bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday, 13 December 2012

اسم اعظم حصہ - 6

محترم قارئین السلامُ علیکم

حضرت ابو الدرداء اور حضرت ابن عباس (رضی اللہُ تعلیٰ عنہُم) فرماتے ہیں کہ اسم اعظم رَبِّ رَبِّ ہے (رواہ الحاکم)۔

نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان عالیشان ہے جب بندہ یا رَبِّ یا رَبِّ کہتا ہے رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے لَبِیک اے بندے مانگ کہ تُجھے عطا کیا جائے (رواہ ابن ابی الدُنیا عن اُم المومینن عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)۔

حضرت امام زین العابدین (رضی اللہ عنہُ) ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے حالتِ خواب میں دِکھایا گیا کہ اسم اعظم،، اللہُ اللہُ اللہُ الذی لا اِلٰہَ اِلّاَ ھُوَ رَبُّ العَرشِ العَظِیم ہے۔

ابو امامہ باہلی (رضی اللہُ عنہُ) کے شاگرد قاسم بن عبدالرحمن شامی فرماتے ہیں کہ اسم اعظم یا حَیُّ یا قَیوُم ہے۔

آج اسم اعظم کے اِس مضمون میں اسم اعظم کے علاوہ آپکو ایک ایسی نفل نماز کے متعلق بتاؤں گا جو مشکلات کے حل میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور میں نے جن احباب کو بھی اِس کے پڑھنے کی ترغیب دی اُنہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ اس نفلی نماز کی تاثیر بُہت جلد ظاہر ہوتی ہے اور اس نماز کا نام صلواۃ الاسرار ہے اس نماز کے راوی حضور سیدنا غوث اعظم عبدالقار جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ )ہیں اور امام عاشقان امام احمد رضا (علیہ الرحمۃ) اس نفلی نماز کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ ایسا ہتھیار ہے جسکا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا۔ اگر آپ اسم اعظم کیساتھ اس نفلی نماز کا بھی اہتمام کریں تو بُہت جلد اپنے مسائل کا حل دریافت کرلیں گے۔

اس نفلی نماز کی ادائیگی کا طریقہ اس لنک سے حاصل کرلیں
http://www.facebook.com/home.php?#!/photo.php?pid=295928&id=100000136642576
یا میرے فیس بُک اکاؤنٹ سے حاصل کرلیں
http://www.facebook.com/ishratiqbal.warsi
اِس کے علاوہ اِس بلاگ پر بھی  اُوراد وُ وظائف سیکشن میں یہ طریقہ موجود ہے

اپنے کالم اول میں اسم اعظم کی اجازت کے ساتھ اُسکی شرائط بھی بیان کی تھیں جنہیں آج دوبارہ دھرانا چاہوں گا تاکہ یاداشت محفوظ رہے میری جانب سے ہر اُس مسلمان کو اسم اعظم پڑھنے کی اجازت ہے جس کے قلب میں تمام انبیاء کرام ( علیہمُ السلام)کی عظمت اور ادب موجود ہو جو تمام صحابہ کرام(رضوانُ اللہِ اجمعین) سے محبت رکھتا ہو جو تمام اولیائے کاملین تمام      سلا سل کے بُزرگانِ دین سے عقیدت رکھتا ہو ۔
جب اسم اعظم پڑھنا شروع کرے تو پہلے دِن حضور سیدی غوثِ اعظم(رحمتہ اللہ علیہ) اور تمام بُزرگان دین کے ایصال ثواب کی نیت سے فاتحہ کا اہتمام کرے ممکن ہو تو کسی یتیم بَچے کی خیر خُواہی کا انتظام کرے پھر روزانہ ایک وقت مقرر کر کے اسم اعظم کی جو تعداد ہو اُسے پڑھے اول اور آخر میں طاق تعداد میں دُرودِ پاک پڑھے نماز کی پابندی کرے والدین کا ادب کرے، یہ تمام شرائط پوری کرنے والا کبھی خیر سے محروم نہیں رہے گا دُنیاوی کام انشاءاللہ خود بخود تکمیل کی جانب بڑھیں گے مشکلات کو خود مشکل پیش آجائے گی ۔
دیکھیں روحانی فیض کا سلسلہ درجہ بہ درجہ کڑی بہ کڑی ملتا ہے جن کا رہنما نہیں ہوتا یا جس کشتی کا کوئی ناخدا نہیں ہوتا وہ اکثر طوفانوں کے بھنور میں پھنس جاتی ہے اِسے یوں سمجھیں کہ ہم نے گھر میں بجلی کی فٹنگ تو کروالی لیکن جب تک آپ مین پاور سپلائی کی وائر سے اپنے گھر کی وائر کو نہ جوڑیں آپ کے گھر میں بجلی کی تنصیب کا مرحلہ نامُکمل رہے گا اور جب تک ان مین وائر کا رابطہ گرڈ اسٹیشن، اور گرڈ اسٹیشن کا رابطہ مین پاور پلانٹ سے نہ ہو آپ بجلی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے اِسی طرح اپنا سلسلہ اولیائے کاملین، اصحاب نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور رسولِ پاک صاحِبِ لولاک سیاحِ افلاک(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جوڑے بِنا آپ روحانی فیوض وبرکات بھی حاصل نہیں کر سکتے یعنی تمام کَڑیوں کا تَسَلسُل سے مِلا ہونا بھی بُہت ضروری ہے۔ اِسی پہلی کڑی کے متعلق کسی نے کیا خُوب کہا ہے۔

اللہ اللہ کئے جانے سے اللہ نہ مِلے
اللہ والے ہیں جو اللہ سے مِلا دیتے ہیں

جس طرح شرعی معاملات اور مسائل کو سمجھنے کیلئے کسی عالم دین کی ضرورت پیش آتی ہے اُسی طرح راہ سلوک راہ طریقت پہ چلنے کیلئے کسی کامل کے سہارے کی ضرورت بھی ازبس ضروری ہے ورنہ جس طرح صحرا میں قزاق اکیلے مسافر کو لوٹ لیا کرتے ہیں اسی طرح راہ طریقت پر عام انسان کا کب شیطان ایمان اُچک لے خبر ہی نہیں ہوتی اور رہنما کیوں ضروری ہے؟ اسکا جواز سمجھنے کیلئے سورہ کہف کا مطالعہ کریں( سورہ کہف آیت نمبر64 تا 82 ۔)

آئیے اِسی بحث کو سمیٹے ہوئے آپکو تاریخ کے اوراق سے ایک نہائت سبق آموز عبرت سے بھرپور واقعہ سُناؤں۔

حضرت جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) سے کون ناواقف ہوگا آپ راہِ طریقت کے ایسے درخشندہ ستارہ ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کی رہنمائی کرتا رہے گا حضرت جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) اکثر اپنے مریدین سے ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ہمیشہ جلوت میں رہو خلوت اخِتیار نہ کرو کہ شیطان ہمارا ازلی دُشمن ہے اور ہر لحظہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ کس طرح بنی آدم سے اپنی شکست کا بدلہ لے اور اُسے اندھیروں میں دھکیل دے آپ کا ایک مرید جسے روحانی علوم سے بُہت اُنس تھا اور اُسے روحانی مدارج طے کرنے کی بُہت جلدی تھی اپنے ساتھیوں سے اکثر کہتا، کہ شیخ ہمیں تو کہتے ہیں کہ محفل اِختیار کرو جب کہ خود تنہائی بھی اِختیار کرتے ہیں۔

 یہ بات آہستہ آہستہ شیطان نے اُس کے دماغ میں ایسی بِٹھائی کہ وہ سمجھنے لگا، شائد شیخ نہیں چاہتے کہ کوئی دوسرا شیخ کی طرح عالی مرتبہ ہوجائے اِسی لئے خُود تو اکثر خَلوت اِختیار فرمالیتے ہیں جبکہ مریدین کو ہمیشہ جلوت(مِحفل) میں رہنے کی تلقین فرماتے ہیں ضرور اِس میں یہی راز ہے کہ خلوت اِختیار کرنے سے انسان جلد ولائت کا اعلیٰ درجہ پالیتا ہے۔ اور میں ضرور خَلوت اِختیار کرونگا۔

لہذا اُس بدنصیب نے شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنے وقت کی کامل ترین ہستی حضرت جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی)کی صحبت ترک کردی اور اپنے گھر کے ایک گوشہ میں تنہائی اِختیار کرلی اب یہ تمام دن رات اُسی گوشہ میں گُزارنے لگا خوب نماز کا اہتمام کرتا دِن رات عبادت اور ریاضت میں گُزارنے لگا لوگوں سے میل جُول ختم کرلیا کچھ عرصہ اس طرح گُزارنے کے بعد ایک دِن لوگوں نے اُسے بازار میں دیکھا تو چند پیر بھائیوں نے اُسے گھیر لیا اور اُسکی خیریت دریافت کرنے لگے تب اُس نے بڑی نخوّت سے جواب دیا ارے بے وقوفوں تمہیں تمہارے شیخ نے اتنے برسوں میں بھی جو نہیں دیا وہ میں نے چند دِنوں میں پالیا لوگوں نے استعجاب کے عالم میں دریافت کیا آخر تمہیں ایسی کونسی دولت مُیسر آگئی جو اپنے مُرشد کا تذکرہ اور وقت کے کامل ولی کا ذکراِس طرح کر رہے ہو؟

تب اس بد نصیب مُرید نے بڑی نَخوّت سے جواب دیا میرا حال کیا دریافت کرتے ہو میرا تو یہ حال ہے کہ میری ہر رات فرشتوں کیساتھ جنت میں بسر ہوتی ہے مجھے کسی کامل ولی کی ضرورت نہیں میں تو خود کامل ہوں اور جو چاہوں وہ پا لیتا ہوں چند ہی دِنوں میں تمام بغداد میں اس مرید کے چرچے ہر خاص و عام کی زُباں پر عام تھے اور اِسکی خود ساختہ بیان کردہ کرامتوں کی دُھوم تمام شہر میں مچنے لگی یہ بات ایک دِن حضرت جُنید بغدادی (رحمتہ اللہ علیہ)کی بارگاہ میں بھی پیش کی گئی جِسے سُن کر حضرت جُنید بغدادی (رحمتہ اللہ علیہ) یہ راز جان چُکے تھے کہ اُنکا ایک مُرید شیطان کی چال کا شکار ہوچُکا ہے ۔

لہٰذا آپ نے اُس کی اصلاح کی خاطر اپنے چند خاص مُریدوں کو اُس مُرید کو بُلانے کیلئے بھیجا اور ساتھ ہی اپنا سلام بھی بھیجا جب آپکا یہ پیغام اُس مرید تک پہنچا کہ حضرت شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو اُس مرید نے بڑی بے اعتنائی سے جواب دیا کہ سُنو ملاقات کا شوق حضرت شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) کو ہے لہٰذا اُنہیں چاہیے کہ خود مِلنے کے لئے آجائیں مجھے تمہارے شیخ سے ملاقات میں کوئی دلچسی نہیں اور نہ ہی میرے پاس اِتنا فالتو وقت ہے کہ ہر ایک کی خواہش پر اُس سے مُلنے جاؤں جب اسطرح کا سخت جواب حضرت شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) کو سُنایا گیا تو آپ نے بڑے تاسف سے فرمایا اُس بیچارے کو ابھی اپنا ہوش ہی کہاں! جو اپنے مُرشد کے پیغام کو سمجھے یہ میری ذمہ داری ہے کہ اپنے مُرید کی اصلاح کروں جب اس سحر کا نشہ اُترے گا تو یہ کبر بھی ریزہ ریزہ ہو ہی جائے گا حضرت شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) اگلے ہی روز اپنے مُرید کے گھر پُہنچ گئے اُس بد نصیب مُرید نے بڑی بے رغبتی سے کہا آؤ جُنید کیسے ہو اور کیسے آنا ہوا۔۔۔؟


لوگ ششدر رہ گئے جب اُنہوں نے اپنے وقت کے کامل ترین بُزرگ شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) کو اپنے ہی مُرید کے تخت کے سامنے زمین پر چار زانوں بیٹھے دیکھا اُس بد بخت سے یہ بھی نہ ہوا کہ اپنے مُرشد کو اپنے تخت پر ہی جگہ دے دیتا مگر اُسے ہوش ہی کہاں تھا ورنہ ادب و عِشق کہاں اِجازت دیتا ہے کہ اپنے شیخ کی اِجازت کے بِنا مُرید فرش پر بھی بیٹھے۔

بہرحال شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) بڑی عاجزی کیساتھ فرش پر جلوہ افروز ہو چُکنے کے بعد گویا ہوئے آپکی کرامات کی بُہت شُہرت سُنی سوچا کہ آپ سے ملاقات بھی ہوجائے اور آپ ہی کی زُبانی آپکا احوال بھی معلوم ہوجائے سُنا ہے کہ آج کل آپ روزانہ جنت کی سیر کو جاتے ہیں؟

یہ سُن کر مُرید مُسکرانے لگا اور کہنے لگا بس جناب یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے کسی کو برسوں کی ریاضت کے بعد بھی یہ مقام نہیں ملتا اور کسی کو چند دنوں میں ہی یہ مُقام حاصل ہوجاتا ہے جیسے مجھ پر اکرام کی بارش ہوئی ہے اب کیا بتاؤں کہ کیسے مزے میں دِن رات بسر ہو رہے ہیں بس فضل خُدا سے جونہی رات ڈھلتی ہے فرشتے آجاتے ہیں کہ جناب جنت کی سیر کو چلیں اور بصد شوق سے جنتی سواریوں جو اونٹ کی سی شکل کی ہوتی ہے پہ سُوار کراتے ہیں جو مجھے لمحوں میں جنت کے اعلیٰ باغات میں لے جاتے ہیں جہاں اعلیٰ و انواع اقسام کے جنتی کھانے جنتی دستر خوانوں پر میری خاطر لگائے جاتے ہیں پھر خوش ذائقہ مشروبات کے جام پیش کئے جاتے ہیں پھر جنتی میزبان مجھے موسیقی سُناتے ہیں اور یہ محفل رات بھر جاری رہتی ہے صبح صادق سے قبل جب آنکھوں میں خمار بڑھتا ہے یہی فرشتے واپس بڑے اکرام سے گھر چُھوڑ جاتے ہیں۔

شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) بڑے انہماک سے یہ تمام کہانی سُن رہے تھے گویا ہوئے اگر میں آپ سے کوئی گُزارش کروں تو کیا آپ اُسے پوری فرما دیں گے؟

مُرید نے کہا کوشش کروں گا کہ آپ کو خالی ہاتھ نہ بھیجوں کہیے کیا چاہیے؟ شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) نے ارشاد فرمایا بس میں اِتنا چاہتا ہوں کہ آج رات آپ جب جنت میں داخل ہوچُکیں تو ایک مرتبہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھ لیجئے گا۔ مُرید نے چونکتے ہوئے شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) سے کہا کیا مطلب ہے تمہارا یہ کلمہ تو دفع شیطان کیلئے پڑھا جاتا ہے اور جنت میں شیطان کا کیا کام جناب؟

شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) نے ارشاد فرمایا کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ اس میں اللہ کے اسماء بھی شامل ہیں اور بعض بُزرگوں کے قول کے مطابق اس میں اسم اعظم موجود ہے میرے خیال میں تو اس کلمہ کو جنت میں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں بس میری اِتنی ہی گزارش ہے اگر آپ پوری فرما دیں تو مہربانی ہوگی۔

مُرید نے بالآخر یہ کلمہ جنت میں پڑھنے کی حامی بھر لی اور شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) اپنے آستانے مبارک کو تشریف لے گئے۔

اُس رات جب یہ مُرید جنت کے دسترخوان پر کھانا کھا رہا تھا تو بڑی بے چینی محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی غیر مرئی طاقت اُسے دیکھ رہی ہو حالانکہ تمام علاقہ آراستہ تھا برقی قمقموں نے ہر سو نور پھیلایا ہوا تھا دستر خوان پر ایک سے ایک اور اعلیٰ سے اعلیٰ نعمت موجود تھی تمام سماں معطر تھا خدام اٹکھلیاں کرتے پھر رہے تھے مگر یہ کیسی بے چینی تھی جس نے تمام لطف کا مزا غارت کردیا تھا پھر اُسے اچانک یاد آیا کہ اُس نے جُنید بغدادی سے آج ایک وعدہ کیا ہے لہٰذا اس نے بادل ناخواستہ پڑھا لا حَولَ وَلا قُوّۃَ اِلا بِااللہِ العَلِیِ العَظِیم اور یہ پڑھنا تھا کہ ایک شور بپا ہوگیا ۔

تمام نور ظلمت میں تبدیل ہوگیا، وہ دسترخوان جو ابھی نعمتوں سے مالا مال تھا غِلاظتوں کا ڈھیر بن گیا، خوشبو تعفن میں بدل گئی بظاہر نظر آنے والے فرشتے بوسیدہ ہڈیوں کی صورت اختیار کر گئے ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا دور دور تک کچھ نظر نہیں آتا تھا دِل میں عجب سے ھول اُٹھ رہے تھے اِلہی کیا ماجرا ہوگیا یہ نور اس کلمہ سے ظلمت میں کیوں بدل گیا یہ وہ سوالات تھے جو اس مُرید کے ذہن میں یکے بعد دیگرے پیدا ہورہے تھے اور آخری خیال اُس ہستی کے بارے میں تھا جنہوں نے اِس کلمہ کی تلقین کی تھی لہٰذا آخری کلمہ جو زُباں سے نکلا وہ یہی تھا کہ یا شیخ میری مدد کیجئے اور اس کے بعد یہ مُرید بے ہوش ہوگیا۔

 جب ہوش و خرد واپس آئے تو خود کو حضرت شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) کے آستانے میں موجود پایا بڑھ کر حضرت شیخ جُنید بغدادی (رحمتہ اللہِ الوالی) کے قدموں کو تھام لیا اور بے اختیار رونے لگا اور عرض کرنے لگا حضور مجھے معاف کردیجئے میں بہک گیا تھا آج میں جان گیا ہوں کہ آپ اپنے مریدوں کو کیوں جلوت(محفل)میں رہنے کی ہدایت کرتے تھے اور کیوں خلوت(تنہائی) سے دور رہنے کا حُکم دیتے ہیں! واقعی خلوت نشینی کا فائدہ شیطان نے خوب اُٹھایا اور مجھے دھوکہ دینے میں کامیاب رہا میں وعدہ کرتا ہوں اب کبھی آپ کے دامن کرم سے جُدا نہ رہونگا اور ہمیشہ آپکی صحبت کے دریائے فیض میں غوطہ زن رہونگا۔

حسب سابق آپ کمنٹس باکس میں اپنا نام لکھ کر اسم اعظم حاصل کرسکتے ہیں دیگر روحانی مسائل کے حل کیلئے فیس بُک پر رابطہ کرسکتے ہیں کچھ ساتھی اپنے نام کیساتھ والدین کے نام اور گھر کا ایڈریس یا تاریخ پیدایئش بھی لکھ دیتے ہیں اس کی چنداں ضرورت نہیں اسلئے احتیاط کیجئے اگر کوئی ایسا مسئلہ ہو جس میں والدین کے نام دینے کی حاجت ہو یا کوئی پرسنل معاملہ ہو تو فیس بُک پر رابطہ کرلیں فیس بُک پر اکاؤنٹ اسی واسطہ بنایا گیا ہے ۔  یا آپ مجھے میرے بلاگ پر  ای مِیل کردیں

اللہ کریم کی بارگاہ میں دُعا ہے کہ اپنے مدنی محبوب(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طفیل تمام مسلمانوں کو شیطان کے شر سے محفوط رکھے اور اولیائے کاملین کے دامنوں سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔
آمین بِجاہِ النبی الکریم(وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)


0 comments:

Post a Comment