bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday 11 February 2013

واعظ اُور طَوائف


یہ قریباً 17 برس پرانی بات ہے۔ آج ایک صاحب کو دیکھ کر پھر گُزرے زمانے کی یاد تازہ ہوگئی اور میں نے سُوچا کہ چَلو
آپ لوگوں سے بھی اُس واقعہ کو شئیر کرلیتا ہوں۔

میری عُمر اُس وقت یہی کوئی 23 برس کی رہی ہُوگی مجھے اُن دِنوں اگرچہ لکھنے کا کوئی خاص شُوق نہیں تھا بلکہ یُوں کہنا چاہیئے کہ ایسا کوئی چسکا ہی نہیں پَڑا تھا ۔مگر کتابوں سے مُحبت تب بھی زُورُوں پر تھی میری ایک کِتاب میرے دوست پڑھنے کیلئے ایسے لے گئے کہ پھر اُنکی واپسی کبھی نہیں ہوئی ۔کئی مرتبہ مُطالبے کے باوجود بھی جب کتاب نہ مِلی تُو سوچا دوبارہ بازار سے خَرید لیتا ہُوں ۔

شہر کے تمام بُک اِسٹالوں کی خاک چھاننے کے باوجود بھی وہ کِتاب مجھے مُیسر نہیں آئی ۔۔ کتاب کا نام تھا سیرتِ رسول عربیﷺ جِسے علامہ نور بخش توکلی دامت برکاتہم عالیہ نے کمالِ مُحبت اور شوق سے اِسطرح لکھا ہے کہ پڑھنے والے قاری کا عشق رسول ﷺ ہر ہر سطر پڑھ کر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔ اور اُس وقت مجھے اُسی بیش قیمت کتاب کی ضرورت تھی مگر کتاب تھی کہ مِل ہی نہیں رہی تھی تبھی مجھے یاد آیا کہ میں نے یہ کتاب اپنے ایک دوست کے پاس بھی دیکھی تھی جو اُن دِنوں ایک جنرل اسٹور چلایا کرتے تھے۔

جب میں اپنے دُوست کی شاپ پر پُہنچا تب دوپہر ڈھل رہی تھی اور شام ہونے کو تھی ۔ میں نے اپنے دوست کے پاس پُہنچنے کے بعد اپنا مُدعا ظاہر کیا۔ وہ دوست کہنے لگے کہ عشرت بھائی کتاب دُکان پر نہیں بلکہ گھر پر موجود ہے آپ میرے پاس بیٹھیں میں کسی بچےکو بھیج کر کتاب گھر سے منگوالیتا ہُوں۔ مجھے اپنے دوست کی یہ تجویز پسند آئی اور میں اُنکے پاس بیٹھ گیا۔

دُکان چُونکہ شہر کی مصروف شاہراہ پر تھی اسلیئے دُکان کا سائز کافی چھوٹا تھا کسی صاحب نے اپنے مکان میں ایک اچھی خاصی مارکیٹ بنا رکھی تھی دُکانوں کی لمبائی اگرچہ پندرہ فِٹ سے کسی طُور کم نہ رہی ہوگی مگر دُکانوں کی چوڑائی 7 فِٹ سے ہر گز ذیادہ بھی نہ رہی ہُوگی۔ جسکی وجہ سے برابر کی دُکانوں پر اگر دُکاندار کسی گاہک سے بات کر رہا ہُو تو وہ صاف سُنائی دیتی تھی۔

جنرل اِسٹور کیساتھ ہی ایک حجام کی دُکان تھی حجام ایک شخص کی شِیو بنارہا تھا اور وہ گاہک جو بظاہر پچاس پچپن برس کا ایک صحتمند شخص نظر آرہا تھا حجام سے شِکایت کر رہا تھا کہ حجام اچھا بلیڈ استعمال نہیں کرتا جسکی وجہ سے ہر تیسرے دِن اُس شخص کی شِیو بڑھ جاتی ہے۔

کُچھ وقت گُزرنے کے بعد اُس شخص نے گُفتگو کا رُخ مذہب کی جانب مُوڑ دِیا۔ چُونکہ گُفتگو کےموضوع میں میری پسندیدگی کا تمام سامان موجود تھا لِہذا میں نے بھی خاموشی سے اپنا تمام دھیان اِس گُفتگو کی جانب لگا دِیا۔

وہ بُوڑھا شخص اگرچہ اپنی وضع قطع سے ہر گز کوئی مبلغ نظر نہیں آتا تھا لیکن اُسکی نپی تُلی گُفتگو سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں قطعی دُشواری پیش نہیں آئی کہ بِلا شُبہ اُس بوڑھے شخص کا مُطالعہ کافی وسیع تھا اور مذہبی معاملات کیساتھ ساتھ اُس شخص کی تاریخ پر بھی کافی مضبوط گرفت تھی وہ کتابوں کے حوالے ایسے تواتر سے پیش کررہا تھا کہ گُویا جیسے وہ تمام کتابیں اُسکے سامنے کُھلی پڑی ہُوں گُفتگو جُوں جُوں آگے بڑھتی جارہی تھی میں اُس شخص سے مُتاثر ہوتا چلا جارہا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے مجھ پر یہ انکشاف ہُونے لگا کہ موصوف کُچھ زیادہ ہی احساسِ برتری کے مَرض میں گرفتار ہیں کیونکہ وہ بار بار بڑے فخریہ لہجے میں اپنے علم اور اپنے مُطالعے کا ذکر کِسی نہ کِسی طرح اپنی گُفتگو میں لے آتے اور اُنہیں اِس بات کا زَعم بھی شدت کیساتھ تھا کہ شائد ہی کسی شخص کے پاس اِسقدر کتابوں کا ذخیرہ موجود ہُو جِیسا ذخیرہ اُنہوں نے دُنیا بھر کی نایاب کتابوں سے اپنی کوٹھی میں جمع کیا ہُوا ہے۔

وہ بوڑھا شخص شِیو بنوانے کے بعد ایک کُرسی پر براجمان ہُوگیا اور اپنے عملی قِصّوُں اور عِلمی گُفتگو سے موجود سامعین کو گرمانے لگا یہاں تک کہ درمیان میں عصر کی نماز کا وقت ہُوگیا میں اور میرا دوست نماز عصر کیلئے مسجد روانہ ہوگئے راستہ میں میرے دوست نے اُس بوڑھے شخص کے متعلق مجھے بتایا کہ وہ ایک بڑا زمیندار ہے اور ایک وسیع لائبریری اُسکے گھر میں موجود ہے صحت چُونکہ قابلِ رشک ہے اسلئے پنسٹھ سال سے زائد عُمر کے باوجود بھی وہ شخص پچاس برس کا نظر آتا ہے خُوش شکل ہونے کیساتھ ساتھ خُوش لِباس بھی واقع ہُوا ہے جہاں موصوف کو نئی گاڑیوں کا بُہت شوق ہے تو دوسری جانب کتابوں کی خریداری کا شُوق بھی جُنون کی حد تک ہے۔

عصر کی نماز سے فارغ ہُو کر جب ہم جنرل اِسٹور پر پُہنچے تُو میری مطلوبہ کتاب آچُکی تھی۔ دوسری جانب اُس شخص کا وعظ بھی جاری تھا میں چُونکہ اُس گُفتگو سے بُہت محظوظ ہُورہا تھا اِسلئے میں مزید گُفتگو سُننے کے اِشتیاق میں وہیں بیٹھ رَہا۔حجام کو بھی اِس تمام گُفتگو سے شائد بُہت لُطف حاصِل ہورہا تھا اِس لئے وہ بھی بڑے انہماک سے یہ گُفتگو سُن رہا تھا چار پانچ لُوگ جو شائد اپنی حجامت بنوانے کیلئے یا پھر اخبار کے مُطالعے کے لئے حجام کی دُکان پر آئے بیٹھے تھے وہ بھی اُس شخص کی باتوں یا وعظ کو بڑی دِلچسپی سے سماعت کر رہے تھے۔

سُورج کی روشنی آہستہ آہستہ مدہم پڑتی جارہی تھی میں نے گھڑی کی جانب نِگاہ دوڑائی تو معلوم ہُوا کہ نماز مغرب میں پندرہ منٹ باقی ہیں میں نے سُوچا اتنے اچھے ماحول کو چھوڑ کر جانا کُفرانِ نعمت ہُوگا لِہذا مغرب ادا کرنے کے بعد ہی گھر جاؤں گا۔ تبھی ایک انتہائی حَسین خاتون جنرل اِسٹور پر تشریف لائیں اور دھیمی آواز میں میرے دوست سے بات کرتے ہُوئے سامان کی لِسٹ میرے دوست کے ہاتھ میں تھما کر نظریں جُھکائے اپنے مطلوبہ سامان کا انتظار کرنے لگیں۔

جُونہی یہ خَاتون جنکی عُمر تقریباً 40 برس کے قریب ہوگی جنرل اِسٹور پر تشریف لائیں ۔ حیرت انگیز طُور پر اُن واعظ صاحب کا بیان کُچھ ہی لَمحوں میں اِختتام پذیر ہُو گیا۔ میرے نِگاہُوں کا مِحور چُونکہ وہ واعظ صاحب تھے ۔ اِس لئے مجھے بڑی حیرت ہُوئی جب میں نے یہ دیکھا کہ ابھی جُو شخص اللہ کریم اور اُسکے مِحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کرتے نہیں تھکتا تھا وہی شخص بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے اُن خاتون کے جِسم کا طواف اپنی ہَوس ناک نِگاہوں سے کئے جارہا تھا اور اِس بات سے بے خبر تھا کہ میں جو ابھی کُچھ لمحے پہلے اُسکی علمیت اور دُور اندیشی کا قائل ہُوچُکا تھا اُسکی یہ غیر اِخلاقی حَرکت دیکھ کر اپنی سابقہ رائے پر نادم ہُورہا ہُوں۔

چند لَمحوں بعد مجھے ایسا محسوس ہُونے لگا جیسے گِرد اَگِردمیں موجود ہر شخص کی نِگاہُوں کا مِحور صرف اور صِرف وہی خاتون ہُوں۔ میں نے ایک مرتبہ سیدنا اِمامِ غزالی رحمتہ اللہِ الوَالِی کی ایک تحریر پڑھی تھی جسمیں آپ نے انسانی نفسیات اور اُسکی مشاہداتی حِسوں کا تذکرہ کرتے ہُوئے لِکھا تھا کہ ۔ ایسا ممکن نہیں کہ کِسی خاتون کو کوئی مَرد گُھورے یا کوئی عورت کِسی مَرد کو گُھورے اور جِسے گُھورا جارہا ہُو اُسے خَبر نہ ہُوپائے ۔ اور یہاں تُو کِسی ایک شخص کی بات نہیں تھی بلکہ اُس خاتون کو بقولِ شاعر ،، زمانہ گُھور رہا تھا ۔ بلکہ میرا لِکھا ہُوا شعر اِس موقع پر بالکل فِٹ بیٹھ رَہا تھا۔
زمانہ گُھورتا ہے اور نِگاہیں ہیں تَعاقُب میں
نَظر نیچی سہی میری مگر ادراک ہُوتا ہے

اب یہ تُوممکن نہیں کہ اُس خاتون کو اِن نِگاہوں کی چُبھن کا اِدراک نہ ہُوا ہُو لیکن وہ بدستور اپنی نِگاہوں کو جھکائے ہُوئے کاؤنٹر پر موجود اشیاء کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے میں مصروف تھیں۔

اِسی اَثنا میں مسجد سے مؤذن کی اَذان کی صدا بُلند ہُونے لگی ۔ اُس خاتون نے فوراً اپنے سَر پہ موجود دوپٹہ صحیح کیا اور احترام اَذان میں مزید مستعد ہُو گئیں اور جونہی موذٔن نے اِسم مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم پُکارا ۔ خاتون نے کَمالِ شُوقِ ادب ا ور حُسنِ عقیدت سے اسمِ مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چُوم کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔

میرے دُوست نے اُن خاتون کا مطلوبہ سامان اور بِل اُن خاتون کو تھما دِیا اور رقم مِلنے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن جب تک اَذان بُلند ہُوتی رہی نہ ہی اُن خاتون نے اپنے ہُونٹوں کو جُنبش دِی اور نہ ہی اپنے پرس میں ہاتھ ڈالنے کی زِحمت گوارا کی۔ البتہ جُونہی اَذان خَتم ہُوئی اُس خاتون نے اپنے ہونٹوں کو جُنبِش دی اور نسبتاً اپنے ہاتھوں کو بُلند کردیا وہ غالِباً اَذان کے بعد دُعا مانگ رہی تھیں دُعا سے فارغ ہُونے کے بعد بِل پر نِگاہ ڈالی اپنے پَرس سے مطلوبہ رقم نِکالی ، رقم میرے دوست کے ہاتھوں میں تھمائی اور اپنے مطلوبہ سامان کے شاپر اُٹھا کر نذدیک کھڑی ایک گاڑی کی جانب بڑھنے لگی۔

چونکہ اَذان مغرب ہُوچُکی تھی اسلئے میں اور میرا دُوست نماز مغرب ادا کرنے کیلئے مسجد کی جانب بڑھنے لگے دُکان سے نِکلتے ہُوئے میری نِگاہ غیر اِرادی طُور پر اُس واعظ پر پڑی تُو مجھے محسوس ہُوا کہ واعظ صاحب ابھی تک ٹکٹکی جمائے اُس خاتون کو جاتا ہُوا دیکھ رہے تھے اور اب باقاعدہ اُنکا سانس بھی پھول رہا تھا جیسے کوئی شخص طویل مُسافت طے کرنے کے بعد ابھی ابھی منزل پر پُہنچاہُو اور اپنی سانسیں دُرست کر رہا ہو۔

جب ہم نماز مغرب ادا کرنے کے بعد واپس جنرل اِسٹور پر پُہنچے تو واعظ موصوف حجام کی دُکان پر شام کے اخبار کا مُطالعہ کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر اَخبار کا مُطالعہ کرنے کے بعد وہ واعظ نُما شخص ایک بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر چَل دِیا میں نے مِحسوس کیا کہ اب اُس شخص کا سانس معمول کے مُطابق چَل رہا تھا۔

مغرب کی نماز کے بعد بازار بند ہُونا شروع ہُوگیا میرا دُوست گاہکوں سے فارغ ہُونے کے بعد میرے پاس آبیٹھا اور مجھ سے میری مصروفیت دریافت کرنے لگا۔ میں نے درمیان گُفتگو اپنے دُوست سے اُن خاتون کے متعلق اِستفسار کرتے ہوئے کہا ۔کیا بات ہے تُمہارے بازار میں کیا پہلی مرتبہ کوئی خوبصورت خاتون آئیں تھیں کہ ہر ایک اُس بیچاری کو ایسے دیکھ رَہا تھا جیسے زِندگی میں پہلی مرتبہ کِسی عورت کو دِیکھا ہُو۔

میرے دوست نے پہلے تو میرے سُوال پر ایک قہقہہ بُلند کیا اور اُسکے بعد مجھ سے کہنے لگے عشرت بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ بازار تو قائم ہی خَواتین کی وجہ سے ہیں اگر یہ خریداری کرنا چُھوڑ دیں تو آدھا بازار تو ویسے ہی گاہک نہ ہُونے کی وجہ سے بند ہُوجائے۔

بات دراصل یہ ہے کہ ابھی جُو خاتون مجھ سے سُودا لے کر گئی ہیں یہ آج سے پندرہ برس قبل شہر کی مشہور طوائف تھی اِسکی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ہزاروں نِگاہیں بیتاب رَہا کرتی تھیں ہر ایرے غیرے کی تو ہِمت بھی نہیں ہُوتی تھی کہ مُلاقات کرسکے۔ اُس زمانے میں یہ بُہت شُوخ و چنچل ہُوا کرتی تھی۔ پھر نجانے کیا ہُوا کہ اِس نے لوگوں سے مِلنا جُلنا چُھوڑ دِیا بازاروں میں آنا چُھوڑ دِیا۔ پھر کُچھ عرصہ کے بعد ایک ڈاکٹر صاحب سے اِنکا نِکاح ہُوگیا ۔ اور یہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں بیٹھ گئیں ابتدا میں ڈاکٹر صاحب کو لوگوں نے کافی لعنت ملامت کی لیکن آہستہ آہستہ لوگ اِس بات کو بھولتے چلے گئے۔

لیکن عشرت بھائی ایک بات ضرور ہے کہ جب سے اِس طوائف نے گُناہوں کی زندگی سے توبہ اِختیار کی ہے کِسی نے انہیں نِگاہ اُٹھا کر چلتے نہیں دِیکھا۔ اور جِن لوگوں کا ڈاکٹر صاحب کے گھر میں آنا جانا ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اب یہ خاتون گھر میں اکثر نماز و تِلاوت میں مشغُول نظر آتی ہیں۔ اسکے علاوہ علاقے کی خواتین کی مالی امداد ،کیساتھ ساتھ اُنکے مسائل کے حل کے لئے بھی پیش پیش نظر آتی ہیں۔

میرا وُہ دُوست مجھ سے نجانے اور کیا کُچھ کہتا رہا مجھے خَبر نہیں۔ میں تُو اُس وقت یہ سُوچ رَہا تھا کہ ۔ایک طرف وُہ وَا عِظ نُما شَخص تھا جُو دُنیا بھر کی کِتابوں کے مُطالعے کے باوجود بھی نہ اپنی نِگاہُوں میں حَیا پیدا کر سَکا ، نہ ہی اپنے اِخلاق کو سَنوار سَکا ۔ اور نہ ہی اُسکے وسیع مُطالعے سے اُسے نماز کی تُوفیق مِل سَکی۔ اگر کُچھ حاصِل ہُوا تُو صِرف اِحساس برتری کا مَرض ، خُود نمائی اور سب سے ممتاز نظر آنے کا سِفلی جَذبہ۔۔۔۔

جبکہ دوسری جَانِب وہ خاتُون تھی کہ جِسکے ماضی کی وجہ سے کُچھ لُوگ اُسے سابِقہ طَوائف کے طُور پر یاد رَکھے ہُوئے تھے۔ لیکن نہ جانے اُس کی تُوبہ کیسی مقبول تُوبہ تھی کہ جِس نے اُسکے شب و رُوز کو بَدل کے رکھ دِیا تھا ۔میں بے حیا لوگوں کے مُتعلق تُو کُچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا یقین کیساتھ کہہ سکتا ہُوں کہ اُس خَاتون کے چہرے پہ جُو تقدس میں نے دیکھا تھا ۔ کِسی شریف النفس اِنسان کو دُوبارہ چِہرہ دیکھنے کی جُرأت نہیں ہُوسکتی تھی۔

یہ کالم لکھتے ہُوئے مجھے مدینے کا وہ تاریخی واقعہ یاد آرہا ہے جہاں ایک عورت دربارِ مُصطٰفی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے جُرمِ زِنا کا اقرار کر رہی تھی اور رؤف و رَحیم آقا ﷺ اُسے بار بار ٹال رہے تھے یہاں تک کہ اُس نے ایک بچّے کو جَنا پھر ارشاد ہُوا کہ ابھی بچّہ چھوٹا ہے اسے دودھ پِلاؤ مگر نہ جانے کیسی بے چینی تھی کہ مُدت شیر خُواری مکمل ہُونے کے بعد وہ عُورت پھر دربارِ مُصطٰفی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضِر ہُوگئی اور سنگسار ہُوکر پاک ہُونے کی خُواہش ظاہر کی۔ لِہذا اُسے سنگسار کردیا گیا۔ بعدِ سنگسار کریم آقا علیہ السلام نے اِرشاد فرمایا تھا ،، مفہوم،، جیسی تُوبہ اِس خاتون نے کی ہے اگرتمام مدینہ کے گُنہگاروں میں تقسیم کردی جائے تو سب کے لئے کافی ہُوجائے ۔۔۔۔۔۔اً

3 comments:

  1. Aesy khas vaiz ka koi b ilaj ni kr skta or aesy logon ki bht kasrart ha hmari society mein.........

    ReplyDelete
  2. dear aasma baja farmaya aap ney . lekin aisey logon ki pehchan zarori hey.. takey ham un k fareeb se bach sakain

    ReplyDelete
  3. کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
    جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
    غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
    کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے

    ReplyDelete