہائ کورٹ کے جج نے کہا کہ ریاست میں قانون کا اصول اور استعمال ختم
ہو چکا ہے اور دوسری طرف بھارتی حکومت کا دعوی ہے کہ بھارت کی جموں و کشمیر کے
حوالے سے پالیسی بہت شفاف اور کھلے ذہن کی ہے جبکہ بھارت ہر طرح سے یونائٹڈ نیشنز
کے پیش کردە طریقہ امن سے کوئ بھی تعاون کرنے سے انکار کر رہا ہے اسکا
یہ انکار ہمیشہ سے برقرار ہے. بھارت کسی بھی بین الاقواممی تنظیم کو کشمیر میں
بنیادی انسانی حقوق کا سروے کرنے کی اجازت نہیں دے رہا. مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے اور کشمیریوں کو دبانے کے
لۓ متعددبدنام کالے قانون نافذالعمل ہیں ٹاڈا نیشنل پاور ایکٹ
، پونا نیشنل سیکیورٹی ایکٹ شامل ہیں ان ایکٹس کے تحت کشمیری عوام کے حقوق کی
پامالی سرعام کی جا رہی ہےجبکہ ان سب حالات پر حقوق انسانی تنظیموں نے آنکھیں موند
رکھیں ہیں . ٹاڈا جیسے کالے قانون کا نفاذ١٩٨۵ میں
عمل میں لایا گیااور اسکے تحت بھارتی افواج کو سپیشل اختیارات دئیے گۓ کہ
وە کسی بھی نہتےمظلوم کشمیری کو بغیر کسی وجہ کے ایک سال کے لیۓ جیل
بھیج سکتے ہیں مقبوضہ علاقے میں سے ٹاڈا کے تحت ٧٧٢ افراد
کو حراست میں لے کر بھارت کی مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا،اسکے ساتھ سپیشل پاور
ایکٹ جو کہ ١٩٩٦ میں نافذ کیا گیا اس ایکٹ کے تحت بھارتی افواج کو کشمیریوں
کی املاک تباە کرنے ، خواتین کی عصمت دری بے گناە افراد
کی گرفتاری کے اختیارات دئیے گیۓ . اس کے بعد بدنام زمانہ قانون پونا ٢٠٠٠ کے
تحت بھارتی افواج کو اضافی اختیارات دئیے گۓہیں
اسکے تحت بھارتی افواج کسی بھی بے گناە کشمیری
پر مسلک ہتھیار رکھنے کا الزام عائد کر کے اسے انسداد دہشت گردی کی شے میں بغیر مقدمہ
چلاۓ تین ماە کے لیۓ جیل بھیجا جا سکتا ہے. ١٩٨۵ سے
لے کر اب تک ٦٩٦۵ افراد ناجائز حراست میں ہیں . سفاک فوج دس ہزار نوجوانوں کو
اغواٴ کر کے گمنام قبروں میں ابدی نیند سلا چکی ہے. ٩٢ ہزارخواتین بیوە اور
ایک لاکھ سے زائد بچے عالمی طاقتوں کے غیر منصفانہ رویےکی وجہ سے باپ کی شفقت سے محروم
یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں . ایک سروے کے مطابق مقبوضہ علاقے ہانڈی پورە ،
بارە مولا اور کپواڑە
کے ۵۵ دیہاتوں میں ٢٧٠٠کے قریب گمنام قبریں دریافت ہو چکی ہیں ،. اکتوبر ١٩٨٩ سے
اب تک ٣٨٠٠٠ سے زائد کشمیری بھارتی افواج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں ( ) نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن ١٩٩٦۔١٩٩٧ کے
مطابق ١٣٧۵ کشمیری مارے گۓ اور
٢٢٣١ کشمیری ١٩٨٨سے ٣٠ اپریل ١٩٩٧ کے درمیان زخمی ہوۓ . قابل اعتماد پریس رپورٹس کے مطابق ١٩٩٧ میں
١١١۴ ملیٹیٹ افراد مارے گۓ. ١۵ اکتوبر
١٩٩٦ کی ایمنیسٹی انٹرنیشنل پریس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت
، جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی بہت بری طرح سے پامالی کر رہی ہے اور اس رپورٹ کے
مطابق ٢٠٠ شہریوں کو ناجائز حراست میں لے کر مار دیا گیا اور ۵٠٠، ٦٠٠افرد
کو غائب کر دیا گیا، جو کہ ابھی تک لاپتہ ہیں بہت ساری رپورٹس کے مطابق کشمیری
افراد جن میں زیادە تر مسلمان ہیں بھارتی افواج کے شدید تشدد کا نشانہ ہیں گزشتہ
دو عشروں میں حراست اور جعلی مقابلوں کے درمیان ہزاروں افراد کو شہید کیا جا چکا
ہے لیکن ان کے کے بارے میں تاحال کوئ تحقیقات نہیں کی گئ ہیں اکتوبر ١٩٨٩ سے
لے کر اب تک ۵٠٠٠ خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے . ایک رپورٹ کےمطابق ٢٣ فروری
١٩٩١ میں ایک بہت خاص واقعہ پیش آیا جس کے مطابق جموں کشمیر کے ایک
گاوٴں کو نان فاسفوواە میں ٨٠٠٠ بھارتی فوجیوں نے گاوٴں پر قبضہ کر کے مردوں کو حراست میں لے
لیا اور گھروں میں گھس گۓ اور اس رات میں ٢٣ سے
٦٠ عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا . وہاں پر یہ واقعات بھی دیکھنےمیں آۓ ھیں
کہ جوان لڑکیوں کو کچھ دن کے لیۓبھارتی افواج کے اڈے پر لیجایا جاتا ہے وہاں پر انہیں
زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر انہیں مار دیا جاتاہےیاپھر گھر واپس چھوڑ
دیا جاتا ہے جن میں سے کچھ حاملہ ہونے کی صورت میں خودکشی کر لیتی ہیں زیادە تر
بھارتی افواج ہی کشمیری خواتین کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں نہ کہ دوسرے میلٹیٹ . زیادە تر
یہ واقعات پیش آتے ہیں تب فوجی مایوسی کاشکار ہوں یا پھر شراب کے نشہ میں . بھارتی افواج کے تشدد کا نشانہ وە لوگ
بنتے ہیں جو آزادی کی تحریکوں میں حصہ لیتے ہیں اور جو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں . بھارتی افواج تشدد کے بہت سارے طریقے
استعمال کرتے ہیں جن میں بے رحم مار پیٹ ، بجلی کے جھٹکے ، جسم کے اعضاٴ کو کاٹنا
خاص طور پر ہاتھ اور پاوٴں کے انگھوٹوں سے جسم کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا . جلا
دینا ، جنسی خوف و حراس پھیلانا اور زیادتی کا نشانہ بنانا،وغیرە ٢٧مارچ
١٩٩٦ کو انسانی حقوق کے وکیل جلیل اندرابی کی لاش دریاۓ جہلم
میں پائ گئ مگر اسکے قاتلوں کو کوئ سزانہیں دی گئ. جنوری ١٩٩٨ میں ١١ افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے کو جموں کشمیر کے
گاوٴں کادرانہ میں آگ لگا کر جلا دیا گیالیکن اب تک ان کے قاتل بھارتی افواج کو کوئ
سزا نہیں دی گئ اس طرح کے تشدد کے واقعات آۓ روز
پیش آتے ہیں مگر اس پر کوئ تنظیم کام نہیں کر رہی، مظلوم کشمیریوں کے قاتل سر عام پھر
رہے ہیں تشدد کے واقعات میں یہ طریقہ بہت دیکھنےمیں آیا ہے کہ لوگوں کی ٹانگوں کو
لکڑی سے دبا دیا جاتا ہےجس سے انکے مسلز ڈیمج ہو جاتے ہیں جو کہ گردوں کے فیل ہونے
کا سبب بنتے ہیں ڈاکٹرز کے مطابق ١٩٩٠ تک ٣٧ افرد گردوں کے مرض میں مبتلا تھے جو کہ اب تک لا تعداد ہو چکے
ہیں انڈین فورسز کے تشدد کی وجہ سے ٧۵ لاکھ
افراد ذہنی مریض بن چکے ہیں ٦ لاکھ سے زائد افراد معزور ہو چکے ہیں ٢ لاکھ
٨ ہزار افراد بینائ سے محروم ہو چکے ہیں رپورٹ کے مطابق ١٩٩٠ سے
٢٠٠١ تک مقبوضہ علاقے میں ظلم و تشدد کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی
امراض کے شکار افراد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے مقامی ماہر نفسیات کے مطابق ہر چھٹا
کشمیری کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہے انڈین افواج کا تشدد صرف افراد، گھروں
،سڑکوں یا جیلوں تک محدود نہیں بلکہ یہ لوگ نہ صرف ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ کرتےہیں
بلکہ وہاں پر ملیٹینٹ زخمی افراد کو مار دیتے ہیں یا پھر اپنی حراست میں لے لیتے
ہیں اس کے علاوە وہاں پر موجود ڈاکٹرز اور ہسپتال کے دوسرے عملہ کو ڈراتے
دھمکاتے ، تشدد کرتے اور کبھی مار بھ دیتےہیں سچ تو یہی ہے کہ بھارتی افواج کو کوئ
سزا نہیں دی جاتی . آزادی کی تحریکوں یا انکوائری اور رپورٹس لکھ کرکشمیری عوام کو
ان کے بنیادی حقوق اور آزادی نہیں دلائ جا سکتی.
0 comments:
Post a Comment