عشق کے رنگ شیخ صنعان کے سنگ قسط ۸
گُذشتہ سے پیوستہ۔
سُنت الہیہ میں یہ راز پُوشیدہ کردیا گیا۔۔۔ کہ،، دشمن کے
حقوق کی بھی حفاظت کی جائے۔ اُور معاہدے
کو چُھپایا بھی نہ جائے۔۔۔ چاہے اُس معاہدے کے اِظہار سے بظاہر دُشمن کو کتنا ہی فائدہ پُہنچنے کا
اندیشہ نہ ہُو۔۔۔ اُور نہ ہی دُشمن پر جبر کیا جائے تاآنکہ وُہ خُود معافی کا
طلبگار بن کر نہ آجائے۔ اُور نہ ہُی اُسکے تذکرے کو دبایا جائے۔بلکہ جسطرح دُوست
کی باتوں کو اہمیت دِی جاتی ہے۔۔۔ دُشمن کی باتوں کو بھی نمایاں کیا جائے۔۔۔۔
اسلئے جب بھی اللہ کریم کے پسندیدہ بندے انبیا کرام علیہ
السلام کی شکل میں مبعوث ہُوتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے اللہ کریم کی سُنت کے
احترام میں دُشمنوں کو تمام رعایت دی ہیں۔۔۔ اُور یہی حال اُولیائے کرام کا بھی
ہے۔ اُن سے یہ ممکن ہی نہیں کہ،، وُہ اللہ کریم کی سُنت کو نہ اپنائیں۔۔۔ اسلئے جب
کروڑوں اُولیائے کرام کے مقابلے میں ایک شخص نے سیدنا غُوث الاعظم کی
سیادت کو چیلنج کیا۔ تو آپ نے سُنت اِلہیہ
پر عمل کرتے ہُوئے کروڑوں کے مقابلے میں اُس مُخالف پر نہ جبر کیا۔ اُور نہ ہی اُسے
غیر اِہم سمجھا۔۔۔ بلکہ اُسے بھی خاص طُور پر نمایاں لفظوں سے اپنے کلام کی بدولت
ہمیشہ کیلئے اَمر کردیا۔۔۔
اَب مزید پڑھیئے۔
اگرچہ اَبو یوسف
ریحان کی گفتگو سے شیخ فرید اُور شیخ محمود دُونوں ہی ُبہت محظوظ ہُورہے تھے۔۔۔لیکن رات کافی گُزر جانے
اُور سفر کی صعوبت کے اثرات ابو یُوسف کے چہرے پر تھکن کی صورت میں نظر آنے لگے تھے۔ جِسے محسوس
کرنے کے بعد شیخ فرید نے ابو یوسف ریحان
کیلئے بستر دراز کردیا۔ بستر پر پُہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ابو یُوسف رِیحان نیند کی گہری
وَادیوں میں داخل ہُوگیا۔۔۔۔ اُور صبح فجر کی نماز کے بعد اجازت طلب کرتے ہُوئے یہ کہتے ہُوئےروانہ ہُوگیا۔کہ،، شہر تبوک میں لُوگوں سے مُلاقات کے بعد وُہ جلد اگلے سفر
کیلئے روانہ ہُونا چاہتا ہے۔۔۔ شیخ فرید اُور شیخ محمود سے بغلگیر ہُوتے ہُوئے ابو
یوسف نے اِن دُونوں سے یہ استدعا بھی
کی۔کہ،، اگر کبھی آپ لُوگوں کا بغداد آنا
مقدر ٹہرے تو مجھے بھی ضرور خدمت
کا موقعہ دیجئے گا۔
ابو یوسف کے چلے جانے کے بعد شیخ محمود نے شیخ فرید کو
مخاطب کرتے ہُوئے کہا،، فرید نجانے کیوں لیکن مجھے ابو یوسف کی باتوں سے بُہت خُوف
محسوس ہُورہا ہے۔۔۔ رات اُسکی گفتگو سُنتے ہُوئے مجھے بار بار ایسا محسوس ہُوا ،
جیسے وُہ ہمارے شیخ کے متعلق ہی باتیں کررہا ہُو۔کیا تمہیں ابو یوسف کی گفتگو سے
خُوف محسوس نہیں ہُوا۔؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ
حال تو میرا بھی تُم سے قدرے مختلف نہیں تھا محمود بھائی لیکن میں یہ سُوچ
کر اپنے دِل کو تسلی دیتا رَہا۔کہ،، آخر ایک
کردار کہاں تک کہانی کے سانچے میں خُود کو ،، ڈھال سکتا ہے۔ کبھی نہ کبھی تو بڑے کردار نبھانے والےبھی غلطی کرہی جاتے ہیں۔ شائد اسی
لئے بُزرگانِ دین ہمیشہ خالق سے توفیق کی استمداد طلب کرتے رِہنے کیلئے
زُور دیتے رِہتے ہیں۔ شیخ محمود کے استفسار پر شیخ فرید نے کچھ سُوچتے ہُوئے جواب
دیا۔۔۔ لیکن محمود بھائی کل رات کی تمام
باتوں کے بعد میں نے خُود سے ایک عہد ضرور کیا ہے۔کہ،، ہمارے شیخ کے ہم پر بے پناہ
اِحسانات ہیں جو ہم سے تقاضہ کرتے ہیں۔کہ حالات چاہے کتنے ہی کیوں نہ بگڑ جائیں۔
کم از کم میں اپنے شیخ کو اِس امتحان کے
وقت تنہا نہیں چھوڑوں گا۔
فرید میرے بھائی ! خُدا گَواہ ہے۔کہ،، کل رات ایک ایسا ہی
عہد و پیمان میں نے بھی خُود سے بستر پر
جانے سے قبل کیا ہے۔ اُور انشا اللہ اِس معاملے میں تُم مجھے بھی پیچھے ہٹتا نہیں
دِیکھو گے۔۔۔ شیخ محمود نے جذباتی لہجے میں جواب دیتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد
دروازے پر دستک کی آواز سُنائی دی۔۔۔ شیخ محمود نے بڑھ کر دروازہ کھولا تو شیخ
صنعان کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر عرض کرنے لگا۔یا شیخ آپ نے زحمت کیوں فرمائی آپ
کسی غلام کو اِرشاد فرمادیتے ۔ ہم خُود
آپکی خِدمت میں حاضر ہُوجاتے۔۔۔۔محمود پیاس کی میزان بھی بدلتی رِہتی ہے۔۔کبھی
پیاسہ کنویں کا متلاشی ہُوتا ہے۔ اُور کبھی کُنواں اپنی پیاس مٹانے کیلئے تشنہ نظر
آتا ہے۔۔۔ یہی زندگی کے رَنگ ہیں۔۔۔ جو کبھی پیاسے کو دُوڑاتے ہیں۔ تو کبھی کُنویں
کو۔۔۔ شیخ صنعان کُھوئے کھوئے لہجے میں
محمود کو جواب دیتے ہُوئےاندر حجرے میں داخل ہُوگیا۔
کل ساری رات میں
تُم دُونوں کے انتظار میں جاگتا رَہا ہُوں۔۔۔۔کیا تُم لوگوں نے کوئی ایسی تدبیر سُوچی ہے۔کہ،، جِس سے میرے دِل کی
بیقراری کو قرار حاصل ہُوجائے۔۔۔شیخ صنعان نے فرید و محمود کےچہروں کو تکتے ہُوئے
استفسار کیا۔۔۔؟؟؟۔۔محترم شیخ ہم اِسی
تدبیر کے ادھیڑ بن میں ہر لمحہ کُوشاں ہیں۔ اُور خُلوص دِل سے یہی چاہتے ہیں۔ کہ،،
آپکی خُواہش کو کسی بھی طرح حقیقت کے جامے میں
آپ کے سامنے پیش کریں۔۔۔۔لیکن شیخ
محترم ہم اِس کوشش میں ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ اتنا کہنے کے
بعد شیخ فرید نے اپنی کاوشوں کی تمام داستان
شیخ صنعان کے گُوش گُزار کرتے ہُوئے تمام کہانی بشمول یہودی اور ٹریسا کے جوابات کیساتھ نہایت اَدب سے شیخ
کو سُنا دالی۔
ہُم ٹھیک ہے۔۔۔ تُم دُونوں نے واقعی اپنی ذمہ داری اِحسن
انداز میں بھرپور طریقے سے نبھانے کی کوشش
کی ہے۔شائد میرے نصیب میں ابھی کُچھ مزید امتحان باقی ہیں۔۔ لیکن میں یہودی کے
اِنکار کے باوجود بھی تبوک سے خالی ہاتھ لُوٹ کر نہیں جاونگا۔۔۔لیکن میں یہ بھی
نہیں چاہتا کہ،، میری وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں مخلوق خُدا بے سروسامانی کی
حالت میں پریشان ہُوں۔ اسلئے میں چاہتا ہُوں۔کہ،، تُم دُونوں اپنے ساتھیوں کے
ہمراہ بیت المقدس کی جانب کُوچ کرجاوٗ۔ اگر میرے مقدر نے یاوری کی تو میں بھی جلد
تُم لوگوں سے آ مِلوں گا۔۔۔ وگرنہ یہیں کُوچہ یار میں مرنے کو ترجیح دُونگا۔۔۔ شیخ
صنعان دِل گرفتہ لہجے میں کہتا ہُوا واپس لُوٹ گیا۔۔۔ شیخ فرید اُور شیخ محمود کی
آنکھوں سے آنسو وں کا ریلا بہنے لگا تھا۔ لیکن اُنکی زُبان پر جیسے قفل پڑے تھے۔۔۔
وُہ دُونوں اپنے شیخ کو مَلول و دِل گرفتہ
حالت میں لُوٹتا دیکھتے رہے۔ لیکن ایک بھی جملہ اُنکی زُبان سے نہ نِکل سکا۔
شیخ صنعان کے دِل پر یہودی کے انکار کا نجانے کیسا اثر ہُوا تھا۔۔۔۔کہ،، وُہ شیخ فرید کے حجرے سے نِکل کر سیدھا ٹریسا کے
گھر کے عین سامنے جاکر زمین پر نظریں جما کر بیٹھ گیا۔۔۔ لُوگوں نے جب اصفہان کے
مشہور شیخ اعظم کو ٹریسا کے دروازے کے عین مقابل زمین پر بیٹھے دیکھا تو اُنہیں
بُہت تعجب ہُوا۔ لیکن کِسی میں بھی اِتنی
ہمت نہیں تھی۔کہ،، وُہ شیخ صنعان سے اِس طرح زَمین پر بیٹھنے کا سبب معلوم کرسکے۔۔
تھوڑی دیر میں بات اِمام جامع مسجد تک پُہنچی تو وُہ خود وَہاں پُہنچ گئے
اُور شیخ سے ماجرا معلوم کیا۔۔۔ شیخ صنعان پر یاسییت نے قبضہ جمالیا تھا۔۔۔ اُس نے اپنی عزت اُور رُتبے کا ذرا بھی خیال نہ کیا ۔۔اُور
اپنے دِل کا تمام ماجرا سُناتے ہُوئے آخر میں کہا۔ کہ،، ٹریسا میری زندگی کی ڈُور ہے
جسکے بنا میں اب ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ
سکتا۔۔۔ گلی کے چند منچلے نوجوانوں کے کانوں
نے بھی یہ جملے سُن لئے۔ اُور تھوڑی دیر
میں ہی اصفہان کا عظیم درویش تبوک کی
گلیوں میں صرف ایک مذاق بن کر رِہ گیا۔۔۔
اِمام مسجد نے حالات کا یہ رُخ دیکھ کر وَہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت دیکھی۔ اُور
خاموشی سے شیخ صنعان کو منچلے نوجوانوں کے
رِحم و کرم پر چھوڑ کرنِکل گئے۔ اب گلی
میں شیخ صنعان تھے اُور چند آوارہ نوجوان جنہوں نے شیخ
صنعان کا تماشہ بنا لیا تھا۔
یہودی گھر واپس آیا تو اپنے گھر کے سامنے لڑکوں کی بھیڑ دیکھ کر رُکا۔ لیکن جب نوجوان نے
باآواز بُلند پھبتیاں کسنا شروع کردیں تو یہودی یہ سُوچ کر گھر میں داخل
ہُوگیا۔۔۔۔ کہ،، جلد ہی شیخ نوجوانوں کی شرارت کے باعث یہاں سے چلا جائے گا۔۔۔
وگرنہ شہر کے قاضی کی مدد سے اِس مصیبت سے جان چُھڑالُوں گا۔۔۔۔ اِتفاقاً اُسی وقت
قافلے سے چند لُوگ شیخ صنعان سے قافلے کے کُوچ کی بابت معلوم کرنے کیلئے شہر میں
آئے تھے۔ اُنہوں نے جب اپنے شیخ کی یہ حالت دیکھی۔ تو قافلے میں واپس پُہنچ کر
دُوسروں تک بھی یہ بات پُہنچا دی۔ جِسکے سبب تمام قافلے میں چہ میگویوں کا بازار
گرم ہُوگیا۔ اُور لُوگ شیخ صنعان کی حرکت سے بدظن ہُوکر آپس میں ایک دُوسرے سے
مشورے کرنے لگے۔
جاری ہے۔
ALLAH KAREEM HAM PER REHAM FARMAYAY.
ReplyDeleteJZAK ALLAH.