قارئین محترم السلامُ علیکم
جب سے ہم نے اسم اعظم کےعُنوان سے کالم کا سلسلہ شروع کیا ہے تب سے الحمدُللہ عزوجل سینکڑوں اسلامی بھائیوں اور بِہنوں نے رابطہ کیا اور مجھے بتایا کہ اسمِ اعظم کے مُتعلق بہت کچھ سُن رکھا تھا لیکن پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ واقعی جب سے زبان ذکر اللہ سے تر رہنے لگی ہے زندگی میں سکون آگیا ہے قلب مُطمئین ہوگیا ہے دل نرم ہوگیا ہے۔ بے چینی ختم ہو گئی ہے اور نماز میں بھی لُطف آنے لگا ہے مسائل حل ہورہے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ میرے اور آپ کے بلکہ تمام کائنات کے مالک اور خالق کا فرمان عالیشان ہے (بے شک دِلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے) اور کبھی اِرشاد فرماتا ہے تم میرا ذکر کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور کہیں ذکر کرنے والوں کی شان یوں بیان کرتا ہے میرے بعض بندے وہ ہیں کہ جِنہیں دُنیا کی تجارت بھی میرے ذکر سے لمحہ بھر کے لئے غافل نہیں کرسکتی۔
لیکن مجھے ایسی ای میل بھی موصول ہوتی ہیں جن کی تعداد اگرچہ بہت کم ہوتی ہے کہ ہمیں اِسم اعظم پڑھنے سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہورہا تو آج میں اُن تمام بہن اور بھائیوں سے استدعا کروں گا کہ برائے مہربانی اپنے اعمال پر ضرور غور کریں۔ دیکھیں ایک ہی شہر ایک ہی مُحلے بلکہ ایک ہی جگہ میں اگر دو درخت کاٹے جائیں جِسے ایک نوجوان مُشاق پہلوان کاٹ رہا ہو جبکہ دوسرے کو ایک کمزور اور ضعیف شخص کیا دونوں دَرخت ایک ہی رفتار سے کٹ سکیں گے؟ اور کیا یہ دونوں اشخاص ایک ہی وقت میں درخت کاٹ لیں گے؟ یا اُنہیں مُساوی وزن کسی مُقام پر پُہنچانا ہو تو کیا یہ ایک ہی رفتار سے وزن کو ڈھو سکیں گے؟
آپ کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ جناب ایک ضعیف اور ناتواں شخص بھلا کسطرح ایک چُست اور مُشاق پہلوان کا مُقابلہ کرسکتا ہے۔
تُو میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ جب جسمانی طور پر ایک کمزور اور بوڑھا شخص ایک صحت مند اور نوجوان شخص کا مُقابلہ نہیں کرسکتا تو جو روحانی طور پر کمزور ہو وہ کسطرح مُصیبتوں اور بلاؤں کا مُقابلہ کرسکے گا۔
بَقُول (علامہ شہیدی رحمتہ اللہ علیہ)
اُس کے تو عام ہیں الطاف شہیدی سب پر
تُجھ سے کیا ضِد تھی اگر تُو کِسی قابل ہوتا
عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال النبي - صلى الله عليه وسلم - : يقول الله تعالى : ( أنا عند ظن عبدي بي ، وأنا معه إذا ذكرني ، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي ، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم ، وإن تقرب إلي بشبر تقربت إليه ذراعا ، وإن تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا ، وإن أتاني يمشي أتيته هرولة ) .
تخريج الحديث
رواه البخاري و مسلم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گُمان کے ساتھ ہُوں اور جب وہ مُجھے یاد کرتا ہے میں اُسکے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دِل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اُسے (اپنی شان کے مطابق) یاد کرتا ہوں۔ اور اگر وہ مجھے مجمع (محفل) میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اُس سے بہتر مجمع (محفل) میں (فرشتوں کیساتھ) اُسکا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اُسکی طرف مُتوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ میری جانب ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ اُسکی جانب مُتوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ میری جانب چل کر آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر اُسکی جانب مُتوجہ ہوتی ہے
(بُخاری وِ مسلم)
محترم قارئین زرا سوچیے کہ اگر کوئی مشہور شخص کوئی فلم اسٹار کوئی کھلاڑی کوئی وزیر، مُشیر سینیٹر یا صدر کسی نجی محفل کسی انٹرویو میں ہمارا ذکر کر دے تو ہم خوشی سے پھولے نہ سمائیں جب تک ہر ایک کو نہ بتا دیں ہمارا کھانا ہضم نہ ہو صبح سے شام تک اِسی موضوع پر گُفتگو کرتے رہیں پھر بھی دِل نہ بھرے توُ جب بادشاہوں کا بادشاہ ہمارا ذکر کرے اس وعدہ کیساتھ کہ تم میرا ذکر میں تمہارا ذکر کروں گا اور وہی تو ہے جسکا وعدہ سچا ہے جو ہم سے ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ مُحبت کرتا ہے جب وہ پاک پروردگار ہمارا ذکر کرے اور وہ بھی عام لوگوں کے بیچ میں نہیں بلکہ اپنے مُقرب فرشتوں کے درمیاں تو سوچیے ہم سے زیادہ خوش قسمت کون ہوگا؟
جب اللہ کریم کسی کا ذکر کرتا ہے تو کیا زمیں کیا آسماں ہر سُو اُسکا چرچا ہونے لگتا ہے پھر بھی ہم اُسکے ذکر سے غافل رہیں تو ہم سے زیادہ بد نصیب کون ہوگا جو اُس کے اسم خاص یا اسم صفات سے مُحبت کرنے لگتا ہے تو رب کریم اُسے ایسا اقبال ایسا عروج عطا فرماتا ہے کہ زمانے بدل جاتے ہیں دریا اور سمندر اپنے رُخ بدل لیتے ہیں مگر اسم الہی سے مُحبت کرنے والے کا نام امر ہوجاتا ہے اور جب دُنیا میں اُس شخص کا نام لیا جاتا ہے تو زُباں سے خود بخود رحمتہ اللہ علیہ دُعا بن کے نکل جاتا ہے۔
بِشر حافی بغداد میں شراب کی بھٹی چلایا کرتے تھے ایک مرتبہ حالت نشہ میں چلے جارہے تھے کہ راستہ پر کاغذ کا ایک ٹکڑا پڑا دیکھا جس پر اللہ کے تین مبارک اسمأ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کی صورت میں لکھے تھے سوچا اتنے مبارک نام اور زمین پر پڑے ہیں اُٹھایا اور اپنی پگڑی میں سنبھال کر رکھ لیا گھر آنے کے بعد اُس کاغذ کو معطر کیا اور بُلند جگہ پر رکھا اور اُسی بے خودی کے حالت میں سوگئے اُس وقت کے ایک کامل ولی کو اللہ عزوجل نے خواب میں حُکم فرمایا کہ بِشر، کے پاس میرا یہ پیغام لیکر جاؤ کہ تُم نے ہمارے نام کو بُلند کیا ہم تیرے نام کو بُلند کردیں گے وہ بزرگ جاگ کر حیرت زدہ تھے کہاں بشر شرابی اور کہاں پیغامِ ربّ لہٰذا وضو کر کے دوبارہ سو رہے اسطرح چار مرتبہ خواب آیا اور وہ بُزرگ بِشر حافی کے گھر پُہنچے بشر حافی نے خواب سُنا اور بُہت روئے اور توبہ کی، اللہ سُبحانہُ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مُطابق بِشر حافی کو وہ عزت بَخشی کہ وقت کے امام حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور جب لوگ آپ جیسے عظیم مُحدث اور فقہیہ کو ایک درویش کی خِدمت میں حاضر ہوتا دیکھتے تو آپ سے استفسار کرتے، تب آپ فرماتے کہ بِشر حافی مجھ سے زیادہ خُدا کو جاننے والے ہیں۔
آپکی بیان کردہ احادیث کو صحیح کی اسناد کا درجہ دیا جاتا ہے اور آج صدیاں گُزر جانے کے باوجُود بھی آپکا نام لوگوں کے دِلوں میں زندہ ہے اور جب آپ کا نام لیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے حضرت بِشرِ حافی رحمتہُ اللہِ علیہ اللہ عزوجل کی اُن پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں اور اُنکے صدقے ہماری مغفرت ہو (آمین)
دیکھا آپ نے کہ کسطرح اسمائے الہی کی برکتیں نازل ہوتی ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ اللہ کریم کے اسما کو پُکارنے سے قلب کا زنگ دُور ہوتا ہے نورانیت پیدا ہوتی ہے دِل کی سختی دور ہوتی ہے مُحبت کے سُوتے پُھوٹتے ہیں زندگی سے اندھیرا غائب ہوجاتا ہے زُباں کی کڑواہٹ شیریں کلامی میں تبدیل ہو جاتی ہے خوش نصیب ہیں وہ دَہن جو ذکر الہی سے معطر رہے اسم اعظم کے عنوانات سے کالم لکھنے کا حقیقی مقصد بھی یہی ہے کہ ہم تمام خرافات سے اپنی زبانوں کو بچا کر ذکر الہی میں مشغول ہوجائیں کہ وقت کم ہے اور عنقریب بُلاوہ آنے کو ہے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ جب ہم فکر آخرت میں مشغول ہوں گے دنیا کے کام خود بخود سنورتے چلے جائیں گے۔
میں اپنے محترم قارئین سے التجا کروں گا کہ میری باتوں کا بُرا منائے بغیر غور کیجئے کہیں ہم بھی تو ایسے مشاغل میں مصروف نہیں جو ہمیں روحانی طور پر کمزور بنا رہے ہوں کیونکہ آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو نماز پڑھتی ہی نہیں بلکہ مجھے یہ کہتے ہوئے اگرچہ بہت دُکھ ہوتا ہے مگر اس سے مفر بھی نہیں کہ بیشُمار ایسے مسلمان بھی ہیں جِنہیں غُسل کا طریقہ تک معلوم نہیں۔ جھُوٹ ہم سے نہیں چھُوڑا جاتا غیبت اور چُغلی کو تو آج ہم نے لازم کرلیا اور ہماری کوئی محفل ایسی نہیں جو اس سے خالی ہو۔ تکبر ہم میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہے فحش گُفتگو اور بے حیائی کے مَناظر کے ہم خوگر ہیں یعنی وہ کونسی بُرائی ہے جو ہم میں نہیں۔
حسب سابق اسم اعظم کمنٹس باکس کے ذریعے سے حاصل کئے جاسکتے ہیں دیگر روحانی رہنمائی فَیس بُک پر تشریف لا کر فی سبیل اللہ حاصل کرسکتے ہیں انشااللہ زندگی باقی رہی تو یہ سلسلہ بھی چلتا رہے گا اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے کالمز لکھنے کا سلسلہ کافی سُست روی کا شکار ہے جسکے لئے مُعذرت چاہتا ہوں۔
جب سے ہم نے اسم اعظم کےعُنوان سے کالم کا سلسلہ شروع کیا ہے تب سے الحمدُللہ عزوجل سینکڑوں اسلامی بھائیوں اور بِہنوں نے رابطہ کیا اور مجھے بتایا کہ اسمِ اعظم کے مُتعلق بہت کچھ سُن رکھا تھا لیکن پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ واقعی جب سے زبان ذکر اللہ سے تر رہنے لگی ہے زندگی میں سکون آگیا ہے قلب مُطمئین ہوگیا ہے دل نرم ہوگیا ہے۔ بے چینی ختم ہو گئی ہے اور نماز میں بھی لُطف آنے لگا ہے مسائل حل ہورہے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ میرے اور آپ کے بلکہ تمام کائنات کے مالک اور خالق کا فرمان عالیشان ہے (بے شک دِلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے) اور کبھی اِرشاد فرماتا ہے تم میرا ذکر کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور کہیں ذکر کرنے والوں کی شان یوں بیان کرتا ہے میرے بعض بندے وہ ہیں کہ جِنہیں دُنیا کی تجارت بھی میرے ذکر سے لمحہ بھر کے لئے غافل نہیں کرسکتی۔
لیکن مجھے ایسی ای میل بھی موصول ہوتی ہیں جن کی تعداد اگرچہ بہت کم ہوتی ہے کہ ہمیں اِسم اعظم پڑھنے سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہورہا تو آج میں اُن تمام بہن اور بھائیوں سے استدعا کروں گا کہ برائے مہربانی اپنے اعمال پر ضرور غور کریں۔ دیکھیں ایک ہی شہر ایک ہی مُحلے بلکہ ایک ہی جگہ میں اگر دو درخت کاٹے جائیں جِسے ایک نوجوان مُشاق پہلوان کاٹ رہا ہو جبکہ دوسرے کو ایک کمزور اور ضعیف شخص کیا دونوں دَرخت ایک ہی رفتار سے کٹ سکیں گے؟ اور کیا یہ دونوں اشخاص ایک ہی وقت میں درخت کاٹ لیں گے؟ یا اُنہیں مُساوی وزن کسی مُقام پر پُہنچانا ہو تو کیا یہ ایک ہی رفتار سے وزن کو ڈھو سکیں گے؟
آپ کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ جناب ایک ضعیف اور ناتواں شخص بھلا کسطرح ایک چُست اور مُشاق پہلوان کا مُقابلہ کرسکتا ہے۔
تُو میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ جب جسمانی طور پر ایک کمزور اور بوڑھا شخص ایک صحت مند اور نوجوان شخص کا مُقابلہ نہیں کرسکتا تو جو روحانی طور پر کمزور ہو وہ کسطرح مُصیبتوں اور بلاؤں کا مُقابلہ کرسکے گا۔
بَقُول (علامہ شہیدی رحمتہ اللہ علیہ)
اُس کے تو عام ہیں الطاف شہیدی سب پر
تُجھ سے کیا ضِد تھی اگر تُو کِسی قابل ہوتا
عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال النبي - صلى الله عليه وسلم - : يقول الله تعالى : ( أنا عند ظن عبدي بي ، وأنا معه إذا ذكرني ، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي ، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم ، وإن تقرب إلي بشبر تقربت إليه ذراعا ، وإن تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا ، وإن أتاني يمشي أتيته هرولة ) .
تخريج الحديث
رواه البخاري و مسلم
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گُمان کے ساتھ ہُوں اور جب وہ مُجھے یاد کرتا ہے میں اُسکے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دِل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اُسے (اپنی شان کے مطابق) یاد کرتا ہوں۔ اور اگر وہ مجھے مجمع (محفل) میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اُس سے بہتر مجمع (محفل) میں (فرشتوں کیساتھ) اُسکا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ اُسکی طرف مُتوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ میری جانب ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ اُسکی جانب مُتوجہ ہوتا ہوں اور اگر وہ میری جانب چل کر آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر اُسکی جانب مُتوجہ ہوتی ہے
(بُخاری وِ مسلم)
محترم قارئین زرا سوچیے کہ اگر کوئی مشہور شخص کوئی فلم اسٹار کوئی کھلاڑی کوئی وزیر، مُشیر سینیٹر یا صدر کسی نجی محفل کسی انٹرویو میں ہمارا ذکر کر دے تو ہم خوشی سے پھولے نہ سمائیں جب تک ہر ایک کو نہ بتا دیں ہمارا کھانا ہضم نہ ہو صبح سے شام تک اِسی موضوع پر گُفتگو کرتے رہیں پھر بھی دِل نہ بھرے توُ جب بادشاہوں کا بادشاہ ہمارا ذکر کرے اس وعدہ کیساتھ کہ تم میرا ذکر میں تمہارا ذکر کروں گا اور وہی تو ہے جسکا وعدہ سچا ہے جو ہم سے ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ مُحبت کرتا ہے جب وہ پاک پروردگار ہمارا ذکر کرے اور وہ بھی عام لوگوں کے بیچ میں نہیں بلکہ اپنے مُقرب فرشتوں کے درمیاں تو سوچیے ہم سے زیادہ خوش قسمت کون ہوگا؟
جب اللہ کریم کسی کا ذکر کرتا ہے تو کیا زمیں کیا آسماں ہر سُو اُسکا چرچا ہونے لگتا ہے پھر بھی ہم اُسکے ذکر سے غافل رہیں تو ہم سے زیادہ بد نصیب کون ہوگا جو اُس کے اسم خاص یا اسم صفات سے مُحبت کرنے لگتا ہے تو رب کریم اُسے ایسا اقبال ایسا عروج عطا فرماتا ہے کہ زمانے بدل جاتے ہیں دریا اور سمندر اپنے رُخ بدل لیتے ہیں مگر اسم الہی سے مُحبت کرنے والے کا نام امر ہوجاتا ہے اور جب دُنیا میں اُس شخص کا نام لیا جاتا ہے تو زُباں سے خود بخود رحمتہ اللہ علیہ دُعا بن کے نکل جاتا ہے۔
بِشر حافی بغداد میں شراب کی بھٹی چلایا کرتے تھے ایک مرتبہ حالت نشہ میں چلے جارہے تھے کہ راستہ پر کاغذ کا ایک ٹکڑا پڑا دیکھا جس پر اللہ کے تین مبارک اسمأ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) کی صورت میں لکھے تھے سوچا اتنے مبارک نام اور زمین پر پڑے ہیں اُٹھایا اور اپنی پگڑی میں سنبھال کر رکھ لیا گھر آنے کے بعد اُس کاغذ کو معطر کیا اور بُلند جگہ پر رکھا اور اُسی بے خودی کے حالت میں سوگئے اُس وقت کے ایک کامل ولی کو اللہ عزوجل نے خواب میں حُکم فرمایا کہ بِشر، کے پاس میرا یہ پیغام لیکر جاؤ کہ تُم نے ہمارے نام کو بُلند کیا ہم تیرے نام کو بُلند کردیں گے وہ بزرگ جاگ کر حیرت زدہ تھے کہاں بشر شرابی اور کہاں پیغامِ ربّ لہٰذا وضو کر کے دوبارہ سو رہے اسطرح چار مرتبہ خواب آیا اور وہ بُزرگ بِشر حافی کے گھر پُہنچے بشر حافی نے خواب سُنا اور بُہت روئے اور توبہ کی، اللہ سُبحانہُ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مُطابق بِشر حافی کو وہ عزت بَخشی کہ وقت کے امام حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور جب لوگ آپ جیسے عظیم مُحدث اور فقہیہ کو ایک درویش کی خِدمت میں حاضر ہوتا دیکھتے تو آپ سے استفسار کرتے، تب آپ فرماتے کہ بِشر حافی مجھ سے زیادہ خُدا کو جاننے والے ہیں۔
آپکی بیان کردہ احادیث کو صحیح کی اسناد کا درجہ دیا جاتا ہے اور آج صدیاں گُزر جانے کے باوجُود بھی آپکا نام لوگوں کے دِلوں میں زندہ ہے اور جب آپ کا نام لیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے حضرت بِشرِ حافی رحمتہُ اللہِ علیہ اللہ عزوجل کی اُن پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں اور اُنکے صدقے ہماری مغفرت ہو (آمین)
دیکھا آپ نے کہ کسطرح اسمائے الہی کی برکتیں نازل ہوتی ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ اللہ کریم کے اسما کو پُکارنے سے قلب کا زنگ دُور ہوتا ہے نورانیت پیدا ہوتی ہے دِل کی سختی دور ہوتی ہے مُحبت کے سُوتے پُھوٹتے ہیں زندگی سے اندھیرا غائب ہوجاتا ہے زُباں کی کڑواہٹ شیریں کلامی میں تبدیل ہو جاتی ہے خوش نصیب ہیں وہ دَہن جو ذکر الہی سے معطر رہے اسم اعظم کے عنوانات سے کالم لکھنے کا حقیقی مقصد بھی یہی ہے کہ ہم تمام خرافات سے اپنی زبانوں کو بچا کر ذکر الہی میں مشغول ہوجائیں کہ وقت کم ہے اور عنقریب بُلاوہ آنے کو ہے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ جب ہم فکر آخرت میں مشغول ہوں گے دنیا کے کام خود بخود سنورتے چلے جائیں گے۔
میں اپنے محترم قارئین سے التجا کروں گا کہ میری باتوں کا بُرا منائے بغیر غور کیجئے کہیں ہم بھی تو ایسے مشاغل میں مصروف نہیں جو ہمیں روحانی طور پر کمزور بنا رہے ہوں کیونکہ آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو نماز پڑھتی ہی نہیں بلکہ مجھے یہ کہتے ہوئے اگرچہ بہت دُکھ ہوتا ہے مگر اس سے مفر بھی نہیں کہ بیشُمار ایسے مسلمان بھی ہیں جِنہیں غُسل کا طریقہ تک معلوم نہیں۔ جھُوٹ ہم سے نہیں چھُوڑا جاتا غیبت اور چُغلی کو تو آج ہم نے لازم کرلیا اور ہماری کوئی محفل ایسی نہیں جو اس سے خالی ہو۔ تکبر ہم میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہے فحش گُفتگو اور بے حیائی کے مَناظر کے ہم خوگر ہیں یعنی وہ کونسی بُرائی ہے جو ہم میں نہیں۔
حسب سابق اسم اعظم کمنٹس باکس کے ذریعے سے حاصل کئے جاسکتے ہیں دیگر روحانی رہنمائی فَیس بُک پر تشریف لا کر فی سبیل اللہ حاصل کرسکتے ہیں انشااللہ زندگی باقی رہی تو یہ سلسلہ بھی چلتا رہے گا اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے کالمز لکھنے کا سلسلہ کافی سُست روی کا شکار ہے جسکے لئے مُعذرت چاہتا ہوں۔
Tassadaq hussain
ReplyDeletesalaam ماشاءاللہ boht acha program hy اللہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے برکتیں دے آمین میرا نام جاوید احمد ہے مجھے اسم اعظم بتا دیجئے
ReplyDelete