گذشتہ سے پیوستہ
خُواب میں دوسرے ستارے کی پیش قدمی اُور ہمارے شہر تک آمد
یہ سمجھانے کیلئے ہے کہ،، پہلا ستارہ یعنی خلیفہ الرسول ﷺ جنہیں صاحب کے نام سے
پُکارا جائے گا۔ یہ مصاحب رسولﷺ بھی دُنیا سے پردہ فرماچکے ہیں۔ اُور اب انہی مصاحب کے رفیق کی حکومت قائم ہے۔ جنکے
دُور حکومت میں انبیاٗ کرام کی سرزمین بیت المقدس سے ہمیں ہاتھ دھونا پڑسکتے
ہیں۔۔۔
بطریقِ اعظم قمامہ
کی گفتگو نے تمام حاضرین کو غَم
وغصے کی جیتی جاگتی تصویر بنا ڈالا تھا۔۔۔ ایک جذباتی معمر بطریق سے یہ سب
کچھ سُن کر رَہا نہ گیا۔ تو وُہ کھڑا ہُو کر جذباتی انداز میں کہنے لگا۔۔۔ اِس کا
مطب یہ ہُوا کہ،، سرزمین بیت المقدس جس پر صدیوں سے ہمارے آباء کا تسلط قائم تھا۔ ہم تھالی میں سجا کر آنے
والی غیر قوم کے حوالے کردیں۔۔۔؟ اگر وُہ
ایک نبی ﷺ کے وارث ہیں تُو کیا ہم انبیا ٗ کی مقدس سرزمین کے وارث نہیں ہیں۔؟ کیا ہمارے پاس دُنیا
کی بہترین فوج موجود نہیں ہے۔۔۔؟ کیا ہمارا شہر ناقابل تسخیر نہیں ہے۔۔۔ اُور کیا
ہم نے قلعہ میں ایک برس کا اِضافی اناج اُور پانی کی جھیل یہی دِن دیکھنے کیلئے بنائی تھی۔ کہ کچھ بیرونی دُنیا کے لُوگ ہم پر حملہ کریں اُور ہم
نَامَردوں کی طرح اپنا شہر اُنکے حوالے کردیں۔۔۔ معمر بطریق کی جذباتی تقریر سے
سامعین کا سَرد خون بھی ایک مرتبہ پھر جُوش مارنے لگا تھا۔۔۔
اب مزید پڑھیئے۔
بطریق اعظم قمامہ نے حالات کو بدلتا دیکھ کر نفرت سے بوڑھے
بطریق کو جھڑکتے ہُوئے بیٹھنے کا اِشارہ کرتے ہُوئے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہُوئے
سامعین کو متوجہ کیا۔۔۔۔ میرے بچوں! میرا مقصد ہر گز یہ نہیں تھا۔ کہ ہمیں بیت
المقدس سے دستبردار ہُوجانا چاہیئے۔۔۔ بلکہ میں صرف تمہیں اُس خطرے سے آگاہ کرنا
چاہتا تھا۔۔۔ جسکی بو میں ایک مہینے سے محسوس کررہا ہُوں۔۔۔ یہ وقت جذبات کی رُو
میں بہہ جانے کا ہر گز نہیں ہے۔ اگر ہم نے دانشمندی سے اِن حالات سے نمٹنے کی کوشش
نہ کی تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے
گی۔۔۔ کیونکہ اِس مرتبہ ہم پر جو انسان حملہ آور ہُونے والا ہے۔ اسکا مقابلہ کرنے
کی ہمت دُنیا میں کسی قُوم کو نہیں ہے۔ کیوں کہ اِس انسان کو بادشاہت کی ہَوس نہیں
ہے۔ اُور نہ ہی یہ ہستی اپنی ناموری کی خُواہشمند ہے۔ بلکہ یہ وُہ انسان ہے۔ جس سے
شیطانی لشکر خوف کھاتے ہیں۔۔۔۔ یہ وُہ انسان ہے۔کہ،، جسکی خُوشی اللہ کو پسند
ہے۔۔۔ اُور یہ وُہ ہستی ہے کہ جسکو فرشتے بھی فارِق کے لقب سے جانتے ہیں۔ جسکا
مطلب ہے۔ حق و باطل میں امتیاز کرنے والا۔
بطریق اعظم قمامہ کی تقریر نے ایک مرتبہ پھر تمام
سامعین کے دِلوںکو ایک انجانے خوف سے دُوچار کردیا تھا۔۔۔ بطریق
اعظم کے خاموش ہُوتے ہی ایک نہایت سلجھے ہُوئے
بوڑھے تاجر نے بطریق اعظم کی بارگاہ میں کچھ کہنے کی اجازت طلب کرتے ہُوئے
عرض کی!!! اے ہمارے رُوحانی باپ ہم یہ تو نہیں جانتے۔ کہ،، ہمارا نجان دُشمن کُون
ہے۔۔۔۔؟ اُور وُہ کتنا طاقتور ہے۔۔۔ لیکن یہاں موجود تمام لوگ ایک بات ضرور جانتے
ہیں کہ آپ جو کچھ بھی کریں گے۔ یقیناً وہی بات ہم سب اُور ہماری آنے والی نسلوں کے مفاد میں ہُوگی۔۔۔
اسلئے میں اپنی تاجر برادری کی جانب سے آپکے ہر ایک فیصلے کو من وعن قبول کرنے کا
اعلان کرتا ہُوں۔۔۔۔ چند ہی لمحوں میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی تمام حاضرین نے
بشمول فوجی افسران سبھی نے بُوڑھے تاجر کے
قُول کی توثیق کردی۔۔۔۔ جسکے بعد بطریق اعظم قمامہ نے سامعین کو اپنی پلاننگ سے
آگاہ کرتے ہُوئے بتایا ۔ کہ،، اُس نے سابقہ الہامی کتب کی روشنی میں مقدس دیوار پر
اُس فارِق کی ایک تصویر نمایاں کردی ہے۔۔۔۔ اگر مجھے وُہ فارِق اِن دشمنوں میں نظر
آگیا ۔ تو ہم اِن سے لڑنے کے بجائے صلح کرلیں گے۔ اُور اگر وُہ فارق اِس گروہ کا
سربراہ نہ ہُوا۔۔۔ تو ہم آخری دم تک اپنی سرزمین کی حفاظت کریں گے۔۔ تھوڑی ہی دیر
میں تمام حاضرین نے بطریق قمامہ کی پیشکش کو دِل و جان سے قبول کرلیا۔
دوسری طرف بیت المقدس کا محاصرہ کرنے والی فوج حضرت ابو
عبیدہ بن جراح اُور حضرت خالد بن ولید کا استقبال پُورے جُوش و خروش سے کرنے میں
مگن تھی۔۔۔۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہُ حضرت خالد بن ولید رضی
اللہ تعالی عنہُ سے بیت المقدس کو فتح
کرنے کیلئے مشاورت کررہے تھے۔ کہ اچانک ایک مسلمان سپاہی نے خیمے میں آکر خبر
سُنائی کہ بیت القدس کی فصیل پر بطریق اعظم قمامہ موجود ہے۔ جسکی خواہش ہے کہ،،
فوج کے سپہ سالار سے اُسکی گفتگو کا اہتمام کیا جائے۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو جونہی اِس
واقعہ کی خبر مِلی تو ہر ایک مجاہد کو یہ خُوش فہمی ہُونے لگی۔ کہ،، بیت المقدس کے محاصرے سے عیسائی اُور یہودی
عاجز آچکے ہیں۔۔۔ اُور شائد اب وُہ تھک
ہار کر صلح نامہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔
بطریق اعظم قمامہ اپنے مشیروں اُور فوجی افسران کی معیت میں
فصیل کی دیوار پر کھڑا۔ حملہ آوروں کے خیموں کا جائزہ لے رَہا تھا۔ جنہیں دیکھنے
کے بعد وُہ اِس نتیجے پر پُہنچا تھا۔ کہ حملہ آور فوج نہایت کسمپرسی کا شِکار ہے۔
اُنکے خیمے ہی اُنکے افلاس و معاشی بدحالی
کی کہانی سُنارہے تھے۔ بطریق اعظم قمامہ کی جانب سے چونکہ ایک قاصد فوج کے سپہ
سالار کی جانب روانہ کردیا گیا تھا۔ اِس لئے دشمن فوج کی جانب سے کسی بھی وقت سپہ
سالار کی آمد متوقع تھی۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ
تعالی عنہ اپنی تمام نورانیت کیساتھ بڑے تزک احتشام سے باوقار انداز میں بطریق
اعظم قمامہ سے گفتگو کیلئے تمام حفاظتی
انتظام کو نظر انداز کرتے ہُوئے فصیل کے نیچے چلے آئے۔۔۔۔ اُنہیں اُمید تھی۔ کہ
جلد ہی بطریق اعظم اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہُوئے یا تو بیت المقدس کا قلعہ انہیں
سُونپ دے گا۔ یا جزیہ دینے پر راضی ہُوجائے گا۔ لیکن بطریق اعظم نے سیدنا حضرت ابو
عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ سے کوئی گفتگو نہیں کی۔۔۔ بلکہ وُہ آنکھوں پر
چھجہ بنائے اُنہیں بغور دیکھتا رہا۔
تھوڑی دیر تک بطریق قمامہ نے سیدنا حضرت ابو عبیدہ بن جراح
رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے اُور جسمانی ساخت کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد پلٹ کر
اپنی شوری کو آگاہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ مُبارک ہُو۔۔۔ یہ وُہ انسان ہر گز نہیں ہے۔
جو ہم سے بیت المقدس کو چھین سکے!!! لہذا
کل صبح کی پہلی کرن کے نمودار ہُوتے ہی
انہیں واپس دھکیل دُو۔۔۔ جبکہ دوسری طرف سیدنا حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ
تعالی عنہ حیران و پریشان واپس اپنے خیمے کی جانب لُوٹتے ہُوئے سوچ رہے تھے۔۔۔کہ،،
کتنا عجیب تھا۔ یہ بطریق جس نے خُود مُلاقات کیلئے دعوت دی۔ مگر زبان سے ایک لفظ
نکالے بغیر لُوٹ گیا۔
مسلمانوں کو جلد ہی بطریق اعظم قمامہ کا پیغام مِل گیا۔۔۔۔
جِس میں بطریق اعظم نے مسلمانوں کو للکار کر جنگ کا طِبل بجادیا تھا۔۔۔۔ مسلمان
مجاہدین کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہُ کی آمد کے بعد یقین ہُوچلا تھا۔
کہ فتح جلد اِنکے مقدر میں ایک اُور کامیابی رقم کرنے کیلئے بے چین ہے۔۔۔
لیکن مالک ِعرش مسلمانوں کو ایک عاشق و
فاتح اعظم کی شان دِکھانا تحریر فرما چُکا تھا۔
مسلمانوں نے چار
ماہ تک چہار جانب سے بیت المقدس کی طرف
پیش قدمی کی بھرپور کوششیں کرڈالیں۔۔۔۔ ایک طرف سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہُ اپنی شمشیر کے جوہر دِکھانے کو بے چین تھے۔ کہ
ابھی تک مدینہ سے تبوک ،فلسطین، ارک، تدمر ،دمشق ،قنسرین،
بعلبک،یرموک ،حلب سے بیت المقدس کے گرد و نواح تک کوئی ایسا علاقہ نہیں تھا۔ جس میں مجاہدین نے کافروں کے دِل پر اپنی تلوار کی دھاک نہ
بِٹھائی ہُو۔۔۔۔ اُور کوئی ایسا میدان نہ تھا۔۔۔۔ جِسے رُوندتے ہُوئے حضرت خالد بن
ولید رضی اللہ عنہُ نے فتح حاصل نہ کی ہُو۔۔۔ جبکہ دوسری جانب حضرت ضرار بن ازرو تھے۔۔۔۔۔
جنکے جسم پر صرف ایک کپڑا ہُوتا تھا۔۔۔۔ اُور آپکی ہیبت سے سُورماوٗں کے دِل پِگھل
جاتے تھے۔۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک مجاہد اِس کارزار میں موجود تھا۔۔۔ لیکن بیت
المقدس کی مظبوط فصیل پر کھڑے نشانہ باز
مسلمانوں کو بار بار فصیل کی دیواروں سے بُہت دُور دھکیلنے میں کامیاب نظر آرہے
تھے۔۔۔اِس تمام صورتحال کے باوجود بھی نہ
مسلمان پیچھے ہٹنے کو رضامند تھے۔۔۔ اُور نہ ہی
بیت المقدس کے مکین ہی مسلمانوں کے تابڑ تُوڑ حملوں سے مرعوب ہُورہے تھے۔۔۔۔
لیکن بطریق اعظم آج بھی اُنہی خُوابوں کے سحر میں گرفتار
تھا۔۔۔۔ مسلمانوں کو جسقدر نقصان اِس جنگ میں اُٹھانا پڑا تھا۔۔۔ انکی جگہ کوئی
اُور قُوم ہُوتی تو اب تک جنگی صورتحال سے
بَد دِل ہُو کر واپس لُوٹ چُکی ہُوتی۔۔۔۔ لیکن نجانے یہ لُوگ کس مٹی سے بنے تھے۔۔۔
جو تمام مشکلات کے باوجود بھی آخری سانس تک لڑنے کیلئے بیقرار نظر آتے ہیں۔۔۔۔ بطریق قمامہ اپنے کمرے میں بند ہُوکر
سُوچنے پر مجبور تھا۔۔۔۔۔ لیکن بطریق اعظم شائد یہ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔ کہ آنے
والوں نے عشق محمدی ﷺ کا جام پیا ہے۔۔۔۔ جسکے بعد اُن کی نظروں میں زندگی سے ذیادہ
مُوت کی اہمیت ہے۔۔۔۔ کیونکہ دیدار کا جام پھر سے پینے کیلئے زندگی کی زنجیر سے
آزاد ہُونا ضروری ہے۔۔۔ اِس لئے ہر ایک مجاہد اُسی جام کو پینے کیلئے شہادت کا
متمنی تھا۔۔۔ تاکہ جلد سے جلد وُہ اپنے دِل کی پیاس کو بجھا سکیں۔۔۔۔
بطریق اعظم قمامہ نے آج پھر حضرت ابو عبیدہ بن جراح سے مذاکرات کی خاہش کا اِظہار کیا تھا۔۔۔۔۔ اُور امین الامُت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ
نے بھی قاصد کو مذاکرات کیلئے رضامندی کی نوید سُنادی تھی۔۔۔۔ مذاکرات کی مجلس شروع ہُوتے ہی گفتگو میں پہل کرتے ہُوئے بطریق اعظم نے حضرت ابو عبیدہ سے عرض کی۔۔۔۔ ہم ناحق خون ریزی نہیں چاہتے۔۔۔
ویسے بھی آپ نے دیکھ ہی لیا ہُوگا۔۔۔ کہ اِس جنگ میں برتری ہمیں حاصل ہے۔۔۔
لیکن میں پھر بھی آپ لوگوں کی جنگ کا مقصد جاننا چاہتا ہُوں۔۔۔۔؟
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے بڑے تحمل سے بطریق
قمامہ کی شیخیاں سُننے کے بعد فرمایا۔۔۔۔ اے بطریق ہمیں یہ مت سمجھا کہ برتری کسے
حاصل ہے۔۔۔ ہم اپنے آقا و مولی ﷺ کے ایما
پر اِس دشوار ترین راستوں کو طے کرتے
ہُوئے یہاں تک پُہنچے ہیں۔۔۔۔ اُور ہمیں
ہمارے نبی ﷺ نے یہ بھی بتادیا گیا ہے ۔کہ،،
یہاں فتح صرف اور صرف ہماری منتظر ہے۔۔۔۔
اسلئے یا تو تم لُوگ مسلمان ہُوجاوٗ۔۔۔ یا صلح کرتے ہُوئے جزیہ ادا کرو۔۔۔۔ ورنہ
ہمیں نبی محترم ﷺ کی عترت کی قسم ہے۔۔۔۔۔ ہم آخری دَم تک اپنی تلوروں کو نیام میں
نہیں ڈالیں گے۔۔۔
لیکن بیت المقدس کی فتح آپکے ہاتھ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ میں
فاتح بیت المقدس کو اچھی طرح پہچانتا ہُوں۔۔۔۔ بطریق اعظم نے تھوک نگلتے ہُوئے
بلاآخر دِل کی بات کہہ ہی ڈالی۔۔۔۔
تُم کیسے جانتے ہُو۔
بیت المقدس کے فاتح کو۔۔۔۔؟ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے بطریق اعظم کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی۔۔۔ جسکے
بعد آپکو یہ اندازہ لگانے میں قطعی دشواری پیش نہیں آئی۔کہ،، بطریق قمامہ کم از کم
اِس وقت جھوٹ نہیں بُول رَہا ہے۔
بطریق قمامہ نے جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔ میں یہ بات اسلئے
جانتا ہُوں کہ مجھے تورات و زبور نے اُس عظیم
ہستی کے متعلق آگاہی بخشی ہے۔۔ لیکن میں اُن کے متعلق تُم سے ذیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔ حضرت
ابو عبیدہ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا۔۔۔ علم چھپانا گناہ کبیرہ ہے۔ کم از کم
کچھ نہ کچھ تو بتادو۔ کہ،، اُنکا نام کیا ہے۔۔۔۔؟ اُور انکا حلیہ مبارک کیسا ہے۔۔۔؟
بطریق قمامہ نے جھجکتے ہُوئے صرف اتنا بتایا کہ،، اُن کا ایک نام فارِق ( یعنی حق
و باطل میں تفریق کرنے والا ہے) وُہ سرخ رنگت والے ہیں۔۔۔ اُور شیطان اُن کے اِسم گرامی سے
کپکپاہٹ کا شکار ہُوجاتا ہے۔۔۔ جیسے کسی کو گرم بخار لاحق ہُوجاتا ہے۔۔۔ حضرت ابو
عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے پر بطریق قمامہ کی گفتگو سُن کر بشاشت لُوٹ
آئی۔۔۔۔ آپ نے اعتماد بھرے لہجے میں اِرشاد فرمایا۔۔۔۔ کہ اگر وُہ ہستی تمہارے پاس
آجائے تُو تمہارا رد عمل کیا ہُوگا۔۔۔۔؟ بطریق قمامہ نے چند لمحے خاموش رہنے کے
بعد کہا۔۔۔ ہماری قوم میں اُن سے لڑنے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔۔ اگر وُہ خود تشریف لے
آئے تو ہمارے پاس اِس کے سِوا کوئی چارہ نہیں۔ کہ خاموشی سے بیت المقدس کی چابیاں اُنکے حوالے کردیں۔۔۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے بطریق قمامہ سے مُلاقات کے بعد
سب سے پہلا کام یہ کیا۔کہ ،، ایک برق رفتار گھوڑے پر ایک سمجھدار قاصد کو مدینے کی
جانب خصوصٰی رقعہ دے کر امیر المومنین کی خدمت میں روانہ
کردیا۔
یہ قاصِد تیز رفتاری سے سفر کرتے ہُوئے بُہت جلد مدینۃ النبی
ﷺ پہنچ کر سیدھا سیدنا حضرت عُمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں بلا تاخیرحاضر ہوگیا۔ دَست بوسی کی سعادت حاصل
کرنے کے فوراً بعد اِس قاصد نے وُہ رقعہ
نہایت احترام سے آپکی خدمت میں پیش کردیا۔۔۔۔ رُقعہ میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح
رضی اللہ تعالی عنہ نے سلام عرض کرنے کے
بعد اب تک کی تمام فتوحات کا تذکرہ کرنے کے بعد بیت القدس کی تازہ ترین صورتحال کا
ذکر کرتے ہُوئے لکھا تھا۔ کہ اگر امیرالمومنین کرم فرماتے ہُوئے خُود چند دِن
کیلئے بیت المقدس تشریف لے آئیں۔۔۔ تو بیت
المقدس بغیر کسی جانی نقصان کے بُہت آسانی سے فتح ہُوسکتا ہے۔
امیر المومنین حضرت سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہُ تعالی عنہ
نے جید صحابہ کرام سے مشاورت کے بعد اِس
درخواست کو قبول فرماتے ہُوئے۔ فوراً شام کی جانب جانے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔ اُور چند
بعد جب بیت المقدس کا ، تپتی
دھوپ میں محاصرہ کرنے والے مجاہدین کو معلوم ہُوا۔ کہ،، امیرالمومنین مدینے
سے عنقریب بیت المقدس پہنچنے والے ہیں۔ تو اِنکے خزاں رسیدہ چہروں پر گویا بہار
نے جگہ بنالی تھی۔۔۔ ہر ایک مجاہد دیدارِ
امیر المومنین کیلئے بیتاب و بیقرار تھا۔۔۔ امیر المومنین حضرت سیدنا عمرِ فاروق
رضی اللہُ تعالی عنہ۔ اِس شان سے بیت المقدس کی سرزمین پر جلوہ افروز ہُوئے۔کہ،،
دیکھنے والوں کی بیساختہ چیخیں نِکل نکل گئی۔
محتر م قارئین کرام!!!
میرا خیال تھا کہ میں دُو اقساط میں اِس عجیب وُ
دلپزیر واقعہ کو سمیٹ کر آپکی خدمت میں پیش کردونگا۔ لیکن معذرت کیساتھ کہ
میں اِس سعی میں کامیاب نہ ہُوسکا۔۔۔ کالم کافی طوالت اختیار کرچکا ہے۔ اِس لئے
انشاءَ اللہ تیسری قسط میں بقیہ کہانی کو
سمٹنے کی آرزو کیساتھ اجازت چاہُوں گا۔
آپکی محبتوں کا اسیر:عشرت اقبال وارثی
SUBHANALLAH
ReplyDeletebht pyari informatin ha sir g thnx
This comment has been removed by the author.
DeleteMashAllah bhai.. Allah azwajal jazae khyr atta farmay.. ameen
ReplyDeleteASSALAM ALE KUM BHAI.....SUBHAN ALLAH
ReplyDeleteASSALAM-O-ALYKUM
ReplyDeleteSUBHAN ALLAH KIA BAAT HAI FAROOQ-E-AZAM KI.
Ma SHa Allah, Kia shan ha mere Farooq e Azim kee
ReplyDelete