bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 28 May 2015

عامل کامل ابو شامل (طلسم سے آزادی)قسط 38.akas



گُذشتہ سے پیوستہ۔

دوسرے دِن جب میں نے سفید اُلو کی بابت شرف قلندری کو  اشارے کنایہ میں بتایا ۔ تو ایک اطمینان بخش مسکراہٹ شرف کے چہرے پر بھی پھیل گئی۔ اگلے دِن تک شرف نے انتہائی رازداری سے ایک دو شاخہ لکڑی اور لچکیلی چھال کی مدد سے ایک غلیل تیار کرکے اُنہی درختوں کے نذدیک چھپادی تھی۔  اُور حُسن اتفاق کہیئے  ۔ بلکہ اللہ کریم کی مدد  سمجھیئے۔ کہ ،، اگلے ہی دن جب شرف غلیل کا معائنہ کررہا تھا۔تبھی وُہ سفید اُلو بلندی سے پرواز کرتے ہُوئے  اچانک کسی چوہے کو دیکھ کر ہمارے قریب جھپٹا۔۔۔  شائد شرف قلندری اُسکا اِرادہ بھانپ چکا تھا۔ اسلئے جیسے ہی وُہ شرف کے نشانے کی ذد میں آیا۔ شرف نے ایک نوکیلا پتھر غلیل کے ذریعے اُلو کی جانب داغ دیا۔ پتھر کی نوک نے اُلو کو  اگرچہ زخمی کردیا تھا۔ لیکن وُہ اپنے شکار کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ اُلو نے مُڑ کر ایک غضبناک نگاہ  ہم دُونوں پر ڈالی۔ اُور اُسی وقت وُہ  ایک درخت سے ٹکرا کر زمین پر گر پڑا۔ شائد قدرت ہمیں  آزادی حاصل کرنے کیلئے ایک بھرپور موقع دینا چاہتی۔ میں نے دوڑتے ہُوئے ایک بڑا سا پتھر اُٹھالیا۔ اُلو نے بھی موقع کی نزاکت بھانپ کر شکار چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔ لیکن تب تک میں اُس کے قریب پُہنچ کر اُسکے بڑے سے سر کو نشانہ بنا چکا تھا۔ وُہ ایک مرتبہ پھڑپھڑاکر جونہی لہرایا۔ تو میں نے وحشت سے اُسکے سر کو کچلنا شروع کردیا۔۔ تھوڑی ہی دیر میں اُلو کی سانس تھمنے لگی۔ تو سارے جنگل میں چیخوں کا سیلاب اُمنڈنے لگا۔ تبھی مجھے شرف قادری نے چیخ کر مخاطب کرتے ہُوئے خبردار کیا۔ ابو شامل میرے ساتھ مغرب کی جانب دوڑو۔۔۔۔ اگر آج یہ موقع گنوادیا تو ہم ہمیشہ کیلئے گھنشام داس کے عتاب کا نشانہ بن  کر رِہ جائیں گے۔

اب  مزید پڑھیئے۔

ہم دُونوں زندگی کی بازی جیتنے کیلئے سرپٹ دُوڑ رہے تھے۔ جنگلات کا ایک نا ختم ہُونے والا سلسلہ تھا۔ لیکن اُس وقت ہمیں اپنی جان بچانے کیلئے دنیا کا چکر لگانے کو بھی کہا جاتا۔ تب بھی ہم انکار نہیں کرپاتے۔ یہ بھی غنیمت تھا۔کہ،، گھنشام داس ابھی تک ہماری جانب متوجہ نہیں ہُوا تھا۔ جنگلات کا سلسلہ ختم ہُوا۔ تو ہمیں معلوم ہُواکہ،، ہم سندھ کے شہر ڈھڑکی کے مضافات میں موجود ہیں۔ جونہی ہمیں شہر کے آثار نظر آئے شرف قلندری رُک کر سجدہ شکر بجالایا۔ اُس کی دیکھا دیکھ مجھے بھی شکرانے کا خیال آگیا۔ سجدہ سے سر اُٹھاتے ہی شرف قلندری گویا ہُوا۔ الحمدللہ ! ہم گھنشام داس کی طلسمی حدود سے باہر نکلنے میں کامیاب ہُوچُکے ہیں۔ جسکا مطلب ہے کہ،، ہماری تمام قوتیں بھی واپس آچکی ہُونگی!!! اِس لئے اب ہم محتاط طریقے سے اپنی اگلی منزل کا باآسانی انتخاب کرسکتے ہیں۔ شرف کے توجہ دِلانے پر میں نے اپنی روحانی قوتوں کو ٹٹولا۔ تو خوشی کے احساس سے میں جھوم اُٹھا۔ کیونکہ واقعی میری تمام پاور مجھ میں لُوٹ آئی تھیں۔ ہم نے خوب اچھی طرح ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔ اُور اسکے بعد ہماری راہیں جُدا ہُوگئیں۔

میں نے سب سے پہلے اپنی فیملی سے مُلاقات کا پروگرام بنایا ۔ اُور کچھ دنوں کیلئے اپنے محفوظ محل  میں پُہنچ گیا۔لیکن میں ذیادہ دِنوں تک وہاں نہیں رِہ سکتا تھا۔کیونکہ میرا محبوب سیالکوٹ میں کس  حال میں ہے۔ میں باوجود کوشش کے بھی نہیں جان پارہا تھا۔ میری تقریباً تمام روحانی قوت لُوٹ آئیں تھی۔ لیکن نجانے اُن گھنٹیوں کی آواز نے میری سماعت  اُور میری ٹیلی پیتھی کی طاقت پر کیسا اثر ڈالا تھا۔کہ،، میں ہنوز ابھی تک اِس نعمت سے محروم ہی تھا۔ بہرحال مجھے واپس آنا تھا۔ اُور گھنشام داس میرے لئے گھات لگائے بیٹھا تھا۔ ۔۔۔ میں نے اِس معاملے میں رازداری سے بابا جان کے ایک زیرک وزیر ابو النصر سے رابطہ کیا۔ اُنہوں نے میری مدد کیلئے حامی بھرتے ہُوئے مجھے ایک ایسے  سہ روزہ عمل کی بابت بتایا۔جو مجھے گھنشام داس سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔

لیکن اُن کا کہنا تھا۔کہ،، گھنشام داس نے اپنی حفاظت کا کچھ  ایسا انتظام کررکھا ہے۔ جسکی وجہ سے ہم جنات اُسے قابو نہیں کرسکتے۔اُور جب تک گھنشام داس اُس علاقے میں موجود ہے ۔وُہ تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔   اسلئے گھنشام داس کا بندوبست کرنے کیلئے ہمیں کسی مسلمان  انسان عامل کی مدد حاصل کرنی ہُوگی۔ اُور میں ایک شخص کو جانتا ہُوں۔جو بظاہر تو ایک ناکام عامل ہے۔ لیکن اُس پر اللہ والوں کی خاص نظر ہے۔ جسکی وجہ سے وُہ مستقبل میں عَالم تکوین کی کوئی  اہم ذمہ داری  بھی سنبھال سکتا ہے۔۔۔۔ اُور جانتے ہُو کامل علی مجھے وزیر ابوالنصر نے  اُس  عامل کا کیانام بتایا تھا۔؟؟؟ ۔۔۔کیا نام بتایا تھا؟؟؟کامل علی نے اشتیاق سے  ابوشامل کو بغور دیکھتے ہُوئےاستفسار کیا۔۔۔۔۔ مجھے وزیر ابوالنصر نے  کسی اُور کا نہیں بلکہ تُمہارا ہی  نام بتایا تھا۔ اُور خُدا کی قدرت دیکھو کہ،، اتنامہان جادوگر تمام سیفٹی کے باوجود جب اپنے انجام کو پُہنچا۔ تو وُہ تُم ہی تھے ۔ جس نے ریحان شاہ تبریزی کی مدد سے اُسے جہنم رسید کردیا تھا۔

وُہ سب تو ٹھیک ہے۔ لیکن فرح کا کیا ہُوا؟؟؟ کامل علی نے عاجزی سے گفتگو کو بدلتے ہُوئے کہا،، ۔۔۔۔۔ ہُونا کیا تھا؟۔۔ میں نے تین دِن تک وزیر ابوالنصر کا بتایا ہُوا وظیفہ کرلیا۔ جسکی وجہ سے اب گھنشام داس آسانی سے میری لوکیشن معلوم نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ لیکن جب میں فرح سے ملنے کیلئے سیالکوٹ پُہنچا۔ تب تک گھنشام داس اپنی خباثت کا  ثبوت دیتے ہُوئے ایک ایسا چکر چلانے میں کامیاب ہُوگیا۔کہ،، فرح  اُور، دلشاد  کی فیملی نے اُن دونوں کا نکاح کردیا۔ میں چاہے جتنا بھی عاشق مزاج سہی۔لیکن اتنا بے غیرت نہیں ہُوں۔ کہ،، شادی کے بعد بھی فرح کے  حجلہ میں مداخلت کرتا۔

۔۔ لیکن چند دِن بعد قدرتی طور پر دلشاد کا ایکبارپھر سے ایکسیڈنٹ ہُوگیا۔دلشاد کی ہڈیاں تو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ اسلئے دوسری مرتبہ کا دھچکا وُہ ہڈیاں نہیں سہار سکیں۔ اُور دلشاد ہمیشہ کیلئے معذور ہُوگیا۔ اِس حادثے کے بعد دلشاد کی فیملی کی تمام جمع پُونجی اُور مکان  کی فروخت سے حاصل رقم۔ سب کچھ دلشاد کے علاج میں صرف ہُوگئی۔ ۔۔۔ اسطرح  ایک طرف گھنشام داس تمہارے ہاتھوں ہلاک ہُوگیا۔ جبکہ اُسکی خباثت کی وجہ سے میری محبت کا آشیانہ تنکوں کی مانند بکھر گیا۔۔۔دلشاد نے ہمیشہ کیلئے بستر پکڑ لیا ہے۔ اُورفرح کی مالی حالت بُہت کمزور ہُوچکی ہے۔ اسلئے میں بہانے بہانے سے اُسکی امداد کرنے۔ یا یُوں کہہ سکتے ہُو۔کہ،، اُسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہُونے کا نتظار کررہا ہُوں۔۔۔۔

اچھا تو اِس لیئے جناب پورے بیس دِن لاپتہ رہے تھے۔ اُور یہ بات بالکل  ہی بھول گئے۔کہ،، یہاں نفاست صدیقی اپنے دوست کو لانے والے تھے۔ کامل نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔نہیں یار سیالکوٹ سے تو میں اُسی شام لُوٹ آیا تھا۔ جس رات تمہاری دہلوی سے ملاقات فکس تھی۔۔۔۔ لیکن واپس آتے ہُوئے مجھے درمیان میں یہ خبر مِلی ۔کہ،، تمہاری نرگس کراچی کے سول ہوسپٹل میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے۔سُو میں سیدھا ہوسپٹل پُہنچ گیا تھا۔۔۔۔ نرگس کا ذکر سُنتے ہی کامل علی پر دیوانگی سی طاری ہُوگئی۔ کیا ہُوامیری نرگس کو۔۔۔؟اب کیسی ہے وُہ۔؟؟؟ کہاں ہے نرگس۔؟؟؟ اُور تم مجھے اتنی دیر سے اپنے عشق کی کہانی سُنارہے تھے۔ جبکہ میری نرگس زندگی اُور موت کی کشمش میں گرفتار تھی۔۔۔ کامل کے منہ سے تھوک کے چھینٹے اُڑنے لگے تھے۔جبکہ لہجے میں چنگاریاں بھری ہُوئی  تھیں۔!!!

دل کی بات۔

مجھے معلوم ہے کہ،، میرے بلاگ پر میری تحریریں پڑھنے کیلئے بُہت سے صاحب علم دوست بھی تشریف لاتے ہیں اُور میری تحریروں کو پسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ لیکن وُہ اتنی خاموش سے  بِلا تبصرہ ،،واپس لُوٹ جاتے ہیں۔ جیسے باد نسیم کے جھونکے بنا کچھ کہے جسم کو چُھو جاتے ہیں۔۔۔ میں اُنکی خدمت میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہُوں۔کہ،، میں تمام نامساعد حالات کے باوجود لکھنے کی ذمہ داری کسی نہ کسی حد تک پُوری کرنے کی کوشش کررہا ہُوں۔۔۔۔ لیکن آپکی خاموشی۔۔۔۔ بے اعتنائی، بے توجہی، یا بے حسی کے زمرے میں تو شُمار نہیں ہُوتی۔۔۔ اس سوال کا بہترین  جواب، صرف آپکا دِل ہی دے سکتا ہے۔۔۔۔

آپ سب کی دُعاوں کا طلبگار
عشرت اقبال وارثی۔
(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment