bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday, 13 December 2012

عشق کے رنگ (عاشقِ اکبر)۔


محترم قارئین کرام اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سب سے خاص کالمز کا سلسلہ شروع کرنے جارہا ہُوں۔ اگر زندگی نے مُہلت دی تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے بہترین افراد پر کالمز کا سلسلہ ١٠٠ اقساط پر محیط ہُوگا۔ حُسن اخلاص کے ساتھ اللہ کریم کی بارگاہ میں دُعاگو ہُوں کہ مجھے اُس وقت تک مُوت نہ آئے جب تک کہ میں اسکی سو اقساط نہ لکھ لُوں اللہ کریم اَس عاجز کو جلد از جلد یہ سو اقساط لکھنے کی توفیق اپنے خاص فضل سے اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے طُفیل عطا فرمائے (آمین بِجاہِ النبی الکریم) وصلی اللہُ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وازوجہ و اولیائے اُمتہ اجمعین

عاشِق اکبر

بنو تمیم کے کئی افراد بڑی سُرعت کیساتھ ایک انتہائی حَسین نوجوان کو زخمی حالت میں اپنے ہاتھوں پر اُٹھائے سرپٹ دوڑے چلے جارہے تھے۔ ایک نوجوان اِن سب سے آگے راہ میں آنے والے لوگوں کو چِلَّا چِلَّا کر دائیں بائیں ہُونے کا اِشارہ کر رہا تھا۔ کِسی راہ گیر نے زَخمی نوجوان کو پہچاننے کی کوشش کی لیکن یہ کُوشش بے سُود اور لاحاصل ہی رہی کیونکہ اُس زخمی نوجوان کا تمام چہرہ خُون سے تر بتر تھا۔ جبکہ جسم سے جابجا رَستا ہُوا خُون زُبان حال سے حملہ آوروں کی سفاکیت کی داستان سُنا رہا تھا۔

پھر یہ تمام افراد ایک مکان کے نزدیک پُہنچ کر تیز تیز آواز میں چِلَّانے لگے۔ ابُو قحافہ ابو قحاقہ کہاں ہُو۔۔۔؟ دیکھو ظالموں نے عبداللہ کو اِنکے ہی خُون سے نِہلا ڈالا ہے۔ معلوم نہیں سانسوں کی لے برقرار بھی ہے یا تھم چُکی ہیں ۔ جلد ہی ارد گِرد میں جِس نے بھی عبداللہ پر جان لیوا حملہ کی خبر سُنی وہ فوراً دوڑتا ہُوا چلا آیا۔

بُہت جلد اِس مکان کے باہر لوگوں کا جَم غفیر جمع ہُوگیا۔ لُوگ عبداللہ کی اِس حالت پر غم و غصہ کا اظہار کررہے تھے۔ حالانکہ بیشتر آنے والوں کا تعلق عبداللہ کے مذہب سے بھی نہیں تھا۔ جِس سے یہ معلوم کرنا چنداں مشکل نہ تھا۔ کہ عبداللہ کی ذات میں بے شُمار خُوبیاں موجود ہیں۔ اور وہ صرف گُفتار کے غازی نہیں ہیں۔ بلکہ حُسنِ اخلاق کی اعلی صفات کے حامِل ہُونے کیساتھ ساتھ لوگوں کے دُکھ درد میں بھی ہمیشہ کام آنے والے ہیں۔ تبھی تُو ہر آنے والے کی آنکھ یُوں نَم تھی۔ جیسے گُویا کوئی اُنکا اپناعزیز بستر مَرگ پر جاں بلب ہُو۔ یا اُن سے رُوٹھ کر دُور بُہت دُور جا چُکا ہُو۔

عبداللہ بن عُثمان ہمیشہ مظلوموں کی مدد کرنے میں پیش پیش رَہا کرتے تھے۔ اُنکے دِل کا آبگینہ اِتنا حساس و نازک تھا۔ کہ وہ کِسی کو بھی پریشان حال نہیں دیکھ سکتے تھے۔

لوگ ایک دوسرے سے حادثہ کی وجوھات جاننے کی کوشش میں مصروف تھے۔ عبداللہ بن عُثمان کے اعلٰی اخلاق اور کردار کی وجہ سے کوئی سُوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ،، کہ کوئی شقیُ القلب اِن پر حملے کی جُرات بھی کرسکتا ہے۔

حَملہ آوروں نے زدوکُوب کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ طبیب کو فوراً طلب کرلیا گیا تھا۔ مگر اکثر لُوگ عبداللہ کی حالت دیکھنے کے بعد یہی رائے دے رہے تھے کہ عبداللہ بمشکِل جانبر ہُوپائیں گے۔

پھر یہ لوگ قافلہ کی صورت میں کعبہ اللہ پُہنچ کر اعلان کرتے ہیں۔ کہ اگر عبداللہ بن عثمان اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تو قاتل یہ نا سمجھ لیں کہ قاتلوں کو مُعاف کردیا جائے گا۔ بلکہ ہم اِس مقدس مُقام پر کھڑے ہُوکر سبھی لوگوں کو گواہ بناتے ہیں کہ اُنکی جان کے بدلے قاتلوں کی زندگی کو مُوت سے ہمکنار کرنے کے بعد ہی دَم لیں گے۔ اُور مکہ کے رِہنے والوں کان کھول کر سُن لُو کہ ہم عتبہ بن ربیعہ کو بالخصوص قتل کریں گے۔کیونکہ ہمیں معلوم ہُوا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر عبداللہ بن عُثمان کے جِسم کو نِشانہ بنایا ہے۔

حالانکہ ابھی ایک گھڑی پہلے یہی عبداللہ جنکی عُمر اَڑتیس اور چالیس برس کے درمیان ہُوگی۔ جب بڑی متانت اور سنجیدگی کیساتھ چلتے ہُوئے کعبہ اللہ کے نزدیک آکر کھڑے ہُوئے تھے۔ تب لوگ اُنکے سُرخ و سفید چہرہ کو دیکھ کر گُویا جُھلستی دوپہر میں مہتاب کی ٹھنڈک سے لُطف اندوز ہُو رہے تھے۔ جبکہ اِنکی ، کُشادہ جبین پر ہمیشہ کی طرح چمکتے ہُوئے پسینے کے قطرات جھلملاتے ستاروں کی مانند اٹکھیلیاں کررہے تھے۔ اندر کو دَبے ہُوئے رُخسار وعارض، اور کنپٹیوں کا احاطہ کئے ہُوئے سیاہ بالوں میں سے جھانکتی سفیدی آپکے تدبر اور فراست کا اعلان کررہی تھی جبکہ جُھکی جُھکی نِگاہیں حَیا کے ترانے گارہی تھیں۔ تمام مکہ ہی اِنکا گرویدہ تھا۔

مکہ میں بسنے والےسبھی قبائل اِنکی شرافت اور اعلٰی کردار کے گواہ تھے۔ یہ مکہ اور اُسکے مضافات میں گُمشدہ لوگوں کو ڈُھونڈ لاتے تھے۔ یہ وہ تھے جنکے دَر سے کوئی خالی نہیں جاتا تھا۔ اور جب خُون بہا کو کوئی معاملہ اُلجھ جاتا تب اِنہی کو یاد کیا جاتا۔ یہ تشریف لاتے اور مسئلہ کِسی نہ کِسی نتیجے پر ضرور پُہنچ جاتا۔ الغرض ایسا کُون تھا۔ جو اِنکی عظمت کا قائل نہ ہُو۔اور ایسا کوئی نہیں تھا جو انکی فہم و فراست پر مائل نہ ہُو۔

لیکن ایسا پہلی بار ہُوا تھا کہ انہوں نے مکہ کے لوگوں کو پُکارا ہُو۔ لوگ جوق در جوق اِنکے قریب جمع ہُونے لگے تھے۔ لیکن جُونہی عبداللہ بن عُثمان نے لوگوں کے جمع ہُونے کے بعد لُوگوں کو خُطبہ دیتے ہُوئے اللہ کریم اور اُسکے مدنی محبوب ﷺ کا اطاعت کا دَرس دینا شروع کیا۔ مکہ کے جُہلاء نے اُنکے احسانات کو بُھلا ڈالا اور اُن پر حملہ کردیا۔

بنو تمیم کے لوگوں کو اگرچہ عبداللہ بن عُثمان کے جِسم پر طاری سکتے اور مسلسل غَشی کے دُوروں کی وجہ سے اُن کے بچ جانے کی بُہت کم اُمید باقی تھی۔ لیکن شام ہُوتے ہُوتے عبداللہ بن عُثمان نے آنکھیں کُھول دیں ۔

کِسی نے اُنکو ہُوش میں آتا دیکھ کر اِنہیں دُودھ پِلانے کا مشورہ دِیا تُو کِسی نے کہا کہ اِنہیں کھانا اور پھل کِھلائے جائیں۔ تاکہ کمزوری کا کُچھ تدارک ہُو۔ عبداللہ بن عُثمان کی والدہ ماجدہ اُم الخیر سلمی نے جب اپنے بیٹے کو ہُوش میں آتے دیکھا تُو اُنکے چہرے سے غَم کے بادل چھٹ گئے اور مسرت سے اُنکے دِل کی کلیاں کِھل اُٹھیں۔

دِل ہی دِل میں خُدا کا شُکر ادا کرنے کے بعد جب اُنہوں نے کھانے کیلئے کوئی شئے اپنے بیٹے کی جانب بڑھائی۔ تُو سعادت مند عبداللہ بن عُثمان نے ہاتھ کے اِشارے سے ماں کو منع کرتے ہُوئے نحیف و نراز آواز میں دریافت کیا ۔۔۔ میرے آقا۔ محمدالرسول اللہ ﷺ کیسے ہیں۔۔۔؟ کہیں ناپاک دُشمنوں نے اُنہیں تُو ایذا و نقصان نہیں پُہنچادِی۔۔۔؟

اُم الخیر سلمیٰ نے اپنے جوان بیٹے کی حالت پر آبدیدہ ہُوتے ہُوئے کہا۔ بیٹا میں نہیں جانتی کہ ،، محمد بن عبداللہ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے کیا معاملہ کیا۔! البتہ میں اتنا جانتی ہُوں کہ تُم پر اِس وقت کمزوری غالب ہے۔ اِس لئے میرے بچے تُمہیں سب سے پہلے کُچھ کھالینا چاہیئے۔

ماں کا جواب سُن کر عبداللہ بن عُثمان رضی اللہ تعالٰی عنہُ تڑپ کر بُولے،، خُدا کی قسم جب تک میں اپنے آقا سیدنا مُحمد الرسول اللہ (صلی اللہُ علیہ وسلم )کی خیریت نہ معلوم کرلوں اپنے حلق سے ایک قطرہ پانی یا ایک دانہ اناج بھی نہ اُتاروں گا۔

بنو تمیم کے وہی لُوگ جو ابھی کُچھ ہی لمحوں قبل عبداللہ بن عُثمان رضی اللہ تعالی عنہُ کا انتقام لینے پر تُلے تھے۔ اُنکے لب پر آقائے نامدار ﷺ کا نامِ مُبارک سُن کر تِلملا اُٹھے۔ کسی نے آواز لگائی کہ،، چلو بھائیوں واپس چلیں۔ عبداللہ کو اپنی حالت سے زیادہ اپنے آقاﷺ کی پرواہ ہے حالانکہ اُنہی کی وجہ سے یہ آج مرتے مرتے بچے ہیں۔

تھوڑی دیر میں کافی لوگ واپس لُوٹ گئے۔ تب عبداللہ بن عُثمان نے سرگوشی کے انداز میں اپنی ماں کی منت سماجت کرتے ہُوئے عرض کیا۔ امی جان میرے حال پر رَحم کھائیں اور مجھے میرے کریم آقا علیہ السلام کی خیریت کی خبر لادیں۔ آپ خطاب کی بیٹی اُور عُمر (رضی اللہُ عنہُ) کی بِہن اُم جمیل فاطمہ رضی اللہ تعالی عُنہما کے گھر چلی جائیں۔ اُنہیں ضرور میرے سوھنے مُصطفٰے ﷺ کی خیریت سے آگاہی ہُوگی۔

حضرت اُم الخیر سلمیٰ رضی اللہ تعالی عنہما جو کہ ابھی تک ایمان نہیں لائی تھیں بیٹے کی حالت دیکھ کر بیتاب ہُوگئیں۔ اور بڑی بیقراری کی حالت میں اُمِ جمیل فاطمہ (رضی اللہُ تعالٰی عنہما) کے دولت کدے پر جا پُہنچیں۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھا۔ جب کُفار بداطوار کی نِگاہیں ہر اُس شخص پر جمی تھیں۔ جو مسلمانوں سے میل مِلاپ رکھنے کی کوشش کرتا۔ یا اُنکی کِسی بھی طرح مدد کی کوشش میں کُوشاں نظر آتا۔

حضرت اُم جمیل فاطمہ (رضی اللہُ تعالٰی عنہما)نے جب اُم الخیر سلمی (رضی اللہُ تعالٰی عنہما) جو کہ ابھی تک ایمان کے اظہار سے محروم تھیں۔ کہ لبوں سے اپنے کریم آقا علیہ السلام کا اِسم مبارک سُنا اور آپ کے کاشانہ ٗ مبارک کے متعلق اُم الخیر کو متجسس پایا تُو آپ تشویش میں مُبتلا ہُوکر فرمانے لگیں۔ کہ میں یہ تُو نہیں بتاسکتی کہ اِس وقت اللہ کے رسولﷺ کہاں تشریف فرما ہیں۔ البتہ اگر آپ اِجازت دیں تُو میں آپ کے گھر چل کر آپ کے بیٹے کو دیکھ سکتی ہُوں۔ اُم الخیر سلمی کا شُمار مکہ کی جہاندیدہ خواتین میں ہُوتا تھا۔ آپ سمجھ گئیں کہ اُم جمیل اپنے سوھنے نبی ﷺ کے معاملے میں اُن پر اعتبار نہیں کرنا چاہتی۔ لِہذا اُنہوں نے حضرت اُمِ جمیل فاطمہ (رضی اللہُ تعالٰی عنہما) کو ساتھ لیا اور اپنے گھر تشریف لے آئیں۔

جب حضرت اُم جمیل فاطمہ کی نِگاہ حضرت عبداللہ بن عُثمان (رضی اللہُ عنہُ) پر پڑی تُو بے اِختیار اُم الخیر سلمی (رضی اللہُ تعالٰی عنہما) سے رُوتے ہُوئے کہنے لگیں۔۔۔۔ خُدا نمٹے اُن ظالموں سے جنہوں رسول اللہ (صلی اللہُ علیہ وسلم) کے خاص مصاحب ابو بکر صدیق (رضی اللہُ تعالی عنہُ) کو اِس حال میں پُہنچایا ہے۔

حضرت اَبو بکر صِدیق (رضی اللہُ تعالی عنہُ) جنکا اسم مُبارک عبداللہ ہے اور والد کا اسم گرامی عُثمان ہے جنکی کُنیت ابو قحافہ ہے جبکہ آپکی کُنیت ابوبکر ہے (رضی اللہُ تعالٰی عنہُ) آپ نے اُم جمیل فاطمہ (رضی اللہُ تعالٰی عنہماُ)سے بڑی بیقراری کے عالم میں سرکار ﷺ کے متعلق دریافت کیا۔ حضرت اُم جمیل فاطمہ (رضی اللہُ تعالٰی عنہماُ) نے اشارے سے آپکی والدہ کی جانب اِشارہ کیا۔ کہ یہ بھی سُن رہی ہیں۔ حضرت اَبو بکر صِدیق (رضی اللہُ تعالٰی عنہُ)نےفرمایا کہ فکر نہ کریں میری والدہ مسلمانوں کی دُشمن نہیں ہیں۔

تب حضرت اُمِ جمیل (رضی اللہُ تعالٰی عنہماُ)نے بتایا کہ اللہ عزوجل کے محبوب دانائے غیوب ﷺ دارِ ارقم میں موجود ہیں ۔ حضرت اَبو بکر صِدیق (رضی اللہُ تعالٰی عنہُ) یہ جان کر فوراً کریم آقا علیہ السلام کی خِدمت میں حاضر ہُونے کیلئے اُٹھنے لگے۔ تب آپکی والدہ ماجدہ نے فرمایاکہ،، ابھی دِن کی روشنی باقی ہے۔ اور تُمہیں دیکھنے کیلئے لوگ بھی آرہے ہیں۔ اگر ایسی حالت میں جاؤ گے تو سبکو تُمہارے نبی ﷺ کی رِہائش کا ٹھکانہ معلوم ہُوجائے گا۔ لِہذا تُمہیں احتیاط کرنی چاہیئے۔ جب سورج ڈوب جائے گا تب چلے جانا۔

حضرت اَبو بکر صِدیق (رضی اللہُ تعالٰی عنہُ) نے فراق رسول ﷺ میں یہ گھڑیاں کیسے گُزاری ہُونگی ۔ ہم شائد اسکا اندازہ نہ لگا پائیں لیکن تاریخ گَواہ ہے کہ جب حضرت اَبو بکر صِدیق (رضی اللہُ تعالٰی عنہُ) دارِ ارقم پُہنچ کر رسول اکرم ﷺ کے قدموں سے لِپٹ کر سکون حاصِل کرنے کیلئے بڑھے تب اللہ کریم کے مدنی محبوب ﷺ نے خُود آگے بڑھ کر اپنے عاشقِ اکبر حضرت اَبو بکر صِدیق (رضی اللہُ تعالٰی عنہُ) کو اپنے سینہٗ مبارک سے لگالیا تھا۔ اور نجانے کتنے ہی لمحات تک عاشقِ اکبر(رضی اللہُ تعالٰی عنہ) اور محبوب اکبر(صلی اللہُ علیہ وسلم) ایک دوسرے سے لِپٹ کر رُوتے رہے۔

(جاری ہے)

پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی زَندگی کا سرمایہ گیا

0 comments:

Post a Comment