bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Saturday 22 February 2014

تذکرہ اک پری کا قسط 25.علی پور کا مجذوب



تذکرہ اِک پری کا۔قسط ۔25۔ علی پُور کا مجذوب۔ 

گُذشتہ  سے پیوستہ۔   



اب عمران کو سمجھ آرہا تھا۔ کہ کیوں بابا صابر اُسے حضرت جمال ہانسوی کا عکس قرار فرمارہے تھے۔ عمران کی آنکھیں جہاں اِس غمناک واقعہ سے بھیگ رہی تھیں۔اُسکا  دِل  اپنے مُرشد کریم کی یاد میں مُرغ بسمل کی طرح  تڑپنے لگا تھا۔۔۔ عمران نے بھیگی پلکوں سے بابا صابر کی جانب جونہی دیکھا۔ تو بابا صابر نے بھرائی ہُوئی آواز میں عمران کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا۔ بیٹا دِل کی بات سُنو! اُور  ہمیشہ دِل کی ہی ماننی چاہیئے۔اَرےتُو ایک پری کیلئے جو قیمت دینے کو تیار ہُوگیا ہے۔۔۔۔ اگر اپنے  مُرشد کی عظمت کو جان لیتا۔ تو ایسی ہزار پریاں اُنکے قدموں پر نثار کردیتا۔

اَب  مَزید پڑھیئے۔ 
بابا  صابر صاحب صاف لفظوں  میں اُسے کوثر کی محبت سے دستبردار ہُونے کیلئے  کہہ رہے تھے۔۔۔ اگر یہ بات بابا صابر  کے عِلاوہ کسی اُور نےکہی ہُوتی تو شائد عَمران احمد وقاص اُس سے لڑ جاتا۔۔۔ لیکن یہاں آواز کی بُلندی تو کُجا ۔۔۔ دِل میں ادنیٰ سی بے ادبی کا تصور بھی محال تھا۔۔۔کہ،، اِس بات کا عمران کو کئی مرتبہ اِدارک ہُوچکا تھا۔کہ،، اللہ والوں سے دِل کی حالت بھی چھپی نہیں رِہتی۔۔۔ ایک طرف مُرشد کی ناراضگی کا خطرہ سمندر کی طغیانی  طرح  بڑھتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ دوسری طرف کوثر سےجدائی کےتصور ہی سے عمران کی رُوح کانپ کانپ جاتی تھی۔ عِمران سے جب کوئی بات نہ بن سکی تو اُس نے دِل کے غِبار کو آنکھ سے نِکال دیا۔

چند منٹ یونہی خاموشی کی نذر ہُوگئے۔ بابا صابر اگرچہ بے پرواہی کا مُظاہرہ کررہے تھے۔۔۔ گُویا اُنہیں خبر ہی نہ ہُو۔کہ عِمران کی آنکھیں ساون بھادوں کی طرح برس رہی ہیں۔۔۔ لیکن ذیادہ دیر تک بابا صابر عمران سے لاتعلق نہ رِہ سکے۔۔۔ اُور خاموشی کو توڑتے ہُوئے  فرمانے لگے۔۔۔ میں جانتا ہُوں  تُمہارے دِل کی جو حالت ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ،،  ہمیں عشق مجازی سے کوئی بیر ہے۔۔۔ بلکہ اکثر یہی عشق مجازی عشق حقیقی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔۔۔  مجنوں لیلی کو پُکارتے پکارتے واحد و یکتا کے دَر پر پُہنچ جاتا ہے۔۔۔لیکن یہ سفر اکیلے ہی طے کرنا پڑتا ہے۔ اِس  آتش  کے دریا میں تنہا ہی اُترنا پڑتا ہے۔۔ غم سہنے کا حوصلہ  اُور تکالیف پر صبر کرنے کا سلیقہ جنہیں نہیں آتا۔۔۔ وُہ راہِ عشق پر کبھی گامزن نہیں رِہ پاتے۔۔۔  اُور منزل پر پُہنچ کر ہُوش و خرد بچائے رکھنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔ اِسی لئے تو سالک کا مرتبہ مجذوب سے بڑھ کر ہُوتا ہے۔ کہ،، وُہ وصال کے بعد بھی خُود کو کھونے نہیں دیتا۔۔۔بلکہ  وصال یار کے ساتھ خود کا پتہ بھی ڈھونڈ لیتا ہے۔۔۔ گفتگو کرتے ہوئے بابا صابر شفقت سے عمران کے سر  پر شفقت سے اپنا ہاتھ پھیرنے لگے۔

بابا صاحب جب آپ میرے دِل کی حالت جانتے ہیں۔تو یہ بھی آپ جانتے ہیں۔کہ،، میں کوثر کے بنا زِندہ لاش بن کر رِہ جاوٗں گا۔۔۔  ایک دِن وُہ مجھے تلاش کرتی ہُوئی آئی تھی۔۔۔ لیکن اب مجھے ایسا لگتا ہے۔ جیسے میں اُسکو صدیوں سے ڈھونڈ رَہا ہُوں۔۔۔ لیکن منزل کی ایک جھلک دیکھ کر راستہ بھول گیا ہُوں۔۔۔ میں اُسکے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔۔۔ کیا آپ میری خاطر مُرشد کو راضی نہیں کرسکتے۔۔۔؟ عِمران نے بابا صابر کے ہاتھوں کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہُوئے التجا کی۔۔۔

بابا صابر صاحب  چند لمحے خاموش رہنے کے بعد عمران کے مغموم چہرے کو غور سے دیکھتے  ہُوئے گُویا ہُوئے۔۔۔  میں تمہاری خاطر ایک کوشش کرسکتا ہُوں۔ لیکن  تجھے یقین سے نہیں کہہ سکتا ہے۔ کہ کامیابی بھی یقینی ہُوگی۔۔۔ میں صرف مصالحت کی بھرپُور کوشش کروں گا۔۔۔ وُہ بھی صرف اِس لئے کہ،، میں نہیں چاہتا کہ،، کوئی  اُور جمالِ ہانسوی کی طرح  آزمائش کی بھٹی کی نذر ہُوجائے اُور سُلگتا رہے۔۔۔ لیکن تُم کو بھی مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہُوگا۔کہ،، اگر میں بابا صاحب کو اپنی بھرپُور کوشش کے باوجود بھی کوثر کے معاملے میں راضی نہیں کرپایا۔۔۔ تو تُم آئیندہ مجھ سے اِسکے لئے ضد نہیں کروگے۔۔۔

عِمران کیلئے یہ بات بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔کہ،، بابا صابر اُسکے لئے وکالت کریں گے۔۔۔  اُور عمران کا دِل گواہی دے رَہا تھا۔کہ،، بابا صابر  صاحبکی کوشش ضرور رنگ لائے گی۔ اُور  بابا صاحب کی کوشش کے نیتیجے میں کوئی نہ کوئی ضرور نرم راہ نِکل آئے گی۔۔۔ جسکی وجہ سے  کم از کم دَس برس کی سزا میں تخفیف ضرور حاصل ہُوجائے گی۔۔۔ اِس لئے عِمران نے خوشی خُوشی بابا صابر صاحب کی شرط کو قبول کرلیا۔۔۔

چند لمحے بعد بابا صابر صاحب نے درخت سے بندھی ایک پُوٹلی سے مچھلی کے چند فرائی ٹکڑے یہ کہتے ہُوئے  عمران کے سامنے رکھ دیئے کہ،،  چند دِن پہلے کوئی یہ مچھلی کھانے کیلئے دے گیا تھا۔ دِل چاہے تو کھالو۔ ورنہ واپس پُوٹلی میں رکھ دینا۔۔۔ عِمران نے  کچھ سُوچ کر احتیاط سے مچھلی  کے ایک ٹکڑے کے کونے سے ذرا سی مچھلی زُبان پر رکھ کر ٹیسٹ کی۔۔۔ تو عمران کو  ایسا لگا۔ جیسے مچھلی بالکل فریش ہُو۔ اُور یہ مچھلی تھی بھی نہایت لذیز۔۔۔ حالانکہ بابا صابر نے بتایا تھا۔کہ مچھلی کئی دِن پرانی تھی۔۔۔ عمران مزے لیکر مچھلی کھانے میں مشغول ہُوگیا۔۔۔ کیونکہ اب اُس نے حیران ہُونا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ مچھلی کھاتے ہُوئے اچانک ایک بات یاد آگئی سُو  عمران نے بابا صابر کو مخاطب کرتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔ بابا یہ مجذوب کسے کہتے ہیں۔ اُور کیا یہ بھی عام لوگوں کی طرح شعور رکھتے ہیں۔۔۔؟

بابا صابر نے مسکراتے ہُوئے عمران کی جانب دیکھا۔ اُور پھر فرمانے لگے۔۔۔ یہ بات ہر ایک کو بتانے والی نہیں ہے۔۔۔ لیکن تُم ہر ایک نہیں ہُو۔ اسلئے تمہیں بتائے دیتا ہُوں۔۔۔ دیکھو بیٹا سارے مجذوب  دِکھائی  دینے والے ہی مجذوب نہیں ہُوتے۔ کچھ تو اپنی جان چھڑانے کیلئے مجذوب کا بہروپ بھر لیتے ہیں۔ جیسے کہ،، بہلول دانا ۔ ایک زبردست فقیہ تھے۔ لیکن ہارون الرشید کی پیشکش سے بچنے کیلئے ساری زندگی  مجذوبیت کی چادر اُوڑھے رہے۔ دراصل عشق کی راہ میں جب کوئی وصال  کی  نعمت سے سرفراز کیا جاتا ہے۔۔۔ تب کچھ عشاق دیدار یار کے  حَسین جلوے برداشت نہیں کرپاتے۔ اُور مدہوش ہُوجاتے ہیں۔۔۔ جسے حالت سکر بھی کہا جاتا ہے۔ اِس حالت میں عاشق کو یار کے  جلووٗں کے سِوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔۔۔ سُو وُہ  جذب  و مستی کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ اُور مجذوب کہلاتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھار اپنی اصل حالت میں بھی لُوٹ آتے ہیں۔ اُور جو   وِصال پاکر بھی ہُوش کی طرف لُوٹ آئے۔۔۔ وُہ حکم کو بجالانے میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسلئے سالک کہلاتے ہیں۔

لیکن مجذوب بھی بے شعور و بے عِلم نہیں ہُوتا۔۔۔ یہ بھی بحر علم کے شناور ہُوتے ہیں۔۔۔ جب بولتے ہیں۔ تو صاحبان علم بھی اپنی گردنیں اُنکے آگے خم کردیتے ہیں۔۔۔   چلو میں تمہیں ایک مجذوب کا قصہ سُناتا ہُوں۔ تاکہ تمہیں عِلم ہُوجائے کہ ،، مجذوب بھی کتنے سیانے ہُوتے ہیں۔۔۔۔ عمران مچھلی کے تمام پارچے چٹ کرچکا تھا۔۔۔ اسلئے ہمہ تن گوش ہُوکر بابا صابر کی طرف متوجہ ہُوکر اَدب سے بیٹھ گیا۔


یہ اُن دِنوں کی بات ہے۔۔۔ جب پاکستان بنے ہُوئے ذیادہ برس نہیں گُزرے تھے۔۔۔پنجاب کے شہر علی پُور میں گندم کی فصل پک کر کٹائی کیلئے تیار ہو چکی تھی... چوہدری صاحب فصل کا معائنه کرنے کیلئے  اپنی جیپ پر سوار ہُو کر نکلے تھے. .. ایک موڑ سے گزرتے ہُوےٗ  چوہدری کی نظر علی پور کے مشہور مجذوب پر پڑی. جسکی آمد کی وجہ سے لوگوں کے دِلوں سے چُوہدری کا دبدبہ اُور خُوف ختم ہُوگیا تھا۔۔۔ اِس مجذوب نے گاوٗں کے تمام سہمے ہُوئے لوگوں کے  ذہن میں یہ بات ڈالدِی تھی کہ،، ڈرناصرف موسٰی کے رَب سے چاہیئے جو ناراض ہُوجائے تو عذاب دیتا ہے۔ اُور راضی ہُوجائے تو عدن میں دائمی سکونت فراہم کردیتا ہے۔ ۔۔جبکہ فرعون کسی بھی رُوپ میں ہُو ایک نہ ایک دِن مظلوموں ہی کی طرح مٹی  کے نیچے جا پُہنچتا ہے۔۔۔ نہ جانے اِس مجذوب کی صدا میں کیسا سحر تھا۔کہ رفتہ رفتہ تمام  غلام ذہن جاگنے لگے۔اُور جاگتے ہی چلے گئے۔۔۔ اُور آج وہی مجذوب چوہدری کے کھیتوں میں کھڑا ،،گندم کے ایک خوشه کو ہاتھ میں لئے کچھ بُڑبڑا رہا تھا۔۔۔

چوھدری نے ڈرایئور کو جیپ روکنے کا اشاره کیا .... اور  جیپ سے اُتر گیا۔مجذوب کے قریب پُہنچ کر   چُوہدری نےحقارت بھرے لہجے  میں طنزا" کہا.. بابے! کنک نوں کیہڑی کہا نیاں سُنا رِیا اے.۔.؟؟؟ ہُن کی فصل نُوں وی باغی کرن دا سُوچ رہے اُو۔۔۔

مجذوب نے  بڑی بےپروَاہی سے چوہدری کی جانب دیکھے بغیر کہا. خالق کی رزاقی دیکھ حیران ہُو رہَا ہُوں که،، کسطرح ملتان کے سرخ ککڑ (مرغ) کیلئے علی پور میں  ایک ظالم کے سائے میں رِزق کاانتظام فرما رہا ہے۔۔۔
تینوں وڈی غیب دی خبراں مل ریاں نیں... لیکن اَج میں تینوں جھوٹا ثابت کردیاں گا..... یہ کہه کر چوھدری نے مجذوب کے ہاتھ سے گندم کا سُٹه چھین کر اپنی ہتھیلیوں پر مسَلا اور مُنہ میں  پھانک لیا۔۔۔

چوہدری نے قہقه لگا کر مجذوب کی جانب فاتحانہ نظروں سے دیکھا،، جیسے پوچھ رہا ھو۔ که،، بابے بتا اب ملتان کا سرخ مرغ کیسے ان دانوں کو کھاۓ گا جسے میں نگل چکا ہُوں۔۔۔

جوابا" مجذوب نے بھی قہقه لگاتے ھوۓ ترکی به ترکی جواب دیا،، مخلوق کی کیا مجال جو خالق کے کاموں میں دخل دے سکے. اتنا کہه کر وُہ مجذوب بھی  ایک طرف چل پڑا۔۔۔۔

چوہدری کا چہره مجذوب کا جواب سن کر غصے سے سرخ پڑگیا اہانت کے احساس نے اسکی گردن کی رگوں کو پھلا دیا... چُوہدری نے   مجذوب کو پکڑنے کیلئے  اپنے مزدروں پر چیخنا چلانا چاہا...لیکن کھانسی کے ٹھسکے نے اسے مہلت نہ دی... کھانسی کی شِدت کی وجہ سے چوہدری اپنا گلا پکڑ کر زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔ اِس سے پہلے کہ،، چوہدری کے پالتو غنڈے  مجذوب کو دبوچتے۔۔۔ چوہدری کی حالت بگڑنے لگی۔۔۔ اُور  چند سیکنڈ میں چوہدری پر بیہوشی طاری ہُوگئی۔۔۔

چُوہدری کے مُلازم چُوہدری کی حالت دیکھ کر گھبرا گئے۔۔۔۔ کسی نے ڈرتے ڈرتے مشورہ دِیا۔۔۔ شائد چُوہدری صاحب کو مِرگی کا دُورہ پڑا ہے ۔ انہیں جُوتی سُنگھانی چاہیئے۔۔۔ کافی دیر تک ایک ہاری اپنا  غلیظ جُوتا چُوہدری کی ناک سے مَسلتا رَہا۔ لیکن چوہدری ہُوش میں نہیں آیا۔۔۔ پھر کسی نے آواز لگائی۔ اُو بے وقوفوں۔۔۔ یہ مِرگی نہیں کوئی اُور ہی معاملہ ہے چُوہدری صاحب کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے چلو۔۔۔

علاقے کے ڈاکٹر نے چوہدری صاحب پر کافی طبع آزمائی کی۔لیکن کوئی فائدہ نہ دیکھ کر مظفر گرھ لیجانے کا مَشورہ دِیا۔۔۔۔ چوہدری صاحب کے بھاری بھرکم جسم کو جیسے تیسے دُوبارہ جیپ میں ٹھونس کر مظفر گڑھ کے اسپتال میں پُہنچادِیا گیا۔۔۔ دُوپہر سے شام تک۔۔۔اُور شام سے رات تک  مظفر گڑھ کے داکٹرز چوہدری صاحب کو ہُوش میں لانے کی  ناکام سعی کرتے رہے۔۔۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے چار پات کی صورت رَہا۔ یہاں تک کہ مظفر گڑھ کے ڈاکٹرز نے بھی جواب دیتے ہُوئے۔ اپنے سر کی بلا ملتان والوں کے سر ڈالدی۔۔۔۔ غریب  ڈرائیور اُور  چُوہدری کے منیجر کی سمجھ میں  کچھ نہیں آرہا تھا۔کہ،، اَب چوہدری صاحب کو  ملتان کے کس ہاسپٹل میں  لیجایا جائے۔ پھر ایک مزارعے نے بتایا کہ ملتان کے سول ہسپتال میں ایک بڑے ذہین ڈاکٹر صاحب موجود ہُوتے ہیں۔کیوں نہ چوہدری صاحب کو اُنہیں دِکھایا جائے۔۔۔

رات  دَس بجے ملتان سِول ہسپتال پُہنچ کر پتہ چلا کہ،، ڈاکٹر صاحب کی ڈیوٹی صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک ہُوتی ہے۔۔۔ ناچار اُن لُوگوں نے چُوہدری صاحب کو سِول ہسپتال میں ایڈمِٹ کروادیا۔۔۔ لیکن گیارہ بجے تک چُوہدری صاحب کی حالت باوجود کوشش کے  مزیدبگڑنی شروع ہُوگئی۔۔۔ قریب کے ایک مریض نے ساتھ آنے والے سے جب ماجرا معلوم کیا۔۔۔ تو اُس نے مشورہ دیتے ہُوئے کہا،، لگتا ہے آپکے مریض کے حلق سے گندم کے دانے دِماغ کی جانب چَڑھ گئے ہیں۔۔۔ اگر میرا مشورہ مانو! تو صبح تک انتظار کرنے کے بجائے اپنے مریض کو حکیم سلمان صاحب کو دِکھادُو۔۔۔ اللہ کریم کے ہاتھ میں بڑی شِفا دِی ہے۔ایسے مسئلے وُہ مِنٹوں میں حل کردیتے ہیں۔۔۔

 بات چوہدری صاحب کےمنیجر کے دِل کو رَاس آگئی تھی۔۔۔ سُو اُس نے حکیم صاحب کا ایڈریس سمجھ کر اُسی وقت حکیم صاحب  کے گھرکی رَاہ لی۔ اُور رات ساڑھے گیارہ بجے حکیم صاحب کو کچی نیند سے اُٹھا کر تمام ماجرا سُنایا۔۔۔ حکیم صاحب بھی نہایت خُدا ترس بندے نِکلے۔ علاج کی حامی بھرتے ہُوئے کہنے لگے۔۔۔ میاں تُم مریض کو یہاں لے آوٗ۔ جب تک میں کچھ دوا تیار کئے لیتا ہُوں۔۔۔

پندرہ منٹ بعد چوہدری صاحب کو جیسے تیسے حکیم صاحب کے گھر سے ملحق مطب میں پُہنچادیا گیا۔۔۔ حکیم صاحب نے چُوہدری صاحب کا معائینہ کرنے کے بعد ایک دوائی کی بوتل اُور خالی تگاری منیجر صاحب کو تھماتے ہُوئے ہدایات دیں۔۔۔ کہ،، ہر آدھے گھنٹے بعد دُو چمچ دوائی  مریض کے حلق میں انڈیلتے رہیئے۔ چند گھنٹوں کے اندر مریض کو اُلٹی آئے گی۔۔  جِسے تگاری میں لیکر  مطب سے کچھ فاصلے پر کچرا کنڈی تک پھینک آیئے گا۔۔۔

فجر کی آذان سے کچھ لمحے قبل  مسلسل دوائی  چوہدری صاحب کے حلق میں انڈیلنے کا ثمر نظر آیا۔ اُور واقعی چُوہدری صاحب کو ایک لمبی قے آئی جسکی بدبو ناقابل برداشت تھی۔ منیجر کے حکم پر ایک مزدور نے وُہ قے تگاری میں سمیٹ لی۔ اُور کچرہ کنڈی کی نذر کردی۔۔۔ فجر کی آذان کے ساتھ  ہی چُوہدری صاحب کو ہُوش آگیا۔۔۔ لیکن اُنہیں کچھ بھی یاد نہیں تھا۔۔۔۔ جب اُنہیں تمام تفصیلات سے آگاہ کرتے ہُوئے بتایا گیا کہ،، کسطرح آپکو غشی کا دُورہ پڑا تھا۔۔۔ اور کسطرح علی پور سے مظفر گڑھ اُور مظفر گڑھ سے ملتان لایا گیا ہے۔۔۔ تو چوہدری نے اپنا سر دُونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔ تھوڑی دیر میں سپیدہ پھیلنے لگا جسکی روشنی میں تیرگی اپنے لئے جائے پناہ تلاش کرنے لگی۔۔۔

چوہدری  نے کچھ سُوچتے ہُوئے مغموم لہجے میں منیجر سے فرمائش کی۔۔۔ مجھے وُہ جگہ دیکھنی ہے،، جہاں  قے والی تگاری خالی کی گئی ہے۔۔۔ نقاہت کی وجہ سے چُوہدری سے اُٹھا نہیں جارَہا تھا۔لیکن چُوہدری اپنی فرمائش پر بَضد تھا۔۔۔ لِہذا دُو کارندوں نے بڑھ کر چُوہدری کا سہارا دِیا۔۔۔ بڑی مشکل سے چند قدموں کا تھکا دینے والا یہ سفر جب  اپنے  اِختتام کو پُہنچا۔ تو چُوہدری یہ دیکھ کر حیران رِہ گیا۔کہ،، کچرہ کُنڈی پر موجود ایک سُرخ مُرغ   اُلٹی میں لِتھڑے ہُوئے گندم کے دانے اپنی چُونچ سے صاف کر کر کے کھا رَہا تھا۔۔۔ اُور چُوہدری کے کانوں میں مجذوب کا یہ فقرہ گُونج رَہا تھا ۔کہ،، مخلوق کی کیا مجال جو خالق کے کاموں میں دخل دے سکے. ،،گندم کے یہ دانے تو سُرخ کُکڑ ہی کھائے گا!!!۔

بابا صابر خاموش ہُوئے تو عِمران بھی چونک کر اِس سحر آفرین داستان کے کرداروں سے واقف ہُوکر واپس اپنی دُنیا میں لُوٹ آیا۔ اُس پر آج بابا صابر کا اِک نیا  رُوپ ظاہر ہُوا تھا۔ کیونکہ کہانی سنتے ہُوئے عِمران کو یُوں محسوس ہورہا تھا۔ جیسے وُہ بابا صابر کے ساتھ باغ میں بیٹھنے کے بجائے اپنے کالج کی کلاس میں بیٹھا اُردو ادب کے لیکچرار سے شستہ اُردو میں کوئی ناول سُن رہا ہُو۔۔۔

جاری ہے۔۔۔

اُسکی الفت کا مزاہ سب سے الگ سب سے جُدا
جیسے سُورج کی تپش روکتی ہے کُوئی رِدا
جیسے ساقی نے پَلائی ہُو کسی تشنہ کو شراب

جیسے ٹل جائے کسی عاصی کے سر پہ سے عذاب .

3 comments:

  1. شکریه ارشاد محمود بھائی

    ReplyDelete
  2. Asslam o alykum
    BHAI bohat achchi story hai. our ALLAH WALON ki kia BAAT hai.
    JZAK ALLAH BHAI

    ReplyDelete