bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday, 8 June 2015

عامل کامل ابوشامل (ابوشامل کی روانگی)قسط 48.akas



گُذشتہ سے پیوستہ۔

اچانک جاناں نے کامل کو جھنجھوڑ کر اُٹھاتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔ کامل کیا ہُوا ہے تمہیں۔ کیا کوئی بُرا خواب دیکھ رہے تھے۔  ؟؟؟کیونکہ تم ابھی خواب میں بُہت ذیادہ چیخ رہے تھے۔۔۔ ہاں۔ آں۔ میں شائد خواب  ہی دیکھ رہا تھا۔ خُدایا  کتنا عجیب خُواب تھا؟ ہر طرف سے سانپ مجھ پر حملہ آور ہُورہے تھے۔۔۔۔ جان  میں نے اپنے نانا سے سُنا ہے۔کہ،،خُواب میں سانپ کا دیکھنا اچھا نہیں ہُوتا۔ وُہ کہتے تھے۔کہ،، سانپ کی مثال اُس دشمن کی ہُوتی ہے جو اپنے حریف کی کمزوری پر نگاہ رکھتا ہے۔اور جیسے ہی کوئی کمزوری اُس کے ہاتھ آجاتی ہے۔ وُہ تاک کر حملہ کردیتا ہے۔۔۔جاناں کی بات سُن کر  ٹھنڈی ہواوٗں کے باوجود کامل کی پیشانی پر پسینے کے قطرے جگمگانے لگے تھے۔

نیند سے جاگنے  اُور جاناں کی تعبیر کے بعدکامل کا ذہن مکمل طور پر خُوف کے عفریت کی گرفت میں محصور ہُوچکا تھا۔جسکی وجہ سے کامل جاگتے ہُوئے باقی رات گزارنے لگا۔ جب خوف کی پرچھائیں اُسے مزید  اپنی آغوش میں جکڑنے لگی۔ تو کامل ، جاناں کو  ساتھ لیکر چھت سے اپنے کمرے میں منتقل ہُوگیا۔ جاناں تھوڑی ہی دیر میں دوبارہ نیند کی آغوش میں پُہنچ گئ تھی۔جبکہ کامل کیلئے بقیہ رات گُزارنا بُہت دشوار ہوتا جارہا تھا۔ اچانک اُسے جلباب  کی یاد آنے لگی۔جلباب کی یاد کیساتھ ہی کامل کو  مولوی رمضان کا ایک جملہ اپنی سماعت سے باربار ٹکراتا محسوس ہُوا۔  جیسے مولوی رمضان بھی اِس کمرے میں موجود ہُوں۔ اُور کامل کے کانوں میں سرگوشی کررہے ہُوں۔کہ،، بیٹا   انسان میں خُوف کی وجہ چوری ہے۔ جس طرح چُور چُوری کرتے ہُوئے ہر لمحہ اِس خُوف کا شکار رہتا ہے۔کہ،، کہیں مالک نہ جاگ جائے۔بالکل اِسی طرح جب کوئی انسان خُدا کے احکامات سے مُنہ مُوڑ کر چوروں کی طرح نافرمانی کے راستے پر سرپٹ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو خُدا کی نافرمانی کی وجہ سے اُس پر مخلوق کے خوٖف کا غلبہ ہُوجاتا ہے۔جس کے بعد وُہ اپنے سائے سے بھی درنے لگتا ہے۔

مولوی رمضان صاحب کی یاد کیساتھ ہی اُسے یہ بھی یاد آگیا کہ،، مولوی صاحب نے نزاع کے وقت میں بھی اُسکی خیرخواہی کی کوشش کی تھی۔ اُور اسے جلباب  پر شفقت کیساتھ اپنی کتابوں سے جُڑے رہنے کی تاکید کی تھی۔ پھر اُسے اپنے کالج کا زمانہ یاد آنے لگا۔ جب وُہ اکثر مولوی رمضان صاحب کی لائبریری میں کتابوں سے باتیں کیا کرتا تھا۔۔۔۔ پھر حالات بدلے تو اُس نے کتابوں سے تمام رشتے توڑ لئے۔ کتابوں کی یاد آتے ہی۔وُہ خاموشی سے جاناں کے پہلو سے اُٹھ کر اسٹور رُوم چلا آیا۔ جہاں  مولوی رمضان صاحب کی تمام کتابیں مدت سے  کارٹن میں بند پڑی تھیں۔ اُس نے احتیاط سے ایک کارٹن کا منہ کھولا۔تو اُسے یوں محسوس ہُونے لگا۔ جیسے وُہ کتابیں اپنی پھیکی سی مسکراہٹ کیساتھ کامل سے شکوہ کررہی ہُوں۔کہ،، بھلا اپنے دوستوں کو کون یُوں قید کرکے بھول جاتا ہے۔؟   کامل نے  کتابوں کے درمیان سے فتوح الغیب کو آہستگی سے نکال کر رُومال  کی مدد سے گرد سے پاک کیا۔ اُور اپنی آنکھوں سے بوسہ دینے کے بعد اِس کتاب کو اپنے کمرے میں لے آیا۔

حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی منفرد تحریروں سے سجی یہ کتاب  آج پھرکامل کی نگاہوں کے سامنے تھی۔ مولوی رمضان صاحب کو بھی یہ کتاب بیحد پسند تھی۔ وُہ اکثر کامل سے کہتے تھے۔کہ،، اگر کسی بندے کو خدا کی تلاش ہُو۔ اُور اُسے کوئی مرشد رہنمائی کیلئے میسر نہ ہُو۔تب واللہ یہ کتاب ادب و عقیدت سے پڑھنے والے کو خُدا سے ملانے کیلئے کافی ہے۔ چند اُواق پڑھنے کے بعد ہی کامل اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے پر مجبور ہُوگیا۔  آنکھوں سے آنسووٗں کی جھڑی لگی۔ تو نجانے کب دوبارہ کامل کی آنکھ لگ گئی۔پھر اُسکے کانوں میں موذن کے نغمے گونجنے لگے جو فلاح اُور سلامتی کے نعرے عجیب کیف و مستی کے عالم میں بُلند کررہا تھا۔۔۔۔ آج کافی عرصے کے بعد کامل کی آنکھ آذان کی صدا پر کھلی تھی۔ وگرنہ وُہ کہاں دِن چڑھے سے پہلے اُٹھنے والا تھا۔کامل نے وضو بنایا اُور فجر کی ادائیگی کیلئے مسجد کی جانب چل دیا۔

نماز کے اختتام پر دُعا میں کامل پر ایسی رقت طاری ہُوئی۔کہ،، اُسے معلوم ہی نہیں ہُوسکاکہ،، کب مولوی صاحب دعا کا اختتام کرنے کے بعد مسجد سے رخصت بھی ہُوگئے۔لیکن وُہ کافی دیر تک اپنی نافرمانیوں کی معافی اپنے کریم رب سےطلب کرتا رَہا۔ بس اُسکی ہر دُعا پر اُسکے کانوں میں ایک دھیمی سی آمین کی صدا اُسے یہ احساس دلاتی رہی۔کہ،، وُہ مسجد  میں تنہا نہیں ہے۔دُعا کے دوران  اچانک اُسے ابوشامل کی یاد آئی تو وُہ ابوشامل کیلئے بھی گڑگڑا کر دُعائیں مانگنے لگا۔اِس بار بھی کوئی اسکی دُعاوٗں پر ہر بار آمین۔آمین آمین کی دستک سے کامل کو اپنی موجودگی سے باخبر کرتا رہا۔دُعا کے اختتام تک اُس کے قلب میں ایک عجیب سکینہ نازل ہُونے لگا۔جیسے اُس کی زندگی میں کبھی کوئی غم  آیا ہی نہ ہُو۔ دُعا سے فارغ ہُونے کے بعد جب  کامل نے اپنی بائیں جانب دیکھا۔تو حکیم بطلیموس کے نورانی چہرے پر پھیلی مسکراہٹ نے اُسکا استقبال کیا۔

خُدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔جس نے ابوشامل کو ایسا دُوست عطا فرمایا ہے۔جو اپنی تنہائی کی دعاوٗں میں بھی اُسے یاد رکھتا ہے۔ حکیم بطلیموس نے کامل کی توجہ پاتے ہی گفتگو کی ابتدا کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔السلام علیکم حکیم صاحب !حضور آپ یہاں کیسے۔؟ اُور ابوشامل کی طبیعت اب کیسی ہے۔؟ کامل نے سلام کرتے ہوئے استفسار کیا۔۔۔۔ وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔ دراصل میں ابوشامل کے ہی متعلق بتانے کیلئے ہی تم سے ملنے یہاں آیا ہُوں۔کامل بیٹا تمہارا دُوست ابوشامل ٹھیک نہیں ہے۔ کل تمہارے جانے کے بعد اُس پر غشی کے دورے پڑنے لگے تھے۔ جس کے بعد وُہ شائد دائمی بےہُوشی کی کیفیت میں چلاگیا ہے۔۔۔۔ حکیم بطلیموس کی گفتگو جاری تھی کہ،، کامل نے گفتگو کاٹتے ہُوئے سوال کیا۔ دائمی بیہوشی سے آپکی کیا مُراد ہے؟۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے ۔کہ،، شہزادہ ابو شامل کا جسم بجلی کی رفتار  کی مانند کسی ٹھوس  شئے یا مادی قوت سے ٹکرایا ہے۔جسکی وجہ سے اُس کی یاداشت پر اثر ہُوا ہے۔اُور اُسکے ذہن نے  اِس درجہ قوتِ ارتعاش کی وجہ سے فی الحال کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اِس تکلیف کو ہم دائمی بے ہوشی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔کیونکہ صحیح طور پر میں بھی نہیں جانتا کہ،، ابوشامل کے ذہن کو کتنے دِن، ماہ یا سال لگ سکتے ہیں۔ اِسلئے مجھے ہرحال میں ابوشامل کو تمہاری دُنیا سے اپنی دُنیا میں لیجانا ہُوگا۔تاکہ،، مطلوبہ درجہ حرارت کیساتھ میں اسکا علاج جاری رکھ سکوں۔

آپ ابوشامل کو لیجارہے ہیں تو میں یہاں رِہ کر کیا کروں گا۔آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لےچلیں تاکہ،، میں بھی اِس تکلیف کی حالت میں اُسکی کچھ خدمت کرسکوں۔کامل نے روہانسے لہجے میں استدعا کرتے ہُوئے کہا۔کامل میں آپکو وہاں ساتھ نہیں لیجاسکتا۔ کیونکہ ہماری  دُنیا کا کم از کم درجہ حرارت ۸۰۰ سینٹی گریڈ ہے۔جو کہ آپکی دُنیا کے مقابلے میں بیس گُنا ذیادہ ہے۔آپ وہاں چند لمحے بھی زندہ نہیں رِہ پائیں گے۔۔۔۔ لیکن وہاں نرگس کو بھی تو رکھاگیا تھا نا۔کامل نے اچانک سوال کرڈالا۔۔۔۔نہیں کامل آپ سے کس نے کہا۔کہ،، نرگس کو ہماری دُنیا میں منتقل کیا گیا تھا۔حالانکہ نرگس کا علاج میں نے اِسی دُنیا کے ایک گمنام جزیرے پر کیا تھا۔ جسے تم ذیادہ سے ذیادہ دُنیا میں ہمارا دوسرا گھر کہہ سکتے ہُو۔ اُور ہاں نرگس کے ذکر سے یاد آیا کہ،، میں نے یہاں آنے سے قبل نرگس کو اُسکے حقیقی گھر میں  شفٹ کردیا ہے۔ جبکہ میرے پاس تمہارے لئے  اِس غم کی گھڑی میں ایک خوشخبری بھی موجود ہے۔کہ،، شہزادہ فرنانڈس کل اپنے منطقی انجام کو پُہنچ کر واصل جہنم ہوچکا ہے۔اسلئے اب اُسکی جانب سے بھی تمہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔


2 comments: