قسط ۱۰
کتاب میں درج ہدایات کے مُطابق کامِل علی نے چاند کی پانچ تاریخ
کا بڑی شِدت سے انتظار کیا۔ اور جُونہی پانچ کی سحر نمودار ہُوئی۔ کامل علی نے روزے
کی نیت کرلی۔کتاب میں درج ترک جمالی و جلالی کی ہدایات اگرچہ کافی سخت و دُشوار تھی۔
لیکن کامل نے تَہیہ کرلیا تھا کہ جب تک وہ دانہ ثمانی کے موکل کو حاصل نہیں کرلیتا
وہ باز نہیں آئے گا۔ تمام دِن روزے کی حالت میں وہ جسم سے احرام نُما چادر لپیٹے ذکر
و اَذکار میں مشغول رِہتا۔
مغرب کی اَذان ہُوتے ہی بُھنے ہُوئے چنُّوں اور دریا کے سادہ
پانی کیساتھ وہ اِفطار کرلیتا۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہُونے کے بعد وہ دانہ ثمانی کی
عزیمت میں مشغول ہُوجاتا۔ ابتدائی چند دِنوں میں اگرچہ کامل علی کو تنہائی اور پرہیز
سے بُہت کوفت محسوس ہُوتی اور کبھی کبھی خُوف کی شِدت سے اُس کے جسم پر لرزہ کی کیفیت
طاری ہوجایا کرتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ اسکا عادی ہُوتا چلا گیا۔ ایک مہینے کے بعد
جُوں جُوں چلہ کے اختتام کی تاریخ نزد آتی جارہی تھی۔ کامل کی اُمیدیں بھی جوان ہُوتی
چلی جارہی تھیں۔
بِلاآخر چَلّے کی آخری رات کی گھڑیاں بھی آپُہنچیں۔ کَامل علی
کو اِس دِن کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا۔ وہ آخری نشست سے قبل مختلف پِلان بنانے میں
مصروف تھا۔ کہ جُونہی دانہ ثمانی کا موکل حاضر ہُوکر عہد وپیمان کرے گا۔ تب وہ دانہ
ثمانی کے موکل کو سب سے پہلا حکم یہی دیگا کہ،، وہ فوراً جاکر چاچا ارشد کا گَلا گھونٹ
ڈالے اور اُسکے بعد نرگِس جہاں کہیں بھی ہُو۔ اُسے لا کر میرے قدموں میں ڈال دے۔ اسکے
بعد میں اُس نوجوان کو تلاش کرونگا۔ جِس نے جوانی میں اَمَّاں کا جینا حرام کیا ہُوا
تھا۔ پھر رفتہ رفتہ میں موکل کے ذریعہ سے اپنا عالیشان محل نُما گھر بنواؤں گا۔ جس
میں ایک دُو نہیں بلکہ سینکڑوں حَسین کنیزوں کو دُنیا بھر سے منگوا کر اپنے اُس مِحل
نُما گھر میں رکھوں گا۔
عزیمت کا وقت ختم ہُوگیا۔ لیکن موکِل حاضر نہ ہُوا ۔ کامل انتظار
کرتا رَہا لیکن وہ نہیں آیا۔ یہاں تک کہ سورج کی کرنیں نمودار ہُوگئیں۔ کَامِل نے کئی
مرتبہ دِنوں کا حِساب لگایا۔ ہر مرتبہ اور ہر طرح حساب لگانے پر ایک ہی جواب حاصِل
ہُوا کہ چالیس دِن مُکمل ہُوچکے تھے۔ لیکن اِس خلوت نشینی اور ترک جمالی و جلالی کا
کوئی فائدہ کامل علی کو حاصِل نہیں ہُوا۔
چند دِن دلبرداشتہ رہنے کے بعد کامل نے دُوبارہ کتاب کا مُطالعہ
کیا۔ تو عَمل کے نیچے ایک سطر مزید نظر آئی جِس پر کامل علی کا پہلے دھیان نہیں گیا
تھا۔ یہ ایک نُوٹ تھا۔ جو قوسین میں درج تھا جِس میں لکھا تھاکہ،، اگر تمام شرائط کو
پُورا کرنے کے باوجود بھی موکِل حاضر نہ ہُو۔ تب بھی دِل چھوٹا نہ کریں بلکہ جب تک
تین چلے پُورے نہ ہُوجائیں۔ اپنی کوشش جاری رکھیں۔ پہلی، دوسری کوشش بھی ناکام ہُوجائے
تب انشاءَاللہ تیسری کوشش ناکام نہیں جائے گی۔
اگرچہ دُوبارہ احرام کی چادریں لپیٹ کر گھر میں بند ہُونے کا
پھر سے اِحساس ہی بڑا رُوح سوز تھا۔ لیکن کامل کو ضد سوار تھی کہ چاہے مجھے کوئی بھی
قیمت دینی پڑ جائے۔ لیکن میں چاچا ارشد سے انتقام لے کر ہی رَہوں گا۔ کامل نے دوبارہ
اپنی تمام توانائیاں جمع کیں اور پھر سے چلے میں بیٹھ گیا۔ لیکن دوسرا چِلہ بھی پہلے
چِلّے کی طرح ناکام رہا۔
دوسرے چِلے کی ناکامی کے بعد کامل علی کا یقین متزلزل ہُوچُکا
تھا۔ لیکن کِتاب کی ہِدایات کے مُطابق تیسرا چِلّہ ناکام نہیں ہُوسکتا تھا۔ اسلئے کامل
علی نے کمر باندھی اور تیسرے چلے میں مشغول ہُوگیا۔ حالانکہ متواتر روزوں اور نامناسب
غُذا کی وجہ سے کامل علی کا جِسم سوکھ کر رِہ گیا تھا۔ تیسرے چِلے کا انجام بھی پہلے
دونوں چِلوں سے مختلف نہ تھا۔ لیکن کامل علی کو یقین تھا۔ کہ اِس مرتبہ موکِل ضرور
حاضر ہُوگا۔ اسلئے وہ دانہ ثمانی کے موکِل کا آخری رات میں انتظار کررہا تھا۔
دانہ ثمانی کا موکل تُو نہیں آیا۔ البتہ کوئی دروازے پر بڑی
شِدت سے دستک دیئے چلا جارہا تھا۔ کامل علی کا غُصے کی وجہ سے بُرا حال تھا۔ بلاآخر
جب کافی وقت گُزر گیا۔ تب کامل نے جھنجلا کر بخورات کو ہاتھ سے اُٹھا کر دیوار پر دے
مارا۔ دروازے پر مسلسل دستک جاری تھی۔ کامل علی نے سُوچا پہلے سائل سے نمٹ لیا جائے
اُسکے بعد دیکھوں گا کہ آخر ایسی کونسی خامی میرے عمل میں موجود ہے۔ جسکی وجہ سے میں
ابتک محروم کا محروم ہی رَہا ہُوں۔
کامِل علی نے جھنجلا کر جُونہی دروازہ کھولا۔ سامنے ایک بُہت
ہی لاغر سا نوجوان ہاتھ میں دستی پنکھے لئے بَدرِ قمر کی چاندنی میں کامِل کو نظر آیا
جُو اُسکی آمد کا ہی منتظر تھا۔ کیا بات ہے کیوں دروازہ پیٹ رہے تھے۔ کامل علی نے پھاڑ
کھانے والے لہجے میں دریافت کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟
جناب آپ نے پنکھوں کا آرڈر دِیا تھا۔ وہی لیکر حاضر ہُوا ہُوں۔۔۔
لاغر نوجوان نے ترکی با ترکی جواب دِیا۔
بے وقوف آدمی میں نے کِسی کو پنکھوں کا آرڈر نہیں دیا۔ کامِل
علی نے چِلَّاتے ہُوئے کہا۔
کیا آپ کا نام کَامِل علی نہیں۔۔۔۔۔؟ لاغر نوجوان نے استفسار
کیا۔۔۔۔؟
اُو میرے بھائی میرا ہی نام کامل علی ہے۔ اور اِس پُورے مُحلہ
میں کوئی دوسرا کامل علی نام کا بندہ بھی نہیں ہے۔ لیکن میں نے پنکھوں کا آرڈر نہیں
دِیا۔۔۔! کامل علی نے ہاتھ جُوڑتے ہُوئے اُکتائے ہُوئے لہجے میں کہا۔
تب میں کیا کروں۔۔۔؟ لاغر نوجوان نے سہمے ہُوئے لہجے میں دریافت
کیا۔
تُم یہاں سے دفع ہُوجاؤ۔۔۔۔ کامل علی نے ہاتھ نچاتے ہُوئے جواب
دیا۔
کیا آپکو واقعی پنکھوں کی ضرروت نہیں ہے۔ لاغر نوجوان نے گھبراتے
ہُوئے دُوبارہ پُوچھا
بھائی کہہ دیا نا کہ مجھے نہیں چاہیئے۔ اب تُم چلتے پھرتے نظر
آؤ شاباش۔
ٹھیک ہے بھائی میں چلا جاتا ہُوں یہاں سے۔ مگر بعد میں میرے
مالک سے یہ مت کہنا کہ میں تُمہارے پاس نہیں آیا تھا۔
تُم جاتے ہُو یہاں سے یا میرے ہاتھوں اپنی جان گنواؤ گے۔ اب
اگر تُم ایک لمحہ بھی یہاں ٹہرے تُو میں تُمہارا سر پھاڑ دُونگا۔ کامل علی نے دہاڑتے
ہُوئے دروازے میں اَٹکی لوہے کی راڈ باہر نِکال لی۔
وہ لاغر نوجوان کامل علی کے ارادے کو بھانپ کر فوراً وہاں سے
چل دِیا لیکن چند قدم دُور جانے کے بعد اُس نے پلٹ کر کامل علی کی طرف دیکھ کر مُسکراتے
ہُوئے کہا ،، بھائی جب تُمہیں نہ ہی پنکھ کی ضرورت تھی۔ اور نہ ہی میری طلب تھی۔ پھر
کِس لئے ایک سو بیس دِن سے اپنی جان ہلکان کئے جارہے تھے۔
اِس سے پہلے کہ کامل علی کُچھ سمجھ پاتا۔ دانہ ثمانی کا موکِل
اپنی اصل ہیت اختیار کر کے فضاؤں میں پرواز کرگیا
قسط ۔۱۱
کامِل علی حسرت ویَاس کی تصویر بنا دانہ ثمانی کے موکل کو جاتا
دیکھ رَہا تھا۔ شِدتِ غم سے اُسکا کلیجہ پھٹا جارہا تھا۔ لیکن اُسے اپنی بے بسی اور
بے کسی پر غُصہ آرہا تھا۔ وہ سُوچ رہا تھا کہ یہ کیسا ظُلم ہے۔۔۔۔؟ کہ اُسکے ایک سُو
بیس شب و رُوز کی مِحنت رایئگاں چلی گئی۔ اُسکی کمائی کا پھل اُسکے سامنے بھی آیا تو
کِس طرح کہ وہ اُسے پِہچان بھی نہ سَکا۔ اُور وُہ کتنے آرام سے اِسے دھوکہ دے کر چلا
بھی گیا۔ بلکہ نہیں وُہ تُو اِسکا تمسخر اُڑا کر چلا گیا تھا۔ گُویا کہنا چاہتا ہُو
کہ ،،بچے ہُو ابھی تُم۔ اُور اِس کھیل کے اصولوں سے بھی ناواقف ہُو۔ پہلے جَانو طرق
کھیل کا۔ پھر میدان میں آنا۔۔۔۔۔۔۔! کامِل علی اِسی کیفیت کے سحر میں حیران و پریشان
دروازے کی چوکھٹ میں کھڑا تھا کہ لکڑی کی کھٹا کھٹ کی آواز نے اُسکا دھیان اپنی جانب
کھینچ لیا۔
کامِل علی نے آواز کی سِمت گردن گھما کر دیکھا تُو۔۔۔۔۔۔ وہی
ہِندو بنگالی بابا اِسکی طرف بڑھا چلا آرہا تھا۔ کامل علی بنگالی بابا کو حیرت سے دیکھ
رَہا تھا۔ کیونکہ رات آدھی سے زیادہ بیت چُکی تھی۔ پہلے دانہ ثمانی کا موکل آدھی رات
میں پنکھوں کی ڈلیوری کرنے آیا تھا۔ حالانکہ کامل علی تُو اُس وقت غُصہ میں یہ بھی
نہیں سُوچ پایا تھا۔ کہ بھلا آدھی رات کو کُون کِسی کو سُوتے سے جگا کر سودا بیچنے
آتا ہے۔ اُور اب یہ بنگالی بابا رات کے ۲ بجے جھومتا جھامتا چلا آرہا ہے۔ کہیں یہ بھی تُو دانہ ثمانی
کے موکِل کا کوئی نیا بِہرُوپ اور کوئی نیا کھیل نہیں ہے ۔ لیکن اگر یہ وہی ہے تُو
اِس مرتبہ یہ مجھے دھوکہ نہیں دے پائے گا۔
کامِل علی اِنہی سُوچوں میں گُم تھا۔ کہ بنگالی بابا کی بھنچی
بھنچی آواز کامل کے کانوں میں گونجنے لگی۔ مُورکھ۔۔۔ وُہ سوانگ بھر کے تیری سپھلتا
کو اسپھلتا میں بدل کر اُور تیری ساری تپسیا کوبھنگ کر کے تُجھے جُل دے کر بھاگ چُکا
ہے۔ اور تُو ابھی تک انہی وِچاروں میں مست ہے کہ وہ واپس تیرے پاس چلا آئے گا۔ تیری
ذرا سی نادانی نے تُجھے لابھ سے نِراشا کے پتھ کی یاترا کرادی۔ ارے ڈشٹ ایکبار مجھ
سے کہا تو ہُوتا۔۔۔۔ میں تُجھے ایسا گیان پرابت کرتا۔ کہ کوئی چھل کپھٹ اُسکے کام نہ
آتا۔ مگر بھاگیہ کا جو لکھا ہے۔ وُہ تُو سبھی کو بھوگنا پڑتا ہے۔ ارے مورکھ تُو کیا
جانے کہ ،، تُونے کیا کھو دِیا۔ میں نے کئی برس اُسکی آشا میں اپنی جیون کو نرکھ کی
طرح گُزارا ہے۔ مگر اُسنے کبھی اپنی کشن جیوتی (جھلک) کے قابل بھی نہیں جانا مجھے۔
اُور ایک تو جنم جلا ہے۔ جسکے دُوار وہ سُوئم خُود چل کر آگیا۔ مگر تُو اُسکی سمانتا
(پہچان) نہیں کرپایا۔ تُو نہیں جانتا میں نے بھگوان سے تیری سپھلتا کیلئے کتنی پرارتھنا
کی تھی۔ مگر ہائے افسوس وُہ تیرے بھی ہاتھ نہیں آیا۔ مگر بالک نِراش نہ ہُو۔ کل میرے
استھان پر آجانا۔ میں تُجھے ایسے گُر سِکھاؤں گا۔ کہ پھر کوئی تیرے ساتھ اُلاس و کِھلواڑ
نہیں کرپائے گا۔
صبح ناشتے پانی سے فارغ ہُونے کے بعد کامِل علی رات کو بنگالی
بابا سے ہُونے والی گُفتگو کے متعلق سُوچتا رَہا۔ کافی سُوچ بِچار کے بعد کامِل علی
اِسی نتیجے پر پُہنچا کہ اُسے بنگالی بابا کی شاگردی اِختیار کرلینی چاہیئے۔ اِس سے
جہاں اِسکی معلومات میں اِضافہ ہُوگا وہیں بنگالی بابا کے تجربے سے بھی وُہ مستفید
ہُوجائے گا۔
بازار سے گُزرتے ہُوئے ایک نامانوس سی آواز نے کامِل علی کو
اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ یہ ایک ننگ دھڑنگ مجذوب سا آدمی تھا۔ جو صرف ایک ہاف پتلون
میں ملبوس تھا۔ وہ مجذوب بظاہر ایک دیوار سے مُخاطب تھا مگر اُس کے جُملے کی کاٹ سے
کامل علی کو یُوں مِحسوس ہُوا جیسے وہ اُسی پر پھبتی کَس رَہا ہُو۔ کامل علی نے اُس
مجذوب کو نظر انداز کرتے ہُوئے اپنا سفر جاری رکھا۔ مگر ابھی وہ چند قدم ہی چلا ہُوگا
کہ وہی مجذوب کامل علی کو سامنے ایک دوسری دیوار سے وہی جُملہ ،، اُو لگائی کے غلام
کیوں اپنے دین کو بیچنے چلا ہے،، کہتا نظر آیا۔ کامِل علی غُصہ کیساتھ ساتھ حیرت زدہ
بھی تھا۔۔۔ کہ ابھی وہ جِس مجذوب کو پیچھے چھوڑ کر آیا ہے۔ وُہ اتنی جلدی اِس سے آگے
کِس طرح پُہنچ گیا ہے۔
کامل علی نے حِقارت سے مجذوب کی جانب نِگاہ اُٹھائی تُو اُسکو
یہ دیکھ کر اُبکائی آنے لگی۔ کہ مجذوب کی ہاف پینٹ گِیلی تھی۔ شائد اُسکا پیشاب نِکل
گیا تھا۔ جو ہاف پینٹ سے نِکل نِکل کر نرم زمین میں جذب ہُورہا تھا۔ مگر کامل علی کو
کراہیت اسلئے محسوس ہُورہی تھی۔ کہ وہ مجذوب اپنے دونوں ہاتھوں سے اُسی گیلی زمین کی
مٹی کیساتھ کھیل رَہا تھا۔ پھر اُسنے ایک اور عجیب حرکت کی۔۔۔ اُور اُس مجذوب نے اپنے
دونوں ہاتھوں کو اچانک چاٹنا شِروع کردِیا۔ کامل علی کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر مجذوب
نے اپنے پاس آنے کا اِشارہ کیا۔ کامل علی نے حقارت سے اپنی نظروں کو مجذوب سے پھیرا
اُور آگے بڑھ گیا۔ ایک کُوس کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب کامِل علی شہر سے باہر نِکل
آیا۔ تُو اُسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُسنے دیکھا کہ وہی مجذوب اُس سے پہلے شہر
کی بیرونی شاہراہ پر موجود ہے۔
کِامل علی اب بھی اُس سے نِگاہ پھیر کر گُزر جانا چاہتا تھا۔
مگر اچانک وہ مجذوب اُسکے مقابل آکر کھڑا ہُوگیا۔ کامِل علی کی سمجھ میں نہیں آرہا
تھا۔ کہ وہ کسطرح اِس مجذوب سے اپنا پیچھا چھڑائے۔ یکایک مجذوب کی آنکھیں شُعلے برسانے
لگیں۔ کُچھ ہی لمحوں میں مجذوب کی آنکھوں کی سفیدی سُرخی میں بدلتی چلی گئی۔ کامل علی
کو ایسے محسوس ہُورہا تھا۔ کہ کِسی بھی پل مجذوب کی آنکھوں سے خُون کی آبشار اُبل پڑے
گی۔ کامل علی خُود کو مجذوب کے آگے بےبس و مسحور پارہا تھا۔ پھر مجذوب کے لب ہِلے اور
وہ کامل علی سے گویا ہُوا۔۔۔۔ اُو بے غیرت۔۔۔ کیا تیرے ماں باپ نے تُجھے اِسی دِن کیلئے
پالا پُوسا تھا۔ کہ تُو ایک دِن کافر کی چاکری کرے اور اپنے رب کی ناراضگی کو فراموش
کربیٹھے۔ جو پائخانہ تُو کھانے جا رہا ہے۔ اُس سے تُو یہ کیچڑ بھلی ہے۔ لے چاٹ لے اِسے۔
اُو گندگی کے حریص چاٹ لے اِسے۔ اُو خبیث مُردار کی مُحبت میں مرے جانے والے چاٹ لے
یہ کیچڑ اِس سے پہلے کے پرندے اپنے گھونسلوں میں پُہنچ جائیں ۔۔۔۔!
کامل علی مجذوب کی آنکھوں کے سحر میں مُبتلا تھا۔ پھر ایک موٹر
کار والے نے زور دار ہارن دیکر اُسے متوجہ کرتے ہُوئے موٹی سی گالی بکتے ہُوئے کہا۔۔
مرنے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو ِکسی دریا میں چھلانگ کیوں نہیں لگادیتے۔ یا کِسی ٹرین
کے سامنے جاکر کھڑے ہُوجاؤ ۔۔۔۔۔ کامل علی نے ہڑابڑا کر دیکھا۔ تو خُود کو میں رُوڈ
کے عین درمیان میں تنہا پایا۔۔۔۔۔ مجذوب کادُور۔ دُور تک کوئی سراغ نہیں تھا۔ البتہ
کامل علی کے دُونوں ہاتھ اُسی کیچڑ سے لتھڑے پڑے تھے۔ جِس سے ابھی کُچھ ہی لمحے قبل
وہ مجذوب کھیل رَہا تھا۔
اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چُھٹے سستے
،، جو آگ بُجھائے گی وہ آگ لگائی ہے ،،
پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
قسط۔ ۱۲
کامل علی نے کار ڈرائیور سے معذرت طلب کرتے ہوئے جونہی رُوڈ
کے ایک طرف ہُونے کی کوشش کی۔ ایک مُوٹر بائیک تیزی سے رُوڈ کے کِنارے سے گُزری جسکی
وجہ سے کامل علی بائیک سے ٹکرا کر گِر پڑا۔ بائیک اگرچہ بڑی رفتار سے گُزر گئی۔ لیکن
کامل علی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پایا۔ اُور بے اِختیار کامل علی نے اپنے چہرے
کو بچانے کیلئے اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ لئے۔ ہاتھ چہرے کے نزدیک آنے پر کامل
علی کی ناک سے سُوندھی سُوندھی ربڑی کی خُوشبو ٹکرائی۔
کامل علی کے دِل میں خیال گُزرا کہ شائد بیچارے موٹر بائیک والے
کی ٹکرانے کی وجہ سے ربڑی کی تھیلی گر کر پھٹ چُکی ہے۔۔۔۔کامل علی نے سنبھلنے کے بعد
رُوڈ کے چاروں طرف نِگاہ گُھمائی لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔ رُوڈ پر ربڑی تُو کُجا دودھ کا
ایک چھینٹا بھی دِکھائی نہیں دے رَہا تھا۔۔۔۔۔۔ حالانکہ ربڑی کی مِہک ابتک کامل علی
کے مسامِ دِماغ کو مہکارہی تھی۔ کامل علی اِسی شش و پنج میں گرفتار تھا۔۔۔ کہ ایک مکھی
کامل علی کی ناک پر آکر بیٹھ گئی۔ کامل علی نے ایک ہاتھ کی مدد سے جُونہی مکھی کو اُڑانا
چاہا۔ پھر وہی ربڑی کی تیز مہک کامل عُلی کُو مِحسوس ہُوئی۔
کامل علی نے ایک خیال کے تحت جب اپنے کیچڑ سے لتھڑے ہاتھ اپنی
ناک کے قریب کئے تُو کامل علی پر یہ راز آشکارہ ہُوا کہ،، ربڑی کی مہک کہیں اُور سے
نہیں بلکہ۔۔۔۔ اسکے کیچڑ بھرے ہاتھوں سے آرہی ہے۔۔۔ کامل علی نے چاروں جانب نِگاہ گُھما
کرجب اطمینان کرلیا۔ کہ کوئی اُسے نہیں دیکھ رَہا ہے۔ تب اُس نے احتیاط سے زُبان کی
نُوک سے ذرا سی کیچڑ کا ذائقہ چکھا۔۔۔۔۔ کامل علی تصویر حیرت بنا ہُوا تھا۔۔۔ کیونکہ
بظاہر نظر آنے والی کیچڑ درحقیقت انتہائی شیریں اور لذیز ربڑی کا مزہ دے رہی تھی۔۔۔۔
کامل علی کے ہُونٹ جُونہی ربڑی کے ذائقے سے روشناس ہُوئے۔ کامل علی نے ندیدوں کی طرح
اپنے ہاتھوں کو چاٹنا شِروع کردیا۔۔۔۔ یہانتک کہ کامل علی نے اپنے ہاتھوں کو چَاٹ چَاٹ
کر بالکل صاف کرنا شروع کر دیا۔۔۔ تبھی کِسی کے لگاتار قہقہوں سے تمام فِضاٗ گُونج
اُٹھی۔ ۔۔۔۔ کامل علی کِھسیانا ہُوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔۔ لیکن انسان تُو انسان
کوئی چُڑیا کا بچہ بھی کامل کو دِکھائی نہ دِیا ۔تمام راستہ ایسے سُنسان پڑا تھا۔ گُویا
وہ کِسی مصروف و بَا رُونق ہائی وے پر موجود نہ ہُو۔۔۔۔ بلکہ موت کی شاہراہ پر کھڑا
ہُو ۔ جسکے خُوف سے یہاں کوئی گُزرنا پسند نہ کرتا ہُو۔
کامل علی مُسلسل آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چہار سُو دیکھ رہا تھا۔
دھیرے دِھیرے خُوف کی ایک پرت اُسکے بدن پر چھائی جارہی تھی۔۔۔۔ کُچھ لمحوں بعد قہقہے
تَھم گئے۔۔۔ تمام ماحُول پر اِک عجیب سی پُرسراریت طاری تھی۔ ۔۔۔ اچانک اُسی مجذوب
کی آواز کامل علی کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔ وہ بڑی حِقارت سے کامل علی سے مُخاطِب تھا۔
۔۔۔۔بتا اُو بدبخت ۔کیسا مزاہ پایا تُونے اُس غِلاظت کو کھانے میں۔۔۔۔ ؟ انسان بن جا
اُو۔ نامرد۔۔۔ چھوڑ دے گندگی کی طمع۔۔۔۔ ورنہ یُونہی بھوکے کُتے کی طرح گندگی کی تلاش
میں اپنی زندگی کا سرمایہ لُٹاتا رہے گا۔۔۔۔! اُور جب تک تُجھے اِن انمول رتنوں کی
قیمت کا اندازہ ہُوگا۔ تب تلک واپسی کا راہ بند ہُوچُکی ہُوگی تُجھ پر۔۔۔۔۔ ارے اُو
ناہنجار سنبھل جا۔۔۔۔۔ نفرت کی جُوالا مُکھی کو برداشت کے پیمانے سے بدل ڈال۔ ورنہ
یاد رکھ بُہت پچھتائے گا۔۔۔
بابا جی خُدا کیلئےسامنے تو آئیے۔۔۔ کیوں میری جان دِہلائے جا
رہے ہیں۔ بس ایک مرتبہ میرے رُوبرو آجائیں ۔ پھر میں وہی کرونگا جو آپ کہیں گے۔۔۔ کامل
علی نے گِھگیائے ہُوئے لہجے میں فریاد کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ کامل علی کے جملوں کی بازگشت
ابھی تھمی بھی نہ تھی کہ ،، وہی مجذوب کامل علی کو دُور ایک سائہ دار دَرخت سے ٹیک
لگائے بیٹھا نظر آیا۔ کامل علی نے فوراً دُوڑ کر مجذوب کے قدم تھامتے ہُوئے کہا۔ بابا
جی نصیحت کیساتھ ساتھ راستہ کا پتہ بھی تُو بتائیں۔۔۔؟
مجذوب نے اپنی سُرخ سُرخ آنکھوں سے کامل علی گھورتے ہُوئے کہا،،
کمبخت کیا اُس حرامزادے جوگی سے بھی منزل کا پتہ معلوم کرنے گیا تھا تُو ۔۔ ۔؟
نہیں بابا جی وہ تُو بس ایسے ہی اتفاق سے مُلاقات ہُوگئی تھی
میری اُس سے۔۔۔ کامل علی نے نظریں چُراتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ جھوٹ مت بُول کمبخت مجھ سے۔۔۔۔
اگرچہ تُجھے محسوس نہیں ہُوتی مگر جب تُو جھوٹ بولتا ہے نا۔ تب تیرے مُنہ سے بڑی ناقابِل
برداشت بدبُو نکلتی ہے۔ جُو تیرے جھوٹ کا پردہ چاک کردیتی ہے۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ ابھی
تُجھ پر میری باتوں کا کُچھ اثر نہیں ہُونے والا۔ ۔۔ میں بھی ڈھونگ اور سوانگ کرتے
کرتے تھک چُکا ہُوں۔ مگر تُجھے ایک نصیحت کرے بِنا میرا دِل نہیں مانے گا۔۔۔ بس اُس
پاکھنڈی سے دُور ہُوجا۔ اِسی میں تیری بھلائی ہے۔ اِس سے زیادہ کہنے کی مجھے بھی اِجازت
نہیں ہے۔ اتنا کہہ کر وہ مجذوب پھر سے غائب ہُوگیا۔
کامل علی چند لمحے مجذوب کو اِس اُمید پر آوازیں دیتا رہا کہ،،
شائد وہ پھر سے آجائے لیکن کامل کی بار بار دِی جانے والی صدائیں تشنہ کام واپس لُوٹ
آئیں۔ کامل علی نے جوگی کے پاس جانے کے اِرادے کو ملتوی کیا۔ اُور واپس پلٹ کر شہر
کی جانب چلدیا۔ شہر پُہنچنے کے بعد کامل علی نے اُس دیوار کے قریب ایک خُوش شکل و خُوش
لِباس شخص کو دیکھا۔ جو بڑی بے چینی سے اپنی قیمتی کار سے ٹیک لگائے کِسی کا انتظار
کررہا تھا۔
کامل علی نے کُچھ سُوچ کر اُس شخص کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا،،
کیا آپ نے ابھی یہاں کِسی مجذوب کو دیکھا ہے۔۔۔۔؟ ۔ وُہ نوجوان مجذوب کا تذکرہ سُنتے
ہی ایسے الرٹ ہُوگیا۔ جیسے کِسی کانسٹیل کے سامنے اُسکا افسر اچانک نمودار ہُوجائے۔۔۔
کیا آپ بابا صابر کے مُتعلق استفسار کررہے ہیں۔۔۔؟ نوجوان نے نہایت عقیدت و احترام
سے بابا صابر کا نام لیتے ہُوئے کامل علی سے سُوال کیا۔
بھائی نام تُو مجھے معلوم نہیں ہے ۔۔۔ بس اُنہیں پہلی مرتبہ
یہیں برائے نام کپڑے پہِنے۔ دیوار سے باتیں کرتا دیکھا تھا۔ اُنہوں نے کبھی اِتنا موقع
ہی نہیں دِیا کہ اُن سے اُنکا نام معلوم کرپاتا۔ کیونکہ وُہ خُو دہی خُود بُولے چلے
جاتے ہیں۔ مجھے تو سوال کا بھی موقع ہی نہیں دیتے۔۔۔ کامل علی نے مختصراً کلام کرتے
ہُوئے کہا۔
پھر شائد آپ کِسی اُور کی تلاش میں ہیں۔ کیونکہ بابا صابر کو
میں نُو ۔ دَس برس سے جانتا ہُوں۔ مگر وُہ کِسی سے بات نہیں کرتے۔ اگر کبھی بُولتے
بھی ہیں تُو وُہ ایسی زُبان ہُوتی ہے۔ جِسے کوئی سمجھ نہیں پاتا۔ اُس نوجوان نے کامل
کو جواب دیتے ہُوئے کہا۔
صحیح کہتے ہیں آپ۔۔۔ لیکن عجیب اتفاق ہے۔ کہ آپ بھی کِسی اللہ
والے کے یہیں منتظر ہیں۔ اُور میں بھی اِس جگہ کے عِلاوہ اُس مجذوب کو کوئی ٹھکانہ
نہیں جانتا۔ ۔۔۔ لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ میں اِسی شہر میں رِہتا ہُوں۔ پھر بھی
بابا صابر کی شخصیت اُور اُنکے نام سے ناآشنا ہُوں۔ جبکہ آپ تُو اِس علاقے کے بھی نہیں
لگتے۔کامل نے خُوش اِخلاقی سے جواب دیتے ہُوئے کہا۔
میرے خیال میں آپ نے اُنہیں دیکھا تُو ضرور ہُوگا۔۔۔ بس دھیان
نہیں دِیا ہُوگا۔۔۔ مگر آپ چاہیں تُو میں آپکو بابا صابر کی تصویر دِکھا سکتا ہُوں۔
اُس نوجوان نے اِتنا کہنے کے بعد کامل کی درخواست کا انتظار بھی نہیں کیا۔ اُور پرس
نِکال کر تصویر ِڈُھونڈنے میں مشغُول ہُوگیا۔ چند لمحوں بعد اُس نوجوان نے ایک چھوٹی
سی تصویر پرس سے نِکال کر یہ کِہتے ہُوئے کامل علی کی طرف بڑھائی۔ یہ لیجیئے یہ ہیں
،، صابر بابا۔ آپ بھی زِیارت کرلیجئے۔
کامل علی حیرت سے تصویر دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ یہ اُسی مجذوب
کی تصویر تھی۔ جُو بار بار کامل علی کو نصیحت کررہا تھا۔ جبکہ اُ س نوجوان کا بیان
تھا کہ بابا صابر نے اُس کےسامنے دس برس میں کبھی زُبان نہیں کھولی۔
اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چُھٹے سستے
،، جو آگ بُجھائے گی وہ آگ لگائی ہے ،،
پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
0 comments:
Post a Comment