عمران نے پلٹ کر دیکھا تو بابا وقاص کمرے میں
موجود نہیں تھے لیکن تبھی کوثر کی مترنم ہنسی نے تمام کمرے میں جلترنگ بکھیر دِی
اب عمران کوثر کی بے اختیار ہَنسی کی وجہ سے خَجل ہُورہا تھا۔
کِسے تلاش کر رہے تھے اِس کمرے میں کوثر نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے سوال کیا؟
کسی کو نہیں ، کِسی بھی کو تو نہیں عِمران نے بوکھلاتے ہُوئے جواب دیا
شائد کِسی سے کوئی پیمان کر آئے تھے یہاں آنے سے قبل اور اب اُس عہد کی صدا تُمہارا تعاقب کررہی ہے یہ عہد بھی کیا شے ہے اور اِحساس بھی کیا خُوب ہے جب تک عہد شکنی نہ کرو خیر ہے اور جونہی عہد شکنی کا اندیشہ دِل میں پیدا ہونے لگتا ہے تُو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی دیکھ رَہا ہُو کوئی پُکار رہا ہُو کہ عہد کا پاس کرو۔ ہے نا! کوثر نے ہے نا پر زور دیتے ہُوئے کہا۔
عمران کا دَل شدت سے اُس نازنین کو قریب سے دیکھنے کو چاہ رَہا تھا لیکن بابا وقاص سے کیا وعدہ اُسے خبردار کر رہا تھا کہ وعدہ نہ ٹوٹنے پائے۔ لیکن جب عمران سے رَہا نہ گیا تُو اُس نے ایکبار پھر کوثر کے چہرے پر نَگاہ جمانے کی کوشش کی لیکن کوثر کے رُعب حُسن نے اُسکی نظروں کو جُھکنے پر مجبور کردیا کیسی پُرسکون جھیل جیسی آنکھیں تھیں کوثر کی عمران سوچ رہا تھا شائد شاعروں نے ایسی ہی حَسین آنکھیں دیکھیں ہُونگی تبھی کسی نے اِنہیں ساگر کہا تو کسی نے ساغر، کسی نے جھیل سے تشبیہ دِی تو کسی نے نرگس سے۔
عمران کی زُبان سے بھی بے ساختہ کچھ اشعار ادا ہُوگئے
عجب مُعمُّوں سے پیکار ہیں تیری آنکھیں
جیسے صدیوں کی رازدار ہیں تیری آنکھیں
کوئی کِسطرح نِگاہُوں کو اُٹھا کر دیکھے
دِل پہ خنجر کی کاری دھار ہیں تیری آنکھیں
جب سے دیکھا ہے اِنہیں نیند نہیں آتی مُجھے
رُوبرو میرے ، میرے یار ہیں تیری آنکھیں
کیا تُمہیں میری آنکھیں پسند ہیں ؟کوثر نے محظوظ ہوتے ہُوئے اِٹھلا کر عمران سے استفسار کیا
عمران نے اثبات میں اپنی گردن ہِلادی
جھوٹ، اگر تُمہیں میری آنکھیں اسقدر پسند ہیں تو مجھ سے نظریں کیوں چُرا رہے ہو۔
کوثر کافی دیر تک عمران کے جواب کی منتظر رہی لیکن عمران نے اپنی گردن نہ اُٹھائی اور لگاتار کوثر کے مَرمَریں پیروں کو دِیکھتا رَہا۔
اچھا رہنے دو نہ دیکھو میری آنکھوں میں مگر خُدا کیلئے کُچھ بات تُو کرو میں کب سے منتظر تھی اِس گھڑی کی اور جب یہ گھڑی نصیب ہوگئی ہے تو اَب آپ اِن لمحات کو ضائع نہ کریں۔
عمران کو بھی اِحساس ہونے لگا کہ واقعی وقت اپنی رفتار سے گُزر رہا ہے اگرچہ کوثر کی رفاقت نے اِسکا احساس نہ ہونے دِیا تھا عمران نے ایک مرتبہ پھر اُس حَسین نازنین کے چہرے کی جانب نِگاہ اُٹھائی لیکن کوثر کے حُسن رُعب نے اُسکی نظروں کو ایک بار پھر جھکنے پر مجبور کردیا
عمران نے کوثر کی کلائیوں پر نظر جماتے ہُوئے کوثر سے دریافت کیا کوثر ایک بات اگر تُم سے پوچھوں تُم خَفا تو نہ ہونگی
ضرور پوچھو بلکہ ایک کیا ہزار سوال پوچھو کوثر نے اِٹھلاتے ہوئے اِک ادائے خاص سے کہا۔
جیسا کہ تُم ایک پری ہُو اور انتہائی حَسین بھی ہُو بلکہ بابا وقاص بتا رہے تھے کہ ایک معزز قبیلے کی شہزادی بھی ہُو جب کہ تُمہارے برعکس میں نہ ہی بُہت زیادہ خُوبصورت ہُوں نہ ہی مُجھ میں کوئی ایسا فَن ہے کہ جو مجھے دوسروں سے ممتاز کرتا ہُو پھر کیا سبب ہے کہ تُم نے اپنے پیار کیلئے میرا ہی انتخاب کیوں کیا۔
عمران کے خاموش ہوتے ہی ۔ کوثر نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔ کون کہتا ہے کہ تُم خُوبصورت نہیں ہُو مجھے بتاؤ میں اُسکا مُنہ نوچ لونگی۔
کوثر کے اِس والہانہ طرز عمل سے عمران کی ہنسی نِکل گئی جبکہ کوثر کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا کوثر نے اپنی خِفگی پر قابو پاتے ہُوئے کہا کیا ہُوا ، میں نے کوئی لطیفہ تُو نہیں سُنایا آپ کو ؟
عمران نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہُوئے کہا ابھی تُمہارا انداز بالکل لڑاکا عورتوں جیسا تھا جیسے کِسی عورت نے کسی دوسری عورت کے بَچّے کو بدصورت کہہ دِیا ہو اور وہ اُس پر اپنا ردِ عمل ظاہر کررہی ہو۔
اِس طرح تو میری بیگم بھی شائد میرے لئے کِسی سے نہ لڑیں
ویسے تُم نے میرے سوال کا جواب نہیں دِیا کوثر؟
عمران تُم عام اَنسان نہیں ہُو لیکن ابھی تُم یہ بات نہیں جانتے کیوں کہ تُمہیں اپنی قابلیت کا فی الحال اِدراک نہیں ہے اور میری زُبان پر بھی اِس وقت کسی وعدہ کا قفل ہے لیکن میں تُو تُمہیں جب سے جانتی ہُوں جب کسی نے تُم پر اپنا حَق نہیں جمایا تھا میرا مطلب ہے جب تُم صرف 14 برس کے تھے اور ایک حادثاتی مُلاقات نے مجھے تُمہارا غائیبانہ دوست بنا ڈالا۔ تُمہیں یاد ہے وہ دِن جب تُم ایک کھلونا لئے ایک میدان میں شام کے وقت کھڑے تھے تُمہاری آنکھوں میں آنسو تھے اور تُم اللہ سے دُعا مانگ رہے تھے کہ کسی طرح وہ مشین چل پڑے۔ کوثر سانس لینے کیلئے رُکی تو عمران کو وہ واقعہ یاد آگیا۔
جب عمران کی عُمر واقعی 14 برس رہی ہُوگی وہ آٹھویں جماعت پاس کرکے نویں کلاس میں آیا تھا کلاس میں ایسے لڑکے بھی موجود تھے جو گُذشتہ 4 برسوں سے فیل ہُوتے آرہے تھے اور ایک دِن جب عمران ایک شاپ سے وڈیو گیم کرائے پر حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر لیجارہا تھا کہ وہیں اُسکا ایک مذکورہ کلاس فیلو اپنے دوست پر پانی کا گلاس اُچھال رہا تھا وہ لڑکا تو ایکدم نیچے بیٹھ گیا اور گلاس کا تمام پانی عمران پراور اُس گیم پر آپڑا تھا وہ دوست تو وہاں سے رَفو چکر ہُوگیا اور گیم کی ڈیوایئس پانی جانے کے سبب خراب ہُوگئی تھی۔
اُس گیم کو خُشک کرنے کیلئے عمران میدان گیا تھا اور مغرب تک اُس گیم کے ٹھیک ہُونے کا انتظار کرتا رہا تھا لیکن وہ گیم نہیں بَنا اور دوکاندار کِسی صورت راضی نہیں ہُورہا تھا اُس وڈیو ڈیوائس کی قیمت اُس وقت 550 رُوپے تھی جبکہ عمران کو پاکٹ منی کے نام پر صرف ایک روپیہ روزانہ مِلا کرتا تھا۔ بلاآخر عمران کے کافی رونے دھونے کے بعد دوکاندار اِس بات پر راضی ہُوا تھا کہ عمران روزانہ ایک روپیہ اُس دوکاندار کو جمع کرائے گا اور غیر حاضری کی صورت میں یہ بات عمران کے والد کو بتادی جائے گی جسکے سبب عمران تقریباً 2 برس تک اپنی جیب خرچ سے محروم رہا تھا۔ تمام بَچّے اسکول ہاف ٹائم میں اپنی من پسند چیزیں مزے لے لیکر کھایا کرتے تھے جبکہ عمران اُس روپیہ کو دوکاندار کو روزانہ جمع کرادیا کرتا تھا۔
عمران بھلا اپنی زندگی کے اُن حسرت بھرے 2 بَرسوں کو کِسطرح بھول سکتا تھا عمران ماضی کے اُن دِنوں میں گُم تھا کہ کوثر کی آواز اُسے پھر حال میں لے آئی جہاں اِس وقت ایک حسین اور نازنین پری کی رفاقت اِسے مُیسر تھی ۔
جِس وقت تُم میدان میں کھڑے تنہا گریہ و زاری کر رہے تھے میں اپنی سہیلیوں کیساتھ وہاں سے گُزر رہی تھی تُمہیں بلکتا اور سسکتا دیکھ کر تُمہارے نذدیک آگئی جب تُم وہاں سے واپس لوٹے تب بھی میں تُمہارے ساتھ ساتھ چلدی تھی پہلے میں نے سوچا کہ تُمہاری مدد کروں لیکن جب میں تُمہارے گھر تک پُہنچی تُو معلوم ہُوا کہ تُم ایک کھاتے پیتے گھر کے بَچّے ہو وہ رَقم گھر والوں سے حَاصل کرسکتے تھے سُو میں واپس پلٹ گئی لیکن عجب اِتفاق تھا کہ جب 6 ماہ بعد میں نے تُمہیں ایک دِن اسکول کے بَچوں کیساتھ مَلول دیکھا تب مُجھے معلوم ہُوا کہ تُم نہایت خُوددار ہُو اگر چاہتے تو وہ رقم اپنے والدین سے حاصل کر لیتے یا اگر کوئی اور بَچّہ ہُوتا تُو شائد گھر سے پیسے چوری کرکے اپنی جان آزاد کرالیتا لیکن تُم نے جو راستہ چُنا اُس نے مجھے تُمہارا گرویدہ بنا دِیا
پھر اکثر ایسا ہُونے لگا کہ میں تُمہاری خیریت دریافت کرنے کیلئے آنے لگی پتہ نہیں تُم سے کیوں اسقدر اُنسیت پیدا ہُونے لگی اور ایک لطیف سا جَذبہ میرے دِل کے کسی نہاں خانے میں پنپنے لگا پھر تُمہاری شادی ہُوگئی میرا بار بار زمین پر آنا اور تُمہارے ساتھ وقت گُزارنا میرے بابا سے بھی مَخفی نہ رِہ سکا اُنہوں نے مجھے بُہت پیار سے سمجھایا اور ایک مرتبہ ڈانٹ کر بھی سمجھایا کہ اِس راہ پر نہ چَلوں لیکن مجھے کوئی بھی نصیحت تُم سے دور نہ کرسکی
عمران جب کوئی تُم کو ستاتا یا تنگ کیا کرتا تھا تُو مجھ سے برداشت نہیں ہُوتا کوئی تُمہاری بے عزتی کرتا تُو مجھے یُوں محسوس ہُوتا کہ جیسے وہ میری عزت پر سوال اُٹھا رہا ہُو۔ اِس وجہ سے کئی لوگوں کو میں نے نِشانہ بھی بنایا میں نے کئی بار تُمہیں اپنی موجودگی کا اِحساس دِلانے کی کوشش کی لیکن میری وہ کوششیں بے سود رہیں۔
حتٰی کہ جب تُم ایکبار اپنی گھر کی سیڑھیوں سے پھسل گئے تھے قریب تھا کہ تُم نیچے جاکر بُہت زَخمی ہُوجاؤ اُس وقت میں نے ہی تُمہیہں سَنبھالا تھا اور ایسا کئی مرتبہ ہُوا لیکن تُم میری قربت کے اِحساس سے بے خَبر ہی رہے یہاں تک کہ ایک دِن میری بابا وقاص سے مُلاقات ہُوگئی ۔
ویسے میں تُم سے کُچھ چُھپاؤنگی نہیں میری بابا صاحب سے یہ پہلی مُلاقات نہیں تھی10 برس پہلے بابا صاحب ایک پَری کو قابو کرنے کیلئے چِلہ کاٹ رہے تھے میں نے تب بابا وقاص کا وہ چلہ اُنہی پر اُلٹ دیا تھا جِسکی وجہ سے بابا وقاص کو کافی نقصان اُٹھانا پَڑا تھا ۔ بابا وقاص پر ضد سوار تھی کہ وہ مجھے ہَرا کر دَم لیں گے لیکن پھر میرا بابا وقاص سے ایک معاہدہ ہُوا تھا کہ ہَم آئیندہ ایسی کوئی حَرکت نہیں کریں گے جس سے کِسی بھی فریق کو نقصان پُہنچے اور ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد بھی کریں گے جب میں نے بابا وقاص کو تُمہارے مُتعلق بتایا تو نہ صرف اُنہوں نے مدد کا وعدہ کیا بلکہ اُس وعدے پر عمل دراآمد کیلئے اپنے شہر کو بھی خیر آباد کہہ کر تُمہارے شہر چَلے آئے اور تُمہاری راہ گُزر میں ہی اپنا آستانہ بنالیا۔
کوثر کی سرگُزشت نے عمران کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا تھا وہ تمام کہانی جو کوثر نے بیان کی تھیں اُنہیں جُھٹلانا عمران کے بَس میں نہیں تھا لیکن بابا وقاص کے ذکر نے اُسے سوچنے پر مجبور کردِیا تھا کہ کیا کوئی اپنا عہد نبھانے کیلئے اِس حد تک بھی جاسکتا ہے کہ اپنے بَچّوں اور اپنے گھر بار کو اپنے پیمان کی خاطر چُھوڑ دے بابا وقاص کی عزت عمران کے دِل میں مزید سِوا ہُوچُکی تھی۔
دیکھو عمران میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک ورق جو تُم سے متعلق تھا تُمہارے سامنے رکھ دِیا ہے مگر میری ایک اِلتجا ہے اگر مان لُو گے مجھے مُسرت ہُوگی اور بالفرض ٹھکرا بھی دوگے تو آپ سے کوئی تعرض نہ کرونگی دیکھو انتظار کرنا کہ بابا وقاص ایک دِن خُود میری تمام باتوں کی تصدیق کردیں خاص ظور پر میری بابا وقاص سے پہلی مُلاقات کا احوال اگر تُم معلوم کروگے تُو ہوسکتا ہے اُنہیں اچھا نہ لگے!
اسلئے میری خَاطر انتظار کرلینا کوثر نے آخری جُملہ میں التجا سموتے ہُوئے کہا
اچھا کوثر ایک بات اور بتادؤ کیا آج کی اِس مُلاقات کے بعد ہَم ہمیشہ ساتھ ساتھ رَہیں گے؟
نہیں عمران میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے آج کے بعد ہماری مُلاقات صرف اُس صورت ممکن ہے کہ جب تُم مجھے اپنے نِکاح میں لیکر اپنی شریک حیات کے طور پر قبول کرلو۔ کوثر نے اپنی گُفتگو ختم کرتے ہُوئے عمران کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
تُمہارا مطب ہے کہ میری اور تُمہاری شادی! لیکن یہ کسطرح ممکن ہے؟
(جاری ہے)۔
کِسے تلاش کر رہے تھے اِس کمرے میں کوثر نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے سوال کیا؟
کسی کو نہیں ، کِسی بھی کو تو نہیں عِمران نے بوکھلاتے ہُوئے جواب دیا
شائد کِسی سے کوئی پیمان کر آئے تھے یہاں آنے سے قبل اور اب اُس عہد کی صدا تُمہارا تعاقب کررہی ہے یہ عہد بھی کیا شے ہے اور اِحساس بھی کیا خُوب ہے جب تک عہد شکنی نہ کرو خیر ہے اور جونہی عہد شکنی کا اندیشہ دِل میں پیدا ہونے لگتا ہے تُو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی دیکھ رَہا ہُو کوئی پُکار رہا ہُو کہ عہد کا پاس کرو۔ ہے نا! کوثر نے ہے نا پر زور دیتے ہُوئے کہا۔
عمران کا دَل شدت سے اُس نازنین کو قریب سے دیکھنے کو چاہ رَہا تھا لیکن بابا وقاص سے کیا وعدہ اُسے خبردار کر رہا تھا کہ وعدہ نہ ٹوٹنے پائے۔ لیکن جب عمران سے رَہا نہ گیا تُو اُس نے ایکبار پھر کوثر کے چہرے پر نَگاہ جمانے کی کوشش کی لیکن کوثر کے رُعب حُسن نے اُسکی نظروں کو جُھکنے پر مجبور کردیا کیسی پُرسکون جھیل جیسی آنکھیں تھیں کوثر کی عمران سوچ رہا تھا شائد شاعروں نے ایسی ہی حَسین آنکھیں دیکھیں ہُونگی تبھی کسی نے اِنہیں ساگر کہا تو کسی نے ساغر، کسی نے جھیل سے تشبیہ دِی تو کسی نے نرگس سے۔
عمران کی زُبان سے بھی بے ساختہ کچھ اشعار ادا ہُوگئے
عجب مُعمُّوں سے پیکار ہیں تیری آنکھیں
جیسے صدیوں کی رازدار ہیں تیری آنکھیں
کوئی کِسطرح نِگاہُوں کو اُٹھا کر دیکھے
دِل پہ خنجر کی کاری دھار ہیں تیری آنکھیں
جب سے دیکھا ہے اِنہیں نیند نہیں آتی مُجھے
رُوبرو میرے ، میرے یار ہیں تیری آنکھیں
کیا تُمہیں میری آنکھیں پسند ہیں ؟کوثر نے محظوظ ہوتے ہُوئے اِٹھلا کر عمران سے استفسار کیا
عمران نے اثبات میں اپنی گردن ہِلادی
جھوٹ، اگر تُمہیں میری آنکھیں اسقدر پسند ہیں تو مجھ سے نظریں کیوں چُرا رہے ہو۔
کوثر کافی دیر تک عمران کے جواب کی منتظر رہی لیکن عمران نے اپنی گردن نہ اُٹھائی اور لگاتار کوثر کے مَرمَریں پیروں کو دِیکھتا رَہا۔
اچھا رہنے دو نہ دیکھو میری آنکھوں میں مگر خُدا کیلئے کُچھ بات تُو کرو میں کب سے منتظر تھی اِس گھڑی کی اور جب یہ گھڑی نصیب ہوگئی ہے تو اَب آپ اِن لمحات کو ضائع نہ کریں۔
عمران کو بھی اِحساس ہونے لگا کہ واقعی وقت اپنی رفتار سے گُزر رہا ہے اگرچہ کوثر کی رفاقت نے اِسکا احساس نہ ہونے دِیا تھا عمران نے ایک مرتبہ پھر اُس حَسین نازنین کے چہرے کی جانب نِگاہ اُٹھائی لیکن کوثر کے حُسن رُعب نے اُسکی نظروں کو ایک بار پھر جھکنے پر مجبور کردیا
عمران نے کوثر کی کلائیوں پر نظر جماتے ہُوئے کوثر سے دریافت کیا کوثر ایک بات اگر تُم سے پوچھوں تُم خَفا تو نہ ہونگی
ضرور پوچھو بلکہ ایک کیا ہزار سوال پوچھو کوثر نے اِٹھلاتے ہوئے اِک ادائے خاص سے کہا۔
جیسا کہ تُم ایک پری ہُو اور انتہائی حَسین بھی ہُو بلکہ بابا وقاص بتا رہے تھے کہ ایک معزز قبیلے کی شہزادی بھی ہُو جب کہ تُمہارے برعکس میں نہ ہی بُہت زیادہ خُوبصورت ہُوں نہ ہی مُجھ میں کوئی ایسا فَن ہے کہ جو مجھے دوسروں سے ممتاز کرتا ہُو پھر کیا سبب ہے کہ تُم نے اپنے پیار کیلئے میرا ہی انتخاب کیوں کیا۔
عمران کے خاموش ہوتے ہی ۔ کوثر نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔ کون کہتا ہے کہ تُم خُوبصورت نہیں ہُو مجھے بتاؤ میں اُسکا مُنہ نوچ لونگی۔
کوثر کے اِس والہانہ طرز عمل سے عمران کی ہنسی نِکل گئی جبکہ کوثر کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا کوثر نے اپنی خِفگی پر قابو پاتے ہُوئے کہا کیا ہُوا ، میں نے کوئی لطیفہ تُو نہیں سُنایا آپ کو ؟
عمران نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہُوئے کہا ابھی تُمہارا انداز بالکل لڑاکا عورتوں جیسا تھا جیسے کِسی عورت نے کسی دوسری عورت کے بَچّے کو بدصورت کہہ دِیا ہو اور وہ اُس پر اپنا ردِ عمل ظاہر کررہی ہو۔
اِس طرح تو میری بیگم بھی شائد میرے لئے کِسی سے نہ لڑیں
ویسے تُم نے میرے سوال کا جواب نہیں دِیا کوثر؟
عمران تُم عام اَنسان نہیں ہُو لیکن ابھی تُم یہ بات نہیں جانتے کیوں کہ تُمہیں اپنی قابلیت کا فی الحال اِدراک نہیں ہے اور میری زُبان پر بھی اِس وقت کسی وعدہ کا قفل ہے لیکن میں تُو تُمہیں جب سے جانتی ہُوں جب کسی نے تُم پر اپنا حَق نہیں جمایا تھا میرا مطلب ہے جب تُم صرف 14 برس کے تھے اور ایک حادثاتی مُلاقات نے مجھے تُمہارا غائیبانہ دوست بنا ڈالا۔ تُمہیں یاد ہے وہ دِن جب تُم ایک کھلونا لئے ایک میدان میں شام کے وقت کھڑے تھے تُمہاری آنکھوں میں آنسو تھے اور تُم اللہ سے دُعا مانگ رہے تھے کہ کسی طرح وہ مشین چل پڑے۔ کوثر سانس لینے کیلئے رُکی تو عمران کو وہ واقعہ یاد آگیا۔
جب عمران کی عُمر واقعی 14 برس رہی ہُوگی وہ آٹھویں جماعت پاس کرکے نویں کلاس میں آیا تھا کلاس میں ایسے لڑکے بھی موجود تھے جو گُذشتہ 4 برسوں سے فیل ہُوتے آرہے تھے اور ایک دِن جب عمران ایک شاپ سے وڈیو گیم کرائے پر حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر لیجارہا تھا کہ وہیں اُسکا ایک مذکورہ کلاس فیلو اپنے دوست پر پانی کا گلاس اُچھال رہا تھا وہ لڑکا تو ایکدم نیچے بیٹھ گیا اور گلاس کا تمام پانی عمران پراور اُس گیم پر آپڑا تھا وہ دوست تو وہاں سے رَفو چکر ہُوگیا اور گیم کی ڈیوایئس پانی جانے کے سبب خراب ہُوگئی تھی۔
اُس گیم کو خُشک کرنے کیلئے عمران میدان گیا تھا اور مغرب تک اُس گیم کے ٹھیک ہُونے کا انتظار کرتا رہا تھا لیکن وہ گیم نہیں بَنا اور دوکاندار کِسی صورت راضی نہیں ہُورہا تھا اُس وڈیو ڈیوائس کی قیمت اُس وقت 550 رُوپے تھی جبکہ عمران کو پاکٹ منی کے نام پر صرف ایک روپیہ روزانہ مِلا کرتا تھا۔ بلاآخر عمران کے کافی رونے دھونے کے بعد دوکاندار اِس بات پر راضی ہُوا تھا کہ عمران روزانہ ایک روپیہ اُس دوکاندار کو جمع کرائے گا اور غیر حاضری کی صورت میں یہ بات عمران کے والد کو بتادی جائے گی جسکے سبب عمران تقریباً 2 برس تک اپنی جیب خرچ سے محروم رہا تھا۔ تمام بَچّے اسکول ہاف ٹائم میں اپنی من پسند چیزیں مزے لے لیکر کھایا کرتے تھے جبکہ عمران اُس روپیہ کو دوکاندار کو روزانہ جمع کرادیا کرتا تھا۔
عمران بھلا اپنی زندگی کے اُن حسرت بھرے 2 بَرسوں کو کِسطرح بھول سکتا تھا عمران ماضی کے اُن دِنوں میں گُم تھا کہ کوثر کی آواز اُسے پھر حال میں لے آئی جہاں اِس وقت ایک حسین اور نازنین پری کی رفاقت اِسے مُیسر تھی ۔
جِس وقت تُم میدان میں کھڑے تنہا گریہ و زاری کر رہے تھے میں اپنی سہیلیوں کیساتھ وہاں سے گُزر رہی تھی تُمہیں بلکتا اور سسکتا دیکھ کر تُمہارے نذدیک آگئی جب تُم وہاں سے واپس لوٹے تب بھی میں تُمہارے ساتھ ساتھ چلدی تھی پہلے میں نے سوچا کہ تُمہاری مدد کروں لیکن جب میں تُمہارے گھر تک پُہنچی تُو معلوم ہُوا کہ تُم ایک کھاتے پیتے گھر کے بَچّے ہو وہ رَقم گھر والوں سے حَاصل کرسکتے تھے سُو میں واپس پلٹ گئی لیکن عجب اِتفاق تھا کہ جب 6 ماہ بعد میں نے تُمہیں ایک دِن اسکول کے بَچوں کیساتھ مَلول دیکھا تب مُجھے معلوم ہُوا کہ تُم نہایت خُوددار ہُو اگر چاہتے تو وہ رقم اپنے والدین سے حاصل کر لیتے یا اگر کوئی اور بَچّہ ہُوتا تُو شائد گھر سے پیسے چوری کرکے اپنی جان آزاد کرالیتا لیکن تُم نے جو راستہ چُنا اُس نے مجھے تُمہارا گرویدہ بنا دِیا
پھر اکثر ایسا ہُونے لگا کہ میں تُمہاری خیریت دریافت کرنے کیلئے آنے لگی پتہ نہیں تُم سے کیوں اسقدر اُنسیت پیدا ہُونے لگی اور ایک لطیف سا جَذبہ میرے دِل کے کسی نہاں خانے میں پنپنے لگا پھر تُمہاری شادی ہُوگئی میرا بار بار زمین پر آنا اور تُمہارے ساتھ وقت گُزارنا میرے بابا سے بھی مَخفی نہ رِہ سکا اُنہوں نے مجھے بُہت پیار سے سمجھایا اور ایک مرتبہ ڈانٹ کر بھی سمجھایا کہ اِس راہ پر نہ چَلوں لیکن مجھے کوئی بھی نصیحت تُم سے دور نہ کرسکی
عمران جب کوئی تُم کو ستاتا یا تنگ کیا کرتا تھا تُو مجھ سے برداشت نہیں ہُوتا کوئی تُمہاری بے عزتی کرتا تُو مجھے یُوں محسوس ہُوتا کہ جیسے وہ میری عزت پر سوال اُٹھا رہا ہُو۔ اِس وجہ سے کئی لوگوں کو میں نے نِشانہ بھی بنایا میں نے کئی بار تُمہیں اپنی موجودگی کا اِحساس دِلانے کی کوشش کی لیکن میری وہ کوششیں بے سود رہیں۔
حتٰی کہ جب تُم ایکبار اپنی گھر کی سیڑھیوں سے پھسل گئے تھے قریب تھا کہ تُم نیچے جاکر بُہت زَخمی ہُوجاؤ اُس وقت میں نے ہی تُمہیہں سَنبھالا تھا اور ایسا کئی مرتبہ ہُوا لیکن تُم میری قربت کے اِحساس سے بے خَبر ہی رہے یہاں تک کہ ایک دِن میری بابا وقاص سے مُلاقات ہُوگئی ۔
ویسے میں تُم سے کُچھ چُھپاؤنگی نہیں میری بابا صاحب سے یہ پہلی مُلاقات نہیں تھی10 برس پہلے بابا صاحب ایک پَری کو قابو کرنے کیلئے چِلہ کاٹ رہے تھے میں نے تب بابا وقاص کا وہ چلہ اُنہی پر اُلٹ دیا تھا جِسکی وجہ سے بابا وقاص کو کافی نقصان اُٹھانا پَڑا تھا ۔ بابا وقاص پر ضد سوار تھی کہ وہ مجھے ہَرا کر دَم لیں گے لیکن پھر میرا بابا وقاص سے ایک معاہدہ ہُوا تھا کہ ہَم آئیندہ ایسی کوئی حَرکت نہیں کریں گے جس سے کِسی بھی فریق کو نقصان پُہنچے اور ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد بھی کریں گے جب میں نے بابا وقاص کو تُمہارے مُتعلق بتایا تو نہ صرف اُنہوں نے مدد کا وعدہ کیا بلکہ اُس وعدے پر عمل دراآمد کیلئے اپنے شہر کو بھی خیر آباد کہہ کر تُمہارے شہر چَلے آئے اور تُمہاری راہ گُزر میں ہی اپنا آستانہ بنالیا۔
کوثر کی سرگُزشت نے عمران کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا تھا وہ تمام کہانی جو کوثر نے بیان کی تھیں اُنہیں جُھٹلانا عمران کے بَس میں نہیں تھا لیکن بابا وقاص کے ذکر نے اُسے سوچنے پر مجبور کردِیا تھا کہ کیا کوئی اپنا عہد نبھانے کیلئے اِس حد تک بھی جاسکتا ہے کہ اپنے بَچّوں اور اپنے گھر بار کو اپنے پیمان کی خاطر چُھوڑ دے بابا وقاص کی عزت عمران کے دِل میں مزید سِوا ہُوچُکی تھی۔
دیکھو عمران میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک ورق جو تُم سے متعلق تھا تُمہارے سامنے رکھ دِیا ہے مگر میری ایک اِلتجا ہے اگر مان لُو گے مجھے مُسرت ہُوگی اور بالفرض ٹھکرا بھی دوگے تو آپ سے کوئی تعرض نہ کرونگی دیکھو انتظار کرنا کہ بابا وقاص ایک دِن خُود میری تمام باتوں کی تصدیق کردیں خاص ظور پر میری بابا وقاص سے پہلی مُلاقات کا احوال اگر تُم معلوم کروگے تُو ہوسکتا ہے اُنہیں اچھا نہ لگے!
اسلئے میری خَاطر انتظار کرلینا کوثر نے آخری جُملہ میں التجا سموتے ہُوئے کہا
اچھا کوثر ایک بات اور بتادؤ کیا آج کی اِس مُلاقات کے بعد ہَم ہمیشہ ساتھ ساتھ رَہیں گے؟
نہیں عمران میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے آج کے بعد ہماری مُلاقات صرف اُس صورت ممکن ہے کہ جب تُم مجھے اپنے نِکاح میں لیکر اپنی شریک حیات کے طور پر قبول کرلو۔ کوثر نے اپنی گُفتگو ختم کرتے ہُوئے عمران کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
تُمہارا مطب ہے کہ میری اور تُمہاری شادی! لیکن یہ کسطرح ممکن ہے؟
(جاری ہے)۔
0 comments:
Post a Comment