bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Wednesday 23 May 2012

عامل کامل اُور ابو شامل قسط 4.5.6



قسط 4

باہر سے کِسی شخص کی سرگوشی کی آواز کامل کے کانوں میں پڑی۔ جُو کسی کو مخاطِب کرتے ہُوئے کہہ رہا تھا۔ لگتا ہے وہ حرامزادی اِسی کمرے میں اپنے پِلّے کیساتھ سُورَہی ہے اُس وقت تو دِن کی روشنی میں اپنے محلے والوں کی موجودگی میں بڑی شیرنی بن رہی تھی۔ آج دیکھوں گا کہ رات کہ اندھیرے میں کُون سُورما اِسے بچانے آتا ہے۔ بولنے والے کے لہجے میں اگرچہ فرعونیت کُوٹ کُوٹ کے بھری تھی لیکن اُس کی دَبی دَبی اور بھنچی ہُوئی سرگوشیاں اس بات کی غَمازی کر رہی تھیں۔ کہ درحقیقت وہ اپنے دِل میں چُھپے خُوف کو چھپانے کی ناکام کوشش کررَہا ہے۔ اُسکی آواز اور اُسکی گُفتگو سننے کے بعد کامِل کو یقین ہُوگیا تھا کہ آج بھی گھر میں وہی نوجوان موجود ہے جو ایک مرتبہ پہلے بھی اِسکے گھر میں دِن کے اُجالے میں داخِل ہُوچکا تھا۔ اور جِسے اَمّاں نے سرعام گال پر تھپڑ رسید کیا تھا۔ وہ شائد آج اپنے ساتھیوں کیساتھ اَمّاں سے انتقام لینے کیلئے رات کی تاریکی میں گھر میں گُھس آیا ہے اور یہی سُوچ سُوچ کر کامل کا ننھا سا دِماغ پریشان ہورہا تھا کہ نجانے وہ آج وہ اِنکا کیا حشر کرنے والے ہیں۔

لیکن جب کاِمل کی نِگاہ اَمّاں کے چہرے پر پڑی تُو اُسے اَمّاں کے چہرے پر سِوائے سکون و اِطمینان کے کُچھ نظر نہیں آیا کامل سُوچنے لگا اَمّاں کتنی بہادر ہیں کہ گھر میں دشمن کے گھس آنے کے باوجود اُنکے چہرے پر خُوف کا کوئی نِشان نظر نہیں آرہا ۔ حالانکہ وہ جب بھی نماز پڑھتی ہیں تو لگتا ہے ،، جیسے کوئی چشمہ اَمّاں کی آنکھوں سے وقت دُعا جاری ہُوجاتا ہے،، کامل خُوف و یقین کی شاہراہ پر گامزن تھاکہ کہ اُس نے اَمّاں کے اُٹھتے ہاتھوں کو دیکھا۔ جو شائد اللہ تعالی سے مدد و ہمت مانگ رہے تھے۔

اَمّاں نے خَاموش دُعا کے بعد اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرتے ہُوئے اچانک کمرے میں زیرو کا بلب روشن کردیا اور کامل کی جانب بڑھتے ہُوئے بُلند آواز سے چِلائیں امجد بھائی ۔ امجد بھائی اُٹھیئے شائد کوئی لفنگا ہمارے گھر میں دَاخل ہوگیا ہے ۔ اَمّاں نے یہ جُملہ اتنے اعتماد سے دہرایا کہ کامل بھی خالی کمرے میں نِگاہیں گُھمانے پر مجبور ہُوگیا ۔کہ اَمّاں امجد ماموں کو کیوں پُکار رہی ہیں حالانکہ اَبّا کے چالیسویں کے بعد امجد ماموں نے بُھولے سے بھی کبھی اپنا چہرہ نہیں دِکھایا تھا۔ لیکن جُونہی کامل نے گھر کا دروازہ کھلنے اور کُچھ لوگوں کے سرپٹ بھاگنے کی آواز سُنی تُو کامل کی سمجھ میں سب آنے لگا اور وہ اَمّاں کی جانب حیرت سے دیکھنے لگا جنہوں نے اتنی عقلمندی سے اُن لوگوں کو یہ تاثر دیکر کہ وہ گھر میں تنہا نہیں بلکہ اُنکے بھائی بھی موجود ہیں۔ بھاگنے پر مجبور کردِیا تھا۔

چند ہی لمحوں بعد علاقے کی چُوکیدار کی چُور، چُور کی صدائیں بُلند ہُونے لگی ۔ شائد چوکیدار نے راونڈ لگاتے ہُوئے اُن لوگوں کو کامل کے گھر سے نِکل کر بھاگتے دیکھ لیا تھا۔ کُچھ ہی دیر میں مُحلہ کے کئی دروازوں کے کھلنے کی صداؤں اور لوگوں کی باتوں نے تاریک رات کی خاموشی کے جَمود کو تُوڑ ڈالا۔ پھر گھر کے دروازے سے ارشد چاچا کی آواز سُنائی دی۔ وہ بُلند آواز سے کامل کو پُکار رہے تھے۔اَمّاں چادر سے چہرے کو ڈھانپتے ہُوئے کمرے کی کُنڈی کھول کر گھر کے مرکزی دروازے کی جانب بڑھنے لگیں ۔جِسکے دروازے پہلے سے ہی وَا ،تھے کامل بھی چاچا ارشد کی آواز سُن کر اَمّاں کے پیچھے پیچھے گھر کے دروازے تک پُہنچ گیا۔

کیا ہُوا تھا بیٹا۔۔؟ کون لوگ تھے ۔ اور چُور کیا سامان لے گئے ہیں ۔۔۔؟ اور تُم لوگوں کو تُو کوئی نقصان نہیں پُہنچایا اُن کمبختوں نے۔۔۔؟چاچا ارشد نے کامل کو مُخاطب کرتے ہُوئے دھیمے لہجے میں جلدی جلدی کئی سوالات ایک ہی سانس میں دریافت کر ڈالے۔ کامِل سوچ ہی رَہا تھا کہ پہلے کِس سوال کا جواب دے۔ تبھی اَمّاں نے چاچا ارشد کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔ ارشد بھائی وہ کوئی چُور یا ڈاکو نہیں تھے۔ بلکہ وہی شخص تھا جِسے میں نے اُس دِن گال پر تھپڑ رسید کیا تھا۔ وہ اپنی خِفت مٹانے کیلئے آج اپنے ساتھیوں کیساتھ گھر میں کُود کر داخل ہُوا تھا۔ میں نے جھوٹ مُوٹ میں امجد بھائی کو پُکارنا شروع کردیا۔ جسکی وجہ سے وہ یہ سمجھ کر فرار ہُوگئے کہ گھر میں کوئی مرد بھی موجود ہے۔ اَمّاں بڑی تفصیل اور اعتماد سے چاچا ارشد کو تفصیلات مُہیا کر رہی تھیں۔

باہر سے کسی نے ارشد چاچا کو مخاطب کرتے ہُوئے صلاح دِی کہ اِس معاملہ کی اِطلاع پُولیس کو ضرور دی جانی چاہیئے۔ اور ہاں بھابی سے یہ ضرور معلوم کرلیں کہ کیا وہ اُن بدمعاشوں کو جانتی ہیں جو بار بار اِنہیں تنگ کررہے ہیں۔ نجانے اُس شخص نے جان بُوجھ کر یا بے اِختیار ،،جانتی ہیں ،،اِس انداز میں ادا کیا تھا کہ اَمّاں کے چہرے پر کرب کا ایک رنگ آکر گُزر گیا۔

اُس شخص کے خاموش ہُوتے ہی چاچا ارشد کہنے لگے میں بھابی سے پہلے ہی معلوم کر چُکا ہُوں۔ بھابی اُس شخص کو قطعی نہیں جانتیں اور میں نے بھی اُس نوجوان کو اِس سے پہلے کبھی محلہ میں نہیں دیکھا۔ البتہ اب پُولیس میں رپورٹ کرنی بُہت ضروری ہے۔ تاکہ آئندہ کسی ممکنہ پریشانی سے بچنے کا تدارک کیا جاسکے۔ چاچا ارشد کے گھر سے نرگِس کی امی کے علاوہ مُحلے کی کُچھ خَواتین بھی کامل کی اَمّاں کی دلجوئی کیلئے چلی آئیں تھیں۔ نصف گھنٹے بعد پولیس بھی چاچا ارشد کے ساتھ آگئی اور انسپکٹر نے چند ضروری سوالات کیساتھ اُن بدمعاشوں کا حُلیہ بھی دریافت کیا۔ اَمّاں نے چونکہ واحد اُسی اُوباش نوجوان کو دیکھا تھا لِہذا اُسکا حُلیہ انسپکٹر صاحب کو بتادِیا جسکے بعد پولیس اپنی کاروائی مکمل کر نےکے بعد اپنے مکمل تعاون کا یقین دِلاتے ہوئے واپس چلی گئی۔ فجر کی نماز تک تمام خَواتین اَمّاں کیساتھ ہی رہیں پھر اَمّاں کے اِصرا ر پر اپنے گھروں کو واپس لُوٹ گئیں۔

اِس واقعہ کے بعد چُوکیدار نے اِہل مُحلہ کے کہنے پر کامل کے گھر کے سامنے ہی اپنی نشست لگالی چاچا ارشد نے ایک پلاسٹک کی کُرسی بھی فراہم کرتے ہُوئے چوکیدار کو خَاص تاکید کردی تھی کہ تمام مُحلہ کا ایک چکر لگانے کے بعد چند منٹ یہاں قیام ضرور کرے۔ اِس اقدام کے چند دِن بعد مولوی رمضان صاحب کے گھر سے ایک بچی چہرے پہ نِقاب ڈالے مُحلے کی ایک خاتون کیساتھ تمام مُحلے میں قرآن خُوانی کی دعوت دے رہی تھی۔ وہ خاتون جب کامل کے گھر دعوت دینے آئی تب اَمّاں نے اُس بچی کو غُور سے دیکھتے ہُوئے پُوچھا،، یہ مُولوی صاحب کی بیٹی جِلباب ہے نا ۔۔۔؟

جی ہاں بِہن آپ نے خُوب پِہچانا۔یہ مولوی صاحب کی اکلوتی بیٹی جلباب ہی ہے۔ خَاتون نے اثبات میں سر ہِلاتے ہُوئے جواب دِیا۔

ماشااللہ کتنی خُوبصورت ہے اور کِتنی بڑی بھی ہُوگئی ہے۔ اَمّاں نے شربت کے 2 گِلاس آگے بڑھاتے ہُوئے کہا تھا۔ میں نے پانچ برس پہلے گلی میں کھیلتے دیکھا تھا۔ جب بمشکل آٹھ برس کی تھی۔ پھر شائد مولوی صاحب نے اسکے باہر نِکلنے پر پابندی لگادِی تھی۔ مگر اب تو کہیں سے بھی دیکھنے میں یہ تیرہ برس کی نظر نہیں آتی۔ ماشااللہ بالکل اپنی ماں پر گئی ہے۔

جلباب بیٹا یہ تُو بتاؤ تُمہارا یہ نام کِس نے رکھا تھا۔ اسکا مطلب کیا ہے ۔اور تُمہارا ننھیال کہاں ہے ۔۔۔؟ اَمّاں نے جلباب سے براہِ راست سوال کرتے ہُوئے کہا۔

خالہ جِلباب عربی نام ہے ۔ جسکا مطلب غالباً چادر ۔یا۔ اوڑھنی ہے۔ یہ نام میرے نانا نے رکھا تھا ۔اور اِنکا تعلق کشمیر سے ہے۔ جلباب نے خالی گلاس ٹرے میں واپِس رکھتے ہُوئے ایک ہی سانس میں اَمّاں کے تمام سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا۔ اسکے بعد اپنی چادر سے چہرے پر نِقاب ٹھیک کیا اور اَمّاں سے رُخصت چاہی اَمّاں کے بے حد اِصرار پر بھی وہ نہیں رُکی ۔ اَمّاں کو چالیسویں کی دعوت کی یاد دِہانی کراتے ہُوئے دروازے سے نِکل گئی۔

مولوی صاحب کی بیوی کے چالیسویں پر اَماں کیساتھ کامِل پہلی مرتبہ مولوی صاحب کے گھر قران خُوانی میں گیا تھا۔ اماں نے چونکہ تجوید کیساتھ قران پاک پڑھا ہُوا تھا اسی وجہ سے کامل نے بُہت آسانی کیساتھ اماں سے ناصِرف قران پاک پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ بلکہ کامل کو کئی قرانی سورتیں اور دُعائیں بھی ازبر تھیں۔ اِس لئے صبح اسکول میں اسمبلی کے ابتدا پر قرات بھی اکثر وہی کیا کرتا تھا۔ لہذا ایک سپارہ کامل بھی سنبھال کر اماں کے پہلو میں بیٹھ گیا۔

تبھی ایک خاتون نے کامِل کو خَواتین کے درمیان دیکھ کر اَمّاں سے کہا،، بہن اسے مَردوں میں بھیج دیں مولوی صاحب کے گھر میں اتنے بڑے بچے نہیں آتے،، اماں نے ملتجی لہجے میں اُن خاتون سے کہا کہ اِسے رہنے دیں۔ یہ میرے بغیر وہاں اکیلا نہیں بیٹھ پائے گا۔ تبھی نرگِس کی اماں نے بھی کہا ۔بھئی رہنے بھی دو یتیم بچہ ہے۔ اور ابھی تو ہے بھی بہت چھوٹا سا، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن وہ خاتون بضد تھیں کہ کامِل کو باہر بھیجا جانا چاہیئے تبھی ایک دوسری خَاتون نے مداخلت کرتے ہُوئے اُس خاتون سے کہا،، زُلیخا رہنے بھی دُو ،، یہ چھوٹا سا بچہ ہے۔ جس کے بیٹھنے پر بھائی جان کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہُوگا ۔ اَمّاں نے سرگوشی میں اپنے ساتھ بیٹھی ایک خاتون سے استفسار کیا ۔ یہ دونوں کُون ہیں آج سے پہلے تو کبھی اِنہیں مُحلہ میں نہیں دِیکھا ۔اُس خاتون نے آہستہ سے یہ کہتے ہُوئے سِپارہ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔ کہ یہ دونوں ہی مولوی رمضان صاحب کی شادی شُدہ بِہنیں زُلیخا اور سفینہ ہیں ایک جِہلم میں جبکہ دوسری سیالکوٹ میں بیاھی ہے ۔

دوسرے دِن کامل کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اسکول سے واپسی پر اُس نے مولوی صاحب کی دونوں بِہنوں کو اَماں کیساتھ اپنے گھر میں بیٹھا دِیکھا۔ کامِل سلام کرنے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا۔

(جاری ہے)

قسط ۵

کامِل تجسس کے عالم میں کپڑے بدل کر خاموشی سےکھڑکی کے کے نزدیک بیٹھ کر اپنا بستہ سنوارنے میں لگ گیا۔ جبکہ اُسکے کان صحن میں بیٹھی مولوی صاحب کی بِہنوں کی طرف ہی لگے تھے۔ اَمّاں نے کمرے میں آکر کامل کو پیار کرتے ہُوئے ہاتھ مُنہ دُھو کرکھانا کھانے کیلئے کہا۔ کامل نے بہانہ بناتے ہُوئے کہہ دِیا کہ راستہ میں چاچا ارشد نے کچوریاں دِلوا دی تھی۔ اِس وجہ سے ابھی بھوک نہیں ہے کُچھ دیر بعد کھانا کھالُونگا۔ اَمّاں مطمئین ہُوکر دُوبارہ مولوی صاحب کی بِہنوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔

زیادہ تر اَماں سے سفینہ ہی گُفتگو کررہی تھی وہ اَمّاں کو بتا رہی تھی کہ دریائے جہلم سے دس مِنٹ کی دوری پر اُنکا مکان ہے۔ وہ شائد اِس بات سے بے خبر تھی کہ اَمَّاں کی جائے پیدائش بھی جہلم ہی ہے۔ اور شائد یہی وجہ تھی کہ اَمَّاں بھی سفینہ سے کُرید کُرید کر جہلم کے حالات معلوم کررہی تھیں۔ کُچھ مِنٹوں میں ہی اَمَّاں سفینہ سے ایسے بے تکلف ہُوگئیں جیسے وہ اُسے بچپن سے جانتی ہُوں جبکہ زُلیخا اب بھی ہَنوز خاموش ہی تھی کبھی کبھار ہُوں ہاں کی البتہ آواز ضرور سُنائی دے جاتی جِس سے اُسکی موجودگی کا احساس پیدا ہُوجاتا۔

آدھا گھنٹے کی باتیں سننے کے باوجود بھی کامِل کو کوئی ایسی بات نہیں سُنائی دی۔ کہ جس میں کامل کی دِلچسپی کا کوئی سامان موجود ہُوتا۔ اُس نے سوچا کہ ایسی باتیں سُننے سے بہتر ہے کہ کھانا ہی کھا لیا جائے اور ویسے بھی اب کامل کو بھوک کا احساس شدت سے مِحسوس ہُورہا تھا۔ کہ اچانک سفینہ کی آواز سُنائی دِی۔ وہ اَمَّاں سے گُزشتہ دِنوں چوروں کے گھر میں گُھس آنے کی بابت دریافت کررہی تھی۔

اَمّاں نے بات کو ٹالنا چاہا۔ مگر شائد وہ مُکمل معلومات حاصِل کر کے ہی آئی تھی۔ اُسے تُو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ چُور کُون تھے اور اَمَّاں کو کئی دِن سے پریشان کررہے تھے۔ بلاآخر اَمَّاں نے مُختصر ہی سہی لیکن تمام کہانی سفینہ کو سُناتے ہی بنی۔ سفینہ نے تمام واقعات سُننے کے بعد اَمّاں سے کہا،، بِہن بُرا مت ماننا مگر سچ کہتی ہُوں۔ کہ ہمارے مُعاشرے میں لوگ تنہا عورت بالخصوص بیوہ کو لُوٹ کا مال سمجھتے ہیں۔ وہ زمانہ نہیں رَہا جب لوگ دوسروں کی بہن بیٹیوں کو بھی اپنی بچیوں کی طرح عزت دِیا کرتے تھے۔ اور بہن نہ ہی اِس دھوکے میں رِہنا ۔کہ لوگ ہمیشہ ہی بَروقت تُمہاری امداد کو پہنچتے رہیں گے۔۔۔!

پھر کیا کروں۔۔۔۔؟ کیا اِس معاشرے سے ڈر کر اپنے بچے سمیت دریا میں کُود جاؤں،، یا کِسی رِیل گاڑی کے سامنے جا کر خُود کُشی کرلوں ۔۔۔! اَمَّاں نے آبدیدہ ہُوکر سوال کیا۔

میرا کہنے کا یہ مطلب تُو نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ مسئلے کا حَل ہے۔ اور خودکشی نہ صرف حرام عمل ہے۔ بلکہ یہ تُو بُزدل لوگوں کا طریقہ ہے۔ کہ ہمیشہ آسانی کی زندگی جینا چاہتے ہیں اور جب مشکل پیش آتی ہے تب موت کو مُنہ لگالیتے ہیں ۔ تُم دُوسرا نِکاح کیوں نہیں کرلیتیں۔ کیونکہ یہی شریعت کا حُکم بھی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی تُو کئی بیواؤں سے نِکاح فرماکر اپنی اُمت کو بتایا ہے کہ بیوہ کو بھی اپنے خاوند کے انتقال کے بعد ویسے ہی جینے کا حق ہے۔ جیسا کہ ایک باکرہ کنواری لڑکی کو جینے کا حق حاصِل ہے۔ سفینہ نے اماں کو دِلاسہ دیتے ہُوئے کہا۔

مگر میں اپنے بچے پر کِسی سوتیلے باپ کا سایہ نہیں ڈالنا چاہتی۔ میری زندگی کا مقصد بھی اب بس یہی ہے کہ اپنے کامل کو کامیاب انسان بناؤں ۔اسکے لئے میں ہر ایک ظالم سے ٹکرا بھی سکتی ہُوں۔اور اِسکے حق کا تحفظ بھی بخوبی کرسکتی ہُوں۔ لیکن کوئی میرے بچے کو اپنی ٹھوکروں میں رکھے میں ایک لمحے کیلئے بھی اِسے برداشت نہیں کرپاؤنگی۔ اَمَّاں جذباتی لہجے میں بُولے چلی جارہی تھیں۔

بہن یہ سوتیلے ، سگے، کا فرق وہی رکھتے ہیں جو جاہِل ہُوتے ہیں۔ ورنہ اسلام تُو دوسرے مَذاہب کا بھی جب احترام سِکھاتاہے۔ تب کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان کے حقوق اُس سے سِوا نہ ہُونگے۔ اور کیا بیوی سے قرابت کے سبب بیوی کے دوسرے شوھر کے بچوں کے حقوق اسلام نے نہیں رکھے ہُونگے۔۔۔؟ میں یہ کب کہتی ہُوں کہ تُم کِسی بھی ایرے غیرے کیساتھ ہمیشہ کیلئے جانور کی طرح بندھ جاؤ۔ مگر کیا اِس پُوری دُنیا میں ایک بھی ایسا شخص تُمہیں نظر نہیں آتا جو اپنی دینی ذُمہ داریوں سے آگاہ ہُو۔جو صاحب اولاد بھی ہُو اور دوسروں کی اولاد کا درد بھی محسوس کرسکتا ہُو۔ ۔۔۔۔؟

کم از کم میں تُو ایسے کِسی انسان کو نہیں جاتی۔ جِس پر اپنی اولاد کیلئے اعتماد کرسکوں۔ اَمّاں نے اپنی جان چھڑاتے ہُوئے لاعِلمی کا اِظہار کرتے ہوئے کہا۔

کیوں ہمارے بھائی صاحب تُمہیں نظر نہیں آتے۔۔۔؟ کیا اِس علاقے کے تمام ہی لوگ اُنکی شرافت کے گُن نہیں گاتے۔۔۔؟ کیا اُنکی انسان دوستی کے تذکرے مِثال دِے دیکر تمام شہر میں بیاں نہیں کئے جاتے۔۔۔ سفینہ کے سوالوں نے اَمَّاں کو لاجواب کردِیا تھا۔ مگر وہ خاموشی سے اُٹھ کر کامل کیلئے کھانا نِکالنے رسوئی گھر میں چلی آئی تھیں۔

اَمّاں جانتی تھیں کہ مولوی صاحب واقعتاً نہایت نفیس النفس اور علم پرور انسان تھے۔ لیکن اُنہوں نے مولوی صاحب کی بیوی کے انتقال کے بعدکبھی اسطرح سے مولوی صاحب کیلئے نہیں سُوچا تھا۔ اور وہ کامل کی وجہ سے کوئی رِسک اُٹھانا ہی نہیں چاہتی تھیں لیکن اُنکی قائم کی ہُوئی خیالات کی مصنوعی فلک بُوس دیوار میں شائد نقب لگ چُکی تھی۔ اور جُو کام چاچا ارشد اور اُنکی بیوی نہ کرسکی وہ سفینہ کی ایک ہی مُلاقات کر گئی تھی ۔ سفینہ کو واقعی گُفتگو کرنے کا ہُنر آتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کا مقدمہ اَمَّاں کی عدالت میں بَخُوبی پیش کر نے میں کِسی حد تک کامیاب ہُوچُکی تھی۔

شام کو کامل نے اَمّاں سے پھر وہی سوال کیا تھا ،،کہ اَمّاں تم مولوی صاحب سے شادی کررہی ہُو۔۔۔؟ لیکن آج نہ تُو کامل کے لہجے میں کوئی خُوف تھا اور نہ ہی اَمّاں کے لہجے میں پہلے والی شِدّت تھی۔ شائد دونوں ہی وقت اور حالات دیکھ کر اپنی اپنی رائے پر وقت کی ضرورت کو ترجیح دینے لگے تھے ۔

مولوی صاحب کی دوسری بہن زُلیخا تُو دوسرے دِن ہی سیالکوٹ کیلئے روانہ ہُوگئی تھی لیکن سفینہ روزانہ ہی کسی نہ کِسی بہانے کامل کے گھر آنے لگی تھی کبھی کبھار تُو سفینہ کے ساتھ اُسکی بھتیجی جِلباب بھی آجاتی۔ اور یُوں دھیرے دھیرے سفینہ اپنی لگن اور اخلاص سے ایک دِن اَمّاں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہُو ہی گئی کہ اُسے اِس ظالم سماج سے لڑنے کیلئے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہے ۔

کہتے ہیں کہ قطرہ قطرہ بھی اگر کِسی چٹان پر گِرے تُو اپنا راستہ بنا ہی لیتا ہے۔ اور یہی شائد اَمّاں کیساتھ بھی ہُوا تھا۔ تبھی تُو وہ ایک دِن سادگی سے مولوی صاحب کے نِکاح میں چلی گئیں۔ کامل بھی رفتہ رفتہ اِس شادی کیلئے رضامند ہُوگیا تھا۔ اُسے ویسے بھی مولوی صاحب کی شخصیت بُہت بھلی لگتی تھی بس ایک بات تھی جو کامل کو پریشان کئے دے رہی تھی کہ اماں کے مولوی صاحب سے نِکاح کے بعد وہ اُنہیں کسطرح پُکارے گا۔ یہ مشکل بھی شادی کے دوسرے دِن مولوی صاحب نے کامل کو اپنے سامنے بِٹھا کر حل کرتے ہوئے کہا کہ آج سے تُم جلباب کے چھوٹے بھائی ہُو اور مجھے چاہو تو چاچا کہہ کر پُکارو اور چاہو تو بابا کہہ کر مُخاطب کرلینا۔ اور جلباب تُم بھی کامِل سے بالکل ایسے ہی پیش آنا کہ جیسے کوئی شفیق بِہن اپنے چُھوٹے بھائی کیساتھ پیش آتی ہے۔ دِیکھو اِنسان کو پھر بھی دُھوکہ دِیا جاسکتا ہے۔ لیکن کوئی بھی اپنے رَبَّ کو دُھوکہ نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ صرف سمیع و بصیر ہی نہیں بلکہ دِل میں چُھپے ہر راز کو بھی خُوب جانتا ہے۔

اَمّاں کی شادی کے بعد کامِل کو ایسا محسوس ہونے لگا تھا۔ گُویا جیسے اَبّا بھی واپس آگئے ہُوں۔ اب نہ اَمّاں سارا دِن کپڑے سیتے گُزارتیں اور نہ ہی کامل کو چھوٹے موٹے کھلونوں کیلئے ترسنا پڑتا۔ صبح اسکول جاتے ہُوئے جتنا جیب خرچ اماں دیا کرتی تھیں اُس میں بھی اب مولوی صاحب نے تین گُنا اِضافہ کردِیا تھا۔ اسکے علاوہ کامل کا پرائیویٹ اسکول میں پڑھنے کا دیرینہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہُوچُکا تھا۔ مولوی صاحب ایم اے اسلامیات تھے۔ اور سُونے پر سہاگہ یہ کہ عربی ، فارسی ، کیساتھ ساتھ انگلش زُبان پر بھی کافی مضبوط گِرفت رکھتے تھے ۔ وہ انتہائی خُوبرو شخصیت کے مالک ہُونے کیساتھ نہایت خُوش اِخلاق ، اور مرنجان مرنج طبیعت کے انسان تھے۔ اَمَّاں سے شادی کے فوراً بعد ہی مولوی صاحب نے اپنے مکان کی بیٹھک میں ایک کوچنگ سینٹر بھی کھول لیا تھا۔ مولوی صاحب کے اِخلاق اور اُنکی قابلیت کا تمام علاقہ ہی معترف تھا۔ شائد اِسی وجہ سے بُہت جلد کوچنگ سینٹر میں تِل دھرنے کو بھی جگہ باقی نہ رہی تھی۔ کُوچنگ سینٹر کی کامیابی کے باعث مولوی صاحب کو اِضافی آمدنی ہُونے لگی تھی۔ اور گھر کے حالات بھی مزید بہتر ہُونے لگے تھے۔

مولوی صاحب اور جلباب کی اپنائیت سے کامل کو کبھی یہ احساس ہی نہ ہُوسکا ۔ کہ مولوی صاحب کامل کے سوتیلے ابا اور جلباب اُسکی سوتیلی بہن ہے۔ اُسکی ہر جائز خُواہش کو مُولوی صاحب دوسرے تیسرے دِن ہی پُورا کردیتے تھے۔ اب وہ اَمَّاں سے نہیں بلکہ مولوی صاحب سے پڑھ رَہا تھا۔ کلاس ختم ہُونے کے باوجود مولوی صاحب اضافی آدھا گھنٹہ کامل کو دینے لگے تھے۔ جِسکی وجہ سے وہ رِیاضی ہو یا انگلش، اسلامیات ہو کہ چاہے اُردو ۔مولوی صاحب کے دلنشین انداز تکلم اور سمجھانے کے باعث ہر مضمون پر کامِل اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جارہا تھا۔

جِن دِنوں کامل میٹرک کے اِمتحانات کی تیاری کررہا تھا۔ ایک دِن سفینہ پُھُّپو اچانک جہلم سے آگئیں۔ اور رات کو جب سبھی ساتھ کھانا کھارہے تھے۔ سفینہ پُھُّپو نے مولوی صاحب سے جلباب کو اپنے بیٹے کیلئے مانگ لیا۔ وہ اس برس حج پر جانے کا اِرادہ رکھتی تھیں اس لئے جلد از جلد جلباب کو بہو بنا کر اپنے گھر لیجانا چاہتی تھیں۔ سفینہ پُھُّپو کی بات سُن کر کامل نے مُسکرا کر اپنی بہن جلباب کی جانب دیکھا۔ وہ شرماکر کھانے سے اُٹھ گئی۔ حالانکہ ابھی جلباب نے میٹرک پاس کیا تھا اور بمشکل عمر کے سولہویں یا سترہویں برس میں داخل ہُوئی تھی۔ لیکن جب وہ اَمَّاں کیساتھ کھڑی ہُوجاتی تب دونوں ماں بیٹی سے زیادہ چھوٹی بڑی بہنیں ہی نظر آتی تھیں۔ مولوی صاحب تُو گُویا جیسے سفینہ پُھُّپو کے منتظر بیٹھے تھے۔ صرف ایک ماہ بعد ہی سفینہ پُھُّپو مختصر سی ایک بارات کیساتھ پھر سے آئیں ۔ اور انتہائی سادگی سے جلباب کو بیاہ کر اپنے ساتھ لے گئیں ۔اُس دِن وِداع کے وقت اَمّاں کی آنکھیں اِس شدت سے برسیں کہ گُویا پہلی اور آخری مرتبہ برس رہی ہُوں۔

وقت پر لگا کر اُڑتا چلا جارہا تھا۔ بُورڈ کے امتحانات میں کامل نے پُورے ڈویژن میں فرسٹ پوزیش حاصل کی تھی۔ اور جب وہ اپنی مارک شیٹ اَمَّاں کو دِکھاتے ہُوئے اَمَّاں سے لپٹ رَہا تھا۔ تب اُسے ایک بات شدت سے مِحسوس ہُورہی تھی۔ کہ اَمّاں کے سراپے میں بُہت جلدی جلدی تبدیلی واقع ہُوتی جارہی ہے۔ اب وہ نادان کامل نہیں تھا کہ اتنا بھی نہیں سمجھ پاتا کہ اُنکے گھر نیا مہمان آنے والا ہے۔

پھر وہ وقت بھی آن پُہنچا جب اَمَّاں کو مولوی صاحب میٹرنٹی ہُوم لیکر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ مولوی صاحب نے سفینہ پُھُّپو اور جِلباب کو چند دِنوں کیلئے گھر سنبھالنے کیلئے بُلوا لیا تھا۔ کامِل کو چند دِنوں سے اَمَّاں سے عجیب سی شرم و جھجک مِحسوس ہُونے لگی تھی۔ اسلئے جب اَمَّاں اسپتال جانے کیلئے کمرے سے نِکل رہی تھیں۔ تب کامل خاموشی سے مولوی صاحب کے چھوٹے سے کتب خانے میں جا گُھسَّا ۔

تمام کمرہ شیلفوں اور الماریوں میں موجود کتب سے بھرا پڑا تھا۔سامنے ٹیبل پر ایک کتاب رکھی نظر آرہی تھی۔ جس میں کُچھ عجیب و غریب سے نقوش بنے ہُوئے تھے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا ۔ کہ وہ پہلی مرتبہ مولوی صاحب کے کُتب خانے میں آیا ہُو اور کسی کتاب کو پہلی مرتبہ پڑھ رہا ہُو۔ لیکن یہ کتاب کُچھ عجیب ہی انداز میں لکھی ہُوئی تھی۔ کامل کی نِگاہ اپنی پسندیدہ کتاب کی تلاش میں تمام کمرے کا طواف کرنے لگی تب ہی اُسے ایک شیلف میں انوارُ العلوم ( مثنوی مولانا رُوم) نظر آگئی۔

مثنوی مولانا رُوم کو وہ کئی مرتبہ پڑھ کر ازبر کر چُکا تھا۔ اِسے پڑھنے کی وجہ سے ہی اُسے تفاسیر پڑھنے کا شوق پیدا ہُوا تھا۔ مولوی صاحب کی لائبریری میں تفسیر ابن کثیر، تفسیر ابن عباس ،تفسیر قرطبی، تفسیر نعیمی، اور نہ جانے کتنی ہی تفسیریں موجود تھیں۔ وہ آجکل فجر کی نماز کے بعد تفسیر ابن کثرت مولوی صاحب سے پڑھ رَہا تھا۔

کامِل نے آگے بڑھ کر مثنوی مولانا رُوم کو عقیدت سے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اُسکے مطالعہ میں گُم ہُو گیا ۔ کتاب پڑھتے پڑھتے نہ جانے کب کامل کی آنکھ لگ گئی۔ آج اُسکے خُوابوں میں نہ پریاں تھیں۔ اور نہ ہی نرگس اُسے کہیں نظر آئی۔ پھر منظر تبدیل ہُوا۔ اور اُسے ایک مُہیب جنگل نظر آنے لگا۔ وہ جنگل میں داخل ہُوا ہی تھا کہ اُسے ہر طرف سے رُونے اور سِسکنے کی صدائیں سُنائی دینے لگیں۔ اُس نے گھبرا کر جُونہی آنکھیں کھولیں۔ جلباب اُسکے قدموں کو تھامے اُسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جلباب کی آنکھوں میں آج پہلی مرتبہ کامل نے آنسو دِیکھے تھے ۔اُسکی سسکیاں ماحول کو عجیب وحشتناک بنائے دے رہیں تھی۔ کامل ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ وہ جِلباب سے رُونے کی وجہ معلوم ہی کرنا چاہ رہا تھا۔ کہ اُسے آنگن سے بھی سفینہ پُھُّپو کے بین کی صدائیں بُلند ہُوتی سُنائی دینے لگیں ۔

قسط ۔۶
کامِل علی نے برآمدے میں جُونہی قدم رکھا تُو اُسکے قدموں تلے زمین نِکل گئی۔ ایک چارپائی پر اَمَّاں کی لاش رکھی تھی۔ جِسکے سرہانے سفینہ پُھپو دِلخراش انداز سے بَین کررہی تھیں۔ پُھپو کے اِرد گرد تین مُحلہ کی خَواتین اُنہیں دِلاسہ دے کر صبر کی تلقین کررہی تھیں۔ کامل کی آنکھیں اَمَّاں کی لاش دیکھ کر پتھرا سی گیئں تھیں۔ کامل کا دِل چاہا کہ وہ بھاگ کر اَمَّاں سے لپٹ جائے۔ اور اُن سے کہے کہ اَمَّاں اُٹھ جائیں۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ سب کو بتادیں کہ آپ تُو فقط مذاق کررہی ہیں۔۔۔۔ بھلا آپ اپنے کامِل کو چھوڑ کر بھی کہیں جاسکتی ہیں۔۔۔! لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی کامل چند قدم سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اُسے ایسا محسوس ہُورہا تھا جیسے اُسکے بدن سے بھی رُوح کا رِشتہ منقطع ہُورہا ہے۔ اُور وہ اپنا جسمانی توازن کھو چُکا ہے۔۔۔ اُسکا ذِہن مفلوج اور آنکھیں بینائی سے محروم اور خُشک ہُوچُکی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ تمام مناظِر دُھندلانے لگے۔ وہ چیخنا چاہتا تھا۔۔ لیکن اُسکی گُویائی کی طاقت سلب ہُوچکی تھی۔ پھر اچانک وہ لڑکھڑایا اور زمین کی طرف جھکتا چلاگیا۔

پھر اُسکی نِگاہوں کے سامنے کئی منظر بدلے کبھی اُس نے دیکھا کہ لوگ اُسکی اَمَّاں کا جنازہ کاندھے پر اُٹھائے چلے جارہے ہیں۔۔ پھر منظر بدلا تب کسی نے اُسے سہارا دیکر تھاما ہُوا تھا اور اُسکے سامنے اَمَّاں کو لحد میں اُتارا جارہا تھا۔ کبھی سوئم کا منظر نظر آتا تُو کبھی خُود کو اسپتال میں موجود پاتا۔ کبھی سفینہ پُھپو کی تسلیاں سُنائی دیتی۔ کبھی جلباب سر پر ہاتھ پھیرتے رُوتی نظر آتی۔ تُو کبھی مولوی رمضان صاحب کی رندھی ہُوئی آواز سُنائی دیتی۔ کامل بھی بُہت کُچھ کہنا اور پُوچھنا چاہتا تھا۔ وہ اَمَّاں کے متعلق سوالات کرنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن دِن پہ دِن گُزرتے گئے۔ مگر وہ سب کُچھ سسنے کے باوجود بھی بُول نہیں پایا۔

پھر کئی راتوں تک ایک ہی منظر کامِل کی نِگاہوں میں رہنے لگا، اِس منظر میں مولوی رمضان صاحب ہاتھ میں ایک کِتاب لئے کچھ پڑھتے نظر آتے آواز اگرچہ واضح سُنائی نہیں دیتی لیکن اُسے ایسا محسوس ہُوتا جیسے کمرے میں بُہت سی شہد کی مکھیاں داخِل ہُوگئی ہُوں اور بِھنبِھنا رہی ہُوں۔ پھر مولوی صاحب اُس پر دم کرتے دِکھائی دیتے اور کتاب شیلف میں رکھنے کے بعد طویل سجدے میں چلے جاتے ایک مرتبہ پھر شہد کی مکھیوں کی سرسراہٹ بُلند ہُوتی جو کافی دیر تک قائم رہتی۔

تین مہینے بعد حسب سابق مولوی صاحب دَم سے فارغ ہُونے کے بعد اپنے مالکِ حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھے ۔ تبھی کامِل کو محسوس ہُوا جیسے کوئی اُسکی گردن پہ آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر رَہا ہُو۔ اِسکے ساتھ ہی پیاس کی شِدت کا احساس کامل کے ذہن میں بیدار ہُونے لگا۔ رفتہ رفتہ یہ احساس بڑھنے لگا۔ کمرے میں ہنوز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آواز سُنائی دے رہی تھی۔ کامل نے دھیرے دھیرے اپنے جسم کے سہارے اُٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ کیا۔۔۔؟ کامل کی اِس کوشش کے نتیجے میں کامِل کے تمام جسم میں ناقابل برداشت درد کی ایک لہر سی دُوڑ گئی۔ جسکی وجہ سے کامِل کی چیخ نِکل گئی اُور کامِل کو یُوں محسوس ہُونے لگا جیسے کسی نے اسکے جسم کو سحر پھونک کر گُویا پتھر کا بنا ڈالا ہُو۔

کامِل کی چیخ کی آواز سُن کر مولوی صاحب بیساختہ مصلے سے کھڑے ہُو کر کامِل کی طرف دوڑے۔۔ کامل نے مولوی صاحب کو قریب دیکھ کر پانی کی صدا بُلند کی اور دوبارہ بےسُدھ چارپائی پر لیٹ گیا۔ مولوی صاحب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جبکہ زُبان سے وہ خُدا کا شُکر ادا کررہے تھے۔

یہ پِہلا موقع تھا کہ تین مہینے بعد کامِل کی زُباں سے کوئی جُملہ نِکلا تھا۔ مزید ایک ہفتے تک مولوی صاحب کی دِن رات کی کوششیں رنگ لائیں ۔ کامل کے جسم کی مُسلسل مالش نے جسم کے اکڑے ہُوئے پٹھوں کو پھر سے متحرک کردیا تھا۔ مولوی صاحب کی انتھک کاوش نے کامِل کو ایک ہفتہ میں اُٹھنے بیٹھنے کے قابل کردِیا۔ اور وہ ضرورت کے وقت مولوی صاحب سے کلام بھی کرنے لگا تھا۔ کہتے ہیں کہ دُنیا کا سب سے بہتر مرہم وقت ہُوتا ہے جو رفتہ رفتہ روح پر لگے زخموں کو بھی مندمل کردیتا ہے۔

مزید چند دِنوں کے بعد کامل نے روزانہ اَمَّاں کی قبرپر باقاعدگی سے سلام و فاتحہ کیلئے جانا شروع کردِیا۔ وہ فجر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کے ہمراہ قبرستان چلا جاتا۔ مولوی صاحب فاتحہ پڑھ کر لُوٹ آتے جبکہ کامِل ظہر کی نماز تک اَمَّاں کی قبر کے پاس ایک درخت کی چھاؤں تلے بیٹھا رِہتا۔ وہ کبھی اَمَّاں کی قبر پہ نصب پُودوں کو پانی دیتا دِکھائی نظر آتا۔۔۔ تُو کبھی ایصالِ ثواب کیلئے دُرود و فاتحہ پڑھتا دکھائی دیتا۔ وقت گُزرتا رَہا اور کامِل کا زخم مندمِل ہُوتا رہا۔

پھر مولوی صاحب کے اِسرار پر کامِل علی نے کالج جُوائن کرلیا۔ دھیرے دھیرے تعلیمی سرگرمیوں کے باعث کامِل علی واپس نارمل زندگی کی طرف پلٹنے لگا۔ مولوی صاحب اُسکی تعلیم پر خاص توجہ دے رہے تھے۔ کبھی کبھی اُسکے دِل میں خیال آتا کہ وہ مولوی صاحب سے پُوچھے کہ جب میں بیمار تھا تب آپ کونسی کِتاب سے وظائف پڑھ پڑھ کر دَم کیا کرتے تھے۔ اور وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آواز کہاں سے آتی تھی۔ اوراَمَّاں کیسے مرگئی تھی۔۔۔۔۔ جبکہ وہ تُو گھر میں خُوشیاں بکھیرنا چاہتی تھیں۔۔۔؟ اور کیا اَمَّاں کبھی اُنکے خُواب میں آتی ہیں۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن جب سے کامِل علی صحتیاب ہُوا تھا۔ وُہ مسلسل ایک بات نُوٹ کررہا تھا۔ کہ اَمَّاں کی موت کا جتنا صدمہ اُسے تھا۔ اِس سے کہیں زیادہ صدمہ مولوی صاحب کو بھی تھا۔ وہ اَمَّاں کی موت کے بعد خاموش خاموش سے رہنے لگے تھے۔ اور اب اُنکی پہلی جیسی خُوراک بھی نہیں رہی تھی۔ جہاں پہلے وہ اَمَّاں کے ہاتھ سے بنی تین چار رُوٹیاں کھاجایا کرتے تھے اب اکثر نصف یا کامل کے بُہت زیادہ اِصرار پر ایک رُوٹی کھالیا کرتے تھے۔ جِسکے سبب اُنکی صحت بھی رُوز بروز گرنے لگی تھی۔

پھر ایک دِن مولوی صاحب نے کامِل سے ایک بُہت عجیب بات کہی۔ وہ کہنے لگے کہ بیٹا میں چاہتا ہُوں کہ اپنا یہ مکان بھی تُمہارے نام کروا دوں۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ میرے گُزرجانے کے بعد تُمہیں یہاں سے کوئی نِکالے۔۔۔ کامِل علی نے آبدیدہ ہُوکر مولوی صاحب کا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگا۔ آپ تُو مجھ سے ایسی باتیں نہ کریں۔ ایسی باتوں سے میرا دِل بیٹھا جاتا ہے۔ اَمَّاں کے بعد آپکی ذات ہے جِسے دیکھ کر اِس سنگدِل دُنیا میں جینے کی خُواہش پیدا ہُوتی ہے۔ ورنہ جینے کو تُو میرا بھی جی نہیں چاہتا۔ مولوی صاحب نے کامل کے مُنہ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہُوئے کہا۔ نہیں بیٹا ایسی بات نہیں کہتے۔ اِس دُنیا میں نہ ہم اپنی خُواہش سے ایک دِن زیادہ جی سکتے ہیں۔ اور نہ ہی موت آنے سے ایک دِن قبل مرسکتے ہیں۔ زندگی سے شِکوہ خُدا سے شِکوہ کرنا ہے۔ اور خُدا سے شِکوہ نہیں کیا جاتا۔ یہ زندگی ایک نعمت ہے۔ اور نعمت سے انکار بھلا کوئی عقلمند کیسے کرسکتا ہے۔ اگر تُم میری بات مان لو گے تُو مجھے خُوشی ہُوگی۔ ورنہ مجھے تُم سے کوئی شِکوہ نہیں۔ البتہ میری ایک خُواہش ہے کہ تُم دُنیاوی تعلیم کیساتھ ساتھ میری لائبریری سے اور کتابوں سے رشتہ پھر سے قائم کرلُو۔ کُچھ مزید نصیحتوں کے بعد مولوی صاحب ایک کتاب کے مُطالعے میں مستغرق ہُوگئے جبکہ کامل علی دِن بھر کی تھکاوٹ کے باعث اپنے بسترپر کروٹ بدل کر سوگیا۔

اِس واقعہ کے ٹھیک سترہ دِن بعد مولوی صاحب کی طبیعت شام کو اچانک بگڑنے لگی۔ کامِل نے مولوی صاحب کی حالت میں تغیر دیکھ کر داکٹر صاحب کو بُلانا چاہا تب مولوی صاحب نے اِشارے سے کامل کو اپنے پاس بُلا کر اُسکا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگے بیٹا میری آخری دو خواہش ہیں اُنہیں سُن لو پھر شائد میں تُم سے کُچھ نہ کہہ سکوں۔۔۔۔۔ اِتنا کہنے کے بعد مولوی صاحب کو کھانسی کا دُورہ پڑگیا۔۔۔ کامِل نے جلدی سے مٹکے سے پانی بھر کر گِلاس مولوی صاحب کے مُنہ سے لگایا۔ اور ڈاکٹر صاحب کو بُلانے کیلئے لپکا۔ گھر سے نکلتے ہی کامل کی نِگاہ چاچا ارشد پر پڑی۔ کامل نے چاچا ارشد سے درخواست کی کہ وہ مولوی صاحب کے پاس چلے جائیں۔ اُنکی طبیعت بُہت خراب ہے۔ جبکہ میں ڈاکٹر صاحب کو لے کر آتا ہُوں۔

ڈاکٹر صاحب کِسی مریض کو دیکھنے اُسکے گھر تشریف لے گئے تھے ڈاکٹر صاحب کو گھر لاتے لاتے کامِل کو بیس پچیس منٹ لگ گئے۔ کامِل جونہی ڈاکٹر صاحب کو لیکر گھر پُہنچا تُو دیکھا کہ چاچا ارشد دروازے میں کھڑے اُسی کی راہ دیکھ رہے تھے۔ چاچا ارشد نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی کہا ۔۔۔ جلدی کریں داکٹر صاحب نجانے کیا ہُوا ہے مولوی صاحب کو ۔۔۔کاغذ پر کُچھ لکھتے لکھتے اچانک کلمہ طیبہ پڑھا اور مولوی صاحب خاموش ہُوگئے ہیں۔ لگتا ہے شائد غشی یا بے ہُوشی کا دُورہ پڑا ہے۔

ڈاکٹر نے مولوی صاحب کو چیک کرنے کے بعد اُنکی اَدھ کُھلی آنکھوں کو بند کرتے ہُوئے اِنَّا للہِ وَ اِنَّا الیہِ راجعون بُلند آواز سے پڑھا جسکے بعد چاچا ارشد کیساتھ ساتھ کامل بھی یہ جان گیا کہ مولوی صاحب بھی اب اُسکا ساتھ چھوڑ کر جاچُکے ہیں۔

یہ تیسری مرتبہ تھا جب کامل علی کو یتیمی کا احساس ہُورہا تھا۔ اَبَّا کے انتقال کے وقت تُو کامِل علی کو لفظ یتیم کے معنی بھی نہیں معلوم تھے۔ جبکہ وہ حقیقت میں یتیم ہُوا تھا۔ اور اب جبکہ ایسے انسان کا انتقال ہُوا تھا جو اُسکا حقیقی باپ تھا اور نہ ہی اِس عُمر میں کوئی خُود کو یتیم سمجھتا ہے۔۔۔ لیکن کوئی باربار اُسکے کان میں کہہ رہا تھا۔ کہ آج تُو واقعی یتیم ہُوگیا ہے۔

ایسے وقت میں چاچا ارشد نے کامل علی کی خُوب ہمت اور حُوصلہ بڑھایا۔ ورنہ شائد کامِل علی مولوی صاحب کی تدفین و تکفین کے مراحل بھی انجام نہ دے پاتا ۔ چند گھنٹوں بعد محلہ کے کافی لوگ مولوی صاحب کے گھر پر جمع ہُوگئے ۔ تب چاچا ارشد کامل کو ایک طرف لیجا کر جیب میں کُچھ ٹٹولنے لگے۔ کُچھ لمحوں بعد چاچا ارشد نے ایک مُڑا تُڑا سا کاغذ کامل کی طرف بڑھاتے ہُوئے کہا۔ کامل پہلے اِسے پڑھ لو۔ یہ مولوی صاحب کی زندگی کی آخری تحریر ہے۔ جُو اُنہوں نے تُمہارے لئے اُس وقت لکھی تھی جب تُم ڈاکٹر صاحب کو بُلانے گئے تھے۔ بیٹا مجھے لگتا ہے کہ اسمیں شائد مولوی صاحب کی وصیت لکھی ہے۔ لہذا تدفین سے پہلے اِسے دیکھ لینا ضروری ہے۔ ہُوسکتا ہے کہ اسمیں اُنہوں نے اپنی تجہیز و تکفین سے متعلق ہدایات لکھیں ہُوں۔۔۔؟

0 comments:

Post a Comment