bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Tuesday 19 March 2013

عشق کے رنگ شیخ صنعان ۹



یہودی گھر واپس آیا تو اپنے گھر کے سامنے   شیخ صنعان کے گرد لڑکوں کی بھیڑ دیکھ کر رُکا۔ لیکن جب نوجوان نے باآواز بُلند پھبتیاں کسنا شروع کردیں تو یہودی یہ سُوچ کر گھر میں داخل ہُوگیا۔۔۔۔ کہ،، جلد ہی شیخ نوجوانوں کی شرارت کے باعث یہاں سے چلا جائے گا۔۔۔ وگرنہ شہر کے قاضی کی مدد سے اِس مصیبت سے جان چُھڑالُوں گا۔۔۔۔ اِتفاقاً اُسی وقت قافلے سے چند لُوگ شیخ صنعان سے قافلے کے کُوچ کی بابت معلوم کرنے کیلئے شہر میں آئے تھے۔ اُنہوں نے جب اپنے شیخ کی یہ حالت دیکھی۔ تو قافلے میں واپس پُہنچ کر دُوسروں تک بھی یہ بات پُہنچا دی۔ جِسکے سبب تمام قافلے میں چہ میگویوں کا بازار گرم ہُوگیا۔ اُور لُوگ شیخ صنعان کی حرکت سے بدظن ہُوکر آپس میں ایک دُوسرے سے مشورے کرنے لگے۔

اَب مَزید پڑھیئے۔
شیخ صنعان کو ٹریسا کے گھر کے سامنے ڈیرہ جمائے  کئی دِن گُزر چُکے تھے۔ محلے کے منچلوں نے بھی رفتہ رفتہ شیخ صنعان کی خاموشی اُور بے توجہی کے سبب  اُسے ستانا چھوڑ دیا تھا۔  شیخ صنعان  کے ہمراہ بیت المقدس کو جانے والے مُریدین  بھی  دھیرے دھیرے شیخ صنعان کو چھوڑ کر جا چُکے تھے۔ اُن میں سے صرف چند ہی لُوگوں نے بیت المقدس کے سفر کو جاری رکھا باقی اکثریت  یہ کہہ کر اپنے وطن کو لُوٹ چُکی تھی۔ کہ ،، جب رَاہنما ہی گُمراہ  ہُوگیا تو نشان منزل بھلا کُون بتائے گا۔ صرف شیخ محمود ، اُور شیخ فرید تنہا اِس آس پر تبوک  میں  موجود تھے۔ کہ،، جلد  یا بدیر کوئی کرشمہ نمودار ہُوگا۔ اُور شیخ واپس اپنی اصل حالت میں لُوٹ آئیں گے۔

    بظاہر تمام معملات پُرسکون دِکھائی دے رہے تھے۔ البتہ ٹریسا کا بُوڑھا باپ اِن تمام حالات سے اندر ہی اندر کُڑھے جارہا تھا۔ وُہ اِس ناگہانی مصیبت سے نمٹنے کیلئے کسی ایسی تدبیر کی تلاش میں تھا۔کہ،، جس سے سانپ بھی مَرجائے اُور عزت کی بیساکھی بھی برقرار رہے۔ گُزشتہ شب اِسی سُوچ و بچار کے دُوران اُسکے ذہن میں ایک شیطانی منصوبے نے جنم لیا تھا۔ جِسے عملی جامہ پہنانے کیلئے اُسے آج شیخ صنعان سے گفتگو کرنی تھی۔۔۔۔۔ بُوڑھے یہودی نے ایک مُلازم کے ذریعے سے شیخ صنعان کو خفیہ پیغام بھیجا تھا۔ کہ،، میں ٹریسا کے معاملے میں تُم سے رات  تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہُوں۔۔۔

شیخ صنعان کو جب سے بُوڑھے یہودی کی جانب سے مُلاقات کا پیغام مُوصول ہُوا تھا۔ اُسے  یقین ہُوچلا تھا کہ قُدرت  بلاآخر اُس پر مہربان ہُوچکی ہے۔ اُور بوڑھا یہودی اُسکی استقامت اُور سچی طلب کا قائل ہُوچکا ہے۔ اُور شائد اب وُہ ٹریسا کا ہاتھ اِسکے ہاتھ میں دینے کیلئے ذہنی طُور پر تیار ہُوچُکا ہے۔۔۔۔  رات ڈھلتے ہی بُوڑھے  یہودی کا ملازم گھر سے نمودار ہُوا۔ اُور گلی کا جائزہ لینے کے بعد شیخ صنعان کا بازُو پکڑے عجلت میں دُوبارہ گھر میں داخل ہُوگیا۔ مہمان خانے میں بُوڑھا یہودی شیخ صنعان کا منتظر تھا۔  شیخ پر نگاہ پڑتے ہی بوڑھے یہودی نے سپاٹ لہجے میں اُسے اپنے سامنے والی نشست پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ کافی لمحے بیت گئے لیکن کمرے میں ایسی خاموشی  طاری تھی۔جیسے یہاں کوئی موجود ہی نہ ہُو۔ شیخ صنعان نظریں جھکائے یہودی کے کلام کا منتظر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آخر کار یہودی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہُوئے شیخ کو مُخاطب کیا۔ سُنا ہے اصفہان سے  لیکر  جزیرہ  ٗعرب تک آپکے ہزاروں یا شائد لاکھوں پیروکار مُوجود ہیں۔ جو آپکو اپنا مذہبی اُور رُوحانی  پیشوا مانتے ہیں؟؟؟۔۔۔۔ ہاں کبھی ایسا  تھا۔۔۔۔ لیکن اب ایسا  مُعاملہ نہیں ہے۔ اُور نہ ہی مجھے اِس بات کی کوئی خاہش ہے کہ،، میری پیروی کی جائے۔ شیخ صنعان نے مختصر جواب دیتے ہُوئے کہا۔

آپ کیا چاہتے ہیں۔ یا آپ کس رتبے کی حامل شخصیت ہیں۔ اگرچہ براہِ راست مجھے بھی اِس بات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن آپ نے اتنا گیان  و مرتبہ حاصل کرنے کے بعد بھی مجھ غریب کو  جس طرح سے تمام تبوک میں تماشہ بنا کر رکھ دِیا ہے۔  یہ بات ضرور میرے لئے انتہائی تکلیف کا باعث ہے۔میں  ایک جوان بیٹی کا باپ ہُوں  اُور  میں نہیں چاہتا کہ،، میری بیٹی کا نام ایک غیر مذہب کے  بوڑھے شخص کیساتھ جُوڑا جائے۔  یااُسے  میری بیٹی کے عاشق کے طور پر پہچانا جائے۔ اگر آپکو اپنی عزت کا خیال نہیں ہے۔ تو اِسکا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے۔کہ،، آپ دُوسروں کی عزت کو سرعام نیلام کریں۔۔۔۔

میں ٹریسا کو بدنام کرنے سے قبل موت کو ترجیح دُونگا۔ رَہا سوال عِلم و فضیلیت کا تو یقین جانیئے اگر میں   صرف نکاح کی خاہش کا اظہار ہی کردیتا تو فارس سے عرب تک کے سردار ، و، سرمایہ کار اپنی بچیوں کے رشتے دینے میں ایک دوسرے پر ضرور سبقت لیجانے کی کوشش کرتے ۔لیکن میرے دِل میں کبھی اِسطرح  گھر بسانے کا خیال ہی نہیں آیا۔ پہلے میرا خیال تھا کہ،، زندگی اتنی مختصر ہے۔ کہ،، بیک وقت  عاشق ۲ معشوقوں کی محبت کا متحمل نہیں ہُوسکتا۔ لیکن ٹریسا کو دیکھنے کے بعد نہ جانے کیوں میرا خُود پر کوئی اختیار نہیں رَہا۔  حالانکہ میں نے دُنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین چہرہ دیکھا ہے۔ لیکن کوئی نقش میرے وجود کی پاکیزگی میں ہلچل برپا نہیں کرسکا۔ ۔۔۔ اسلئے میرے مہربان مجھ پر طنز و تشنیع کے تیر برسانے کے بجائے میری تکلیف کو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔ یقیناً ٹریسا کو  نہایت خوبرو نوجوان جیون ساتھی میسر آسکتا ہے۔ جو اُسے بہت ذیادہ چاہے۔۔۔ لیکن میں ٹریسا کے خیال سے کسی بھی صورت دستبردار نہیں ہونگا۔ اگر آپ نے ٹریسا کا ہاتھ مجھے تھمادیا  تو میں تمام زندگی آپکا مشکور رَہوں گا۔ اُور اگر آپ نے مجھے دھتکار دِیا تب بھی میں زندگی کی آخری سانس تک ٹریسا  کو پانے کی جستجو کرتا رَہوں گا۔۔۔۔ گفتگو کرتے ہُوئے شیخ صنعا ن کی آواز بَھَّرانے لگی تھی۔

میں ایک ایسے بے وطن شخص پر جِسے نہ میں  جانتا ہُوں ۔ جو  نہ ہی  میرا ہم مذہب ہُو۔ میں  اُس پرکسطرح بھروسہ کرسکتا ہُوں۔ کہ،، وہ میری پھول جیسی بچی کیساتھ وفا کرے گا۔  یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ،،  تُم فی الوقت سفلی جذبات  کے گرداب میں مبتلا ہو۔ اُور جلد ہی عشق کا یہ بھوت تُمہارے سر سے اُتر جائے ۔ اُور تم اپنی جنسی تسکین کے بعد میری بچی کو ہمیشہ کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دُو۔؟؟؟  بوڑھے راہب نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہُوئے کہا۔میں ہرگز ہرگز اپنی بیٹی کیساتھ ظلم نہیں ہُونے دُدنگا۔

آخر میں  کسطرح تُمہارے تمام اندیشوں کو  دُور کرسکتا ہُوں!!!! شیخ صنعان نے بیچارگی سے بوڑھے یہودی کو دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔
اگر تُم واقعی اپنے دعوے میں سچے ہُو۔ تو۔ میں تمہارا امتحان لینا چاہونگا۔ اگر تم  امتحان میں ثابت قدم رہے تو میں ٹریسا کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دینے کیلئے سُوچ سکتا ہوں۔ بُوڑھے یہودی نے اپنے منصوبےکو عملی جامہ پہنانے کیلئے پہلا تیر چلایا۔ اُور یہ تیر بالکل نشانے پر لگا تھا۔ کیونکہ دوسرے ہی لمحے شیخ صنعان نے بِلا توقف یہ کہہ کر حامی بھر لی تھی۔ کہ،، اگر تقدیر میں ایک مزید امتحان دینا بھی لکھا جا چُکا ہے۔ تو میں ضرور یہ امتحان دُونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ٹھیک ہے  ۔۔۔۔تُمہارا پہلا امتحان کل سُورج  کے طلوع ہُوتے ہی شروع ہُوجائے گا۔ ۔۔ تبوک شہر سے تین کُوس  دُور شُمال کی جانب میری ایک چراہگاہ ہے جہاں  تمہیں کچھ عرصہ میرے  مویشیوں کی خدمت کرنی ہُوگی۔ اگر تمہاری  مُسلسل محنت اُور استقامت سے میرے مویشی فربہ ہوگئے تو میں  اگلی شرائط بیان کروں گا۔ اُور اگر میرے مویشی کمزور ہوگئے ۔ یا اُنہیں درندوں نے چیڑ پھاڑ ڈالا تو یہ معاہدہ ختم ہُوجائے گا۔ اُور تمہیں ٹریسا کی محبت سے  بِلا حیل و حجت دستبردار ہُوکر واپس اپنے وطن جانا پڑے گا۔ کہو کیا اپنے پروردیگار کو  گواہ بنا کر یہ عہد کرتے ہُو۔  ؟؟؟ بوڑھے یہودی نے اپنے جُوش کو چھپاتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے مجھے تمہاری شرط منظور ہے۔ شیخ صنعان نے  بے بسی اُور اُمید کی مِلی جُلی کیفیت میں جواب  دیا۔

شیخ صنعان کے جاتے ہی ٹریسا ،،جو کہ،، دروازے کی اُوٹ سے اپنے باپ اُور  شیخ صنعان کی تمام گفتگو بڑے تحمل سے سُن رہی تھی نِکل آئی۔ اُور شکایتاً کہنے لگی۔ بابا کیا آپ نے مجھے واقعی اِس  بوڑھے شیخ کو سُونپنے کا اِرادہ کرلیاہے۔۔۔؟؟؟ نہیں میری لخت جگر ایسا ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہماری پہلی کامیابی ہے ۔کہ،،میں نے کتنی آسانی سے اُسے یہاں سے ہٹا کر جنگل میں پہنچانے کا انتظام کردیا ہے۔ مجھے قوی اُمید ہے۔کہ،،  بُوڑھا شیخ جلد ہی جنگل میں درندوں کا شکار بن جائے گا۔ یا جب اُسے معلوم ہُوگا کہ،، میں جن مویشیوں کا تذکرہ کررہا تھا ۔ وُہ خنزیر ہیں۔ تب بھی  وُہ ہار مان لے گا۔ کیونکہ مسلمان خنزیر سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی مجھے اِس شیخ سے ہے۔ بوڑھا یہودی قہقہ لگاتے ہُوئے سُونے کیلئے اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔ جبکہ ٹریسا سُوچنے پر مجبور ہُوگئی۔ کہ،، ہائے یہ عشق بھی کیا بَلا ہے۔ کسی عمر کا  لحاظ کرتی ہے نہ کسی کے مرتبے کا۔ لیکن کیا واقعی شیخ صنعان مجھے حاصل کرنے کیلئے خنزیروں کو چَرانے کی ذمہ داری قبول کرلیگا۔یا اپنے عشق سے دستبردار ہُوجائے گا؟؟؟؟


جاری ہے۔

0 comments:

Post a Comment