bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 13 December 2012

تذکِرہ اِک پری کی مُحبت کا . 1

محترم قارئین السلامُ علیکم 
بعض لوگوں کی زندگی میں حادثات اسقدر تواتر سے آتے ہیں کہ وہ اِن حادثات کے عادی ہُوجاتے ہیں اور اُنہیں زندگی کی تلخی تکلیف کے بجائے مَزہ دینے لگتی ہے جب کہ کُچھ لوگ چھوٹے چھوٹے حادثات پر ہی گَھبرا جاتے ہیں اور زندگی سے فرار کی راہ ڈھونڈنے لگتے ہیں یا پھر وہ کِسی کو بھی خُوش نہیں دیکھنا چاہتے۔

آج میں جو سچی کہانی سُنانے جارہا ہُوں اُسکے مرکزی کردار کی خُواہِش ہے کہ اِس کہانی میں اُس کا نام نہ آنے پائے کیونکہ اُس نے کِسی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کِسی کو اِن کرداروں کی سچی مُحبت کا تذکرہ نہیں کرے گا ویسے وہ کردار اِتنا نامانوس بھی نہیں کہ لوگ اُسے جانتے ہی نہ ہُوں شاید آپ بھی اُس کردار کو پہچان جائیں۔ لیکن یہ واقعہ سُنانے سے پہلے میں آپ سے ایک وعدہ لینا چاہُوں گا کہ چاہے آپ اُس کردار کو پہچان جائیں مُجھ سے نہ ہی کمنٹس باکس کے ذریعے اُس کردار کا اصل نام پوچھیں گے اور نہ ہی اُس کردار کو بُوجھنے کی کوشش کَریں گے اگر آپ نے میری معروضات پر عمل کیا تو میں آپکی خِدمت میں بیشُمار مزید سَچی کہانیاں بھی پیش کرنے کی سعی کرتا رَہوں گا۔

یہ کہانی جس نوجوان کی ہے وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کا چَشمُ چِراغ تھا نہایت ہی شرمیلا اور دِینی ذہن رکھنے والا ایک سیدھا سادھا سا بے ضرر نوجوان جو اپنے مُلازمین کیساتھ بھی دوستوں جیسا سلوک روا رکھتا تھا اِس نوجوان کی بچپن سے ہی ایک جسمانی کمزوری تھی کہ وہ اکثر پیٹ کے عارضے میں مُبتلا ہوجایا کرتا تھا ایک مرتبہ عین نوجوانی میں اُسکے پیٹ میں شدید درد رہنے لگا، کافی علاج معالجے کے بعد بھی جب کُچھ اِفاقہ نہیں ہُوا تُو اُسکے ایک طبیب دوست نے اُسے مشورہ دِیا کہ وہ زِیادہ سے زِیادہ پیدل چَلا کرے اِس طرح ممکن ہے کہ آپ کی تکلیف میں کُچھ کَمی آجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپکا مرض ہی جَڑ سے خَتم ہُجائے۔

اُس نوجوان نے جسکا ہم فرضی نام (عمران احمد وقاص) تَصَور کئے لیتے ہیں کو اپنے دوست کا یہ مشورہ بُہت پسند آیا اور عمران نے سوچا اِس طریقہ کو بھی آزمانا چاہیئے ہوسکتا ہے یہ واک کرنا اُسے اِس دائمی مرض سے نِجات دِلواسکے لہٰذا عمران نے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ اپنی موٹر بائیک کو اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو دے ڈالا، اور خُود اپنے آفس کیلئے پیدل جانے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جب پہلے دِن چار کلومیٹر کا سفر طے کیا تو عمران کے پاؤں میں سوجن آگئی کیونکہ کافی عرصہ سے عمران نے پیدل سفر کی عادت کو ترک کر رکھا تھا، اگلے دِن پیدل چلنے کے تصور ہی سے عمران کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اَب چھوٹے بھائی سے موٹر بائیک کس طرح واپس مانگی جائے بُہت سوچ بِچار کے بعد عمران اس فیصلہ پر پُہنچا کہ کِسی نہ کِسی طرح ایک ہَفتہ گُزار لیا جائے اور اُسکے بعد کِسی حِکمت سے وہ گاڑی واپس لی جائے، لیکن جب ویک اینڈ آیا تو عمران اِس سفر کا نہ صرف عادی ہُوچُکا تھا بلکہ اُسے اپنے مرض میں بھی کافی اِفاقہ مِحسوس ہُونے لگا تھا اور اب یہ سفر تھکن اور تکلیف کے بجائے عمران کو مَزہ دینے لگا تھا۔

لہٰذا عمران نے فیصلہ کیا کہ وہ اس واک کو مزید قائم رکھے گا، یہ سفر یونہی جاری تھا کہ عمران کیساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آگیا جیسا کہ میں ابتدا ہی میں عمران کے مُتعلق لکھ چُکا ہوں کہ وہ نہایت ہی شرمیلا نوجوان تھا اُسے کسی دوست کے گھر میں بھی داخل ہُوتے ہوئے شرم آتی تھی حتٰی کہ اُسے اپنی بہنوں کے گھر جاتے ہُوئے بھی شرم مِحسوس ہُوا کرتی تھی، لیکن ایک دِن جب وہ واک کرتا ہُوا اپنے آفس کیلئے جارہا تھا یکایک اُسے نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ ایک سنسان مقام سے گُزرتے ہُوئے وہاں موجود چند کچے پکے گھروں میں سے ایک گھر میں بِلا اِجازت مالک مکان کے بغیر دَستک دئے داخل ہوگیا گھر میں داخل ہُوتے وقت اُسے بالکل احساس نہیں تھا کہ وہ ایک غیر اِخلاقی اور غیر شرعی عمل کا مُرتکب ہورہا ہے مگر جونہی وہ گھر کی دِہلیز عبور کرکے اندر داخل ہُوا تو اُسے اِحساس ہُوا کہ اُس سے ایک جُرم سرزد ہُوچُکا ہے عمران فوراً پلٹنا چاہتا ہی تھا کہ اُسے برآمدے میں ایک بوڑھا شخص نظر آیا جوایک بنیان اور تہنبد میں ملبوس تھا اور ایک چارپائی پر بیٹھا عمران کو گھور رہا تھا۔

عمران کی نظر جونہی اُس بوڑھے شخص پر پڑی تو اُس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے ابھی عمران اپنے ذہن میں کوئی معقول بہانہ تراش ہی رہا تھا کہ اُس بوڑھے شخص نے گونجدار آواز میں عمران کو مُخاطب کرتے ہُوئے اُسے اپنے قریب آنے کی دعوت دِی اور بوڑھے شخص کی آواز میں ایسا سحر تھا کہ عمران بِلا چُون و چِراں کئے اُس بوڑھے شخص کے قریب پُہنچ کر شرمندہ سا کھڑا ہوکر کہنے لگا، جناب مجھے خبر نہیں کہ میں کِس طرح آپکے مکان میں بلا اِجازت کے داخل ہوگیا لیکن میں اپنے اِس عمل پر بُہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہُوں۔

وہ بُوڑھا شخص عمران کا یہ عُذر سُن کر مُسکراتے ہُوئے کہنے لگا میاں غلطی کی ہے تو غلطی کی سزا بھی ضرور پاؤ گے عمران نے نہایت عاجزی سے عرض کیا جناب آپ جو سزا دیں گے وہ مجھے قبول ہے لیکن میں پھر آپ سے یہی عرض کروں گا کہ مجھ سے یہ جُرم بے ساختگی میں سرزد ہُوا ہے میں شائد بے خیالی میں آپکے گھر میں داخل ہُوا ہوں لیکن پھر بھی جُرمانہ دینے کے لئے تیار ہُوں آپ کہیں مجھے کیا جُرمانہ دینا ہوگا عمران اپنی بات کہہ کر خاموش ہُوگیا اور اُس بوڑھے شخص کے جواب کا انتظار کرنے لگا اُسے اِس بات پر بھی تعجب ہورہا تھا کہ اتنے بڑے گھر میں کوئی شور شرابا نہیں تھا ایسی خاموشی تھی جیسا کہ عموماً قبرستانوں میں ہُوا کرتی ہے نہ ہی اتنی دیر ہُونے کے باوجود گھر کا کوئی دوسرا فرد ہی سامنے آیا تھا۔

بوڑھے شخص نے پاندان سے ایک پان نکال کر اپنے مُنہ میں رکھتے ہُوئے عمران سے کہا کہ تُمہاری سزا یہ ہے کہ ایک گھنٹے تک تُمہیں میرے پاس بیٹھنا ہُوگا یہ عجیب سزا سُن کر عمران بُہت متعجب ہُوا کیونکہ عمران کا خیال تھا کہ یہ بوڑھا شخص شاید اُس سے جُرمانے میں کچھ رقم طلب کرے گا لیکن یہ عجیب شخص تھا جو اپنے گھر میں بِلا اِجازت گھسنے والے کو مزید کُچھ دیر اپنے گھر میں رکھنے کا خُواہشمند تھا اُس بُوڑھے شخص کی اِس معصوم خواہش پر عمران کے من میں پیدا ہوتے خدشات دَم توڑنے لگے عمران نے سوچا شاید یہ شخص تنہائی کا مارا ہے اور میرے ساتھ کُچھ ٹائم پاس کرنا چاہتا ہے لہٰذا عمران اُس بوڑھے شخص کے اِشارے پر چارپائی کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گیا۔

جب عمران سے اُس بُوڑھے شخص نے نام دریافت کیا تو عمران نے اپنا پُورا نام دُھرا دیا نام سُنتے ہی اُس بُوڑھے شخص نے ایسا زوردار قہقہ لگایا کہ عمران بے ساختہ چارپائی سے اُتر کر اُس بوڑھے شخص کو دیکھنے لگا اب عمران کو اُس بُوڑھے شخص کی دِماغی صحت پر شُبہ ہُونے لگا تھا کہ کہیں یہ بُوڑھا شخص پاگل تو نہیں ہے جو اسقدر زور زور سے ہنس رہا تھا جیسے میں نے اپنا نام نہیں بتایا ہُو بلکہ کوئی لطیفہ سُنا ڈالا ہُو کُچھ دیر میں بوڑھے شخص کو ہنستے ہنستے کھانسی کا دورہ پڑگیا عمران نے قریب ہی رکھے مٹکے سے گلاس میں پانی اُنڈیل کر اُس بوڑھے شخص کو پیش کیا پانی پی کر وہ نارمل ہوگیا اور کہنے لگا بیٹھو، عمران کے بیٹھتے ہی وہ کہنے لگا برخوردار کیا میرا نام نہیں پوچھو گے؟

عمران نے بَڑے ادب و تحمل سے عرض کیا جناب کیا اِسمِ گِرامی ہے آپ کا ؟ بوڑھے نے کہا(عمران احمد وقاص) اب حیرت زدہ ہونے کی باری عمران کی تھی کیونکہ آج سے پہلے عمران کو یہی گُمان تھا کہ شاید دُنیا میں وہ واحد شخص ہے جس کا کوئی مکمل ہم نام موجود نہیں لیکن آج اُسکا ہم نام اُسکے سامنے موجود تھا۔ عمران نے اُس بُوڑھے شخص کو مُخاطب کرتے ہوئے کہا اِسکا مطلب ہے کہ آپ میرے ہم نام ہیں؟ میں تُمہارا ہم نام نہیں ہُوں برخوردار بلکہ تُم میرے ہَم نام ہو کیونکہ میں تُم سے بڑا ہوں اور مجھے تُم سے پہلے یہ نام مِل چکا تھا، اور ابھی کچھ ہی دیر پہلے ایک عمران احمد وقاص یہاں سے ناراض ہُو کر گیا ہے کمبخت کو بُہت جلدی تھی دس برس ساتھ رہا لیکن خالی ہاتھ ہی واپس چلا گیا بُوڑھے شخص نے تصیح کرتے ہُوئے جواباً کہا۔ یہ اطلاع عمران کیلئے مزید حیرت کا باعث تھی کہ کوئی اور عمران احمد وقاص بھی ہے جسکا اِس بوڑھے شخص کیساتھ پُرانا تعلق تھا۔ عمران کچھ مزید پُوچھنا چاہتا تھا کہ اُس بوڑ ھے شخص نے ہاتھ کے اِشارے سے خاموش رہنے کا اِشارہ کیا۔ 

تبھی کِسی نوجوان لڑکی کی سریلی آواز سُنائی دِی وہ دروازے سے داخِل ہُوئی اور اُس بوڑھے کو سلام کرتی ہُوئی چارپائی کے نزدیک آپہنچی عمران نے چونکہ آواز سُنتے ہی اپنی نگاہیں جھکا لی تھیں جسکی وجہ سے وہ اُس نازنین کے چہرے اور سراپے پہ تو نظر نہ ڈال سکا لیکن عمران کی جُھکی ہوئی نگاہوں نے اُس کے حَسِین قدموں کو ضرور دیکھا وہ پاؤں واقعی خُوبصورتی کا شاہکار تھے آواز ایسی کھنکتی ہُوئی کہ مانو، کانوں میں رس گھولنے، والا محاورہ آج سچ محسوس ہورہا تھا اور جسم سے ایسی بھینی بھینی خوشبو اُٹھ رہی تھی کہ سیدھی مسام دماغ کو معطر کر رہی تھی گویا چمن کے تمام پھول عمران کی گود میں اُتر آئے ہُوں۔

وہ وہاں بیٹھنے کی اجازت طلب کررہی تھی اور وہ بُوڑھا شخص اُس پر برہم ہورہا تھا کہ دیکھتی نہیں ہو کہ ہم اپنے مہمان کا تعارف حاصل کررہے ہیں اتنی جلد بازی اچھی نہیں ہوتی ابھی تُم جاؤ ہم بعد میں تُمہارا مسئلہ حل کردیں گے اور جو تُمہارا ہے وہ تُمہیں مِل جائے گا ہمیں ابھی بُہت کام کرنا ہے بُہت تیاری کرنی ہوگی جب جا کر تمہیں تُمہارا گوھر مُراد مِلے گا، اُس نازنین کی چِہکتی ہُوئی مترنم آواز اُداسی میں بدل گئی وہ سلام کرتے ہُوئے وہاں سے لوٹ گئی، اِس واقعہ کے بعد اُس بوڑھے کی شخصیت عمران کو کُچھ پُراسرار سی محسوس ہونے لگی تھی ابھی عمران اِس سحر آلود ماحول میں کھویا ہُوا تھا کہ بابا وقاص کے سوال نے عمران کو اُس ماحول سے باہر نکال لیا بابا وقاص عمران سے اُسکی دوسری شادی کے بابت معلوم کررہے تھے عمران حیرت سے بابا وقاص کا چہرہ تکنے لگا کہ اِنہیں کس طرح دوسری شادی کے مُتعلق معلوم ہُوا کہ بابا وقاص پھر گویا ہُوئے کہ حیرت زدہ ہُونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا مجھے اپنے متعلق معلوم ہے اُتنا ہی میں تُمہارے متعلق بھی جانتا ہوں کیونکہ تُم میرا عکس ہُو اور کوئی اپنے عکس سے بھلا کِس طرح غافِل ہوسکتا ہے اور اُسکے بعد گفتگو جاری رکھتے ہُوئے بابا وقاص نے چند ایک وہ باتیں بھی عمران کو بتانی شروع کردیں جو عمران کے سِوا اُسکے گہرے دوستوں کو بھی معلوم نہیں تھیں۔

اِسکے بعد بابا وقاص نے عمران سے ایک عجیب سا سوال کیا کہنے لگے عمران کبھی تُم نے یہ سوچا کہ تُم اپنے تمام خاندان سے مُختلف کیوں ہُو تُم میں یہ انفرادیت کیسے پیدا ہُوئی؟ عمران نے جواباً کہا مجھے نہیں معلوم کہ کیوں میں اپنے خاندان والوں سے اِتنا مُختلف ہُوں مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آپکو میرے متعلق اسقدر خاص معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں یہاں کیا کررہا ہُوں اور یہاں کیسے آیا ہُوں؟ وہ مُسکرا کر کہنے لگے میں نے کہا نا کہ تُم میرا عکس ہُو اور تُمہارے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ تُم یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ لائے گئے ہُو۔ وہ عمران سے بات جاری رکھے ہُوئے تھے کہ اچانک اپنی دائیں جانب کی دیوار کو دیکھنے لگے اور پھر کہنے لگے عمران مِیاں اب تُم جاؤ کچھ ایمرجنسی ہوگئی ہے جسکی وجہ سے میں مزید تُم سے بات نہیں کر پاؤں گا لیکن رات کو ضرور واپس آنا مجھے تُم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں عمران نے گھڑی میں دیکھا تو معلوم ہُوا کہ وہ ڈیڑھ گھنٹے سے زائد وقت یہاں گُزار چُکا تھا عمران جونہی مُصافحہ کرنے کیلئے چارپائی سے اُٹھا تو دروازے کی بیل بج اُٹھی بابا وقاص نے مُصافحہ کرتے ہُوئے مجھے پھر آنے کی تاکید کی اور میرے ساتھ دروازے تک آئے دروازے پر کچھ لوگ ایک بیہوش بچے کو اُٹھائے کھڑے تھے بابا نے عمران کو رخصت کرتے ہوئے اُن لوگوں کو اندر آنے کی دعوت دِی وہ لوگ بچے کو لیکر بابا وقاص کے گھر میں داخل ہُوگئے۔

جبکہ عمران اپنے آفس کی جانب جاتے ہُوئے آج کے اِس عجیب حادثے کے مُتعلق سوچ رہا تھا کہ آخر بابا وقاص کو میرے معاملات کی آگاہی آخر کس ذریعے سے حاصل ہُوئیں، وہ نوجوان لڑکی کون تھی جو بابا وقاص سے مدد مانگنے آئی تھی، اور بابا وقاص کو آخر پہلے ہی سے کیسے معلوم ہوگیا کہ کوئی اُن کے دروازے پر ایمرجنسی میں بچے کو لانے والا ہے، اور آخر بابا وقاص کو مجھ کو کیا ضروری بات کرنی ہے جِس کیلئے اُس نے مجھے پھر آنے کی دعوت دِی ہے، اِس کے علاوہ بابا وقاص خُود کون ہے اور اِس بیابان میں کیوں ٹہرا ہے ایسے ہی بیشُمار سوالات تھے جنکے جوابات عمران کے پاس فی الحال نہیں تھے اور اُسے فیصلہ کرنے میں بُہت دشواری محسوس ہو رہی تھی کہ آیا اُسے شام کو واپس آنا بھی چاہیئے کہ نہیں؟

(جاری ہے)

0 comments:

Post a Comment