bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday, 15 December 2012

ہماری بے وقوفیاں



ہَم کئی دِن سے متواتر  یہی سُوچ کر حکیم جی کی مِحفل میں شریک ہو رہے تھے ۔کہ اُن کی خِدمت میں اپنی تنگدستی کا تذکرہ کریں اور اُنکی دُعا پائیں۔

کہ بَقول ہماری بیگم کے حکیم جی اِس زَمانے کے ایسے کیمیا گر ہیں۔ کہ اُنکی صُحبت سے فیضیاب ہُونے والا کبھی مِحروم اور نامُراد نہیں ہُوتا۔ چُنانچہ ہَم بھی اپنی مِحرومیوں سے خُلاصی کیلئے کئی دِن سے اُنکی خِدمت میں حاضر ہُورہے تھے۔ ویسے اللہ بِہتر جانتا ہے کہ واقعی ہَم مِحرومیوں سے خُلاصی کیلئے حاضر ہُو رہے تھے یا اپنی اکلوتی بیگم سے مِحروم نہ ہُوجائیں اِس ڈر سے حکیم جی کی حکیمانہ گُفتگو سُننے جایا کرتے تھے۔

اور حکیم جی کی ایک کرامت کے تُو ہَم بھی معترف تھے۔ کہ جتنی دِیر ہَم حضرت جی کی مِحفل میں شریک رِہتے اپنی بیگم کی ڈانٹ پھٹکار سے مکمل طُور پر مِحفوظ رہتے ۔ اور کبھی کبھار موقع مُیسر آجانے پر وہیں اپنی نیند بھی پُوری کر لیا کرتے تھے ۔ ویسے حکیم صاحب کوئی دیسی دوائیوں سے علاج کرنے والے حَکیم صاحب ہرگِز نہیں تھے ۔ بلکہ اُنکے والدین نے اُنکا نام ہی حَکیم رکھا تھا۔  اَب کیوں رکھا تھا یہ تُو ہم نہیں بتا سکتے لیکن خُوب رکھا تھا اِس کی تائید ہَم ضرور کریں گے۔ اور شائد ہماری بیگم کو یہ خبر قطعی معلوم نہیں تھی۔ کہ تمام مُحلہ بھر کے مظلوم خَاوندوں کے وہ واحِد خیر خُواہ تھے اور اُنکی مِحفل دراصل خَاوندوں کیلئے بیگمات کے ظُلم و سِتم سے محفوظ رہنے کیلئے ایک یُونیورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔

حَکیم صاحب نے اگرچہ خُود شادی نہیں فرمائی تھی یا یُوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حَکیم صاحب کسی کی نظر التفات کا شِکار نہ بن سکے تھے لیکن گُفتگو سے ایسا مِحسوس ہوتا تھا جیسے اُنہوں نے بیگمات پر پی ایچ ڈی کی ہُوئی ہُو اور اگر مجھے جنموں جنم پر یقین ہوتا تُو ہم بھی یہی سمجھتے کہ شائد پچھلے جنم میں وہ بھی  کوئی بیگم رہے ہُونگے۔  یاکسی بیگم کے ڈسے ہُوئے ہیں۔  اور اپنی خار مِٹانے کیلئے اِس جَنم میں جہاں بھر کی بیگمات سے بدلہ لینے کیلئے تشریف لائے ہیں۔

نجانے تمام مُحلہ کی خواتین میں یہ بات کیسے اور کیوں مشہور ہُوگئی تھی کہ حَکیم صاحب بُہت پُہنچے ہُوئے ہیں۔  غالباً اسکی وجہ اُنکی وہ پیش گوئیاں رہی ہُوں جو وہ اپنی فطانت کے باعث اکثر شگوفوں کی صورت میں چُھوڑا کرتے تھے۔ جیسے دسمبر کا مہینہ آتے ہی وہ فرماتے کہ اس سال غضب کی سردی پڑے گی اور میٹھے پانی کی قلت ہوجائیگی ۔ یا کبھی فرماتے کہ چاروں جانب اندھیرا پھیلنے والا ہے۔ اُور واپڈا والے اُنکی یہ پیشگوئی بھی توقع سے زیادہ پُوری کردیتے ۔ یا کبھی کہتے کہ مٹی سونا ہوجائے گی۔ جبکہ سُونا مٹی کے مُول ہُوجائے گا۔ اور مُلک بھر کے دکاندار اُور گِراں فروش اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہُوجاتے۔  اور اسطرح وہ تمام مُحلہ بھر میں مشہور ہُوتے چَلے گئے۔ باقی مشہوری خُود مُحلہ بھر کی خواتین کی بدولت تھی۔ جِنکی بدولت یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی تھی ۔

ویسے ہمارے گھر پُہنچنے پر بیگم صاحبہ کا ایک ہی سوال ہُوتا کہ کیا فرمایا حَکیم جی نے ہماری تنگی کا سبب ۔۔۔۔؟ اور ہَم روزانہ یہی بتا کر بستر میں دُبک جاتے کہ بیگم رَش بُہت تھا اور ہَم سے بڑے ضرورت مند وہاں آئے ہُوئے تھے سُو یوٹیلٹی اسٹور پر جس طرح ہمیں گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے کے باوجودکبھی چینی نہیں مِلی۔ تُو دُعا کیونکر اتنی آسانی سے مفت میں مِل جاتی ۔ یہ تُو غنیمت تھا کہ حَکیم صاحب نے اپنی جان چُھڑانے کیلئے یہ افواہ اُڑا رکھی تھی کہ وہ نا محرم خواتین سے بالمشافہ مُلاقات نہیں فرماتے اِس لئے بیگم نے یہ ذِمہ داری ہمارے ناتواں کاندھوں پر ڈال دِی تھی۔

حالانکہ ہوسکتا ہے حَکیم صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہُوتا ہُو کہ وہ بذریعہ وڈیو ہی خواتین سے مِل سکتے ہیں کیونکہ حَکیم صاحب کے گھر میں ایک ٹی وی ہم نے ضرور دیکھا تھا اور کیا مجال ہے جو کبھی اُس پر انڈین چینلز کے علاوہ کوئی خَرافات دیکھی ہُو۔ ویسے ٹی وی کا ایک فائدہ تو ضرور ہے کہ جتنا آپکی سماعت برداشت کرسکے اِتنا ہی سُن سکتے ہیں۔ حالانکہ بیوی کے مُعاملے میں یہ سہولت بالکل ناپید ہے۔ اور چینلز بدلنے کی کوشش میں ہم نے کئی دوستوں کے دانت ٹوٹتے دیکھے ہیں جسکی وجہ سے ہم ایک ہی چینل گُذشتہ بیس برس سے دیکھنے پر مجبورِ محض ہیں۔

لیکن کل جو بیگم نے ہماری درگت بنائی تھی اُس کے پیش نظر ہمیں قوی اُمید تھی کہ آج یہ حربہ کارگر ہُونے والا نہیں ہے لِہٰذا تمام سُستی اور کاہلی کے باوجود ہَم نے اپنا مُدعا حکیم صاحب کے گُوش گُزار کر ڈالا۔ ہماری تنگدستی کا تذکرہ سُن کر حکیم صاحب کُچھ لمحوں کیلئے خاموش ہُوگئے پھر کِسی خیال کے تحت اُنہوں نے ہَم سے پوچھا کہ میاں آپ کام کیا کرتے ہیں؟ ہَم نے بڑی عاجزی سے بتایا کہ ہَم لکھتے ہیں۔

حکیم صاحب فرمانے لگے بُہت اچھی بات ہے کہ آپ لکھتے ہیں لیکن ہم آپ سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کاروبار کیا کرتے ہیں؟
ہم نے عرض کیا۔ جناب میں کاروبار نہیں کرتا ہُوں بلکہ کالم نویس ہُوں

وہ مُسکرا کر فرمانے لگے کاروبار نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تُو اِسکا مطلب ہے کہیں مُلازمت کرتے ہُو۔

میں نے عرض کیا حُضور والا میں مُلازمت بھی نہیں کرتا میں تو صرف لکھتا ہُوں
ت
ُو کیا لکھنے کے مُعاملے میں تنگدست ہیں آپ؟ اگر ایسا ہے تو مُعاف کرنا اِس معاملے میں ہَم خُود کافی تنگدست واقع ہُوئے ہیں حکیم صاحب نے نہایت عاجزی سے جواب دِیا

میں نے عرض کیا جناب میں لکھنے میں تنگدستی کا شکار نہیں ہُوں بلکہ رزق کی تنگی کا شکار ہُوں

وہ فرمانے لگے میاں جب آپ کوئی کام ہی نہیں کرتے تو تنگدستی کا شکار ہی ہُونگے۔۔۔۔

میں نے عرض کیا ۔جناب میں نے آپ کو بتایا تُو ہے کہ میں کالم نویس ہُوں۔

وہ فرمانے لگے تُو اسکا مطلب ہے کہ آپ کالم نویسی کے ذریعہ سے گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔۔۔۔

میں نے اُنہیں بتایا کہ گھر کا خرچہ میں نہیں چلاتا بلکہ بیگم کی تنخواہ سے گھر چلتا ہے اور وہ اسکول میں پڑھاتی ہیں۔
تُو آپ کیا کرتے ہیں ؟ اُنہوں نے پھر وہی سوال دُہرایا

میں گھر چلانے میں اور خرچ کرنے میں اُنکا ہاتھ بٹاتا ہُوں ،میں نے ٹہر ٹہر کر سمجھاتے ہُوئے کہا۔

اُنہوں نے لمبی سی ۔ہونہہ۔۔ بھری اور گویا ہُوئے اسکا مطلب ہے کہ تنگدست آپ نہیں بلکہ آپکی بیگم ہیں۔

میں نے عرض کیا۔ بات درست ہے مگر آدھی آدھی کو نکہ تنگ صرف میں ہُوں جبکہ دست اُنکا  درازہے۔

اُنہوں نے مجھے بَغور دیکھا اور فرمانے لگے میاں ایک تُو غریب ہُو اُس پر احمق بھی ہُو۔

ہمیں ویسے دونوں جملوں پر ہی اعتراض نہیں تھا مگر اپنی عادت سے مجبور ہُوکر پُوچھا وہ کیسے جناب ؟

وہ فرمانے لگے اچھا یہ بتاؤ احمق کتنی قسم کے ہُوتے ہیں؟
میں نے کہا حضور اگر یہ معلوم ہُوتا تُو احمق کیوں کہلاتا۔

وہ فرمانے لگے میاں یُوں تو احمقوں کی کئی اقسام ہیں مگر پانچ قِسم کے بے وقوف بُہت کثرت سے پائے جاتے ہیں


اول،، ایک دِن کا بے وقوف
دوئم ،، چھ ماہ کا بے وقوف
سوئم ،، ایک برس کا بے وقوف
چہارم ،، پانچ پرس کا بے وقوف
پنجم ،، عمر بھر کا بے وقوف۔

ہم نے حیرت سے حکیم صاحب کو دیکھتے ہُوئے عرض کیا۔۔۔ جناب ذرا اِنکی وضاحت بھی فرمادیں۔ اُور ہمیں یہ بھی بتادیں کہ اِن میں ہمارا درجہ کونسے نمبر سے مناسبت رکھتا ہے۔۔۔؟

میاں ایک دِن کا بے وقوف تو وہ ہوتا ہے جو کسی دوست پر آسرا رکھتے ہُوئے خالی پیٹ اور خالی جیب دوست کے گھر جا پُہنچے اور وہاں سے بھوکا ہی لوٹ آئے جبکہ
چھ ماہ کا بے وقوف ۔ وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی مرضی کیمطابق نہیں بلکہ دکاندار کی مرضی کیمطابق جُوتا خرید لائے اور پھر چھ ماہ تک اُسی کا رُونا رُوتا رہے جبکہ۔
ایک برس کا بے وقوف بھی معاشرے میں بکثرت پایا جاتا ہے جو صرف موبائیل پر آواز سُن کر بیلنس بھیجتا رہتا ہے اور اُسے ایک سال بعد خبر ہوپاتی ہے کہ وہ تھی نہیں بلکہ تھا ہے۔ یا ہے تو (شی) لیکن مشغلہ کے طور پر اُلو بنارہی ہے۔
جبکہ پانچ برس کے بے وقوف وہ لوگ ہُوتے ہیں جو ووٹ دیکر سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے حالات بدل جائیں گے اور یُوں کبھی ڈھائی برس تُو کبھی پانچ برس کیلئے بے وقوف بن جاتے ہیں۔
جبکہ عُمر بھر کا بے وقوف وہ ہوتا ہے جو اپنی مرضی سے اپنی گردن ایک عورت کے ہاتھ میں دے دیتا ہے بِنا یہ جانے کہ وہ اِسکا کیا حَشر کرنے والی ہے اور یُوں تمام عُمر کا بے وقوف کہلاتا ہے۔

خواتین کی خِدمت میں عرض ہے کہ یہ رائے ہماری قطعی نہیں ہے اسلئے اگر غصہ آئے تُو آپ یہ غُصہ حکیم صاحب پر نکال سکتی ہیں۔ حکیم صاحب کا پتہ بتانے سے ہم قاصر ہیں کہ اسطرح چٹ بھی ہمیں ہی پڑے گی اور پٹ بھی۔

0 comments:

Post a Comment