گُذشتہ(۱۹)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔
یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ حالات سے تنگ آکر کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت دِلی لگاوٗ پیدا ہُوجاتا ہے۔جُو دھیرے دھیرے مُحبت میں تبدئل ہُوجاتا ہے۔
حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار ایک مَجذوب(بابا صابر) اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔ تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔
افلاطون نامی ایک نوجوان کامل علی کے گھر میں گُھسنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن کامل علی دھکے دے کر اُسے گھر سے نِکال دیتا ہے۔ لیکن جب وُہ دروازے میں کنڈی لگا کر پلٹتا ہے۔ تُو اُسی نوجوان کو اپنے بستر پر دراز دیکھتا ہے۔ افلاطُوں جسکی کُنیت ابو شامل ہے۔ اُسے بتاتا ہے ۔ کہ وُہ ایک جِن زادہ ہے۔ اُور ایک عامِل اُسکے پیچھے پڑا ہے کیونکہ وُہ کافی طاقتور جن ہے۔ افلاطُون پیشکش کرتا ہے کہ اگر کامل علی اُس عامل سے بچانے میں اِسکی مدد کرے تُو،، افلاطُون دُوست بن کر دُنیا کی ہر شئے کو اسکے قدموں میں لاکر ڈال سکتا ہے۔ کامل علی افلاطون کی پیشکش قبول کرلیتا ہے۔ دُونوں جہلم جلباب سے مُلاقات کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔ جلباب سے مُلاقات کے بعد ابو شامل کراچی پُہنچ کر کامل علی کو تنہا نرگس کے فیلٹ تک پُہنچا کر غائب ہُوجاتا ہے۔ نرگس کامل علی کو سمجھاتی ہے کہ وُہ واپس لُوٹ جائے۔ کیونکہ وُہ اپنی سابقہ زندگی کو بُھلانے کی کُوشش کررہی ہے۔ کامل علی جب واپس گھر پُہنچتا ہے۔ تب ابوشامل نرگس کو اُسکے سامنے پیش کردیتا ہے۔
پچھلی قسط سے یاداشت
کامل کی مایوسی کو دیکھ کر ابو شامِل اُسے بتاتا ہے کہ وُہ اُسکے واسطے ایک تحفہ لایا ہے۔۔۔ کامل کی بے چینی بھانپ کر ابو شامل کہتا ہے کہ،،بس یار پانچ منٹ اُور انتظار کرلے تُحفہ خُود سج دھج کر تیرے بستر تک آجائے گا۔۔۔ ابو شامل نے معنی خیز انداز میں مُسکراتے ہُوئے جواب دیا۔ ابو شامل کا جُملہ مکمل بھی نہیں ہُوپایا تھا۔کہ کسی نے نہایت دھیمے لہجے میں کامل کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ لکڑی پر پڑنے والی تھاپ کیساتھ چوڑیوں کی جھنکار یہ بتانے کیلئے کافی تھی۔ کہ دروازے پرکوئی آیا نہیں تھا۔۔۔ بلکہ کوئی آئی ہے۔۔۔ابو شامل نے لپک کر دروازہ کھول دِیا۔۔۔ کامل نے آنے والی کو دیکھا تو بستر سے اچھل پڑا۔۔۔ کیونکہ آنے والی کوئی اُور نہیں تھی ۔ بلکہ نرگس اُسکے سامنے دُلہن کے رُوپ میں کھڑی مُسکرا رہی تھی۔۔۔۔
اب مزید پڑہیئے۔
نرگس تُم اُور یہاں۔۔۔۔ کامل علی نرگس کو دیکھ کر بے ساختہ چادر پھینک کر خود دروازے پر اُسکا استقبال کرنے چلا آیا۔
یار کیا دروازے پر باتیں ہی بناتے رَہو گے یا اِسے اندر بھی لے کر جاوٗ گے۔۔۔ کیونکہ جب تک یہ اندر نہیں جائیں گی۔ تب تک میں بھلا باہر کیسے جاسکتا ہُوں۔۔۔ ابو شامل نے گلا کھنکار کر کامل علی کو اپنی موجودگی کا اِحساس دِلایا۔
ابو شامل کے جاتے ہی نرگس شرماتے ہُوئے سِمٹ کر بیڈ کے کُونے پر بیٹھ گئی۔۔۔ اُسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا۔کہ وُہ کوئی شادی شُدہ عورت ہے۔ اُورایک بچے کی ماں بھی ہے۔۔۔ کامل علی اُسکے جلووٗں سے سیراب ہُوتے ہُوئے سُوچنے لگاکہ،، ابھی ایک گھنٹہ قبل ہی تو نرگس نے اُسے اپنے گھر سے طعنے دے کر نِکل جانے کیلئے کہا تھا۔۔۔ پھر وُہ اپنے بچے کو چھوڑ کر یکایک یہاں کیسے آگئی۔۔۔؟اُور یہ تُو مجھے بھولنے کی باتیں کررہی تھی۔۔۔۔ تو کیا نرگس بھی مجھے ابتک اپنے دِل سے نِکال نہیں پائی ہے۔۔۔؟ یا پھر یہ بھی ابوشامل کا کوئی کرشمہ ہے۔۔۔؟
کامل علی کے ذہن میں ایسے ہی بے شُمار سوالات چُٹکیاں بھر رہے تھے۔۔۔ لیکن اُسے خوشی تھی کہ بلاآخر نرگس تمام دیواروں کو گِرا کر ایکبار پھر اُسکے پاس چلی آئی تھی۔۔۔ کہیں تُمہارے ساتھ ابو شامل نےکوئی زبردستی تو نہیں کی ہے نا۔۔۔؟ نرگس نے معنی خیز انداز میں کامل کو دیکھا تو کامل نے سٹپٹا کر کہا۔میرا مطلب تھا کہ تُم اپنی مرضی سے یہاں آئی ہُو نا۔۔۔ کہیں دِل پر کوئی جبر تو نہیں ہے نا۔۔۔ ویسے مجھے تُم سے کوئی شِکایت نہیں ہے کوئی بھی شریف عورت وہی رویہ اپناتی جو تُم نے میرے ساتھ اپنایا۔ کامل علی نے نرگس کے نذدیک ہُوتے ہُوئے کہا۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں یہاں اپنی مرضی سے آئی ہُوں۔ اُور جب تک آپ مجھے یہاں رہنے دیں گے۔ میں یہاں آپ کی خِدمت کرتی رَہوں گی۔۔۔ نرگس نے وضاحت کرتے ہُوئے شرما کرکہا۔۔۔ کامل علی کو نرگس کا لہجہ کچھ بدلا بدلا سا دِکھائی دیا جیسے نرگس کو زکام ہُوگیا ہُو۔ پھر اِسکا سبب بھی کامل کے ذہن میں از خود آگیا۔۔۔ شائد سردی کی ذیادتی کی وجہ سے نرگس کی آواز بیٹھ چُکی ہے۔۔۔اگرچہ صبح ہُوچُکی تھی۔ لیکن کمرے میں ملجگا سا اندھیرا باقی تھا۔ نرگس تھوڑی دیر تک شرما شرما کر کامل سے گفتگو کرتی رہی۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں دونوں بیباکی سے تنہا کمرے میں گفتگو کرنے لگے۔ صبح کا اُجالا کُچھ ہی دیر میں ظلمت کی تیرگی سے مار کھا گیا۔۔۔۔ کامل علی نے خُود کو لاکھ رُوکنا چاہا۔ لیکن بھلا ۔۔۔ کیا شمع موم کو پِگھلنے سے رُوک سکتی ہے۔ اُورکیا کاغذ آگ کی لُو سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔۔۔؟
دِن دیر گئے تک جب کامل کی آنکھ کُھلی ۔۔۔ صبح کے مناظر اُسکی آنکھوں میں گھومنے لگے۔۔۔ وُہ سیدھا غُسل خانے میں داخل ہُوگیا۔۔۔ نہاتے ہُوئے اُس نے چُوڑیوں کی کھنک سے اندازہ لگالیا کہ نرگس بھی بیدار ہُوچُکی ہے۔۔۔ وُہ سُوچنے لگا کہ ،، اب وُہ کسطرح سے نرگس سے نظریں مِلا پائے گا۔ اسلئے وُہ شرمندگی سے شرمشار مزید وقت باتھ رُوم میں گُزارتا رہا۔۔۔ کافی وقت گُزرنے کے بعد نرگس نے باتھ رُوم کے دروازے پر دستک دیتے ہُوئے کہا۔ آپ کو اُور کتنا وقت لگے گا۔۔۔؟ پلیز جلدی آجائیں۔ کیونکہ مجھے بھی واش رُوم جانا ہے۔ اُور آپ کے گھر میں کوئی دوسرا واش رُوم بھی تُو نہیں ہے۔ نرگس کی نارمل آواز سُن کر کامل کو احساس ہُوا کہ بات ابھی بِگڑی نہیں ہے۔ یا جُو کُچھ گُزرچُکا۔ نرگس کی نِگاہ میں اُن باتوں کی کوئی خاص وقعت ہی نہیں ہے۔ ورنہ وُہ اتنا نارمل ری ایکٹ نہ کرتی۔۔۔
کامل کے باہر نِکلتے ہی نرگس واش رُوم میں چلی گئی۔۔۔ کامل علی نے کُچھ سُوچ کر باتھ رُوم کے دروازے پر بُلند آواز سے کہا،، تُم جب تک فریش ہُولو ۔ تب تک میں بازار سے ہُو کر آتا ہُوں۔۔۔۔ کامل نے درواے کو باہر سے لاک کرنے کے بعد بازار کا رُخ کیا۔۔۔۔ چمکتی ہُوئی دوپہر بھی سردی کو مات نہ دے سکی تھی۔ کامل نے بازار سے گرما گرم چائے کیساتھ بریانی بھی خرید لی۔۔۔ ایک جگہ سے گُزرتے ہُوئے اُسے نرگسی پکوڑے دِکھائی دیئے۔ تو اُسنے نرگسی پکوڑوں کیساتھ گاجر کا حلواہ بھی خرید لیا۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں ہی نرگس کو بُہت ذیادہ مرغوب تھیں۔۔۔
گھر میں داخل ہُونے کے بعد کامل کو نرگس پُورے گھر میں کہیں دِکھائی نہ دِی۔ ایک لمحے کیلئے کامل اپنا کلیجہ تھام کر رِہ گیا۔ وُہ سُوچنے لگا شائد میری صبح کی دیدہ دلیری نرگس کو پسند نہیں آئی تھی۔ اِس لئے وُہ واپس چلی گئی ہے۔۔۔ لیکن پھر دُوسرے ہی لمحے اُسکے دِماغ نے اُسے سمجھایا۔ کہ اتنی دُور نِکل آنے کے بعد بھلا نرگس کیسے واپس جاسکتی ہے۔ اُور دروازہ بھی باہر سے بند تھا۔ یہی سُوچ کر کامل نے چھت کی رَاہ لی۔۔۔۔ چھت پر پہنچتے ہی اُس نے سکون کی سانس لی۔۔۔۔ کیونکہ نرگس اپنے کھلے ہُوئے گیلے بالوں کو تولیہ سے سُکھانے میں مصروف تھی۔۔۔۔
تُم یہاں پر ہُو نرگس ۔۔۔ میری تو جان ہی نِکل گئی تھی۔ کہ کہیں تُم خفا ہُوکر تو واپس تُو نہیں چلی گئیں۔ کامل علی نے نظروں کو جھکا کر اپنے خُوف کا اِظہار کیا۔ میں بھلا کیوں خفا ہُوکر چلی جاتی۔۔۔۔؟ نرگس نے انجان بنتے ہُوئے شَرما کر کہا۔ اُور یہ آپ مجھے بار بار نرگس کہہ کر کیوں مُخاطب کررہے ہیں۔۔۔؟ نرگس نے ایک مرتبہ پھر اپنے بالوں کو تولیہ سے جھٹکتے ہُوئے اِٹھلا کر کہا۔۔۔
نر گس نہ کہوں۔۔۔ تُو پھر کیا کہوں تُمہیں ۔۔۔؟ کامل علی نے رُومانٹک لہجہ بناتے ہُوئے کہا۔۔۔نرگس کی بیباکی سے کامل علی کی جھجک کافی کم ہُوچُکی تھی۔۔۔۔ آپ مجھے میرے نام ۔جاناں۔سے پُکاریں نا مجھے اچھا لگے گا۔ نرگس نے ایک خاص انداز سے کامل علی کی آنکھوں میں جھانکتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ ٹھیک ہے بابا آئندہ میں تُم کو جاناں ہی کہہ کر پُکاروں گا۔ لیکن فی الحال جلدی سےنیچے چلو۔ ورنہ کھانا کَم ناشتہ ٹھنڈا ہُوجائے گا۔۔۔ کامل نے پلٹ کر سیڑھی کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔
کھانا کھاتے ہُوئے بار بار کامل علی کَن اَنکھیوں سے نرگس کے سراپا کا جائزہ لیتا رَہا۔۔۔ وُہ رات والے سرخ لباس میں بالکل ایک پری کی مانند لگ رہی تھی۔ اچانک کامل علی کو خیال آیا کہ نرگس گُذشتہ شب صرف ایک لباس میں اُسکے گھر چلی آئی تھی۔ جِسکی وجہ سے اُسکو پریشانی درپیش آرہی ہُوگی۔۔۔ نرگس ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ جاناں تُمہارے پاس تو کوئی دوسرا ڈریس بھی نہیں ہے۔ اِسلئے میں کھانے کے بعد تُمہارے لئے بازار سے چند دوسرے سُوٹ خرید لاتا ہُوں۔۔۔ دراصل کامل علی نے تمام زندگی اپنی نرگس کو نرگس ہی کے نام سے پُکارا تھا۔ اِسلئے اُسے اِس نئے نام سے پُکارنے میں دُشواری ہُورہی تھی۔
جی کوئی بات نہیں میں فی الحال ایک دُو دِن اِس ہی ڈریس سے کام چَلالُونگی۔ آپ ابھی پریشان نہ ہُوں بعد میں جب بازار جانا ہُو۔ تب خرید لایئے گا۔ نرگس نے اُسکی پریشانی کو بھانپتے ہُوئے اُسے صلاح دی۔۔۔ چلو ٹھیک ہے پھر میں جب رات کا کھانا خریدنے جاوٗنگا تب تمہارے لئے نئے کپڑے بھی خرید لاوٗنگا۔۔۔ کامل کو پھر یہ خیال ستانے لگا کہ نرگس نے اُسکے واسطے بُہت بڑی قربانی دِی ہے۔ یہاں تک کہ وُہ اپنے پھول سے بچے کو بھی وہیں چھوڑ آئی ہے۔۔۔ حالانکہ نرگس نے ایک مرتبہ بھی اپنے بچے کا ذکر مجھ سے نہیں کیا۔۔۔ لیکن آخر کو وُہ ایک ماں ہے نجانے اندر ہی اندر وُہ اپنے بچے کیلئے کتنا تڑپ رہی ہُوگی۔ یہی سُوچ کر کامل علی نے ہمددری سے نرگس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہُوئے دریافت کیا۔۔۔ جاناں تُمہیں اپنے بچے کی یاد تُو بُہت آرہی ہُوگی۔۔۔؟
بچہ۔۔۔۔؟ کونسا بچہ۔۔۔؟ مجھے جب کوئی بچہ ہے ہی نہیں تُو یاد کیسے یاد آئے گی۔۔۔ اُور ابھی ہماری شادی کو ایک دِن بھی نہیں گُزرا اُور آپکو بچے کی فکر کیسے لاحق ہُوگئی ۔ نرگس نے اچھنبے سے کامل علی کی طرف ایسے دِیکھا جیسے اُسے کامل علی کی دِماغی صحت پر شک گُزرنے لگا ہُو۔۔۔
میں تُمہارے بیٹے طارق کی بات کررہا ہُوں ۔ جو تُمہارے پہلے شُوہر سے ہے۔ کامل نے بدستور نرم لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔۔ پہلا شُوھر، میرا بیٹا طارق۔۔۔۔؟ آخر بات کیا ہے۔۔۔؟ آپ مجھ سے شادی کے پہلے ہی دِن یہ کیسی کیسی باتیں کررہے۔۔۔؟ کیا آپکو میں کوئی بدچلن یا گئی گُزری لڑکی نظر آتی ہُوں۔ جو آپ میرا اِس طرح سے امتحان لے رہے ہیں۔۔۔ کیا گھر سے بھاگنا میرا اتنا بڑا جُرم ہے۔۔۔کہ بیٹھے بِٹھائے آپ نے میری ایک اُور شادی کا خیال اپنے دِماغ میں تراش لیا۔۔۔ جاناں کے لہجے میں اِس مرتبہ ناراضگی کا عنصر صاف جھلک رَہا تھا۔
اِس مرتبہ چکرانے کی باری کامل علی کی تھی۔۔۔ کیونکہ نرگس ناصرف اپنی پہلی شادی سے صاف مُکر رہی تھی ۔ بلکہ وُہ یہ ماننے کو بھی تیار نہیں تھی کہ وُہ ایک عدد بچے کی ماں بھی ہے۔۔۔ اُور نرگس بار بار شادی کا تذکرہ ایسے کررہی تھی جیسے وُہ واقعی اُسکی حقیقی بیوی ہُو ۔ کامل نرگس کا جواب سُن کر اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بیڈ پر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔
(جاری ہے)۔
اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے
loo chakar to hum ko bhi agay hai..
ReplyDeletelagta hai Abu shamil koi pari l aya hai :p
bht alla silsila chall rha hai..