بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے
لئے کہ اﷲ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے
محترم قارئین السلامُ علیکم سورہ الاحزاب کی آیت نمبر ۲۱ میں اللہ کریم اپنے بندوں کو اپنے محبوب کی پیروی کا حُکم دے رہا ہے اور ساتھ میں اپنے ذکر کی ترغیب بھی ۔
سورہ احزاب کی مندجہ بالا آیت کی تفسیر خزائن العرفان سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ان کا اچھی طرح اِتّباع کرو اور دینِ الٰہی کی مدد کرو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑو اور مصائب پر صبر کرو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّتوں پر چلو یہ بہتر ہے۔ ہر موقع پر اس (اللہ) کا ذکر کرے خوشی میں بھی رنج میں بھی، تنگی میں بھی فراخی میں بھی۔
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ نہ ہی اطاعت مصطفٰے کی جانب ہمارے دِل متوجہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اللہ کے ذکر کی طرف ہمارا قلب مائل ہو پاتا ہے شاذ و نادر ہی کوئی توفیق الہی سے ہمیں نیکی کی دولت مُیسر آتی ہے لیکن کیا یہ ہماری بد نصیبی نہیں کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اُسے بھی ہم ضائع کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ہم کسی نیکی کو حاصل کرنے کے بعد اُس کو بھول جائیں اور اپنے گُناہوں پر نادم ہوتے ہوئے اللہ عزوجل کی بارگاہِ بیکس پناہ میں مغفرت کے طلب گار نظر آئیں شیطان لعین اور ہمارا نفس جب تک ہماری نیکی کا ہم سے ڈھنڈورا نہ پِٹوالے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اُس کے بعد بھی ہماری حالت یہ ہے کہ قبر و حشر کی جواب دہی سے ایسے بے خبر بیٹھے ہیں کہ جیسے ہمیں تو مرنا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو ہم بڑی ڈھٹائی سے اُن نیکیوں کا واسطہ دے کر اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش کر کے کسی حاجت کے بر آنے کی دُعا بھی کر رہے ہوتے ہیں یہ جانے بغیر کہ کیا وہ نیکی اللہ کریم کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ بھی پائی یا ہمارے مُنہ پہ دے ماری گئی۔
اگر آپ ہدائت یافتہ بلکہ بَزُبانِ مصطفےٰ(صلی اللہ علیہ وسلم) جنت کے سند یافتہ اصحاب (رضوان اللہ اجمعین) کی زندگی کا مُطالعہ کریں تو آپ حضرت عُمر جیسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہُ کو بارگاہِ اِلٰہی میں گریاں اور آبدیدہ پائیں گے اور ایک ہم ہیں کہ خُدا ہمیں صرف تب یاد آتا ہے جب اپنی ہی بد اعمالیوں کے سبب ہم پر کوئی مُصیبت نازل ہوجاتی ہے اور اُس وقت بھی ہمیں اپنے گُناہ نظر نہیں آتے بلکہ کریم ربّ کی بارگاہ میں شکائت کررہے ہوتے ہیں کہ نہ جانے ہم سے کونسی خطا ہوگئی کہ اللہ عزوجل نے ہم پر یہ مُصیبت نازل کردی اور جب کوئی فضلِ خُدا سےخوشی نصیب ہوتی ہے تو بجائے سجدہ شُکر بجا لائیں اُسے اپنی بہترین حِکمتِ عملی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور وہ ایسا کریم ہے کہ جو اُسکی بارگاہ میں بُھولے سے بھی آجائے تو وہ اُس پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے آئیے تاریخ کے جھروکے سے ایک ایسا ہی واقع پڑھتے ہیں بَقولِ شاعر ، ، شائد کہ ترے دِل میں اُتر جائے میری بات،،
الملفوظ کے حصہ دوئم کے صفحہ ۲۵۶ پر یہ واقعہ رقم ہے جس کا خُلاصہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی سعی کا متمنی ہوں۔
کہ حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) کی خدمت میں ایک بہروپیا اکثر نئے نئے بہروپ رچا کر آتا مگر ہر مرتبہ حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) اُس بہروپئے کو پہچان لیا کرتے اور وہ بہروپیہ نامُراد ہی رہتا ایک مرتبہ حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) نے اُس بہروپیے سے ارشاد فرمایا کہ اگر تو مجھے اپنے کسی بہروپ سے دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا تو میں تجھے مُنہ مانگی مُراد دونگا اس واقعہ کے بعد وہ بہروپیہ ایک مدت دراز تک دربار میں نظر نہیں آیا لوگ اُس بہروپیے کو بھول گئے اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد ایک صوفی عابد و زاہد کا چرچا شہر میں ہونے لگا جو رات دن عبادت الہی میں مستغرق رہتا تھا اور اُس نے اپنا ٹھکانہ شہر سے دور ایک غار کی کھو میں بنایا تھا۔
پہلے دیہاتی آئے پھر شہر والے اسکے بعد درباری اُمراء اور وُزرا بھی پہنچ گئے لیکن اِس درویش نے کسی کی بھی طرف نظرِ التفات نہ ڈالی لوگوں کے دِلوں میں اِس درویش کی عظمت کا سکہ بیٹھ گیا آہستہ آہستہ اس درویش کی عبادت و رِیاضت کے قصے حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) کے کانوں تک بھی پہنچنے لگے اور آپ کے دِل میں اُس مردِ قلندر سے مُلاقات کی خواہش پیدا ہونے لگی چُونکہ حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) کو اولیاءَاللہ سے بُہت اُنس تھا اِس لئے زیادہ انتظار آپ سے نہ ہو سکا اور اس درویش کی دُنیا سے بے رغبتی کہ آپ بیشُمار قصے اپنے وُزراء کی زُبانی سُن ہی چُکے تھے لہٰذا ملاقات کا شرف پانے کیلئے آپ بڑی ارادت کیساتھ اُس درویش کی جانب روانہ ہوئے۔
جب حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) اُس درویش کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو درویش نے بادشاہ کو دیکھ کر اپنا سر جُھکا لیا حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) با ادب کھڑے ہوگئے کچھ دیر بعد اُس درویش نے بادشاہ کو بیٹھنے کا اِشارہ کیا حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) اُس درویش کے قدموں کے پاس مؤدب ہو کر بیٹھ گئے۔
حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) کا باادب بیٹھنا تھا کہ وہ درویش احتراماً کھڑا ہوگیا اور عرض کرنے لگا بادشاہ سلامت آپ نے مجھے نہیں پہچانا میں وہی بہروپیا ہوں جو آپ کے دربار میں حاضر ہوا کرتا تھا حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) خجل ہوگئے اور ارشاد فرمایا واقعی میں نے تیرے سوانگ کو نہیں پہچانا اب مانگ جو مانگنا ہے۔
اُس بہروپیہ نے عرض کی عالیجاہ میں نے اپنے رب عزوجل سے جھوٹی محبت کا سوانگ رچایا تو آپ جیسا جلیل القدر بادشاہ میرے قدموں میں آکر بیٹھ گیا، اب سوچتا ہوں سچے من سے بھی اُس پاک پروردگار کا نام لے دیکھوں۔ یہ کہہ کر اِک نعرہ مستانہ بُلند کیا اپنے کپڑوں کو چاک کرتا ہُوا جنگل کی جانب روانہ ہوگیا۔
محترم قارئین ذرا ٹہریئے اور سوچئے کیا ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں، ہماری تلاوت، اور ہمارا ذکر الہی، کرنا بھی تو دُنیا دِکھاوے کے لئے تو نہیں کیا ذکر الہی کرتے ہوئے کہیں ہم بھی تو اس وسوسے کا شکار نہیں ہوجاتے کہ ذکرِ الہی بھی کر دیکھتے ہیں اگر فائدہ نہیں ہوگا تو ثواب ہی ہاتھ آجائے گا یا کہیں ہمارے دِل کے کسی نہاں گوشے میں بے یقینی کی کیفیت تو نہیں۔
اور اگر آپ اپنے قلب کے کسی گوشے میں بے یقینی کی کیفیت کو محسوس کررہے ہیں تو پہلے یہ جان لیجئے کہ دُنیاوی کام میں بھی اگر بے یقینی کی کیفیت ہو یا کسی کام کو بے دِلی کیساتھ کیا جائے وہ کام اکثر نامکمل ہی رہ جاتا ہے۔ اور آپ کریم مالک سے مانگتے ہوئے بے یقین کیوں ہیں جو اپنے بندوں سے بِلا تشبیہ ایک ماں سے ہزاروں گُنا زیادہ مُحبت کرتا ہے کبھی تنہائی میں کبھی رات کے آخر ی پہر میں اُٹھ کر صدقِ دِل سے رو کر مانگئے تو سہی پھر دیکھئے وہ کس طرح اپنی رحمتوں کے دروازے آپ پر کھول دیتا ہے مانگنے کا سلیقہ بھی مانگتے مانگتے آہی جائے گا۔
میرے ایک اُستاد کہا کرتے تھے ڈھونگ سے ڈھنگ آتا ہے اور ڈھنگ سے رنگ اُن کی زندگی میں تو اِس جملہ کا مطلب سمجھ نہیں آیا اور جب سمجھ آئی تو سمجھانے والا اپنے خالق حقیقی سے جا مِلا اِس مُحاورے کا مطلب جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ نقل کرتے
محترم قارئین السلامُ علیکم سورہ الاحزاب کی آیت نمبر ۲۱ میں اللہ کریم اپنے بندوں کو اپنے محبوب کی پیروی کا حُکم دے رہا ہے اور ساتھ میں اپنے ذکر کی ترغیب بھی ۔
سورہ احزاب کی مندجہ بالا آیت کی تفسیر خزائن العرفان سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ان کا اچھی طرح اِتّباع کرو اور دینِ الٰہی کی مدد کرو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑو اور مصائب پر صبر کرو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّتوں پر چلو یہ بہتر ہے۔ ہر موقع پر اس (اللہ) کا ذکر کرے خوشی میں بھی رنج میں بھی، تنگی میں بھی فراخی میں بھی۔
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ نہ ہی اطاعت مصطفٰے کی جانب ہمارے دِل متوجہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اللہ کے ذکر کی طرف ہمارا قلب مائل ہو پاتا ہے شاذ و نادر ہی کوئی توفیق الہی سے ہمیں نیکی کی دولت مُیسر آتی ہے لیکن کیا یہ ہماری بد نصیبی نہیں کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اُسے بھی ہم ضائع کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ہم کسی نیکی کو حاصل کرنے کے بعد اُس کو بھول جائیں اور اپنے گُناہوں پر نادم ہوتے ہوئے اللہ عزوجل کی بارگاہِ بیکس پناہ میں مغفرت کے طلب گار نظر آئیں شیطان لعین اور ہمارا نفس جب تک ہماری نیکی کا ہم سے ڈھنڈورا نہ پِٹوالے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اُس کے بعد بھی ہماری حالت یہ ہے کہ قبر و حشر کی جواب دہی سے ایسے بے خبر بیٹھے ہیں کہ جیسے ہمیں تو مرنا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو ہم بڑی ڈھٹائی سے اُن نیکیوں کا واسطہ دے کر اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش کر کے کسی حاجت کے بر آنے کی دُعا بھی کر رہے ہوتے ہیں یہ جانے بغیر کہ کیا وہ نیکی اللہ کریم کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ بھی پائی یا ہمارے مُنہ پہ دے ماری گئی۔
اگر آپ ہدائت یافتہ بلکہ بَزُبانِ مصطفےٰ(صلی اللہ علیہ وسلم) جنت کے سند یافتہ اصحاب (رضوان اللہ اجمعین) کی زندگی کا مُطالعہ کریں تو آپ حضرت عُمر جیسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہُ کو بارگاہِ اِلٰہی میں گریاں اور آبدیدہ پائیں گے اور ایک ہم ہیں کہ خُدا ہمیں صرف تب یاد آتا ہے جب اپنی ہی بد اعمالیوں کے سبب ہم پر کوئی مُصیبت نازل ہوجاتی ہے اور اُس وقت بھی ہمیں اپنے گُناہ نظر نہیں آتے بلکہ کریم ربّ کی بارگاہ میں شکائت کررہے ہوتے ہیں کہ نہ جانے ہم سے کونسی خطا ہوگئی کہ اللہ عزوجل نے ہم پر یہ مُصیبت نازل کردی اور جب کوئی فضلِ خُدا سےخوشی نصیب ہوتی ہے تو بجائے سجدہ شُکر بجا لائیں اُسے اپنی بہترین حِکمتِ عملی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور وہ ایسا کریم ہے کہ جو اُسکی بارگاہ میں بُھولے سے بھی آجائے تو وہ اُس پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے آئیے تاریخ کے جھروکے سے ایک ایسا ہی واقع پڑھتے ہیں بَقولِ شاعر ، ، شائد کہ ترے دِل میں اُتر جائے میری بات،،
الملفوظ کے حصہ دوئم کے صفحہ ۲۵۶ پر یہ واقعہ رقم ہے جس کا خُلاصہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی سعی کا متمنی ہوں۔
کہ حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) کی خدمت میں ایک بہروپیا اکثر نئے نئے بہروپ رچا کر آتا مگر ہر مرتبہ حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) اُس بہروپئے کو پہچان لیا کرتے اور وہ بہروپیہ نامُراد ہی رہتا ایک مرتبہ حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) نے اُس بہروپیے سے ارشاد فرمایا کہ اگر تو مجھے اپنے کسی بہروپ سے دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا تو میں تجھے مُنہ مانگی مُراد دونگا اس واقعہ کے بعد وہ بہروپیہ ایک مدت دراز تک دربار میں نظر نہیں آیا لوگ اُس بہروپیے کو بھول گئے اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد ایک صوفی عابد و زاہد کا چرچا شہر میں ہونے لگا جو رات دن عبادت الہی میں مستغرق رہتا تھا اور اُس نے اپنا ٹھکانہ شہر سے دور ایک غار کی کھو میں بنایا تھا۔
پہلے دیہاتی آئے پھر شہر والے اسکے بعد درباری اُمراء اور وُزرا بھی پہنچ گئے لیکن اِس درویش نے کسی کی بھی طرف نظرِ التفات نہ ڈالی لوگوں کے دِلوں میں اِس درویش کی عظمت کا سکہ بیٹھ گیا آہستہ آہستہ اس درویش کی عبادت و رِیاضت کے قصے حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) کے کانوں تک بھی پہنچنے لگے اور آپ کے دِل میں اُس مردِ قلندر سے مُلاقات کی خواہش پیدا ہونے لگی چُونکہ حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) کو اولیاءَاللہ سے بُہت اُنس تھا اِس لئے زیادہ انتظار آپ سے نہ ہو سکا اور اس درویش کی دُنیا سے بے رغبتی کہ آپ بیشُمار قصے اپنے وُزراء کی زُبانی سُن ہی چُکے تھے لہٰذا ملاقات کا شرف پانے کیلئے آپ بڑی ارادت کیساتھ اُس درویش کی جانب روانہ ہوئے۔
جب حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) اُس درویش کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو درویش نے بادشاہ کو دیکھ کر اپنا سر جُھکا لیا حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) با ادب کھڑے ہوگئے کچھ دیر بعد اُس درویش نے بادشاہ کو بیٹھنے کا اِشارہ کیا حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) اُس درویش کے قدموں کے پاس مؤدب ہو کر بیٹھ گئے۔
حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) کا باادب بیٹھنا تھا کہ وہ درویش احتراماً کھڑا ہوگیا اور عرض کرنے لگا بادشاہ سلامت آپ نے مجھے نہیں پہچانا میں وہی بہروپیا ہوں جو آپ کے دربار میں حاضر ہوا کرتا تھا حضرت اورنگزیب عالمگیر(رحمتہ اللہ علیہ) خجل ہوگئے اور ارشاد فرمایا واقعی میں نے تیرے سوانگ کو نہیں پہچانا اب مانگ جو مانگنا ہے۔
اُس بہروپیہ نے عرض کی عالیجاہ میں نے اپنے رب عزوجل سے جھوٹی محبت کا سوانگ رچایا تو آپ جیسا جلیل القدر بادشاہ میرے قدموں میں آکر بیٹھ گیا، اب سوچتا ہوں سچے من سے بھی اُس پاک پروردگار کا نام لے دیکھوں۔ یہ کہہ کر اِک نعرہ مستانہ بُلند کیا اپنے کپڑوں کو چاک کرتا ہُوا جنگل کی جانب روانہ ہوگیا۔
محترم قارئین ذرا ٹہریئے اور سوچئے کیا ہماری نمازیں، ہماری عبادتیں، ہماری تلاوت، اور ہمارا ذکر الہی، کرنا بھی تو دُنیا دِکھاوے کے لئے تو نہیں کیا ذکر الہی کرتے ہوئے کہیں ہم بھی تو اس وسوسے کا شکار نہیں ہوجاتے کہ ذکرِ الہی بھی کر دیکھتے ہیں اگر فائدہ نہیں ہوگا تو ثواب ہی ہاتھ آجائے گا یا کہیں ہمارے دِل کے کسی نہاں گوشے میں بے یقینی کی کیفیت تو نہیں۔
اور اگر آپ اپنے قلب کے کسی گوشے میں بے یقینی کی کیفیت کو محسوس کررہے ہیں تو پہلے یہ جان لیجئے کہ دُنیاوی کام میں بھی اگر بے یقینی کی کیفیت ہو یا کسی کام کو بے دِلی کیساتھ کیا جائے وہ کام اکثر نامکمل ہی رہ جاتا ہے۔ اور آپ کریم مالک سے مانگتے ہوئے بے یقین کیوں ہیں جو اپنے بندوں سے بِلا تشبیہ ایک ماں سے ہزاروں گُنا زیادہ مُحبت کرتا ہے کبھی تنہائی میں کبھی رات کے آخر ی پہر میں اُٹھ کر صدقِ دِل سے رو کر مانگئے تو سہی پھر دیکھئے وہ کس طرح اپنی رحمتوں کے دروازے آپ پر کھول دیتا ہے مانگنے کا سلیقہ بھی مانگتے مانگتے آہی جائے گا۔
میرے ایک اُستاد کہا کرتے تھے ڈھونگ سے ڈھنگ آتا ہے اور ڈھنگ سے رنگ اُن کی زندگی میں تو اِس جملہ کا مطلب سمجھ نہیں آیا اور جب سمجھ آئی تو سمجھانے والا اپنے خالق حقیقی سے جا مِلا اِس مُحاورے کا مطلب جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ نقل کرتے
کرتے کام کرنا آجاتا ہے اور کام کرتے کرتے کام کا سلیقہ۔
بس آخر میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کسی کا دِل نہ دُکھائیں ماں باپ اور اپنے اساتذہ کو راضی رکھیں دُنیا کی بے ثباتی پہ نِگاہ رَکھیں اولیائے کاملین کی زندگیوں کا مُطالعہ کریں اور اُس پر عمل کی عادت اپنائیں آپ کو زندگی میں کبھی ناکامی کا مُنہ نہیں دیکھنا پڑے گا اور مندجہ بالا مُحاورے پر غور کیجئے گا کہ اللہ والوں کی باتوں میں حکمت کے موتی چُھپے ہوتے ہیں مایوسی کو اپنے قریب نہ آنے دیں کہ کُفر کی راہ دِکھاتی ہے اور کامیاب وہی ہوتے ہیں جو لگن رکھتے ہیں جو کوشش کرتے ہیں۔
اس لئے آپکو فائدہ نظر آئے یا نہ آئے اسم اعظم پڑھتے رہیے کہ جب قلب کی سیاہی ماند ہوگی تبھی تو اُس کے جلوے نظر آئیں گے تیرگی ختم ہوتی جائے گی اور ہر سُو اُجالے بَکھرتے چلے جائیں گے اور جب آپ کا قلب ذکر اللہ کی حلاوت کو پا لے گا تب آپکو معلوم ہوگا کہ آپ کس عظیم دولت کو پاچُکے ہیں۔
بس آخر میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کسی کا دِل نہ دُکھائیں ماں باپ اور اپنے اساتذہ کو راضی رکھیں دُنیا کی بے ثباتی پہ نِگاہ رَکھیں اولیائے کاملین کی زندگیوں کا مُطالعہ کریں اور اُس پر عمل کی عادت اپنائیں آپ کو زندگی میں کبھی ناکامی کا مُنہ نہیں دیکھنا پڑے گا اور مندجہ بالا مُحاورے پر غور کیجئے گا کہ اللہ والوں کی باتوں میں حکمت کے موتی چُھپے ہوتے ہیں مایوسی کو اپنے قریب نہ آنے دیں کہ کُفر کی راہ دِکھاتی ہے اور کامیاب وہی ہوتے ہیں جو لگن رکھتے ہیں جو کوشش کرتے ہیں۔
اس لئے آپکو فائدہ نظر آئے یا نہ آئے اسم اعظم پڑھتے رہیے کہ جب قلب کی سیاہی ماند ہوگی تبھی تو اُس کے جلوے نظر آئیں گے تیرگی ختم ہوتی جائے گی اور ہر سُو اُجالے بَکھرتے چلے جائیں گے اور جب آپ کا قلب ذکر اللہ کی حلاوت کو پا لے گا تب آپکو معلوم ہوگا کہ آپ کس عظیم دولت کو پاچُکے ہیں۔
حسب سابق آپ کمنٹ باکس کے ذریعہ سے اسم اعظم حاصل کرسکتے ہیں دیگر روحانی مسائل کے لئے فیس بُک پر رجوع کرسکتے
ہیں
http://www.facebook.com/ishratiqbal.warsi
اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور اپنے ذکر کی دولت سے ہمیشہ وابستہ رکھے آمین بِجاہ نبیِ الامین (و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔
http://www.facebook.com/ishratiqbal.warsi
اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور اپنے ذکر کی دولت سے ہمیشہ وابستہ رکھے آمین بِجاہ نبیِ الامین (و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔
Asalamoalkum,
ReplyDeleteIshrat bhai Allah kareem apko sehat ata farmae or bohot ziada nawaze ta k ap hum jese kum nasibo ki hidayat karne k liy ese hi likhte rahe or hume rehnumai milti rahe
Plz muje Ism e Azam Bata dain
ReplyDeleteMy name is Bilal Ahmed
shareef bhai bohat meharbani k aap ko mera likhna pasand hey
ReplyDeleteبلال احمد بھائی آپ یہ اسم اعظم پڑھیں (یامبینُ یاوھابُ) 232 مرتبہ روزانہ، اول آخر درود پاک پڑھیں والسلام احسان وارثی
ReplyDeleteAssalamualaikum ishrat bhai aap ke isme azam ke Baarey mein padhi bahot accha laga ek ummeed nazar aayi hai mujhe meri pareshanion se nikalne ki bhai mere naam ka ism e azam bataiye pls mera naam Samreen hai jazak allah bhai
ReplyDeleteOk sister fb msg per likh doonga
DeleteAssalamualaikum ishrat bhai aap ke isme azam ke Baarey mein padhi bahot accha laga ek ummeed nazar aayi hai mujhe meri pareshanion se nikalne ki bhai mere naam ka ism e azam bataiye pls mera naam Samreen hai jazak allah bhai
ReplyDelete