bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Wednesday 27 May 2015

عامل کامل ابو شامل (اُلو کا طلسم) قسط 37



گُذشتہ سے پیوستہ۔

اِس سے پہلے کے میں اِن سوالات کو اپنی زبان پر لاتا۔ جوگی گھنشام داس نے مجھے مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ میں اَوشے تمہاری شنکا  کو  دُور کیئے دیتا ہُوں۔ تم نے ابھی وچار کرتے ہُوئےاپنی قیمت شُنے (۰) لگائی ہے۔ جس سے میں بہت پربھاوت ہُوا ہُوں۔  سُنو!!!   یہ بات بالکل ست ہے کہ،،میری قوت دَس کے برابر ہے۔ ۔۔۔  پرنتو ایک بات تمہاری بُدھی میں نہیں سماسکی۔ کہ،، کیول شُنے  بے قیمت ہُوتا ہے۔ پرنتو جب  یہ کسی دوسرے ہندسے کے  ساتھ مِل جاتا ہے۔ تو نہ صرف خُود انمول ہُوجاتا ہے۔بلکہ جس سے جڑ جاتا ہے۔ اُسے بھی انمول بنادیتا ہے۔ اِس پرکار میری اِچھا ہے کہ،، تُم مجھ سے مِل جاوٗ ۔ تاکہ میری  سیما  ۱۰ سے بڑھ کر ۱۰۰ پریشت ہُوجائے۔ اُور ہاں میں تمہیں بھیمی دیوی کے بارے میں کیول اتنا بتا سکتا ہُوں۔کہ،، وُہ  ہزاروں ورشُوں سے شکتی کی اَمر دیوی ہے۔ اُور جو بھی  منش اُس دیوی کو پرسن کرنے میں سپھل ہُوجاتا ہے۔ وُہ دیوی اُس منش کیساتھ ایک رات ضرور گُزارتی ہے۔ جسکے بعد وُہ منش بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اَمر ہُوجاتا ہے۔

اب مزید پڑھیئے۔

لیکن اِس تمام چکر میں مجھے کیا کرنا ہُوگا؟ میں نے گھنشام داس سے اگلا سوال کیا۔۔۔۔۔ تُمہیں!!! ۔۔۔ تُمہیں کیول میری سہایتا کرنی ہُوگی۔ جس سمے  میں  دیوی کو پرسن کرنے کیلئے اشلوک کا جاپ کروں گا۔ میرے جاپ کو اسنبھو کرنے کیلئے بھیمی دیوی کے بھگت اُور اُسکے تمام وُہ پُتر جو اُن منشوں کی نشانی ہیں۔ جنہیں ایک رات دیوی کی سیوا کا شبھ  سمے پرابت ہُوچکا ہے۔ اوشے آئیں گے۔ تب تمہیں اُن تمام  دَاسوں کو مجھ سے دُور رکھنا ہُوگا۔ یہاں تک کہ،، میری منو کامنا پوری ہُوجائے۔ گھنشام داس نے مجھے سمجھاتے ہُوئے ایسا سُکھ بھرا سانس لیا۔ جیسے وُہ سپنوں میں اپنی کامیابی کا جشن منارہا ہُو۔۔۔ لیکن میں تو اتنا کمزور ہُوں کہ،، تمہارا ہی مقابلہ نہیں کرپایا۔ پھر اتنے طاقتور لوگوں سے اکیلا کیسے لڑپاوٗں گا۔ میں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو وہ بڑی نخوت سے کہنے لگا۔۔۔۔ اپنی منو کامنا کو ست  کے آکار میں ڈھالنے کیلئے میں نے تجھے بھی شکتی مان بنانے کا اَوش اُوپائے سُوچ رکھا ہے۔ جس کے بعد میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اَمر ہُوجاوٗنگا۔

میری مثال اُس بھیڑ کے مصداق تھی۔ جسکے پیچھے شیر لگے ہُوں۔ اُور آگے گہری کھائی اُسکی منتظر ہُو۔میں نے  دِل میں خُدا سے معافی مانگتے ہُوئے اُسکی  مدد طلب کی۔ اُور گھنشام داس کی دونوں شرائط قبول کرلیں۔ اُس نے وعدے کیمطابق مجھے نہ صرف آزاد کردیا تھا۔ بلکہ اُس نے میری تمام پاور بھی مجھے  یہ کہتے ہُوئے لُوٹادی تھی۔کہ،،مجھے دھوکہ دیکر میرا اپمان کرنے کی اِچھا بھی اپنے ہردے میں نہیں لانا۔ ورنہ اپنے وردان سے ایسا شراپ دُونگا۔کہ تمام زندگی شما کی بھوگ مانگے گا۔ لیکن تیرا کلیان نہ ہُوپائے گا۔۔۔۔۔۔ آزادی  ملنے کے بعد میں نے اُس علاقے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ تو مجھے معلوم ہُوا کہ،، وُہ جگہ بالکل بُھول بھلیوں کی مانند تھی۔  اگرچہ وُہ وادی نہایت دلفریب مناظر سے بھرپور تھی۔۔۔۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہُونے لگا تھا۔ جیسے یہ تمام وادی ایک غبارے کی مانند ہے۔ جہاں سے دُنیا کی گردش کو دیکھا تو جاسکتا تھا۔ لیکن اِس غبارے سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ   سجھائی نہیں دیتا تھا۔

گھنشام داس نے  اپنی حفاظت کا ذمہ دینے سے قبل مجھے بُہت سی شکتیاں دیں۔ جنکے ذریعے سے میں لاکھوں بلاوٗں سے بیک وقت خُود کو محفوظ رکھ سکتا  تھا۔اُنہی دنوں مجھ پر ایک انکشاف ہُوا۔کہ،، اِس غبارے نما وادی میں اکیلا میں ہی قید نہیں تھا۔ بلکہ کچھ انسانوں کو بھی گھنشام داس نے قیدی بنا رکھا تھا۔۔۔ اُن میں ایک عامل  شرف قلندری نام  کا بھی قیدی تھا۔۔۔ چونکہ شرف بھی مسلمان تھا اُور میں بھی اسلئے فطری طور پر میں شرف کے نذدیک ہُوتا چلا گیا۔ پھر ایکدن شرف نے ہی مجھے بتایا کہ،، ہماری آزادی تب تک ہی قائم ہے۔ جب تک کہ،، گھنشام داس اپنا مقصد حاصل نہیں کرلیتا۔ اُور جونہی اُسے بھیمی دیوی کا قرب حاصل ہوجائے گا۔ وُہ اِس وادی کو اپنے تمام رازوں سمیت ہمیشہ کیلئے نابود کردے گا۔ تاکہ دُنیا میں کوئی اُسکی کمزوری نہ جان سکے۔۔۔۔کیا اِسکی کوئی کمزوری بھی ہے۔؟؟؟ میں نے اشتیاق سے شرف  قلندری سے معلوم کیا۔۔۔شرف نے مجھے   خاموش رہنے   کا اِشارہ دیکر  زمین پر  انگلی سے کچھ لکھنا شروع کردیا۔ جسے سمجھنے کیلئے میں مزید جھک کر پڑھنے لگا۔

 اُس نے لکھ کر بتایا۔کہ،،  یہ وادی ایک طلسم کی  دُنیا ہے۔ اُور اِس تمام طلسم کی چابی ایک سفید اُلو ہے۔ جو  اِس غبارہ نما جنگل میں ہی موجود ہے۔ اگر کسی طرح اُس اُلو کو ہلاک کردیا جائے۔ تو یہ غبارے نما طلسم ٹوٹ جائے گا۔ اُور ہم گھنشام داس کی گرفت سے آزاد ہُوسکتے ہیں۔۔۔  اسلئے میں بھی اُس اُلو کو تلاش کررہا ہُوں۔ اگر وُہ سفید اُلو تمہیں پہلے نطر آجائے۔ تو فوراً اُسے ہلاک کرڈالنا۔ اُور یہاں سے بھاگتے ہُوئے ایک بات کا خیال رکھنا کہ ،، صرف مغرب کی جانب دوڑنا۔ ورنہ ہم پھر سے گھنشام داس کا شکار بن سکتے ہیں۔ اتنا لکھنے کے بعد اُس نے زمین پر لکھی تمام تحریر ہاتھ پھیر کا مِٹا دالی۔

مجھے  گھنشام  داس کی نیت پر پہلے سے ہی شُبہ تھا۔ لیکن شرف قلندری کی دلیل نے رہے سہے ابہام بھی ختم کردیئے تھے۔ اب میں کسی قیمت پر بھی گھنشام داس  کے وعدے پر  بھروسہ نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ لیکن نجانے یہ سفید اُلو والی کہانی سچ بھی تھی۔ یا شرف قلندری کی  کوئی ذہنی اختراع تھی۔ اب اسکا فیصلہ تو سفید اُلو کے دریافت ہُونے کے بعد ہی ہُوسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ میں بظاہر گھنشام داس کے حُکم پر خود کو عملیات کے ذریعہ سے مضبوط بنارہا تھا۔ لیکن درحقیقت مجھے اُس سفید اُلو کی تلاش تھی۔ جو بقول شرف قلندری اِس طلسم کی چابی تھا۔ ایک شام  میں  وادی میں چہل قدمی کیساتھ ساتھ  اپنا  وظیفہ بھی پڑھ رَہا تھا۔اُور صدقِ دل سے اللہ کریم سے دُعا بھی کررہا تھا۔کہ،، مجھے آسانی اُور اِمداد عطا فرمادے۔ اتنے میں میرے کانوں میں ایک سیٹی نما آواز گونجی۔۔ میں بے اختیار آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا۔ تبھی میری دبی دَبی چیخ نکل گئی۔ میں نے چیڑ کے ایک انتہائی بُلند پیڑ پر اُس سفید اُلو کو دیکھ لیا تھا۔ اُور مجھے انتہائی مُسرت حاصل ہونے لگی۔ جب میں نے اُسے ایک گھونسلے میں داخل  ہُوتے دیکھا۔۔۔ میں دِل ہی دل میں اللہ کریم کا شُکراَدا کرنے لگا۔جس نے آسانی کا  راستہ مجھ گنہگار پر کھول دیا تھا۔

دوسرے دِن جب میں نے سفید اُلو کی بابت شرف قلندری کو  اشارے کنایہ میں بتایا ۔ تو ایک اطمینان بخش مسکراہٹ شرف کے چہرے پر بھی پھیل گئی۔ اگلے دِن تک شرف نے انتہائی رازداری سے ایک دو شاخہ لکڑی اور لچکیلی چھال کی مدد سے ایک غلیل تیار کرکے اُنہی درختوں کے نذدیک چھپادی تھی۔  اُور حُسن اتفاق کہیئے  ۔ بلکہ اللہ کریم کی مدد  سمجھیئے۔ کہ ،، اگلے ہی دن جب شرف غلیل کا معائنہ کررہا تھا۔تبھی وُہ سفید اُلو بلندی سے پرواز کرتے ہُوئے  اچانک کسی چوہے کو دیکھ کر ہمارے قریب جھپٹا۔۔۔  شائد شرف قلندری اُسکا اِرادہ بھانپ چکا تھا۔ اسلئے جیسے ہی وُہ شرف کے نشانے کی ذد میں آیا۔ شرف نے ایک نوکیلا پتھر غلیل کے ذریعے اُلو کی جانب داغ دیا۔ پتھر کی نوک نے اُلو کو  اگرچہ زخمی کردیا تھا۔ لیکن وُہ اپنے شکار کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ اُلو نے مُڑ کر ایک غضبناک نگاہ  ہم دُونوں پر ڈالی۔ اُور اُسی وقت وُہ  ایک درخت سے ٹکرا کر زمین پر گر پڑا۔ شائد قدرت ہمیں  آزادی حاصل کرنے کیلئے ایک بھرپور موقع دینا چاہتی۔ میں نے دوڑتے ہُوئے ایک بڑا سا پتھر اُٹھالیا۔ اُلو نے بھی موقع کی نزاکت بھانپ کر شکار چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔ لیکن تب تک میں اُس کے قریب پُہنچ کر اُسکے بڑے سے سر کو نشانہ بنا چکا تھا۔ وُہ ایک مرتبہ پھڑپھڑاکر جونہی لہرایا۔ تو میں نے وحشت سے اُسکے سر کو کچلنا شروع کردیا۔۔ تھوڑی ہی دیر میں اُلو کی سانس تھمنے لگی۔ تو سارے جنگل میں چیخوں کا سیلاب اُمنڈنے لگا۔ تبھی مجھے شرف قادری نے چیخ کر مخاطب کرتے ہُوئے خبردار کیا۔ ابو شامل میرے ساتھ مغرب کی جانب دوڑو۔۔۔۔ اگر آج یہ موقع گنوادیا تو ہم ہمیشہ کیلئے گھنشام داس کے عتاب کا نشانہ بن  کر رِہ جائیں گے۔

دل کی بات۔
مجھے معلوم ہے کہ،، میرے بلاگ پر میری تحریریں پڑھنے کیلئے بُہت سے صاحب علم دوست بھی تشریف لاتے ہیں اُور میری تحریروں کو پسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ لیکن وُہ اتنی خاموش سے  بِلا تبصرہ ،،واپس لُوٹ جاتے ہیں۔ جیسے باد نسیم کے جھونکے بنا کچھ کہے جسم کو چُھو جاتے ہیں۔۔۔ میں اُنکی خدمت میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہُوں۔کہ،، میں تمام نامساعد حالات کے باوجود لکھنے کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک پُوری کرنے کی کوشش کررہا ہُوں۔۔۔۔ لیکن آپکی خاموشی۔۔۔۔ بے اعتنائی، بے توجہی، یا بے حسی کے زمرے میں تو شُمار نہیں ہُوتی۔۔۔ اس سوال کا بہترین  جواب، صرف آپکا دِل ہی دے سکتا ہے۔۔۔۔
آپ سب کی دُعاوں کا طلبگار

عشرت اقبال وارثی۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

1 comment:

  1. Hazart Bahi mujy Tahrer pher kar lagta hy k main manzaar ankun s dek ri hun


    but


    tajassoss meri rag rag ko soq ki asss dy jata hy k main bi ye sab kulli ankun sy dekun musalaman jannt or insanoo ki madad ALLAh k rasty main karun kashh ALLAh esa mumkin bana dy AMEEEn

    ReplyDelete