گذشتہ سے پیوستہ
ابو
شامل نے بتایا کہ وُہ،، جس دِن جہلم سے واپس لُوٹ رہا تھا۔ تب اُسکی نگاہ سڑک کے کنارے
بس کا انتظار کرتی ایک لڑکی پر پڑی۔۔۔ جس کو لُوٹنے کیلئے چند منچلے نوجوان قریب ہی
کھڑی ایک کار میں موجود تھے۔ اُس لڑکی کا چہرہ
دیکھنے کے بعدمیرے دِل نے گوارا نہیں کیا۔ کہ،، میں اُسے سنسان سڑک پر لُٹنے کیلئے
تنہاہ چھوڑ دُوں۔۔۔ اِس لئے میں بھی اُس لڑکی کے قریب بظاہر بس کے انتظار میں کھڑا
ہُوگیا۔۔۔ جسکی وجہ سے وُہ لڑکے تو وہاں سےفرار ہُوگئے۔ لیکن میں نے اپنی ٹیلی پیتھی
کے ذریعے سے معلوم کرلیا۔کہ وُہ لڑکی لاہور کی رہنی والی ہے۔ اُور اپنے گھر سے بھاگ
کر جہلم اپنی سہیلی کے سسرال چلی آئی ہے۔۔اُسکی سہیلی نے اُسکی خاطر مدارت تو بُہت
کی لیکن اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ڈر سے اپنے گھر میں ٹہرنے کی اجازت نہیں دِی۔ جسکی
وجہ سے اب وُہ کراچی کیلئے نِکل رہی تھی۔ اور کراچی جانے والی کوچ کا انتظار کررہی تھی۔۔۔ میں نے اُسکے ذہن سے اُسکے گھر کا پتہ لگایا۔
اُور اُن تک رسائی حاصل کی۔ تب مجھے معلوم ہُوا۔کہ،، اُسے یتیم خانے سے لیکر پرورش
کرنے والے اَب اِسکا سودا کسی عیاش انسان سے کرچُکے ہیں۔۔۔ اُور سارے لاہور میں اُسکی
تلاش جاری ہے۔
اب
مزید پڑھیئے۔
یہ لڑکی چونکہ نرگس سے بُہت مشابہ تھی۔ اسلئے میں نے فوری طور پر
فیصلہ کیا کہ،، میں اِس لڑکی کی مدد ضرور کرونگا۔ اِس طرح ایک طرف اِس بے سہارا
لڑکی کی مدد بھی ممکن تھی۔تو دوسری طرف اِس طرح میں تمہارے دِل سے نرگس کا غم بھی
غلط کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ تمہیں پورا حق حاصل ہے کہ،، تم مجھے ایک دُھوکہ باز
دُوست سمجھ سکتے ہُو۔ لیکن خُدا گواہ ہے۔ کہ،، اِس تمام معاملے میں میری نیت صاف
تھی۔ بس مجھ سے ایک غلطی ضرورسرزد ہُوئی
ہے۔ کہ لڑکی کو میں نے اِس تمام معاملے کیلئے رضامندکرنے کیلئےٹیلی پیتھی کا
سہارا لیا۔جس کے بعد وُہ میری معمول بن کر اِس تمام معاملے کیلئے رضا مند ہُوتی
چلی گئی۔جبکہ دوسرا کام یہ کیا کہ،، اُسے نرگس کی شکل میں تمہارے سامنے پیش کردیا۔
اور جہاں تک میری معلومات ہیں تُم بھی جاناں کو نرگس سمجھ کر قبول کرچکے ہُو۔
لیکن
میں نرگس سے محبت کرتا ہُوں۔ اُور صرف نرگس ہی میری جسمانی اُور رُوحانی تسکین کا سبب بن سکتی
ہے۔اُسکی کلون مجھے قبول نہیں ہے۔ یہ بھی
اچھا ہُوا کہ،، تم نے مجھ پر جاناں کی اصلیت ظاہر کردی۔ورنہ نجانے میں کب تک نرگس
کے دھوکے میں اُس لڑکی میں نرگس تلاش کرتا رہتا۔ کامل علی نے خفگی کا اِظہار کرتے
ہُوئے کہا۔
دیکھو
کامل علی یہ بات تم بھی جانتے ہُو۔ کہ،،
نرگس تکلیف دَہ ہی سہی لیکن ایک شادی شدہ زندگی بسر کررہی ہے۔ اور اُس نے حالات سے
سمجھوتا بھی کرلیا ہے۔ اُور تم نے اُس سے ملاقات کرکے دیکھ لیا ہے۔کہ ،، وُہ اب
تمہاری خاطر اپنی ازدواجی زندگی کو دَاوٗ
پر لگانا نہیں چاہتی۔ اُور میرا خیال
ہےکہ،، کہ وُہ کم از کم بیوگی سے قبل تمہاری جانب دیکھنے کی بھی رَوادار نہیں
ہُوگی۔ اِس لئے میرا کہنا مانو،، اُور جاناں سے نکاح کرلو۔ اُور جہاں تک نرگس کا
تعلق ہے۔تو میں تم سے وعدہ کرتا ہُوں۔کہ،، جس دِن بھی کوئی ایسی رَاہ نکلی کہ،،
نرگس کی واپسی کا اِمکان نظر آیا۔میں خود آگے بڑھ کر نرگس کو تُم تک پُہنچادُوں
گا۔ اِس لئے عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ،، فی الحال میری راےٗ قبول کرلو۔ کیونکہ،،
بُہت جلد حالات تبدئل ہُونے والے ہیں۔ گھنشام داس کے چیلے اتنی آسانی سے پیچھا
نہیں چھوڑیں گے۔ وُہ حتی الامکان کوشش کریں گے۔کہ،، اپنے گُرو کے قتل کا بدلہ لیں۔
اُور اتنے چھوٹے علاقے میں ہم اپنی شناخت کو ذیادہ دِن چھپا کر رکھنے میں کامیاب
نہیں ہُو سکیں گے۔ افلاطون نے کامل علی کے چہرے پر نظریں جماتے ہُوےٗ اپنی گفتگو
ختم کی۔
گھنشام
داس کے ذکر سے کامل چہرے پر ناراضگی کے
اثرات خُوف کے سائے میں ڈھل گئے۔ تھوڑی
دیر تکرار کے بعد وُہ افلاطون کی رائے سے مطمئین نظر آنے لگا۔ اُور بلاآخر کامل
علی نے ،، گھنشام داس کے چیلوں سے حفاظت
،، روزگار کا کوئی مستقل زریعہ آمدنی ،،
محفوظ رہائش گاہ ،، کے بعد
ایمانداری سے نرگس کی حصول یابی ،، کی
کوشش کے ساتھ چند مزید شرائط پر افلاطون
کی جانب سے حامی کےبعد اپنی رضامندی ظاہر
کردی۔
کامل
علی کا نکاح دوسرے ہی دِن جاناں کے ساتھ محلے کے امام صاحب نے ایک سادہ سی تقریب
میں پڑھا دیا۔ اور تیسرے دِن افلاطون کی پلاننگ کے پیش نظر یہ تینوں افراد نقل مکانی کرکے کورنگی کراچی کے ایک خوبصورت
بنگلو میں شفٹ ہُوچکے تھے۔ چند دِ ن گُزرنے کےبعد ایک رات کھانے سے فارغ ہُو
کر گلی میں واک کرتے ہُوئے کامِل علی نے
افلاطُون کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔یا رافلاطون تُم نے کاروبار کے متعلق کیا سُوچا
ہے۔؟ْ؟؟ابھی تو خیر ہم یہاں نئے نئے وَارد ہُوئے ہیں۔ اِس لئے اَڑوس پڑوس والوں نے
ذیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔لیکن جلد ہی لُوگوں کو ہمارے متعلق تجسس پیدا
ہُونے کے امکان کو رَد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی نے ہمارے ذریعہ معاش کے متعلق
دریافت کرلیا تُو ہم کیا جواب دیں گے۔؟؟؟ ویسے کل یہی سوال جاناں نے مجھ سے کیا
تھا۔ وُہ مجھ سے تمہارے متعلق اور میری فیملی کے متعلق بھی معلوم کررہی تھی۔
ابوشامل
نے جاناں کے سوال پر چونکتے ہُوئے کہا،، یار بزنس کا آئیڈیا تو مجھے بُہت زبردست
سُوجھا ہے۔ اُور مجھے اُمید ہے کہ میرا یہ آئیڈیا تمہیں بھی بُہت پسند آئے گا۔
لیکن فی الحال تُم مجھے یہ بتاوٗ کہ جاناں کو تم نے کیا جواب دِیا۔۔۔ اُور کیا
جاناں تمہارے جواب سے مطمئین بھی ہُوگئی تھی یا نہیں۔؟ اُور اگر تمہیں لگتا ہے
کہ،، وُہ تمہارے جواب سے مطمئین بھی ہُوگئی تھی۔یامجھے مزید ٹیلی پیتھی کا
سہارالینا پڑےگا؟؟؟
کامل
علی نے افلاطون کے اتنے ڈھیرسارے سوالات اُور اُسکی پریشانی سے محظوظ ہُوتے ہوئے
جواب دِیا۔ یار اِس زمانے نے مجھے بھی بُہت سے مکاری کے گر سِکھا دیئے ہیں۔اِس لئے میرے دُوست خود کو اِس فیلڈ میں تنہا نہ سمجھو۔ بطاہر افلاطون کامل علی کے
تبصرےپر جھینپ سا گیا۔ لیکن فوراً سنجیدگی سے کامل علی سے جواب کیلئے استفسار کرنے
لگا۔۔۔ جواب میں کامل علی نے بتایا کہ اُس نے جاناں کو اپنی فیملی کے متعلق سچ سچ
بتادیا کہ،، اُسکا اِس بھری دُنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔ جبکہ افلاطون اُسکی دُور کی پھوپی کا بیٹا ہے ۔ جو
پھوپی کے انتقال کے بعد اِس کے ہی ساتھ رِہتا ہے۔
کمینے
انسان تمہارا بھلے دُنیا میں کوئی نہیں
ہو۔ لیکن میرے ماں باپ دُونوں ہی زِندہ ہیں۔ تُم نے جیتے جی میری ماں کو کیوں مار
ڈالا۔ اگر میرے والد کو معلوم ہُوگیا کہ
تُم نے جیتے جی اُنکی اکلوتی بیگم کو تخیل
میں مار ڈالا ہے۔ تو مجھے قوی اُمید ہے کہ،، وُہ تمہارے ساتھ میرا بھی خُون پی
جائیں گے۔۔۔ بہرحال مجھے خُوشی ہے کہ،، تم نے
جاناں کو مطمئین کردیا ہے۔ اُور اب میں تمہیں بزنس کا وُہ آئیڈیا بتانے
جارہا ہُوں۔۔۔ جِسے سُن کر تم بھی مجھے داد دیئے بنانہیں رِہ سکو گے۔۔۔۔ کامل علی
نے تجسس سے اپنے تمام جسم کو کان کی صورت
بنالیا۔ لیکن افلاطون کا بزنس آئیڈیاسُن کر کامل علی کا دِماغ چکرا گیا۔۔۔۔۔کیونکہ
افلاطون کا کہنا تھا کہ،، ہم خواہشیں بیچنے اُور خُوف خریدنے کا بزنس شروع کریں گے۔
جاری
ہے۔۔۔
اُسکا
کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں
کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔
مجھکو
ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو
نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے۔
BHAI bohat khushi ho rahi hai aap ki nai tehreer daykh kar BHAI (TAZKIRAH AIK PARI KI MOHABBAT KA) ki qist jaldi likhyay ga.
ReplyDeleteJAZAK ALLAH.