bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 22 February 2014

میں بھی طالبان ہُوں مگر۔۔۔۔؟




کل میری بیٹی جُونہی اسکول سے واپس گھر آئی۔ بَستہ رکھتے ہی میرے پاس آبیٹھی۔ حالانکہ وہ شدید گرمی کی وجہ سے پسینے میں شرابُور تھی۔ لیکن اُسکی بے چینی دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا کہ وہ اپنے ذہن میں کوئی اُلجھا ہُوا سوال لئے ہُوئے بُہت مضطرب ہے ۔ وَگرنہ اسکول سے وَاپسی پر وہ ہمیشہ اپنا ڈریس تبدیل کرنے کے بعد سب سے پہلے کھانے کی صدا ہی بُلند کرتی ہے۔


میں نے اُسکی بے چینی دیکھتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔ بیٹا خیریت تُو ہے آج آپ کھانا اسکول کینٹین سے تُو نہیں کھا آئیں۔۔۔۔۔؟


وہ کہنے لگی ۔۔۔نہیں بابا ایسی تُو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ بس باباجانی کُجھ جاننا چاہتی ہُوں۔۔۔ آپ مجھے جہاد سے متعلق کُچھ بتائیں ۔۔۔؟ اور یہ بھی کہ شہید کُون ہُوتے ہیں۔۔۔۔؟


میں نے اُسے کہا کہ بیٹا پہلے لباس تبدیل کرلو۔ پھر کھانا کھالو ۔اُسکے بعد میں تفصیل سے تُمہارے سوال کا جواب دے دیتا ہُوں۔۔۔!


لیکن وہ شائد اپنے سوالوں کے جواب کیلئے اتنی زیادہ متجسس تھی۔ کہ کہنے لگی نہیں بابا جانی پہلے آپ میرے سوالوں کا جواب دے دیں۔ اُسکے بعد میں کھانا کھالونگی۔ کیونکہ جب تک مجھے میرے سوالوں کا جواب نہیں مِلے گا میں بے چین ہی رَہوں گی۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہی ہر نئی بات پر متجسس ہوجاتی ہے۔ اور جب تک اُسے اپنے سوال کا جواب نہ مِل جائے وہ چین سے نہیں بیٹھتی ہے۔ لہذا میں نے ہمیشہ کی طرح ہَار مانتے ہُوئے اُسکے سوالوں کا جواب پہلے دینے کیلئے حامی بھر لی۔ اور اُسکے سوالوں کا جواب دیتے ہُوئے اُسے بتانے لگا۔


بیٹا جہاد کا حُکم قران مجید فرقانِ حمید میں کئی جگہوں پر آیا ہے۔ جہاد کے معنیٰ جدوجہد اور کوشش کے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کو آسان لفظوں میں اسطرح کہہ سکتے ہیں۔ کہ اللہ کریم کی راہ میں کوشش کرنا۔


میں نے ابھی گُفتگو شروع ہی کی تھی۔ کہ میری بچّی درمیان میں بُول پڑی۔۔ بابا کوشش کرنا۔۔ یا۔۔ اللہ کریم کی راہ میں گردن کَٹوانا،، کیونکہ ہماری ٹیچر نے ہمیں بتایا تھا کہ اللہ کریم کی راہ میں جان دینے کو جہاد کہتے ہیں۔۔۔؟


ہاں بیٹا اللہ کریم کی راہ میں لڑتے ہُوئے اپنی جان قربان کرنا جہاد ہے۔ لیکن تُم اگر میری بات کو تَسلی سے سُنو گی تو میں تُمہیں جِہاد سےمتعلق تفصیل سے بتا سکوں گا۔


جی بابا جان آپ بتایئے اب میں بِلا ضرورت نہیں بُولونگی۔ اُس نے اپنی کہنیوں کے پیالے میں اپنے چہرے کو سجاتے ہُوئے کہا۔۔۔


دیکھو بیٹا جہاد کی کئی اِقسام عُلماءِ کرام نے بیان کی ہیں اور اِن اقسام پر سبھی عُلماء کا اجماع بھی ہے۔ کیونکہ یہ سبھی اقسام قران وسنت کی روشنی کے عین مطابق ہیں۔ اور جِہاد کا مُنکر بلاتفاق،، کافر،، ہے۔ البتہ جہاد کے طریقہ کار پر ایک گروہ کا دوسرے گِروہ سے اُصولی اختلاف ممکن ہے۔


جہاد کی یہ پانچ اقسام بُہت مشہور ہیں نمبر1۔جہاد بالعِلم ۔ نمبر2۔جہاد بالمال۔نمبر3۔جہاد بالعمل۔ نمبر4۔جہادبالنفس۔ نمبر5۔جہاد بالقتال۔


بیٹا ، جہاد علم،،کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کریم اور اُسکے مدنی محبوب ﷺ کے احکامات کو سیکھ کر دُنیائے انسانیت تک اُسکی روشنی کو پہنچانا۔ تاکہ ظُلمت کو دین کی روشنی سے منور کیا جاسکے۔ تاکہ تِیرگی چھٹ جائے اور لوگوں کو صحیح اور غلط میں تمیز کرنے میں آسانی ہُوجائے۔ کوشش کرنا انسان کا کام ہے جبکہ ہدایت دینا اللہ کریم کا کام ہے۔ اور قران مجید میں بھی اِسکا واضح حُکم موجود ہے مفہوم،، تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیئے جو نیکی کا حُکم کرے اور بُرائی سے رُوکے۔


جبکہ مال سے جہاد کے معنیٰ ہیں کہ اپنی حلال ذرائع سے حَاصِل کی گئی دولت کو اللہ کریم کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ اب چاہے وہ رقم مجاھدینِ اسلام کو دِی جائے یا کِسی نادار و بیوہ کو دی جائے ۔ چاہے مدارِس میں پُہنچادی جائے۔ یا کِسی فلاحی کام میں خرچ کردی جائے۔ کیونکہ مال محنت سے کمایا اور جمع کیا جاتا ہے اسلئے اسکا استعمال بھی انسان کے نفس پر گِراں گُزرتا ہے لِہذا جب اتنی کوشش کے بعد کمایا ہُوا مال انسان راہِ خدا میں خرچ کرتا ہے تب شیطان طرح طرح کے وسوسے انسان کے دِل میں پیدا کرتا ہے۔ اور شیطان و نفس سے لڑتے ہُوئے جب انسان خُوشدلی سے راہِ خُدا میں مال خرچ کردیتا ہے۔ تُو یہ بھی جہاد کے زِمرے میں آتا ہے۔ جیسا کہ اللہ کریم اپنے کلامِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ایمان رکھو اللہ اور اس کے رسول پر اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔۔۔ سورہ اَلصّٰف آیت نمبر ۱۱۔


اور بِٹیا جہادِ عمل کے متعلق بھی سُنو: جب بحیثیت مسلمان ہم نے اپنی دینی اور دُنیاوی ضروریات کے مُطابق اسلام کی تعلیمات کو سیکھ اور سمجھ لیا تب ہم پر لازم ہے کہ صِرف گُفتار کے غازی نہ بنیں۔ بلکہ جو علم حاصِل کیا ہے اُس پر عمل بھی کریں۔ چاہے شیطن لاکھ حیلے سمجھائے ۔چاہے اُن پر عمل سے دُنیاوی فائدہ ہمارے ہاتھ آئے یا دُنیاوی نقصان ہمارا مُقدر بنے ۔ یا ہمیں اس پر عمل کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ لیکن رضائے رَبُّ الانام کی خاطر ہمیں اس پر عمل پیرا ہونا ہی چاہیئے اور یہی عملی جہاد ہے۔


جبکہ جہاد بالنفس اپنی خُواہشات کو اللہ کی مرضی پر قربان کردینے کا نام ہے۔ جیسے سردیوں کی صبح میں فجر کی نماز نفس پر بھاری ہُوتی ہے۔ مگر یہی عمل اللہ کو محبوب ہے۔ تب یہ نہ دیکھو کہ اِس عمل میں مشقت ہے بلکہ یہ دِیکھو کہ اللہ کریم کی چاہت کیا ہے۔ جسطرح جُھلسا دینے والی گرمی میں روزہ رکھنا نفس پر گِراں گُزرتا ہے مگر اللہ کریم اس عمل پر اپنی خوشی کا اِظہار فرشتوں کے سامنےفرماتا ہے۔ اور کبھی جب کوئی سائل اپنی ضرورت بیان کرتا ہے تو نفس سمجھاتا ہے کہ تجھے اسکی ذیادہ ضرورت ہے۔ لیکن اگر سائل کی ضرورت پوری کردی جائے تو خُدا خُوش ہوتاہے۔ اسی طرح ہر وہ عمل جو نفس پر شاق گُزرے لیکن وہی عمل خُدا کی خوشنودی کا باعث ہُو ۔ تب خُدا و رَسول کی رضا کو مقدم رکھنا جہادِ نفس ہے۔


اور بیٹا ایک جہادِ قتال ہُوتا ہے یعنی کافر سے اللہ کریم کی رضا کیلئے قتال یعنی لڑائی کرنا۔ اسکا بھی قران مجید میں کئی جگہوں پر حُکم موجود ہے اور اسکی بھی بڑی نرالی شان ہے چُنانچہ قران مجید میں ارشاد ہُوتا ہے کہ،، اور لڑو اللہ کی راہ میں اور جان لو کہ اللہ سنتا جانتا ہے، سورہ البقرۃ آیت ۲۴۴۔۔۔ جبکہ دوسری جگہ اِرشاد ہُوتا ہے کہ،،اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبرنہیں ۔سورہ البقرۃ ۱۵۴


یعنی جو جہاد میں، اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید کہلاتا ہے اور قران کریم کا فیصلہ ہے کہ ،،شہید مرتا نہیں بلکہ زندہ رِہتا ہے۔ لیکن یہ بات اور ہے کہ۔ ہم اُنکی زندگی کے اطوار کو نہیں جان پاتے۔ اور وہ کیسے کھاتے پیتے ہیں یہ نہیں سمجھ پاتے ۔مگر وہ زندہ ہیں۔ کیونکہ یہ اللہ کریم کا فرمان ہے۔ اور جہاد کے فضائل میں بے شُمار اَحادیثِ مبارکہ بھی کُتب اَحادیث میں موجود ہیں۔ جیسا کہ بُخاری شریف کی یہ حدیث ہے۔


ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے کہا۔لوگوں میں سے افضل کون ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا آدمی جو اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال سے جہاد کرتا ہے۔“ اس نے کہا:”پھر کون؟آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدمی جو لوگوں سے الگ ہو کر کسی گھاٹی میں اللہ کی عبادت کرے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔“بخاری، کتاب الجہاد۔6782


لیکن میری بَچّی ۔۔اِس جہاد مقاتل کیلئے کُچھ قانون ہیں۔ کبھی یہ فرضِ کفایہ ہُوتا ہے ۔ تو کبھی یہ فرضِ عین ہُوتا ہے۔اور کبھی مُباح کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ اور اسکے بے شُمار آداب و احکامات اور اُصول خود اللہ عزوجل اور اُسکے مدنی محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان فرمائے ہیں جبکہ کُچھ آثارِ صحابہ (رِضوان اللہ علیہم اجمعین)سے ثابت ہیں ۔ جِنکا پاس رکھنا ہر مُجاھِدِ اسلام اور امیرِ مجاھِدین و لشکر پر لازم و فرض ہے۔اگر اِن قواعد اور احکامات کو پسِ پشت ڈال کر جہاد کیا جائے۔ تو ایسی لڑائی نہ صِرف جہاد کی رُوح کی عین منافی تصور کی جائے گی۔ بلکہ جہاد کے بجائے دھشت گردی کے زمرے میں شامل ہُوجائے گی۔


بابا ایک بات اور بتائیں کہ یہ طالِبان کون ہُوتے ہیں۔۔۔؟ میری ٹیچر مجھے بتارہی تھیں کہ طالِبان اللہ تعالی کے نیک ترین بندے ہُوتے ہیں۔ بلکہ یہ سب وِلایت کے درجے پر ہیں۔ پھر بابا جان آپ طالبان کیساتھ جِہاد میں شامِل کیوں نہیں ہُوتے۔۔۔۔؟



میری بَچّی طالبان ۔ طالِب کی جمع ہے۔ جِس کے معنی ہیں۔۔خواہشمند۔ آرزومند۔ مانگنے والا۔ طلب کرنے والا۔مشتاق ۔ ان تمام معنوں سے تم مجھے دیکھو گی۔ تُو ضرور مجھے طالبان کی صف میں دست بَدستہ پاوٗ گی۔ میں شہادت کیلئے مشتاق ہُوں ۔ اور ہر نماز میں اپنے رب عزوجل سے شہادت کی موت کی تمنا کا سوال کرتا ہُوں۔ میں روشنی کا خُواہشمند ہُوں۔ میں عِلم کے لئے حَریص ہُوں۔ میں مسلمانوں کی ترقی کا آرزومند ہُوں۔ میں عافیت کا طلبگار ہُوں۔ اور کُفار کے مقابل میں مسلمانوں کو تفرقہ پرستی سے بیزار شانہ بشانہ کھڑا دیکھنا چاہتا ہُوں۔


مگر بابا میں تو آپ سے اُن طالبان کی بابت گُفتگو کررہی ہُوں۔ جو موت سے نہیں گھبراتے، جو سینے پر بم باندھ کر شہادت کی موت کے متمنی رِہتے ہیں۔ میری بیٹی نے میری گُفتگو رُوکتے ہُوئے مجھے اپنی طرف ایک مرتبہ پھر متوجہ کرتے ہُوئے سوال کیا۔


میری بچی مجھے اُنکے ساتھ جہاد میں پیش پیش رہنے میں کوئی حرج نہیں ہُوتا۔ اگر میں نے احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ (رِضوان اللہ تعالی اجمعین) کا بغور مطالعہ نہیں کیا ہُوتا ۔


مگر میں جتنا مُطالعہ کرتا چلا جاتا ہُوں مجھے طالبان کا طریق جہاد نہ صرِف صحابہ کرام (رِضوان اللہ تعالی اجمعین) کے طریقہ ءِجہاد سے مُختلف نظر آتا ہے بلکہ اُس جہاد سے متصادم نظر آتا ہے۔


جیسا کہ بُخاری شریف اور مسلم شریف کی کئی احادیث میں کافر بچوں، بُوڑھوں اور خواتین کو قصداً قتل کرنے کی ممانعت موجود ہے مگر یہ کافر بچوں اور خواتین تو کُجا۔ اسکولوں میں دَرس وتَدریس میں مشغول مسلمان بچوں، بچیوں اور خواتین کو قتل سے دریغ نہیں کرتے ۔جبکہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جو شخص لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے اس سے ہاتھ اور زبان کو روکنا۔ کہ ہم نہ تو کسی گناہ کی وجہ سے اسے کافر قرار دیں اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اسے اسلام سے خارج سمجھیں۔۔ (ابوداؤد)۔


صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو، بدعہدی سے بچو، ناک کان وغیرہ اعضاء نہ کاٹو، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو۔


مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم وزیادتی نہ کرو دُھوکہ بازی نہ کرو۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو،


بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوہ میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بہت بُرا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا،


اگرچہ ابتداءِ اسلام میں اسکی اِجازت باقی تھی لیکن جُوں جُوں وقت گُزرتا گیا یہ احکام بھی تبدیل ہُوتے رہے چُنانچہ حضرت علامہ کمال الدین ابن ہمام فتح القدیر کی جلد پنجم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ابتداءِ اسلام میں مشرک عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کردیا جاتا تھا۔ اِس لئے عورتوں سے بھی جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔ اور جب عورتوں کے قتل کا حُکم منسوخ ہوگیا تو جزیہ لینے کا حُکم بھی ساقط ہُوگیا۔


جبکہ موجودہ دُور کے طالبان نہ صرف کافروں کے بچوں اور عورتوں کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئےمسلمانوں کی مساجد اور مزارات پر حملوں کے ذریعہ بے گُناہ مسلمانوں کو بھی خُون سے نہلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ حالانکہ مومن کی تُو پہچان ہی یہی ہے کہ اُس سے دیگر مسلمان محفوظ و مامون رہیں۔


کہاں تو آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وسلم) کافروں کا مثلہ یعنی کان ناک کاٹنے سے روکیں اور کہاں یہ نام نہاد مجاھدین جنہوں نے کافروں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی لاشوں کو قبروں سے نِکال کر نہ صِرف مُثلہ کیا بلکہ اُنکی لاشوں کی بےحُرمتی کے بعد اُن لاشوں کو چوراہے پر لٹکادِیا۔ تاکہ مسلمانوں میں انکا خُوف اور دبدبہ قائم ہُوجائے۔ میرے ایک میجر دوست جنکی ڈیوٹی وزیرستان میں تھی۔ مجھے اکثر بتایا کرتے تھے۔ کہ افواجِ پاکستان کے سپاھی جب طالبان کے ہاتھ لگ جاتے تب کبھی کوئی ایسی لاش واپس نہیں ملتی۔ کہ جسکے اعضاء سلامت ہُوں۔


جبکہ ایسے اعمال میں ملوث افراد اور انکی امداد کرنے والے صاحبان کو بُخاری ، مسلم ، اور ابو داوٗد شریف میں موجود اس مشترکہ حدیث پاک کو دیکھنا چاہیئے جو لفظوں کے معمولی فرق کیساتھ تین مستند محدثین (رحم اللہِ اجمعین) نے بیان فرمائی ہے


حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضور سید عالم کی خدمت میں کچھ خام سونا مٹی میں لگا ہوا بھیجا تو آپ نے وہ چار آدمیوں میں تقسیم فرمادیا (یعنی اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عینیہ بن بدرالغزاری، زید الخیل طائی اور علقمہ بن علاثہ عامری کے درمیان) قریش اور انصار اس پر ناراض ہوئے اور کہاکہ نجد کے رئیسوں کو مال عطا فرمادیا اور ہمیں نظر انداز کردیا گیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں ان کے دلوں میں اسلام کی محبت ڈالتا ہوں۔ پس ایک آدمی آگے بڑھا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، گال پھولے ہوئے تھے، پیشانی ابھری ہوئی تھی اور داڑھی گھنی تھی اور سر مُنڈا ہُوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اﷲ تعالیٰ سے ڈر و۔(معاذ اﷲ) آپ نے فرمایا! اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کون کرے گا؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے تو مجھے زمین والوں پر امانت دار شمار فرمایا ہے، لیکن کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ پس ایک آدمی نے اسے قتل کرنے کا سوال کیا۔ میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ تھے، آپ نے منع فرمایا جب وہ لوٹ گیا تو آپ نے فرمایا اس کی نسل یا پیٹھ سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن مجید پڑھیں گے لیکن (قرآن) ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے نکلتے ہوئے ہونگے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیا کریں گے۔ اگر میں انہیں پائوں تو قوم عاد کی طرح مٹا کر رکھ دوں ۔


پھر جہاد کے اُصول و قواعد کو کوئی بھی حضرت ابوبکر صدیق و عُمرِ فاروق ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت خالد بن ولید (رِضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین)سے ذیادہ جاننے کا دعویدار نہیں ہُوسکتا اور بالفرض کوئی دعویٰ کرے تو اُس سے بڑا دُنیا میں کوئی جھوٹا نہ ہُوگا۔ اِن تمام جَیّد و کبائر صحابہ کرام نے فتوحُ الشام کے موقع پر اپنے متبعین کو یہی ہدایت جاری فرمائی کہ۔ کافروں کے بچوں، عورتوں، بُوڑھوں، درویشوں ، مذہبی رہنماوٗں کو قتل نہ کیا جائے اُنکی املاک کو جان بوجھ کر نشانہ نہ بنایا جائے، فصلوں میں آگ نہ لگائی جائے ،ہرے درختوں کو نہ کاٹا جائے۔ مگر ایک یہ طالبان ہیں جو مسلمان عورتوں کو سر بازار کوڑے مارتے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کی جان اور املاک کی ہلاکت پر خُوش ہُوتے ہیں۔ اسلحہ کی خریداری کیلئے مسلمان تاجروں کو اغوا کرتے نظر آتے ہیں۔ اور بعض اوقات اپنی ناقص پلاننگ سے تمام اُمت مسلمہ کو ہلاکت میں ڈالنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے قتل میں ملوث یہ نام نہاد مجاھدین ہندوستان گورنمنٹ سے امداد لینے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔


بابا یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان جو اتنے منظم ہیں وہ پلاننگ نہ کرتے ہُوں۔ میری ٹیچر بتارہی تھیں کہ اُنکی پلاننگ اتنی زبردست تھی کہ امریکہ کی تمام خُفیہ ایجنسیاں طالبان کا مُنہ دیکھتی رِہ گئیں اور طالبان نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو مٹی کا ڈھیر بنا دِیا۔


بیٹا ہُوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کو یہ بڑی ہمت اور بہادری کا کام لگتا ہُو۔ کہ تین سو مرد و عورت کو دو میناروں کیساتھ زمین بُوس کردِیا گیا ۔ اور امریکی دیکھتے رِہ گئے۔ لیکن اِس عمل کی مسلمان اُمہ نے جو قیمت ادا کی ہے وہ اُن ۲ ٹاوروں سے لاکھ گُنا زائد ہے۔ اسکے علاوہ امریکی اور یورپی مسلمان اس حادثے کی جو قیمت آج تک چُکارہے ہیں اسکے نقصان کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔


بیٹا فتاوٰی عالمگیری جو کہ مسلمانوں کی متفقہ فقہی کتاب ہے ۔اِسکی دوسری جلد میں علامہ نظام الدین جہاد کے مُباح ہونے کی دُو شرائط بیان فرماتے ہُوئے لکھتے ہیں۔


نمبر ۱ ۔دین کے دُشمن اسلام قبول کرنے سے انکار کردیں۔ اور دُشمنانِ اسلام اور مسلمانوں میں جنگ بندی کا کوئی معاہدہ بھی موجود نہ ہُو تب جہاد مباح ہوگا۔یا

نمبر۲ ۔مسلمانوں کو یہ توقع اور مکمل یقین ہُو کہ جنگ میں مسلمانوں کو کُفار پر غلبہ حاصِل ہوجائے گا۔ اگر مسلمانوں کو نہ ہی ایسی کوئی توقع ہُو ۔ اور نہ ہی فتح کامل کا یقین ہُو۔ تب اُنکے لئے کُفار سے جہاد جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ جب تک مسلمانوں کو جنگی سامان اور قُوت میں برتری حاصِل نہ ہُوجائے تب تلک کُفار سے لڑنا جہاد نہیں بلکہ خُودکشی ہے۔

اب بِیٹا آپ خُود فیصلہ کرو کہ طالبان کا امریکہ پر حملہ جہاد تھا ۔ یا بے وقوفی اور خُود کشی تھی۔ میں نے بیٹی کی جانب مُڑ کر دیکھا۔ تو وہ اُداس چہرے سے میری جانب تَک رہی تھی۔ مجھے اپنی جانب متوجہ دیکھ کر پھر گُویا ہُوئی۔ تو بابا۔ اسکا مطب یہ ہُوا کہ اب جہاد نہیں ہُوگا۔ اور آپ بھی اسمیں حِصہ نہیں لیں گے۔۔۔؟

کِیوں نہیں میری بَچی۔۔۔ جہاد کبھی موقوف نہیں ہُوتا۔ جہاد کسی ایک واقعہ کا نام تُو نہیں ہے۔ یہ تُو ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ جب جب ہماری سرحدوں پر کفر حملہ کرے گا۔ ہم اُن سے جہاد بالقتل کریں گے۔ اور جب ہم اِس قابل ہُوجائیں گے کہ کفر کے مُقابل میں عسکری قوت جمع کرپائیں تب یکجا ہُوکر اُنکی سرحدوں پر جاکر بھی اُنہیں للکاریں گے۔


لیکن اِس وقت تمام مسلم اُمہ کے عُلماءَ اور حُکمرانوں کی دینی اور مِلی ذِمہ داری ہے کہ وہ سب آپس کے تمام اِختلافات کو دُور کرکے باہمی رضامندی سے جہاد سے متعلق تعلیمات مُصطفےٰ پر از سرنو غور و فِکر کے بعد اُن تمام خرافات کو مجاھدین اسلام سے دُور کرنے کی کوشش کریں جُو جہاد کے نام پر رفتہ رفتہ مجاھدین کے اَذہان میں پیوستہ کردِی گئی ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ مسلمانوں کے نمائندہ بننے کے بجائے صرف ایک گروہ کی نمائندہ تنظیم بنتی چلی جارہی ہے۔
جِسے بعض اوقات مسلکی فوائد وبرتری کیلئے مساجد پر خُودکش حملوں کیلئےبھی استعمال کیا جانے لگاہے۔یہ اسلئے بھی بُہت ضروری ہے تاکہ کوئی جہاد کے نام پر اسلام کو بدنام نہ کرسکے۔ اُور یہ اسلئے بھی ضروری ہے ۔تاکہ جہاد اور دہشگردی میں فرق واضح ہُوسکے۔ اور مجاھدین میں نظم قائم کیا جاسکے ۔تاکہ ایک محاذ پر بالفرض مجاھدین کمزور پڑیں تُو اُنکی امداد کیلئے دوسرے مجاھِدین کو بھیجا جاسکے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ جہاد کیلئے حاکم شہر یا حاکمِ صوبہ یا حاکمِ مُلک بُلائے۔ یہ نہ ہُو کہ جسکا دِل چاہے اپنا ایک گروپ بنا کر جِہاد کے نام پر اپنی جیب گرم کرتا رہے۔اُور وہ تُو کمانڈر بن کر خود ائر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر اپنے بچوں کو آکسفورڈ یونیورسٹی بھیج دے۔ اور غریبوں کے بچوں کو جہاد کی ترغیب دیتا رہے۔

جبکه پاکستان میں موجود طالبان کا طریقه خوارج کے جد امجد  چھٹی صدی کے عظیم فتنہ گر حسن بن صباح اور احمد بن غطاش کی تعلیمات کا عکس نظر آتا ھے. جنہوں نے سینکڑوں علمائے کرام کو قتل کیا ۔۔ اُور مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگائے۔ اور اقتدار کی خواہش میں اسلامی فوج سے برسرپیکار رہے.. وه لوگ بھی کفار کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کرتے ھوۓ نظر آتے تھے اور یه لوگ بھی کفار سے جہاد کرنے کے بجاۓ مسلمانوں کو قتل کرتے ھیں... جبکه اسلام میں ایک انسان کے ناجائز قتل کو بھی تمام انسانیت کے قتل عام سے تشبیه دی گئ ھے... اس قسم کی حرکات دراصل  بیرونی قوتوں کے ایما پر۔۔اسلامی جہاد  کو اقوام عالم میں بدنام کرنے کی کوشش ھیں. تاکه جہاد کو اسقدر بدنام کردیا جاۓ که " کبھی کوئی جہادکا نام بھی اپنی زباں پر نه لاسکے  


باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسجد سے موذن کی صدا بُلند ہُونے لگی جو عصر کی نماز کا اعلان کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!لِہذا میں قُولی جہاد سے عملی جہاد کیلئے روانہ ہُونے لگا۔۔۔۔ اِس اُمید پر کہ اللہ کریم نے مزید توفیق عطا فرمائی تو مزید بھی اِس موضوع پر ناصِرف مطالعہ جاری رکھوں گا بلکہ جہاد بالعِلم بھی کرتا رَہونگا۔ انشاءَاللہ عزوجل

جہالت و ظُلم کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ انشاءَاللہ عزوجل


پلکوں سے دَرِّ یار پہ دستک دینا

اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا

2 comments:

  1. BHAI bohat achchi tashreeh ki dalail k saath ALLAH KAREEM tamam MUSALMANO ko munafiqon k shar say mehfooz rakhay,
    aameen.
    JZAK ALLAH

    ReplyDelete