پہلی قسط۔
وہ دروازے پر دَستک دینے کے بعد چند لمحے انتظار کرتا رہا جب
اندر سے کافی دیر تک کوئی آواز سُنائی نہ دِی تو اُس نے لکڑی کے دروازے کو دوسری مرتبہ
پھر کھٹکٹا دِیا دِسمبر کا مہینہ اور سَردی کی شِدت کی وجہ سے تمام گَلی رات کے دس
بجے ہی سُنسان دَکھائی دے رہی تھی البتہ کبھی کبھار کُتوں کے بھونکنے کی آواز ماحول
پر طاری خَاموشی کے انجماد کو پِگھلا دیتی تھی اور کُچھ دیر بعد پھر خَاموشی کا راج
قائم ہُوجاتا تھا۔
دوسری دَستک دینے کے چند لمحوں بعد اندر سے کُچھ کھٹر پٹر کی
آواز سُنائی دی جِس سے دِستک دینے والے کو یقین ہُونے لگا تھا کہ ضرور اندر کسی کو
میرے وُجود کا احساس ہُوچُکا ہے اور یہ خُوش آئیند بات تھی ورنہ آج شہر کے ایک کِنارے
سے دوسرے کنارے تک کا سفر رائیگاں ہی چَلا جاتا، دروازے کے پیچھے سے کسی کی نحیف آواز
سُنائی دِی کُون ہے بھائی؟
آواز سُنتے ہی دَستک دینے والے نوجوان کی جان میں جان سمائی
اور جواباً کہا میاں صاحب میں ہُوں کمالا آپ سے مِلنا چاہتا ہُوں! لیکن ہَم تُو کِسی
کمالے کو نہیں جانتے۔ میاں شائد آپ غلط جگہ پر آگئے ہیں۔ دروازے کے پیچھے سے پھر وہی
نحیف سی آواز سُنائی دی۔
میاں صاحب میں شیدے کا دوست کامل ہوں میرا مطلب ہے عبدالرشید
کباڑی کا دوست کامل علی ہُوں مجھے اُسی نے آپکا پتہ بتایا ہے۔ اور میں شہر کے دوسرے
سِرے سے صرف آپکی زیارت کیلئے حاضر ہُوا ہُوں۔ کامِل علی نام کا یہ شخص اپنی بات مکمل
کرنے کے بعد اپنی شال کو دُرست کرنے لگا گھر کے باہر کھڑے کھڑے کامِل علی کا جِسم قلفی
کی طرح جَمنے لگا تھا۔
اچھا میاں ٹہرو میں دروازہ کھولتا ہُوں ویسے کامل دیکھنے کا
اِشتیاق تو ہمیں بھی ہے ۔ مزید کچھ لمحے توقف کے بعد اند سے دروازہ کھول دِیا گیا
۔اندر کچھ ملجگی سی روشنی میں ایک دُبلا پتلا سا بوڑھا شخص جسکی عُمر کا اندازہ کامِل
علی نے نوے اور سو برس کے دمیان لگایا برآمد ہُوا۔ آتے ہی کامِل علی کا پہلے بغور جائزہ
لینے کے بعد اُکتاہٹ کے انداز میں گھورتے ہُوئے درشت لہجے میں گویا ہُوا ۔کہو میاں
کیسے آنا ہُوا ؟
رات کے اِس پہر کامِل علی شائد اپنے اس طرح کے استقبال کیلئے
ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں تھا۔ لہذا گھبراہٹ کے عالم میں میاں صاحب کی دست بوسی
کرتے ہُوئے صرف اِتنا ہی کہہ سکا میاں صاحب بس کچھ خاص نہیں صرف آپکی زیارت کی سعادت
حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں نے رات کے اِس پہر آپ کو تکلیف دِی اِس کیلئے مُعافی چاہتا
ہوں۔
ہُوں۔۔۔۔ زِیارت کیلئے آئے تھے۔ تُو ہوگئی زِیارت ْ۔۔۔۔ ؟ میاں
صاحب کے استفسار پر کامِل علی کے مُنہ سے (جی) کے سِوائے کوئی دوسرا جملہ نہیں نِکل
سکا کامِل علی کے خاموش ہُوتے ہی میاں صاحب الوداعی مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھاتے ہُوئے
کچھ بے زاری کے عالم میں گوُیا ہُوئے میاں اب ایسا کرو اب اپنے گھر جاؤ خود بھی آرام
کرو اور مجھے بھی آرام کرنے دُو مُصافحہ سے فارغ ہُو کر میاں صاحب نے اندر واپس جانے
کے بعد دروازہ بند کرلیا۔
کامِل علی چند لمحے وہاں بھونچکا سا کھڑا رَہا اور پھر واپس
پلٹ کر اپنے گھر کی جانب چِل دیا کامِل علی تمام راستے غَم اور ناکامی کی مِلی جُلی
کیفیت کیساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا چِلا جارَہا ہے میاں صاحب کے برتاؤ کی وجہ سے کامِل
علی کافی دلبرداشتہ تھا وہ اپنے دوست عبدالرشید عرف شیدے کے کافی اصرار کے بعد میاں
صاحب سے ملنے کیلئے راضی ہُوا تھا ۔
کامِل علی کا بھری دُنیا میں شیدا وہ واحِد دُوست تھا کہ جِس
سے کامِل علی اپنی نجی زندگی سے متعلق کُھل کر گُفتگو کر لیا کرتا تھا شیدا بھی اُن
لوگوں میں سے نہیں تھا جو یہاں کی بات وہاں کردے اور شیدے کی یہی بات کامِل علی کو
بے حَد پسند تھی چُنانچہ کامِل علی نے شائد ہی اپنی زندگی کا کوئی ایسا باب ہُو کہ
جس کے متعلق شیدے سے گُفتگو نہ کی ہُو چُونکہ شیدے کو معلوم تھا کہ کامِل علی ایک مُدت
سے عملیات کے سحر میں گرفتار ہے اور اکثر چِلہ کشی میں مصروف رِہتا ہے اور وہ یہ بھی
جانتا تھا کہ آج تک کسی ایک عمل میں بھی کامِل علی کو کامیابی نصیب نہ ہُوئی تھی۔
وہ اکثر کامِل علی کو اِن عملیات کے چکر سے نکلنے کی ترغیب دیتا
رہتا تھا اور اُسے محنت مزدوری کی جانب مائل کرنے کی بیشُمار کوشش کرچُکا تھا لیکن
کامِل علی جیسے گویا اِن نصیحتوں کو سُننے کے لئے قطعی تیار نہیں تھا کامِل علی اکثر
شیدے سے کہا کرتا ، یار صرف ایک چلہ کامیاب ہونے دے پھر تُو دیکھے گا کہ کیسے ہم تمام
دُنیا پر حَکومت کرتے ہیں اور یہ لوگ جو آج ہم سے کترا کر گُزر جاتے ہیں ہمارے آگے
پیچھے گُھوما کریں گے اور مجھے نرگس کے باپ سے بھی تُو اپنی ذلت کا انتقام لینا ہے۔
شیدے نے کامِل علی کو بتایا تھا کہ میاں صاحب بُہت خُدا ترس
انسان ہیں اور دُکھی انسانوں کی مدد کی خَاطر ہرِ لمحہ تیار رِہتے ہیں جبکہ یہاں تو
معاملہ ہی اُلٹا تھا میاں صاحب نے اُسکی مدد کرنا تُو کُجا اُسکی بات سُننا بھی گوارا
نہیں کیا تھا۔ اور کامِل علی سوچ رہا تھا کہ کیا یہی مہمان نوازی کا طریقہ ہے اور کیا
یہی خُدا ترسی ہے کہ میاں صاحب نے میری بات بھی سُننا گوارا نہیں کیا۔
کامِل علی اِنہی سوچوں میں اپنے گھر کی جانب چلا جارہا تھا اور
ایک عجیب سا بے عزتی کا احساس کامِل علی کے دِل میں گھر کرچُکا تھا اُسے اپنے دوست
شیدے پر بھی بے پناہ غُصہ آرہا تھا۔ یہ تو اچھا ہُوا کہ شیدا ساتھ نہیں آیا تھا ورنہ
وہ اگر اس وقت کامِل علی کی دسترس میں ہُوتا تو شائد کامِل علی اپنی خِفت مِٹانے کیلئے
شیدے کی گرن ہی دَبا ڈالتا ۔سردی نے اگر چہ تمام ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا
لیکن کامِل علی موسم کی شدت سے بے نیاز اپنے گھر کی جانب رواں دواں تھا۔
گھر پُہنچنے کے بعد جب کامِل علی کے غُصے میں کُچھ کمی واقع
ہُوئی تو سردی کا احساس بیدار ہُونے لگا کامِل علی کو چائے کی طلب ستانے لگی لیکن جونہی
کامِل علی نے گیس کے چولہے پر پانی کی دیگچی چُڑھا کر چولہا جلانے کی کوشش کی تو معلوم
ہُوا کہ گیس سلینڈر خالی ہُوچُکا تھا۔
کامِل علی نے اپنا غُصہ نِکالتے ہُوئے ایک لات خَالی سلنڈر کو
رَسید کی اور پھر چارپائی بِچھا کر رضائی میں دُبک گیا کافی کوشش کے بعد بھی جب نیند
کی دیوی کامِل علی پر مہربان نہ ہوئی تو کامِل علی اپنی ناکامیوں سے بھری زندگی کے
ایک ایک ورق پر نِگاہ دوڑانے لگا اور یوں وہ اپنے بچپن کے اُس حِصہ میں پُہنچ گیا جہاں
غَم نام کی چُڑیا سے عموماً بچّے بے خبر ہُوتے ہیں۔
کامِل علی آٹھ برس کا تھا جب اُس نے ایک انہونی بات محسوس کی
تھی کہ پہلے اَبا اکثر شام کو پانچ بجے کے بعد دفتر سے گھر آیا کرتے تھے لیکن اب چند
دِنوں سے وہ دیکھ رَہا تھا کہ اَبا اپنے آفس نہیں جا پارہے تھے اور سارا دِن وہ چارپائی
پر پڑے رہنے لگے تھے ایک دِن اَمّاں سے جب کامِل علی نے اِسکا سبب پوچھا تو اَمّاں
نے بتایا تھا کہ اُسکے ابو کا ٹی بی کا مرض ہُو گیا ہے جس کے سبب وہ اپنے آفس نہیں
جاپارہے تھے ۔ پھر رفتہ رفتہ اَبا کی طبیعت بحال ہُونے لگی تھی اَمّاں کے چہرے پر بھی
اطمینان دِکھائی دینے لگا تھا مگر ایک دِن نجانے کیا ہُوا کہ ابا کی طیعت اچانک پھر
سے بگڑنے لگی اور شام تک ابا کو خُون کی اُلٹیاں آنے لگیں۔
اَمّاں جیسے تیسے کسی ڈاکٹر کو پَکڑ لائیں تھیں لیکن ابّا نے
ڈاکٹر کا قطعی انتظار نہیں کیا اور ڈاکٹر کے آتے آتے اَبّا نے ایسی خاموشی اِختیار
کی کے اَمّاں کی چیخُوں اور سینے پر لاکھ سر پٹکنے کے باوجود یہ خَاموشی نہ ٹوٹی کامِل
علی نے اپنی ماں کو روتے دیکھا تُو وہ بھی رونے لگا لیکن کامِل علی یہ سمجھنے سے قاصر
تھا کہ آخِر کیوں اَمّاں اِتنا واویلا مَچارہی ہے اور کیوں اَمّاں کو یہ بات سمجھ نہیں
آرہی کہ آج شام سے اُسکا بیٹا بھوکا ہے۔ اور اِس بات کا مُنتظر ہے کہ وہ اِسے اپنے
ہاتھوں سے روٹیاں پکا کر ہمیشہ کی طرح بڑے لاڈ اور چاؤ سے کھلائے۔
رات بھیگتی چلی گئی لیکن اَمّاں پر بار بار غَشی کے دُورے پڑ
رہے تھے مُحلے کی عورتیں اَمّاں کو دِلاسہ دے رہیں تھیں اور کبھی کبھی وہ بھی اَمّاں
کیساتھ بین کرنا شروع کردیتیں پھر جب اَمّاں کے مُنہ سے یہ نِکلا کہ ہائے میرا بچّہ
یتیم ہُوگیا تو کامِل علی سوچنے لگا کہ یہ یتیم کیا ہُوتا ہے تبھی اُن کی پڑوسن کی
نِگاہ کامِل علی پر پڑی تُو اُس نے بڑھ کر کامِل علی کو اپنی گُود میں بِٹھا لیااور
اُسے پیار کرنے لگی کامِل علی سے اب بھوک بالکل برداشت نہیں ہُوپارہی تھی ممتا کا اِحساس
ملتے ہی اُسکے مُنہ سے نِکلا خالہ مجھے بُھوک لگ رہی ہے اَمّاں سے کہو نا کہ مجھے رُوٹی
دے۔
پَڑوسن نے جب کامِل علی کی بات سُنی تُو اُسکی ممتا بیدار ہُوگئی
اور ،ہائے میرا بَچّہ ابھی تک بھوکا ہے۔ کہتے ہوئے کامِل علی کو اپنے گھر لے آئی اور
اُسے پیٹ بھر کر کھانا کھلانے لگی ، بھوک کا احساس جب کُچھ کَم ہُوا تُو کامِل علی
نے پَڑوسن سے پُوچھا خالہ اَماں آج اِتنا کیوں رُو رہی ہے اور سارے مُحلے کی عورتیں
بھی اَمّاں کیساتھ کیوں رُو رہی ہیں۔
تب وہ پَڑوسن اُسے بڑے پیار سے سمجھانے لگی کہ بیٹا اب تُمہارے
اَبّا اِس دُنیا میں نہیں رہے وہ اللہ تعالٰی کے پاس چلے گئے ہیں کامل علی کی سمجھ
میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ جب اَبّا گھر میں چارپائی پر سُورہے ہیں تُو وہ اللہ تعالٰی
کے پاس کیسے چَلے گئے لیکن جب دوسرے دِن لوگ اُسکے اَبّا کو نہلا دُہلا کر قبرستان
کی جانب لے گئے اور اُسکی آنکھوں کے سامنے اُسے قبر میں اُتار چُکے تو اُسے کُچھ کُچھ
سمجھ آنے لگا تھا۔
قسط ,۲
ابا کے انتقال کے بعد کامل کو بُہت جلد یہ احساس ہُوگیا تھا
کہ باپ چاہے بیمار ولاچار ہی کیوں نہ ہُو۔ جب تک زندہ رہتا ہے اُسکے سائے کی برکت سے
دُنیا کے تمام غَم اُسکی اولاد سے دُور رہتے ہیں۔ وقت رفتہ رفتہ گُزرنے لگا اور مزید
دو برس گُزر گئے اَبّا کے گُزرنے کے بعد اُنکے گھر اکثر نانا اور ماموں آنے لگے تھے
لیکن پھر نانا کا بھی انتقال ہوگیا اور ماموں کا بھی گھر آنا کم ہُونے لگا تھا اب کامل
کو اَبّا کی کمی کا بُہت زیادہ احساس ہُونے لگا تھا جب تک اَبّا زندہ تھے وہ اُسکی
ہر خُواہش پُوری کردیا کرتے تھے لیکن اَب پہلے جیسی بات نہیں رہی تھی۔ اَمّاں کے لاکھ
منع کرنے کے باوجود بھی شروع میں ماموں اُسکی ہر چھوٹی بڑی خُوشی کا خیال رکھتے تھے۔
لیکن پھر ماموں نے بھی بیزاری دِکھانی شروع کردی تھی۔ اَب تو وہ اَماں سے بھی ضد نہیں
کرتا تھا کیوں کہ چند مہینوں سے وہ دیکھ رَہا تھا کہ اَمّاں سارا دِن محلے والوں کے
کپڑے سیتی رہتی تھی۔ جسکی وجہ سے کبھی کبھی اُنکے مزاج میں چِڑ چِڑا پن آجایا کرتا
تھا اور جب کبھی وہ اَماں سے کسی کھلونے کی فرمائش کیا کرتا تو اَماں اُسے سمجھانے
لگ جاتیں کہ میرے لعل اب ہمارے پہلے جیسے حالات نہیں ہیں اب تو دُو وقت کی رُوٹی ہی
بڑی مشکل سے نِکل پاتی ہے میں تجھے کھلونے کہاں سے لاکر دُوں۔
مزید ایک سال گُزرنے کے بعد اَماں نے اُسے پرائیویٹ اسکول سے
نِکال کر گورنمنٹ اسکول میں داخل کرادِیا اور جب اُس نے اَمّاں سے احتجاج کیا تو اَمّاں
نے اُسے سمجھایا کہ وہ پرائیویٹ اسکول کی فیس اور کتابوں کا خرچ برداشت نہیں کرسکتی
لہذا اُسے گورنمنٹ اسکول میں ہی دِل لگا کر تعلیم حاصل کرنی ہُوگی۔
اُسے گورنمنٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے میں بُہت دشواری کا
سامنا کرنا پڑرہا تھا اول تُو اساتذہ ہی اکثر کلاس رُوم میں نہیں آتے تھے اور اگر کوئی
ماسٹر صاحب غلطی سے کلاس رُوم میں آبھی جاتے تُو گویا جیسے کلاس رُوم میں قیامت آجاتی۔
جب کبھی کامل کلاس کے دیگر بَچوں کی پِٹائی ہوتے دیکھتا تُو اُسکا دِل چاہتا کہ وہ
اسکول سے بھاگ جائے اور ماں کے دامن میں جا چُھپے۔ لیکن ہمیشہ اَماں کا بے بس اور مجبور
چہرہ کامل کی نگاہوں میں آجاتا اور وہ کوشش کے باوجود بھی اپنے خیالات کو عملی جامہ
پہنانے سے قاصر رِہ جاتا۔
ایک مرتبہ اسکول میں اسپورٹس کے پروگرام چَل رہے تھے اس لئے
اُن بچوں کو جو کھیل میں حِصہ نہیں لے رہے تھے اُنہیں اِجازت ملی تھی کہ چاہیں تُو
کھیل سے لُطف اندوز ہُوں یا چاہیں تُو اپنے گھر کو چلے جائیں کامل کو اِن کھیلوں میں
خاص دِلچسپی نہیں تھی اسلئے وہ اپنے گھر کیلئے روانہ ہُوگیا گھر میں داخِل ہوتے ہی
اُسکی نظر ایک نوجوان پر پڑی جِس کے آگے اُسکی ماں ہاتھ جوڑے کھڑی تھی کامل کے ننھے
دِماغ نے خَطرے کو مِحسوس کرتے ہوئے دروازے کی اُوٹ میں پناہ حاصل کرلی یہ کوئی اجنبی
نوجوان تھا جو اِنکے مُحلے کا ہرگز نہیں تھا اماں اُس نوجوان کے آگے ہاتھ جوُڑے التجا
کررہی تھیں کہ وہ یہاں سے چلا جائے اور انکا پیچھا چھوڑدے۔
پھر وہ مزید وہاں کھڑا نہیں رِہ پایا اور دروازے کی اُوٹ سے
باہر کی جانب دوڑا تاکہ مدد کیلئے اپنے پڑوسی ارشد چاچا کو بُلا سکے لیکن بدحواسی میں
اسکے اسکول بیگ کی ڈوری دروازے کی کُنڈی میں پھنس گئی جسکی وجہ سے وہ اپنا توازن قائم
نہ رکھ سکا۔ اور کامل علی اُوندھے مُنہ زمین پر رپٹ گیا۔
کامل علی کے مُنہ سے بے ساختہ ،، ماں ،، کی صدا بُلند ہوگئی
جسکی وجہ سے وہ اجنبی نوجوان ہوشیار ہُوگیا۔ اِس سے پہلے کے کامِل زمین پر اپنے قدم
جما پاتا وہ اجنبی نوجوان موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کامل کو پھلانگتے ہُوئے گلی سے
فرار ہُو چُکا تھا۔
کامل کی مَاں نے لپک کر کامل علی کو سنبھالتے ہوئے اپنے سینے
سے لگا لیا وہ کامل کے چہرے اور بَالوں پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کامِل کو گھر کے صِحن
میں لے آئی کامل کو چارپائی پر بِٹھانے کے بعد وہ دوڑتی ہُوئی پانی کے مٹکے کی جانب
لپکی اور پانی کا گلاس کامل کے ہُونٹوں سے لگاتے ہوئے تشویش کے عالم میں کامل کے سراپے
کا جائزہ لینے لگی کامل نے جُونہی پانی کے گِلاس کو اپنے ہاتھوں میں تھاما ۔ اُسکی
ماں وارفتگی سے اُسکے پائنچوں کو اوپر اُٹھاتے ہُوئے اُسکی پنڈلیوں کا جائزہ لیتے ہُوئے
گُویا ہوئی کمالے تجھے کہیں چُوٹ تُو نہیں آئی میرے لال؟
اَمّاں چُوٹ تُو مجھے نہیں آئی مگر یہ آدمی کُون تھا اور تُو
کیوں اسکے آگے ہاتھ جُوڑ رہی تھی۔ کامِل نے گلاس ماں کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے تجسس
سے پُوچھا۔
کوئی نہیں بیٹا! یہ تماشہ تُو اب زندگی کا مُقدر ہے جب عورت
کے سر پر اُسکے مرد کا سایہ نہیں رہتا تب ایسے بھیڑیے گھات لگائے بیٹھے نظر آتے ہیں
ذرا نظر جھپکی نہیں کہ شِکاری شِکار پر جھپٹ پڑتے ہیں۔
کَامِل کے ننھے دِماغ میں اَمّاں کی ایک بات کا مطلب بھی سمجھ
نہیں آیا تب اُس نے اَماں سے اپنی کم مائیگی کا اِظہار کرتے ہُوئے پُوچھا اَماں کیا
وہ ہمارا دُشمن تھا۔ اَمّاں نے ایک نظر کامِل کی طرف دیکھتے ہوئے اُسے اپنی گُود میں
لِٹاتے ہوئے کہا ۔ ہاں میرے بچّے یہی سمجھ لے ایک وہ ہی کیا مجھے تو ہر چہرے میں اب
دُشمن ہی دُشمن نظر آنے لگے ہیں۔
کامِل کو اَمّاں کی باتوں سے خُوف محسوس ہُونے لگا تھا۔ اُسکا
ننھا سا ذہن بُہت تیز رفتاری سے اِس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن وہ کِسی
نتیجے پر نہیں پُہنچ پارہا تھا بلاآخر وہ تھک ہار کر ماں سے اِتنا ہی کہہ سکا۔ کہ وہ
اب اسکول نہیں جائے گا بلکہ گھر پر ہی رہے گا اور اگر کسی نے اُسے ستانے کی کوشش کی
تو وہ اینٹ سے اُس دُشمن کا سر پھاڑ دے گا اور اگر اُسے یہ شرط منظور نہیں تو ہم یہ
مُحلہ ہی چھوڑ دیتے ہیں جہاں تیرے دُشمن نہ ہُوں۔
اَماں نے اُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا نا بیٹا اسکول چھوڑنے
کی بات دوبارہ نہ کرنا اسطرح تو میں اور بھی کمزور ہُوجاؤں گی۔ اور میرے لال محلہ چھوڑنے
سے بھی کُچھ نہیں ہُوگا۔ ایسے درندے اور وحشی جانور نُما انسان تو ساری دُنیا میں پھیلے
ہُوئے ہیں جو اپنی ہوس پوری کرنے کیلئے ذلت کی گہری سے گہری دلدل میں اُتر سکتے ہیں۔
اگرچہ اماں کی فلسفیانہ گُفتگو کا ایک لفظ بھی کامل کے پلے نہیں پڑ رہا تھا مگر وہ
اتنا ضرور سمجھ رہا تھا کہ اَبّا کے جانے کے بعد اَمَّاں کسی خُوفزدہ ہرنی کی مانند
ہوگئی ہے۔ اور خطرے بدستور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہی سوچتے سوچتے وہ اَماں کی انگلیوں
کے لمس کے سبب ایک مرتبہ پھر آہستہ آہستہ پریوں کے دیس میں پُہنچ گیا جہاں ہمیشہ کئی
خُوبصورت پریاں اُسکے ساتھ کھیلنے کیلئے منتظر رہتی تھیں۔ اور چاچا ارشد کی منجھلی
بیٹی نرگِس بھی ہمیشہ اِس کھیل میں اِسکا ساتھ دَیا کرتی تھی اور آخر میں نرگس جونہی
کسی بات پر رُوٹھ کر اُس سے دُور جانے لگتی تب اچانک نرگس کو پُکارتے ہُوئے اُسکی آنکھ
کُھل جایا کرتی تھی۔
وقت گُزرتا رہا اور کامل دس برس کا ہُو گیا اَماں کی بس یہی
خُواہش تھی کہ کم از کم اُسے اِتنا کام مِل جائے کہ وہ گھر کا خرچ آسانی سے پُورا کرنے
کے بعد دوبارہ سے کامل کو کِسی پرائیویٹ اِسکول میں داخل کراسکے۔ لیکن حالات دیکھ کر
ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے گویا مہنگائی کا جِن بے قابو ہُوچُکا ہے اور وہ شائد کسی
غریب کو جینے کا حق دینے کے حق میں نہیں ہے۔ تمام مُحلے میں ایک چاچا ارشد کا گھر ایسا
تھا کہ جہاں جانے کیلئے کامل کو اَماں سے اجازت نہیں لینی پڑتی تھی۔ جہاں چاچا ارشد
کی منجھلی بیٹی نرگس ہمیشہ اُسکی منتظر رہا کرتی تھی لیکن کبھی کبھار کامل کو نرگس
پر بے انتہا غصہ بھی آتا کیونکہ نرگس کوئی بھی لڑکوں والا کھیل نہیں کھیلا کرتی تھی
اُسے تو بس گُڑیا کیساتھ کھیلنا پسند تھا یا زیادہ سے زیادہ آنگن میں پڑے جھولے سے
لگاؤ تھا نرگس کی بڑی بہن تو اکثر اپنی اَماں کا ہاتھ بٹاتی نظر آتی اور نرگس سے چھوٹی
بہن فرح کو اسکول کا اتنا خُوف سوار رَہتا کہ ہر وقت آنگن میں بِچھے تخت پر اپنی کاپیاں
اور کتابیں پھیلائے نظر آتی ۔
نرگس کی عمر 12 برس کے قریب تھی اور وہ ساتویں کلاس کی طالبہ
تھی جبکہ کاِمل اس برس پانچویں کلاس میں آیا تھا۔ اور اماں کی شب و روز کی محنت کی
وجہ سے کلاس میں مانیٹر تھا اماں بظاہر تو دس کلاس پاس تھیں لیکن ظاہری حُسن کے ساتھ
گُفتگو کا سلیقہ ایسا تھا کہ اکثر کالج میں پڑھنے والی بچیاں بھی مدد کیلئے سارے مُحلے
میں اَمّاں ہی کا انتخاب کرتیں ۔ کامل کئی مرتبہ اماں سے کہہ چُکا تھا کہ اماں ہمارے
ماسٹر صاحب گھر پر پڑھانے کے پورے تیس روپیہ لیتے ہیں اور آپ تو ایک پیسہ بھی مُحلے
کی بچیوں سے نہیں لیتی ہیں ۔ اماں ہمیشہ مسکرا کر ایک ہی جواب دیتیں کہ بیٹا علم بانٹنے
سے گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے اور اسطرح علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اگلے برس کامل پورے اسکول میں اول پوزیشن لایا تھا۔ ہیڈ ماسٹر
صاحب نے اپنی جیب سے خاص دس روپیہ نقد اور ایک نیا قلم کامل کو انعام میں دیکر سرٹیفکٹ
کیساتھ رُخصت کیا تھا کیونکہ اِس اسکول میں پانچ سے زائد کلاسیں نہیں تھی۔ اماں کو
جب کامل نے دس روپیہ اور قلم کا تُحفہ دِکھایا تو اَماں کئی منٹ اسکے چہرے پر بُوسوں
کی بارش کرتے ہوئے اُسے چُومتی رہیں لیکن وہ آنسو جو اُمنڈ اُمنڈ کر اماں کی آنکھوں
سے رُخسار پر آرہے تھے جنہیں بار بار اماں اپنے دوپٹے کے پلّو سے صاف کر رہی تھیں کامل
کی سمجھ سے بالا تر تھے۔
پھر اَماں نے جیسے تیسے کوشش کر کے کامل کو ہائی اسکول میں نئی
یونیفارم اور نئی کاپی کتابوں کیساتھ داخل کرادِیا۔ وقت گُزرتا رہا اور ایک دِن اسکول
سے واپس گھر آتے ہُوئے کامل کو معلوم ہُوا کہ مُحلے کی واحد مسجد کے اِمام رمضان صاحب
کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ مُحلے کے سبھی لوگ آہستہ آہستہ امام صاحب کے گھر کے باہر
شامیانے میں جمع ہورہے تھے۔ کامل لمبے لمبے قدم بھرتا جُونہی اپنے گھر کے نزدیک پُہنچا
۔ اُس کی نظر گھر سے کُچھ فاصلے پر کھڑے اُسی اُوباش نوجوان پر پڑی جو اُس دِن اِنکے
گھر سے نِکل کر بھاگا تھا۔
(جاری ہے)
قسط ۳
کامل نے گھر کی دہلیز پر پُہنچ کر بدحواسی میں جلدی سے دروازے
پر نصب کُنڈی کو تیز تیز بجانا شروع کردیا۔ اَمّاں نے دروازے کے جھروکے سے جُونہی کامل
کو دیکھا تو فوراً دروازہ کھول دِیا ۔ کامل نے اندر داخِل ہُوتے ہی فوراً دروازے کو
بند کیا اور خُوف سے اَمّاں سے لپٹ گیا۔ اماں بھی کامل کی بدحواسی سے کُچھ پریشان نظر
آنے لگی تھیں۔ اُنہوں نے کامل کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا ،، ماں صدقے تجھے آج
ہُوا کیا ہے،، کیا کوئی تیرا پیچھا کررہا ہے؟ یا تجھے کِسی نے مارا ہے۔۔۔؟
اَمّاں آج پھر وہی آدمی ہمارے گھر کے باہر کھڑا ہے جو اُس دِن
ہمارے گھر میں گُھس آیا تھا۔ کامل نے بمشکل ہکلاتے ہُوئے جملہ مکمل کیا!
اُسکی یہ جُرات کہ اب وہ بار بار میرے گھر کے چکر لگانے لگا
ہے۔ اب میں اُسے مزید اپنے بچے اور خُود کو ہراساں کرنے کی قطعی اِجازت نہیں دُونگی
یہ کہتے ہُوئے اَمّاں نے کامِل کو خُود سے جُدا کیا اور اپنی چادر سمیٹتے ہُوئے دروازے
کی کُنڈی کھولنے لگی۔
کامل اَمّاں کے بدلتے تیور اور آنکھوں میں بھری چنگاریاں دیکھ
کر مزید سِہمتے ہُوئے ایکبار پھر اَماں سے چمٹ گیا۔ اماں رہنے دو،، وہ،، کہیں تمہیں
نقصان نہ پُہنچادے۔ اب تُمہارے سِوا میرا دُنیا میں اور کُون ہے۔ کامل بلک بلک کر اَمّاں
سے فریاد کررہا تھا۔
لیکن آج تو اَمّاں کے تیور ہی کُچھ اور نظر آرہے تھے وہ اُس
ہرنی کی مانند نظر آرہی تھی جسکا بچہ کِسی بھیڑئے نے فخر سے گھیر لیا ہُو۔ اور حقارت
سے اُس ہرنی سے کہہ رَہا ہو کہ اگر تیرے بس میں ہُو۔ تو آ مجھ سے اپنا بَچَّہ چھڑا
لے۔ اور وہ ہرنی اپنی جان کی قیمت پر اُس بھیڑیئے سے نبرد آزما ہُونے جارہی ہُو۔
نہیں میرے بچے اگر آج میں اُسے روکنے کیلئے نہیں نِکلی تو اس
ظالم بھیڑیئے کا حُوصلہ مزید بُلند ہُو جائے گا مجھے جانے دے۔ میں تُجھ سے وعدہ کرتی
ہُوں کہ میں واپس لُوٹ کے آؤں گی اور مجھے کوئی گُزند نہیں پُہنچائے گا کہ جو جتنا
بڑا ظالم ہُوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ بزدل بھی واقع ہُوتا ہے۔ اگر آج میں نے اُسے معاف
کردیا تو پھر خُود کو کبھی مُعاف نہیں کرپاؤں گی۔ یہ سمجھاتے ہُوئے اَمّاں نے کامل
کی آنکھوں سے آنسو پُونچھتے ہُوئے کامل کو صحن میں بِچھی چارپائی پر بِٹھایا اور دروازے
کی جانب بڑھ گئی۔
اَمّاں جُونہی چادر لپیٹ کر دروازے سے باہر نِکلی۔ کامِل بھی
دروازے کی اُوٹ سے باہر کا منظر دیکھنے لگا وہ شخص ابھی تک سامنے چند مکان دُور دیوار
سے ٹیک لگائے بظاہر ایسے کھڑا تھا جیسے کِسی شناسا کا انتظا ر کر رہا ہُو ۔ اُس نے
جُونہی اَمّاں کو دِیکھا اُسکی باچھیں کُھلنے لگی تھیں۔ اَمّاں کے چہرے پر موجود نِقاب
کے باعث شائد وہ اُس افتاد سے بے خبر تھا جُو اُس پر نازل ہُونے والی تھی۔
حُسنِ اتفاق سے جونہی اَمّاں گھر سے باہر نِکلی۔ سامنے سے نرگس
کے ابا ۔چاچا ارشد بھی ہاتھ میں پھولوں کا ٹوکرا۔ اور کفن دفن کا سامان لئے آرہے تھے
اُنکے ساتھ محلے کے دو تین ادھیڑ عمر ساتھی بھی موجود تھے۔ جب اَمّاں اُس نوجوان کے
کُچھ قریب پُہنچیں تب تک چاچا ارشد بھی اُس نوجوان کے کافی قریب پُہنچ چُکے تھے اَمّاں
کو دیکھتے ہی چاچا ارشد اور باقی لوگوں نے اپنی نِگاہوں کو جُھکا لیا تھا۔ لیکن اُس
نوجوان کے گال پر اَمّاں کے پڑنے ولے طمانچے کی گُونج نے چاچا ارشد کو واپس گھومنے
پر مجبور کردِیا تھا۔ چاچا ارشد کی موجودگی سے کامِل کی بھی ہمت بندھی اور وہ چاچا
ارشد کی جانب یہ کہتے ہُوئے لپکا۔ چاچا میری اَمّاں کو یہ آدمی بُہت دِنوں سے تنگ کررہا
ہے۔
کامل کے جُملے اور اَمّاں کےطمانچے کی گُونج سے چاچا ارشد کی
سمجھ میں تمام بات واضح طور پر آگئی۔ اُس وقت شائد چاچا ارشد کے ہاتھ میں میت کے سامان
کے علاوہ کوئی اور شئے ہوتی تو وہ اُسے پھینک کر اُس شخص پر ٹوٹ پرتے لیکن میت کے سامان
کے احترام کی وجہ سے اُنہوں نے سامان کو ایک طرف رکھتے ہُوئے دِہاڑ کر اُس نوجوان کو
رُکنے کا کہا۔ لیکن اِس سے پہلے کہ چاچا ارشد اور اُنکے ساتھی اُس نوجوان کو قابو کرتے
اُس نوجوان نے وہاں سے دُوڑ لگانے میں ہی عافیت جانی۔ چاچا ارشد اور اُنکے ساتھیوں
نے کافی دُور تک اُس نوجوان کا تعاقب جاری رکھا۔ لیکن وہ نوجوان کِسی چھلاوے کی مانند
دوڑتا ہُوا بستی کی گلیوں میں گُم ہُو چُکا تھا۔
اَمّاں کامِل کا ہاتھ تھام کر گھر کی طرف چلنے لگی تُو کامِل
نے اَمّاں سے کہا کہ اَمّاں چاچا ارشد کو تُو آلینے دُو۔ وہ اپنا سامان یہیں چھوڑ گئے
ہیں۔ اَمّاں کامل کا ہاتھ چھوڑ کر یہ کہتی ہُوئی دروازے کی اُوٹ میں چلی گئیں کہ آج
جو سبق میں نے اُس کمینے کو سکھایا ہے اُسکے بعد وہ ہمیں تُو کیا دُنیا کی کسی بھی
عورت کو نہیں ستائے گا۔ نہ جانے کیوں ہمارے معاشرے میں مرد عورت کی شرافت اور خَاموشی
کو رضامندی سے ہی تعبیر کرتے ہیں ۔۔۔؟
تھوڑی دیر بعد چاچا ارشد اپنے ساتھیوں کیساتھ واپس لُوٹ آئے۔
وہ کامل کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہنے لگے بیٹا اپنی اَمّاں سے کہنا کہ بالکل نہ
گھبرائے اور نہ ہی وہ خُود کو تنہا سمجھے جب تک میں زندہ ہُوں کوئی تُمہاری طرف میلی
نِگاہ سے بھی دیکھے گا تو قسم خُدا کی اُسکا وہ انجام کروں گا کہ لوگ اُسکی بدحالی
کی مِثالیں دِیا کریں گے۔ اور ہاں اپنی اَمّاں سے کہنا کہ میں میت سے فارغ ہُو کر تُمہاری
چچی کیساتھ شام کو تُمہارے گھر آکر تفصیل سے بات کرونگا یہ کہتے ہُوئے چاچا ارشد سامان
سنبھالتے ہُوئے دوبارہ مولوی رمضان کے گھر کی جانب روانہ ہُوگئے۔
گھر میں داخِل ہُوتے ہُوئے کامِل کی نِگاہ اَمّاں پر پڑی جو
دروازے کی اُوٹ میں کھڑی تھی ۔ اَمّاں کیا تُم نے چاچا کی بات سُن لی یا میں بتاؤں
! کامل کے استفسار پر اَمّاں نے فقط اتنا ہی کہا۔ میں سب سُن چُکی ہُوں اللہ تعالیٰ
ارشد بھائی کا سایہ اُنکے بچوں پر ہمیشہ سلامت رکھے اُنکے پڑوسی ہونے سے بُہت ڈھارس
سی رہتی ہے مجھے۔
شام کو حسبِ وعدہ ارشد چاچا اورچاچی کامل کے گھر آگئے ۔چاچا
ارشد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی اَمّاں نے چائے کی دیگچی چُولہے پر چڑھا دی کامِل
کو اَماں نے خاموشی سے کُچھ پیسے اپنے دوپٹہ سے نکال کر دیئے جن سے کامل بیکری سے تازہ
تازہ بسکٹ خرید لایا۔ چائے پیتے پیتے نرگس بھی چاچی کو ڈھونڈتے ہُوئے کامِل کے گھر
آگئی ۔اَمّاں نے نرگس اور کامل کو بھی دیگچی سے گرما گرم چائے نکال دی۔ وہ دونوں چائے
پینے کے بعد صحن میں ہی کھیلنے لگے اور چاچا ارشد، اَمّاں اور چاچی آپس میں باتیں کرنے
لگے کُچھ ہی دیر گُزری تھی کہ اچانک کامل کو محسوس ہُونے لگا کہ اچھے بھلے خُوشگوار
ماحول میں اَمّاں کے لہجے میں تلخی عود کر آئی تھی۔ کامِل کے ننھے دِماغ نے اُسے خبردار
کیا کہ ضرور کُچھ گَڑ بڑ ہُوگئی ہے۔ ورنہ اَمّاں کا لہجہ کبھی بھی چاچا ارشد کے سامنے
تلخی سے بھرا نہیں ہُوسکتا تھا۔
کامل نے اپنے کان غیر ارادی طور پر اُنکی ہُونے والی گُفتگو
کی جانب لگادیئے۔ اَمّاں بڑے سخت لہجے میں چاچا ارشد سے مخاطب ہُوتے ہُوئے کہہ رہی
تھیں بھائی جان آپ نے یہ سُوچ بھی کیسے لیا کہ میں کامل کی موجودگی میں دوسری شادی
کا تصور بھی کرسکتی ہُوں۔ میں اپنی خُوشی کی قیمت پر اپنے بَچے کی خُواہشات کا گلا
کیسے گھونٹ سکتی ہُوں میری زندگی کا تُو بس اب ایک ہی مقصد ہے ۔کہ کامل کی تربیت اتنے
اچھے انداز سے کروں کہ کل مِحشر میں مجھے کامل کے ابّا کے سامنے شرمندہ نہ ہُونا پڑے۔
اَمّاں کا لہجہ اگرچہ دھیما تھا مگر لہجے کی سختی نے اُنکی آواز کو بُلند کردیا تھا۔
چاچا ارشد اَمّاں کو سمجھا رہے تھے کہ ضیاالدین صاحب بُہت نفیس
انسان ہیں۔ اور وہ میرے سابقہ بہنوئی بھی ہیں۔ میری بہن کے انتقال کے بعد تنہا زندگی
گُزار رہے ہیں۔ چار سالہ ازدواجی زندگی گُزارنے کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم رہے
ہیں۔ پاکستان کے کئی شہروں میں اُنکا کاروبار پھیلا ہے اور اب ایک برس ہُوگیا ہے۔ وہ
میری بہن کے انتقال کے بعد سے کینڈا میں مقیم ہیں۔ اور میرے بُہت سمجھانے پر دوسری
شادی کیلئے راضی ہُوئے ہیں۔ اور مجھے ضیاالدین بھائی کی فِطرت خُوب معلوم ہے وہ کبھی
کامل کو اپنے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔ بلکہ بالکل اپنی اولاد کی طرح کامل
کی پرورش کریں گے۔ چاچا ارشد کے لاکھ اِصرار کے باوجود اَمّاں کی ناں اقرار میں نہیں
بدلی۔ اسکے بعد چاچا ارشد اِجازت لیکر واپس پلٹ گئے اگر چہ اُنکے چہرے پر معمول کی
مسکراہٹ تھی لیکن کامل اُس مسکراہٹ کے پیچھے چُھپے تناؤ کو صاف مِحسوس کرسکتا تھا
۔ چاچا ارشد کے جانے کے بعد کامل اَمّاں کے پاس بیٹھ کر نہایت افسردہ لہجے میں پُوچھنے
لگا۔ اَمّاں کیا تُم دوسری شادی کررہی ہو۔۔۔؟ اور کیا اُسکے بعد نئے اَبّا مجھے گھر
سے نِکال دیں گے۔۔۔ ؟
کامِل کے معصوم سوال سُن کر اَمّاں کی آنکھیں مزید نم ہوگئیں
اُنہوں نے کامل کو بھینچ کر اپنے سینے سے لگاتے ہُوئے کہا ،، میں نہ ہی دوسری شادی
کررہی ہُوں اور نہ ہی دُنیا کی کوئی طاقت تجھے مجھ سے جُدا کرنے کا حُوصلہ رکھتی ہے
ِس واقعہ کو ایک مہینہ بھی نہیں گُزرا تھا۔ کہ ایک رات سُوتے ہُوئے اچانک کِسی دھمک
کی آواز کے سبب کامِل کی آنکھ کُھل گئی کامل کی نِگاہ سب سے پہلے اَماں پر پڑی جو ہُونٹوں
پر انگلی رکھے خاموشی سے کامل کو کمرے کے کُونے میں رکھی الماری کے پیچھے جانے کا اِشارہ
کر رہی تھیں۔ دروازہ اگرچہ اندر سے بند تھا لیکن کامل کو الماری کے پیچھے جاتے ہُوئے
کھڑکی کے شیشے سے تین آدمیوں کا ھیولا نظر آرہا تھا ۔جو صحن سے اُنکےکمرے کے دروازے
کی جانب ہی بڑھ رہے تھے ۔
(جاری ہے)
0 comments:
Post a Comment