bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Wednesday, 23 May 2012

عامل کامل ابو شامل قسط 7,8,9



قسط 7

 کامِل علی نے کاغذ پر نظر ڈالتے ہی مولوی صاحب کی تحریر کو پہچان لیا یہ پانچ سطر کی تحریر تھی۔ جو بظاہر ایسا لگتا تھا کہ بُہت عجلت میں لکھی گئی ہُو۔ تحریر کُچھ اسطرح تھی۔

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
کامِل میرے بچے اگر مجھ سے تُمہارے معاملہ میں کِسی قِسم کوئی کوتاہی سرزد ہُوگئی ہُو تُو مجھے مُعاف کردینا۔

اگرچہ تدفین میں تاخیر بہتر نہیں ہے۔ لیکن کُوشش کرنا کہ جلباب کے آجانے بعد ہی جنازہ اُٹھایا جائے۔

میرے بعد جلباب کا بُہت خیال رکھنا۔ اسکی جزا تُمہیں وہ کریم رَبَّ ہی عطا فرمائے گا۔

میری کتابوں پر میرے بعد صرف تُمہارا حق ہے اِنکی حفاظت کرنا۔ اور اُنہیں ہمیشہ اپنے مُطالعہ میں رکھنا۔ اُور ایک اچھا اِنسان بننے کی کوشش کبھی ترک مت کرنا۔

پرچہ پڑھنے کے بعد کامِل نے تحریر چاچا ارشد کی جانب بڑھادی۔ چاچا ارشد نے تحریر دیکھنے کے بعد کامِل کی طرف دیکھتے ہُوئے کہا۔ جلباب بیٹی کے انتظار کیوجہ سے جنازہ کم از کم ۲ دِن تک رُوکنا پڑے گا۔ اگرچہ گرمی بھی بُہت شدید ہے۔ لیکن نجانے مولوی صاحب نے جلباب کے آنے کی شرط کیوں لگائی ہے۔ اور اسمیں کیا راز ہے۔ یہ بات یا تُو مولوی صاحب کو معلوم تھی۔ یا اسکی خبر اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔لیکن ہمیں مولوی صاحب کی وصیت کا بہرحال احترام تُو کرنا ہی پڑے گا۔ ویسے بھی مولوی صاحب اللہ کے نیک بندے تھے۔ اور دیکھا یہی گیا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کی لاش سڑا نہیں کرتی۔ ویسے بھی پرسوں جُمعہ کا مُبارک دِن ہے۔ میں غُسل اور کفن کا انتظام کرلیتا ہوں۔ جب تک تُم سفینہ اور زُلیخا کو فون کردو کہ جلد یہاں پُہنچ جائیں۔ اور ہاں اُن سے یہ مت کہنا کہ مولوی صاحب کا انتقال ہُوگیا ہے۔ بلکہ صرف اتنا بتادینا کہ مولوی صاحب کی شام کو حالت بُہت خراب ہُوگئی تھی۔ اسلئے آپ لوگ فوری طُور پر وہاں سے یہاں کیلئے روانہ ہُوجائیں۔ ایسا نہ ہُو کہ مولوی صاحب کے انتقال کی ایکدم خبر سے کوئی اور نیا حادثہ پیش آجائے۔

چاچا ارشد نے سچ ہی کہا تھا کہ اللہ کے نیک بندوں کی لاش سڑا نہیں کرتی۔ دونوں دِن شدید گرمی کے باوجود مولوی صاحب کی لاش لحد میں اُتارے جانے تک ایسی ہی تَرو تازہ محسوس ہُورہی تھی جیسے گُویا مولوی صاحب کا انتقال نہیں ہُوا بلکہ وُہ سُو رہے ہُوں۔ بلکہ اُنکے چہرہ مزید نِکھر کر ملکوتی حُسن کے جلوے بکھیر رَہا تھا۔ ہر ایک شخص کی زُبان سے آخری دیدار کے وقت،، سُبحان اللہ۔ سُبحان اللہ ،، کی صدا بُلند ہُورہی تھی۔

سُوئم سے فارغ ہُونے کے بعد جب تمام مہمان گھر سے رُخصت ہُوگئے اور سفینہ پھپو اور زُلیخا پھپو کی فیملیوں کے سِوا گھر میں کوئی بھی باقی نہیں بچا۔ تب کامِل علی کافی دیر تک جلباب کے پاس بیٹھا مولوی صاحب کی شفقت اور مہربانیوں کا تذکِرہ کرتا رَہا۔ جِلباب کا شُوہر راشد بھی قریب بیٹھا تمام گُفتگو بڑے انہماک سے سُن رہا تھا۔ جب کامِل علی اُٹھ کر باہر جانے لگا۔ تب راشد نے گَلا کھنکار کر کامِل سے پُوچھا۔ کَامِل بھائی آپ کب تک اِس گھر میں رہنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔۔۔؟ راشِد کے اچانک سوال پر بُوکھلا کر جِلباب نے راشد کی جانب دیکھا۔ وہ شائد کُچھ کہنا چاہتی تھی۔ لیکن راشِد سے نظر ملتے ہی جلباب نے اپنی نظریں جھکالیں۔ راشد کے چہرے پر بدلتے تیور اور جلباب کی بے بسی کو محسوس کرتے ہی کامِل ایک فیصلہ کرچُکا تھا۔ وہ جلباب کی خاطر یہ گھر ہی کیا اِس وطن کو بھی چھوڑ کر جاسکتا تھا۔ پھر یہ گھر بھی تُو جلباب کے والد کی نِشانی تھا۔ اگرچہ مولوی صاحب یہ مکان کامل کے نام کرنے کی خُواہش کا اِظہار کرچُکے تھے۔ لیکن کامل خُود بھی نہیں چاہتا تھا۔ کہ کوئی بھی ایسی بات ہُو جسکی وجہ سے جِلباب کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ لِہذا کامل نے بڑی خندہ پیشانی سے راشد کو جواب دیا۔ بھائی میں خُود اَمَّاں والے مکان میں شِفٹ ہونے کا اِرادہ رکھتا ہُوں۔لیکن میری خُواہش ہے کہ چالیسویں تک اگر مجھے یہیں پڑا رہنے دیں تو بُہت مہربانی ہُوگئ۔

چالیسویں کی فاتحہ سے قبل ہی کامل مولوی صاحب کا کُتب خانہ اَمَّاں والے گھر میں منتقل کرچُکا تھا۔ صفائی ستھرائی میں چاچا ارشد کی دونوں بیٹیوں نے بُہت مدد کی جسکی وجہ سے اَمَّاں کا مکان پھر سے چمک اُٹھا۔ مولوی صاحب کا مکان راشد نے قبضہ لینے کے بعد ایک ہِندو فیملی کو فروخت کردیا۔ اگرچہ صبح و شام کا کھانہ چاچا ارشد کے گھر سے ہی آجاتا تھا۔ ابتدا میں کامِل نے کافی بحث بھی کی کہ میں ہُوٹل سے خرید کر کھانا کھالُونگا مگر چاچا ارشد نہیں مانے۔ کامل نے معاشی ضروریات کیلئے شہر کے ایک مشہور کباڑی عبدالرشید جنکا کنسٹریکشن سپلائی کا کاروبار تھا۔کے پاس اکاونٹنٹ کی جاب کرلی تھی۔

نرگِس نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ اور آجکل وہ امتحانات کی تیاری میں مشغول تھی۔ چاچا ارشد کے کہنے پر کامل علی شام کو ڈیوٹی خَتم کرنے کے بعدنرگِس کو ٹیوشن دے رَہا تھا۔ حالانکہ کامِل کو ہمیشہ ہی سے نرگِس کے قریب رِہنا اچھا لگتا تھا۔ مگر اب نجانے کیوں کامل علی جب بھی نرگس کے سراپے پر نِگاہ ڈالتا تو اُسے عجیب سی وحشت ہُونے لگتی تھی۔ اُور وُہ سُرعت سے نِگاہیں جُھکا لیا کرتا۔ ویسے بھی بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے نرگس حُسن کا شاہکار بن چُکی تھی۔ اُسکا سراپا ، اُسکا قد کاٹھ ، سُریلی آواز۔اور اسکے رُوپ میں قدرت نے وہ تمام خُوبیاں جمع کردی تھیں۔ جو نِسوانیت کو بے نظیر و بے مِثال بنا سکتا ہے۔اگرچہ کامل کا دِل اُسے اُکساتا کہ اُسے بار بار دیکھا جائے۔ لیکن کامِل کی تربیت اَمَّاں اور مولوی صاحب نے اِس انداز سے کی تھی۔ کہ وہ ہمیشہ دِل کو یہ سمجھا کر خاموش کردِیا کرتا کہ ایک نہ ایک دِن نرگس کو چاچا ارشد میرے گھر بیاہ کر بھیج ہی دیں گے۔ کیونکہ اَمَّاں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں نہیں بلکہ واضح انداز میں ایک مرتبہ چاچی سے کہا تھا کہ نرگس کی وہ بالکل بھی پرواہ نہ کریں۔ یہ ہماری امانت ہے آپ کے پاس جیسے ہی کامل اور نرگس جوان ہُونگے۔ میں نرگس کو بیاہ کر اپنے گھر لے آؤں گی۔ جسکے جواب میں چاچی نے چچا ارشد کی رضامندی معلوم کرنے کے بعد اس رشتے کیلئے حامی بھر لی تھی۔ اور کامل کو چاچا ارشد پر مکمل اعتبار تھا کہ وہ اپنے وعدے کو ضرور نبھائیں گے۔

یہ التفات کی چنگاری صرف کامل کے جگر کو ہی نہیں گُدگداتی تھی۔ بلکہ کامل کئی مرتبہ محسوس کرچُکا تھا۔ کہ نرگس کی آنکھیں بھی چُوری چُوری اسکے چہرے کا گاہے بگاہے طواف کرتی رہتی ہیں۔ مگر کامل کی رگوں میں شریف والدین کا خُون دوڑ رہا تھا۔ جسکی وجہ سے وہ چاچا ارشد کے گھر میں بُہت احتیاط برتنے لگا تھا۔ کہ مُبادا کہیں اُسکی کِسی حرکت سے نرگس کا گھرانہ اُسکی ذات سے متنفر نہ ہُوجائے۔

لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ،، ہُونی کو کوُن ٹال سکتا ہے ِ،، کہ مصداق کامل کیساتھ بھی وہی حادثہ پیش آیا کہ جس سے بچنے کی کوشش میں کامل نے حتی الامکان کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اُس دِن دوپہر کے کھانے میں اُستاد رشید کے گھر سے نمکین اور میٹھے چاول پک کر آئے تھے۔ اور چاول ہمیشہ ہی سے کامل کی کمزوری رہے تھے۔ اسلئے شائد اُس دِن کامل نے کُچھ زیادہ ہی کھانا کھالیا تھا۔ جسکے سبب پیٹ میں درد اور اینٹھن کی شکایت پیدا ہُوگئی تھی۔ ڈیوٹی کا وقت ختم ہُونے کے بعد کامل نے یہی بہتر جانا کہ آج نرگس کے گھر جانے کے بجائے حکیم صاحب سے رجوع کرلیا جائے۔ چُنانچہ اُس نے چاچا ارشد کا دروازہ کھٹکھٹا کر چاچی کو اطلاع دینے کے بعد حکیم صاحب کے مطب کا رُخ کرلیا۔ حکیم صاحب نے ایک پھکی کھلانے کے بعد کامل کو تاکید کی کہ وہ کم از کم ۲ کلو میٹر واک کرنے سے قبل بستر پر نہ جائے۔

کامل کی واک کرتے ہُوئے اُستاد رشید سے مُلاقات ہُوگئی۔ کامل کے استفسار پر اُستاد رشید نے بتایا کہ اُسے بھی بدہضمی ہُوگئی ہے۔ جسکی وجہ سے وہ بھی واک کرنے نِکلا ہے۔ اُستاد رشید کیساتھ واک کرتے ہُوئے ۲گھنٹے بیت گئے ۔ کامل کو اگرچہ اُستاد رشید کے پاس مُلازمت کرتے ہُوئے چند ہی دِن کا عرصہ ہُوا تھا۔ لیکن اُستاد رشید ان چند ہی دِنوں میں کامل کی نیک طبیعت اور حُسنِ اخلاق کی وجہ سے کامل کیساتھ مُلازم و مالک کے بجائے ایک مشفق بُزرگ اور دوست کا رویہ برتنے لگے تھے۔

اُس رات کامل ایک عجیب سی بے چینی اور طبیعت میں اضطراب محسوس کررہا تھا۔ اُسے لگا شائد یہ تمام شاخسانہ دوپہر کے کھانے کی وجہ سے پیش آرہا ہے۔ وہ اس اُلجھن سے نِکلنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز سُنائی دی اور تمام گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔کُچھ لمحے بعد اہلِ مُحلہ کے شور شرابے اور بُلند آوازں سے کامل کو اندازہ ہُوگیا کہ بجلی کا ٹرانسفارمر گرمی کی شدت اور اِضافی کُنڈوں کی بدولت اپنی جان ہلاکت میں ڈال چُکا ہے اور اب کل تک تمام مُحلہ میں اندھیرے کا راج قائم ہُوچُکا ہے ۔لِہذا کامل بستر اُٹھا کر چھت پر پُہنچ گیا اور کھلی چھت پر بستر بچھا کر آسمان میں چمکتے قمقموں سے لُطف اندوز ہُوتے ہُوئے نیند کی وادی میں پہنچ گیا۔

نجانے وہ رات کو کونسا پہر تھا جب اسکے تلووں میں کسی کی گُدگُداہٹ کے سبب کامل کی آنکھ کُھل گئی۔ اُس نے نیم وا آنکھوں سے نرگس کا سراپا دیکھا۔ جو مسکراتے ہُوئے اسکے پیروں کو اپنے مرمریں ہاتھوں سے سِہلا رہی تھی ۔ ایک لمحے کیلئے اُسے ایسا محسوس ہُوا جیسے وہ نیند میں سپنا دیکھ رہا ہُو۔۔۔ بُدھو۔ اُٹھ بھی جاؤ۔ میں یہاں تُمہارے پاؤں سہلانے نہیں بلکہ تُم سے کچھ بات کرنے کیلئے آئی ہُوں۔۔۔ نرگس کی دھیمی اورمترنم آواز نے اُسکے ہوش اُڑا ڈالے۔ کیونکہ نرگس کا اسطرح اُسکی چھت پر آدھی رات کو پایا جانا کسی بھی طرح خطرے سے خالی نہیں تھا۔

کامل علی نے گھبرا کر اپنے پاؤں سمیٹتے ہُوئے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہُوئے نرگس کو خوفزدہ لہجے میں مخاطب کیا۔۔۔ تُمہیں یہاں اس وقت نہیں آنا چاہیئے تھا۔۔۔۔

اگر تُم آج ناغہ نہیں کرتے اور شرافت سے ہمارے گھر چلے آتے۔ تُو مجھے یہاں نہیں آنا پڑتا۔۔۔۔۔ نرگس نے ترکی با ترکی جواب دِیا

میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی ورنہ میں تُمہارے گھر ضرور آتا۔ اب خُدا کے واسطے یہاں سے فوراً چلی جاؤ۔ اگر کِسی نے دیکھ لیا تُو قیامت بپا ہُوجائےگی۔۔!کامل نے دھیمے لہجے میں نرگس کی منت کرتے ہُوئے کہا۔

جِسے دیکھنا ہے دیکھ لے۔۔۔ میں کِسی سے نہیں ڈرتی۔۔۔ نرگس نے اِٹھلاتے ہُوئے کہا

خُدا کے واسطے ضد نہ کرو نرگس میں تُمہارے آگے ہاتھ جُوڑتا ہُوں۔ کامل نے باقاعدہ نرگس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہُوئے کہا۔

کامِل تُم اتنے ڈرپوک کیوں ہُو۔۔۔؟ تُم مجھ سے مُحبت کرتے ہُو لیکن آج تک تُم نے اپنی مُحبت کے اِظہار کے لئے ایک جملے تک کا سہارا نہیں لیا۔ حالانکہ کہ ایک مدت سے میری سماعت تُمہارے اقرار و اضطراب کی منتظر ہے کہ تُم مجھ سے اپنی چاہت کااظہار کرو۔ نرگس نے خفگی کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔

کامِل نے جب یہ دیکھا کہ نرگس اپنی جگہ سے ٹس سے مس ہُونے کو تیار نہیں ہے تو اُس نے نرگس کی کلائی اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہُوئے کہا۔ضروری نہیں ہے کہ جس سے مُحبت کی جائے۔ اُسکا سارے زمانے میں چرچا بھی کیا جائے۔ میں کل بھی تُم سے مُحبت کرتا تھا۔ آج بھی کرتا ہُوں اور ہمیشہ کرتا رہونگا۔لیکن اس وقت تُمہیں اپنے گھر جانا چاہیئے۔ یہ کہتے ہُوئے کامل نرگس کی کلائی تھامے اُسے اُسکی چھت تک لے آیا۔

لیکن نرگس اب بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ ایسا محسوس ہُورہا تھا۔ جیسے وہ آج تہیہ کر کے نِکلی ہُو کہ کامل کی زُبان سے اپنے لئے ڈھیروں محبت بھری باتیں سُنے بغیر اور بے شُمار عہد وپیمان کئے بِنا واپس نہیں پلٹے گی۔۔۔ مجبوراً نرگس کا ہاتھ تھامے کامل اسے اُسکے گھر کی چھت پر دھکیلنے لگا۔ ابھی یہ کشمکش جاری تھی۔ کہ چاچا ارشد کی کانپتی ہُوئی آواز نے کامل کے رہے سہے اوسان بھی خطا کرڈالے۔

قسط 8
کامل نے بُوکھلا کر زینے کی جانب دیکھا تُو چاچا ارشد غصہ کی شِدت کی وجہ سے کپکپا رہے تھے۔ نرگِس چاچا ارشد کو دیکھتے ہی بُوکھلا کر بھاگتے ہُوئے زینے سے نیچے اُتر گئی۔ جبکہ کامِل چاچا ارشد کی غلط فہمی دُور کرنے کیلئے جونہی چاچا ارشد کے نزدیک پُہنچا۔۔۔ چاچا ارشد نے ہُونٹوں پر انگلی رکھتے ہُوئے اُسے خاموش رہنے کا اِشارہ کرتے ہُوئے کہا۔ میں نے سُوچا تھا کہ تُم یتیم و تنہا ہو۔ میرے گھر آنے جانے سے تُمہیں اپنے والدین کی کمی مِحسوس نہیں ہُوگی۔لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا۔ کہ تُم آستین کا سانپ ثابت ہوگے۔ میں بھی کتنا بے وقوف تھا۔ جو تُمہارے ساتھ نرگِس کو بیاہنے چلا تھا۔ کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ تُمہاری رَگوں میں میں کسی ذلیل اِنسان کا خُون دُوڑ رہا ہے۔ مجھے آج یہ مِحسوس ہُورہا ہے کہ تُم میرے نیک پڑوسیوں کی اولاد ہی نہیں ہُو۔ وہ شائد تُمہیں کِسی کچرے کے ڈھیر سے اُٹھا لائے ہُونگے۔ تبھی تُم نے اتنی زلیل اور اُوچھی حرکت کرڈالی۔ کہ جِس تھالی میں کھا رہے تھے۔ اُسی میں اپنے وجود کی گندگی ڈالنا چاہتے تھے۔

دفع ہُوجاؤ میری نظروں سے اور آج کے بعد میرے گھر کے نزدیک بھی نظر نہیں آنا۔ میرا دِل تُو چاہتا ہے کہ تجھے ابھی اور اِسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کرڈالوں لیکن میں اپنی عزت کی وجہ سے مجبور ہُوں۔ اور میں اپنی بچی کا تماشہ نہیں بنانا چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔ چاچا ارشد نے دھیمے مگر غُراتے ہوئے لہجے میں کامل کو مخاطب کرتے ہُوئے اپنے داہنے ہاتھ سے اُسے دفعان ہُونے کا اِشارہ دِیا۔

کامل نے اپنی صفائی میں کُچھ کہنے کیلئے اپنے ہُونٹوں کو جُنبش دینے کی کوشش ہی کی تھی کہ ،، چاچا ارشد نے اپنے توانا ہاتھ سے کامل کی گردن دبوچ لی اور کامل کو ایک مرتبہ پھر خاموش رہنے کا اِشارہ دیتے ہُوئے کہا۔ مجھے نہ تیری کوئی گھٹیا دلیل سننے کی خواہش ہے اور میں نہ ہی تیرے گندے وجود کو ایک لمحے کیلئے بھی یہاں برداشت کرسکتا ہُوں۔ اسلئے تیری بہتری اِسی بات میں ہے کہ تُو خاموشی سے نیچے دفع ہُوجا۔ اتنا کہنے کے بعد چاچا ارشد نے اپنے ہاتھوں سے کامل کی گردن آزاد کرتے ہُوئے اُسے دھکا دیا۔ اور خُود بھی اپنے زینے کی سیڑھیوں سے نیچے اُتر گئے۔

تمام رات کامل ذِلت کے احساس اور اپنے نیک والدین کیلئے چاچا ارشد کی زُبان سے نِکلے مغلِظات کے متعلق سوچ سُوچ کر سسکتا رَہا۔ کم از کم چاچا ارشد کو اُسے ایک موقع تو دینا ہی چاہیئے تھا۔ تاکہ وہ اپنی صفائی دینے کیساتھ اپنی بیگُناہی ثابت کرسکتا۔ اگرچہ حالات اور مشاہدات سے جو غلط فہمی چاچا ارشد کو پیش آئی تھی۔ کامِل اس غلط فہمی کے عوض اپنے لئے چاچا ارشد کی ہر ایک سزا برداشت کرسکتا تھا۔ کیونکہ چاچا ارشد کے کامِل پر احسانات اسقدر تھے۔ کہ جنکی قیمت شائد کامل کبھی بھی نہ چُکا پاتا۔ ابا کے انتقال کے بعد ایک وہی تُو تھے جنکی وجہ سے اُنہیں ہمیشہ حوصلہ اور ڈھارس مِلا کرتی تھی ۔ لیکن جسطرح چاچا ارشد نے حقیقت کا اِدراک کئے بغیر اُسکے نیک سیرت والدین کو لپیٹا تھا۔ یہ چاچا نے بالکل اچھا نہیں کیا۔ یہ ایک ایسا زَخم ہے جو شائد تمام زِندگی مندمل نہ ہُو۔ اسطرح کی سوچُوں کے ساتھ کامل جاگتا رَہا یہاں تک کہ صبح ہُوگئی۔

فجر کی نماز کامل نے گھر ہی میں اَدا کی۔ نماز کے بعد وہ کافی وقت سجدے میں پڑا اللہ کریم کی بارگاہ میں گِڑگِڑاتا رہا اور دُعا کرتا رہا کہ چاچا ارشد کی غلط فہمی دُور ہُوجائے۔ اور چاچا ارشد نرگس اور اسکی راہ میں دیوار بن کر کھڑے نہ ہُوں۔ کیونکہ نرگِس کے بغیر زندگی گُزارنا میرے بس کی بات نہیں۔ میں نرگس کے بغیر نہیں جی پاؤں گا۔ وہ سجدے میں رُوئے چلا جارہا تھا۔ جسکی وجہ سے اُسکی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر مصلے کو بِھگوئے چلے جارہے تھے۔ مگر اُسکے دِل کی بیقراری میں کمی واقع نہ ہُوسکی۔

نجانے کامل کو اِسی حالت میں پڑے کتنی ہی گھڑیاں بیت گئیں۔ وہ شائد اِس بیخُودی کے عالم میں نجانے مزید کتنا وقت پڑا رِہتا۔ کہ دروازے پر پڑنے والی مسلسل دستک نے کامل کو اِس بیخودی کی حالت سے نِکلنے میں مدد فراہم کی۔ کامل نے آنکھیں صاف کرنے کے بعد جب دروازہ کھولا تو سامنے اُستاد رشید کھڑے نظر آئے۔ اُستاد رشید نے کامل کی سُوجھی آنکھوں کو دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔ شہزادے خیریت تُو ہے۔۔؟ کیا ساری رات جاگتے اور رُوتے ہُوئے گُزاری ہے۔۔۔ نہیں اُستاد ایسی تُو کوئی بات نہیں ہے۔ کامل نے پھیکی سی مسکراہٹ چہرے پہ سجانے کی کوشش کی۔

یار میں تُو اس واسطے تیرے پاس سویرے سویرے آیا تھا تاکہ تجھے چابیاں دیکر دُکان بھیج دُوں۔ کیونکہ مجھے شہر سے باہر جانا تھا۔ لیکن یہاں تُو تیری اپنی حالت ہی نازک نظر آتی ہے۔ اور میرے خیال میں تُونے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا ہے۔ ایسا کر ہاتھ مُنہ دھولے۔ ساتھ ہی ناشتہ کریں گے اور ساتھ ساتھ دوچار باتیں بھی کرلیں گے۔ اُستاد رشید نے شفقت سے کامل کا شانہ تھپتھپاتے ہُوئے کہا۔

ہوٹل کے ایک پرسکون گُوشے میں بیٹھ کر کامل نے ناشتہ کے دوران اُستاد عبدالرشید کو مختصراً اپنی تمام کہانی، چاچا ارشد کے احسانات ، اور رات کا واقعہ بھی سُنا ڈالا ۔ اُستاد عبدالرشید نے تمام واقعات سُننے کے بعد فی الحال بیرونِ شہر جانے کا اِرادہ ملتوی کردِیا۔ اور کامل کو ڈھارس بندھائی کہ ارشد بھائی کے ساتھ میرے بُہت اچھے تعلقات ہیں۔ اور میں ضرور چاچا ارشد کی تمام غلط فہمیاں دُور کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔۔۔۔۔! ناشتہ سے فارغ ہُوکر اُستاد عبدالرشید نے کامل کو گھر چھوڑ دِیا تاکہ وہ اپنی نیند پُوری کرکے پُرسکون ہُوجائے۔ اور اُستاد عبدالرشید خود دُکان چلے گئے۔

اُستاد عبدالرشید کی تسلیوں کے باعث کامل کو بستر پہ دراز ہوتے ہی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اور عصر کی نماز سے قبل ہی اُسکی آنکھ کُھلی۔ ظُہر اور عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد کامل نے لِباس تبدیل کیا۔ اور اُستاد سے مُلاقات کیلئے دُکان پر پُہنچ گیا۔ وہ دُکان کے قریب پہنچا تو چاچا ارشد دُکان سے نِکل رہے تھے۔ کامل میں فی الحال چاچا ارشد سے آنکھ مِلانے کی ہمت نہیں تھی۔ اسلئے وہ چہرہ پھیر کر دوسری طرف متوجہ ہُوگیا۔ چند لمحوں بعد اُس نے کن اَنکھیوں سے دیکھا تُو چاچا ارشد اپنی بائیک پر سوار کافی دُور نِکل چُکے تھے۔

کامِل دھڑکتے دِل اور بُہت سی اچھی اُمیدوں کیساتھ دُکان میں داخل ہُوا۔ منشی نے بتایا کہ اُستاد عبدالرشید آفس میں موجود ہیں۔ اُستاد عبدالرشد کی دُکان تقریباً ڈیڑھ ایکڑ کے رقبہ پر قائم تھی۔ جس میں بلڈنگ میٹیریل کا تمام سامان بڑے قرینے سے رکھا جاتا تھا۔ اور دُکان کے آخری سرے پر اُستاد کا آفس قائم تھا۔ کامل نے جلدی جلدی چلتے ہُوئے یہ فاصلہ طے کیا اور اُستاد کے آفس کے دروازے پر پُہنچ کر دستک دینے ہی لگا تھا۔ کہ اُستاد عبدالرشید نے خُود آواز دیکر اُسے اندر بُلا لیا۔

اُستاد کے پژمُردہ چہرے پر نِگاہ پڑتے ہی کامِل کا دِل ہول کھانے لگا۔ اُسکا دِل گواہی دے رہا تھا کہ ضرور کُچھ نہ کُچھ گڑبڑ ہوگئی ہے۔ صبح کامل کو حُوصلہ دیتے ہُوئے جو اعتماد اُستاد رشید کے چہرے سے ظاہر تھا۔ وہ اعتماد و اطمینان اب مفقود نظر آرہا تھا۔

کامل کے تمام خدشات بالکل صحیح ثابت ہُوئے تھے۔ چاچا ارشد نے اُستاد عبدالرشید کی کِسی بھی دلیل کو نہیں مانا۔ بلکہ وہ اُستاد پر الگ برہم ہُوئے تھے کہ اُستاد عبدالرشید اُسکے گھریلو معملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ اور وہ اب کِسی بھی قیمت پر بھی نرگس کا رشتہ کامل سے برقرار نہیں رکھنا چاہتے۔ چاچا ارشد نے اِس کے عِلاوہ نجانے اُستاد عبدالرشید سے ایسی کونسی بات کہدی تھی کہ وہی اُستاد رشید جنہیں مکمل یقین تھا کہ وہ تمام معاملات کو سنبھال لیں گے۔ اب صِرف کامل سے ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ کامل چند دِنوں کیلئے اپنا موروثی گھر چھوڑ کر اپنی رِہائش اُستاد کے گھر منتقل کردے۔ کامل ابتدا میں اِنکار کرتا رہا۔ لیکن اُستاد کی مسلسل درخواست کو وہ نہیں ٹال سکا۔ اور مجبوراً اُس نے اپنی رہائش منتقل کرلی البتہ اُس نے اُستاد کے گھر میں سکونت کے بجائے آفس سے ملحق کوٹھری کو آباد کرنے پر ترجیح دی۔ جِسے کُچھ پس و پیش کے بعد اُستاد نے بھی قبول کرلیا۔

کامل کو اگرچہ یہاں اُستاد نے بے تحاشہ سہولتیں فراہم کردی تھیں۔ لیکن تین ماہ گُزرنے کے باوجود بھی وہ اَمَّاں کے گھر کو نہیں بُھلاپایا تھا۔ اُسکا بس چلتا تو وہ ایکد ِن کیلئے بھی یہاں نہ رِہتا۔ لیکن اُستاد کی دِل شکنی کا سُوچ کر وہ ہمیشہ خاموش ہُوجایا کرتا تھا۔

لیکن ایک دِن ہمت کر کے اُس نے اُستاد عبدالرشید سے دِل کی بات کہہ ہی ڈالی کہ وہ اب مزید یہاں نہیں رِہنا چاہتا۔ کیونکہ اُسے اَماں کے گھر اور نرگِس کی بُہت یاد آتی ہے۔ اور اب تُو وقت گُزرنے کیساتھ چاچا ارشد کا غُصہ بھی ٹھنڈا پڑ چُکا ہوگا۔ شائد اُنکے دِل کا غبار بھی وقت کی بارش نے دُھو ڈالا ہُو۔ میں اُنکے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لُونگا۔ ہُوسکتا ہے کہ وہ مجھے نہ صِرف مُعاف کردیں بلکہ خُوش ہُوکر نرگس کیساتھ میرے ٹُوٹے رِشتے کو پھر سے جُوڑ دیں۔ کامِل کے چہرے پر آخری جُملہ ادا کرتے ہُوئے اُمیدِ سحر کے کئی رنگ نمودار ہُوگئے۔

اِسکا مطلب ہے تُم اب تک تمام معاملہ سے بے خبر ہُو۔۔۔۔اُستادعبدالرشید نے کامل کے چہرے کا جائزہ لیتے ہُوئے کہا۔۔۔!

بے خبر۔۔۔۔ مگر کس معاملے میں اُستاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کامِل نے حیرت سے استفسار کرتے ہُوئے کہا۔

اُس دِن جب نرگس کے ابَّا جب میرے آفس آئے تھے۔ تب وہ بُہت غصے میں تھے۔ میں نے اُنہیں بُہت سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیں مانے تھے۔ میرا خیال تھا کہ دوسری مُلاقات میں اُنہیں قائل کرلونگا۔ لیکن اُنہوں نے جاتے جاتے مجھے سے ایک جُملہ کہا تھا۔ جسکی وجہ سے میں بُہت پریشان ہُوگیا تھا۔ اور تُمہیں فوراً اپنے پاس لے آیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک مہینے میں سادگی سے نرگس کی شادی کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ اور اگر کامل یا کِسی اور شخص نے اِس شادی میں مُداخلت کی کوشش کی تو وہ اُسے قتل کرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ اور اُس ضدی شخص نے ایسا ہی کیا جیسا کہ اُس نے کہا تھا۔ یہاں سے جانے کے ٹھیک ایک ماہ بعد اُس نے اپنی بیٹی کا نِکاح اُس سے دُگنی عُمر کے آدمی کیساتھ کردیا تھا۔ بعد میں مجھے ایک کاروباری دُوست سے معلوم ہوا تھا کہ وہ ادھیڑ عُمر کا آدمی پہلے سے ہی شادی شُدہ تھا۔ ارشد نے تُمہیں جو سزا دی سُو دی۔ لیکن اُس نے اپنی بیٹی کو کِس بات کی سزا دی یہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا۔

اُستادعبدالرشید نے کامل کو اپنا سر تھامے زَمین پر ڈھیر ہوتا دیکھ کر اپنی گُفتگو روک کر کامل کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن تب تک کامل کھردرے فرش پر ڈھیر ہُوچُکا تھا۔

قسط ۹

ان تمام واقعات نے کامِل کی زندگی کو یکسر بدل ڈالا تھا۔ نرگس کی شادی کی اطلاع پر ابتدا میں کامل کا خیال تھا کہ اُسے اب اپنی بے مقصد زندگی کا خاتمہ کرلینا چاہیئے۔ لیکن پھر سَروشِ غیب سے کِسی نے اُسے راہ سُجائی اور اُس نے اپنا ارادہ بدلتے ہُوئے سُوچا کہ ،، وہ کیوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرے۔۔۔؟ اور وہ کیوں ظالم سماج کے آگے سِپر ڈالے۔۔۔؟ اور وہ کیوں نہ اُن لوگوں سے انتقام لیکر اُنکی زندگی کو مُشکل بناڈالے کہ جنہوں نے ہمیشہ اُسکی زندگی سے خوشیوں کو دُور کیے رکھا۔ جو ہمیشہ اُسے غم دیکر راحت مِحسوس کرتے رہے ہیں۔ آخر کیا جُرم تھا میرا جو چاچا ارشد نے مجھے اسقدر سخت سزا کا مُستحق سمجھا کہ مجھ سے جینے کا آسرا ہی چھین ڈالا۔ اُسکے دِل میں اُمڈتے انتقامی جذبات نے اُس کے دِل میں خُود کُشی کی اُبھرتی خُواہش کو سرد کر ڈالا۔ لیکن انتقام لینے کیلئے طاقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جِسے حاصِل کرنے کیلئے کامل دِن رات پلاننگ کررہا تھا۔اُستاد عبدالرشید نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ کامل واپس اُنکے پاس لُوٹ آئے۔ لیکن کامل نے مُعذرت کرتے ہُوئے نوکری کو ہمیشہ کیلئے خیر آباد کہہ دِیا تھا۔ اور اُستاد کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ واپس اَماں کے گھر چلا آیا تھا۔ البتہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ چاچا ارشد اپنا مکان بیچ کر دوسرے مُحلے میں شِفٹ ہُوچُکے تھے۔

پہلے اُس نے سُوچا کہ طاقت حاصِل کرنے کیلئے اُسے کِسی سیاسی تنظیم میں شمولیت حاصل کرلینی چاہیئے۔ لیکن دِماغ نے سمجھایا کہ اِس کیلئے بُہت وقت درکار ہُوگا۔ پھر اُسکے دِل میں خیال سمایا کہ کیوں نہ وہ ڈاکوؤں کیساتھ روابط پیدا کرے۔ لیکن پھر دِماغ نے سمجھایا کہ اسمیں خُود اُسکی جان کو خطرات لاحق ہُوجائیں گے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انتقام سے قبل ہی وہ خُود کِسی پُولیس والے کی گُولی کا نِشانہ بن جائے۔ کامل کئی دِنوں سے پریشان اِس سوچ میں گُھلا جارہا تھا۔ کہ ،، کیا وہ کبھی بھی چاچا ارشد سے انتقام نہیں لے پائے گا۔۔۔؟ کہ،، اچانک ایک دِن سر راہ چلتے ہُوئے اُسکی نِگاہ دیوار پر لکھی تحریر پر پڑی۔ یہ کسی بنگالی عامل کی جانب سے اشتہار تھا۔ جِس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ صرف ایک مُلاقات میں دُنیا کے کِسی بھی ناممکن مسئلے کو ممکن بناسکتا ہے۔

کامل علی نے اشتہار پر لکھے ایڈریس کو اپنے ذہن میں مِحفوظ کرتے ہُوئے سُوچا ہُوسکتا ہے یہ عامل ہی اُسکی کوئی مدد کردے۔ دوسرے دِن وہ بنگالی عامِل کے ڈیرے پر جاپُہنچا۔ یہ ایک خستہ حال مکان تھا۔ جسکے ہر ایک گوشے سے ویرانی اور وحشت ٹپک رہی تھی۔ کامل علی نے دروازے پر دستک دیتے ہُوئے سُوچا۔ جو شخص اپنے حالات ٹھیک نہیں کرسکتا۔ کیا وہ میری مدد کرپائے گا۔ کُچھ لمحوں کے انتظار کے بعد ایک ننگ دھڑنگ بچہ مکان سے برآمد ہُوا جِس نے کامل علی کا مُدعا جان کر اندر سے اجازت ملنے پر اُسے بیٹھک کے ٹُوٹے پھوٹے فرش پر بیٹھنے کا اِشارہ کیا اور اندرونی دروازے سے دوبارہ گھر میں داخل ہُوگیا۔

مزید چند لمحوں کے انتظار کے بعد پچاس برس کا ایک دھان پان سا آدمی جِسم پر لنگوٹی باندھے۔ تمام جِسم پر چنبیلی کا تیل اور ماتھے پر سیندور لگائے گھر کے اندرونی دروازے سے بیٹھک میں نمودار ہُوا۔ کامِل علی نے بنگالی بابا کو دیکھتے ہی اندازہ لگالیا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ لفظ بنگال بھی شائد اُس نے اپنی شخصیت کو پرسرار بنانے کیلئے استعمال کیا تھا۔ کامل علی نے ایک لمحے میں اُسکا سرسری سا جائزہ لیکر جونہی لب وا کرنے کی کوشش کی بنگالی بابا نے اُسے خاموش رہنے کا اِشارہ کرتے ہُوئے کہا۔ اپنی بپتا اُسے بیان کرنا جو بے خبر ہُو۔ جو بھی آشا تیرے ہردے (دِل)میں ہے مجھے اُن تمام شَبدوں کا آوشے گیان پرابت ہے۔ تو اُس مورکھ سے انتقام لینا چاہتا ہے نا جس نے تُجھ سے تیری ناری کو چھین لیا ہے۔۔۔؟

کامل علی ہکا بکا اُس بنگالی جادوگر کو دیکھ سُوچ رَہا تھا۔ کہ وہ بالکل صحیح جگہ پہنچ گیا ہے۔ کیوں کہ یہ بابا تُو دِل کی بات بھی جانتا ہے۔ یہ ضرور چاچا ارشد کو سزا دینے میں میری مدد کرے گا۔۔۔ کامل علی اپنے خیالات کو لفظوں کے قالب میں ڈھالنے کو سُوچ ہی رہا تھا۔ کہ ایک مرتبہ پھر بنگالی بابا کی آواز سے کمرہ گُونجنے لگا۔ بالک بیاکل اور نِراش نہ ہُو۔ ہم آوشےِ تیری سہایتا کریں گے۔ لیکن بالک ہم نے یہ گیان بڑی سخت تپسیا اور اپنا تمام جیون کڑی دُھوپ میں گُزار کر اِسے حاصِل کیا ہے۔ ہم تیری اِچھا پوری کریں گے مگر بدلے میں تُجھے بھی کُچھ لکشمی ہمیں دینی ہُوگی۔

بابا جی آپ جب سب جانتے ہیں۔ تُو آپکو یہ بھی معلوم ہُوگا کہ میرے پاس روپیہ پیسہ بالکل بھی نہیں ہے۔ کامل علی نے بنگالی بابا کو مُخاطِب کرتے ہُوئے کہا۔

رُوپیہ پیسہ نہیں ہے تُو کیا ہُوا مکان تو ہے نا تیرے پاس بالک۔۔۔۔؟ بنگالی بابا نے ایک مرتبہ پھر اپنے عِلم کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔۔

بابا جی مکان تو ہے مگر وہ میری اَمَّاں کی میرے پاس آخری نِشانی ہے۔ جِس کے ہر ایک کُونے سے مجھے اَمَّاں کی مہک آتی ہے ۔ کامل علی نے بے بسی سے بنگالی بابا کی طرف دیکھتے ہُوئے کہا۔

پھر تو میرا سمے خراب نہ کر۔ ایک طرف اُس ڈشٹ سے انتقام بھی لینا چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف مایا کی مُحبت میں بھی گرفتار ہے مُورکھ۔ جا چلا جا یہاں سے۔ اس سے پہلے کہ مجھے کرود (غصہ) آجائے جب لکشمی کا انتظام ہُوجائے تب میرے پاس ایک لاکھ روپیہ لیکر آجانا۔ پھر دیکھنا کہ میں کِس طرح اُس پاپی کا ناش کرتا ہُوں اتنا کہہ کر بنگالی بابا نے اپنی دھوتی کو سنبھالا اور واپس گھر میں چلا گیا۔

کامل علی کِسی بھی صورت میں اَمَّاں کے گھر سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتا تھا۔ مگر چاچا ارشد سے انتقام لینا بھی ضروری تھا۔ اور بنگالی بابا پکا پروفیشنل بندہ نِکلا تھا۔ جِس نے تھوڑے نا بُہت پُورے ایک لاکھ کا مُطالبہ کرڈالا تھا۔ کافی سُوچ بِچار کے بعد کامل اِس نتیجے پر پُہنچا کہ اُسے رقم کے حُصول کیلئے اُستاد عبدالرشید سے مدد مانگنی چاہیئے۔ کیوں کہ اِس بھری دُنیا میں ایک وہی واحد شخص تھا جو کامل سے بے لوث مُحبت رکھتا تھا۔

اُستاد عبدالرشید نے ایک لاکھ روپیہ قرض دینے کیلئے کامل پر شرط عائد کی تھی کہ پہلے کامل کو بتانا ہُوگا۔ کہ اُسے آخر ایسی کونسی ضرورت پیش آگئی ہے۔ جِس کیلئے کامل کو یکمشت ایک لاکھ رُوپیہ چاہیئے۔ کامل علی کافی دیر تک ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ لیکن جب اُسے یقین ہُوگیا کہ اُستاد کو سچائی بتائے بغیر گُزارہ نہیں ہے۔ تُو اُس نے اُستاد کو سب کُچھ سچ سچ بتادیا۔

کامل کی زُبانی تمام رُوداد سُننے کے بعد اُستاد نے اپنا سر تھام لیا۔ اور کامل پر برہم ہُوتے ہُوئے اُسے سمجھانے لگا کہ وہ چاچا ارشد کی دُشمنی کا خیال اپنے دِل سے نِکال دے۔ ورنہ مجھے خُدشہ ہے اسطرح کے پاکھنڈی جادوگروں کے چکر میں ایکدِن نا صرف اپنے مکان سے ہاتھ دُھو بیٹھے گا۔ بلکہ کِسی دِن اپنا ایمان بھی ضائع کر بیٹھے گا۔۔۔ اُستاد کے سمجھانے اور برہم ہُونے کے باوجود کامل علی اِس بات پر مُصِر تھا۔ کہ بنگالی بابا اگرچہ بنگال کا ہِندو ہے لیکن وہ بُہت بڑا گیانی ہے۔ جِس نے کامل سے ایک بھی بات نہیں پُوچھی۔ اور کامِل کے دِل کا احوال بھی جان لیا۔۔۔۔

ارے بے وقوف۔ اُس نے تیرے دِل کا حال نہیں جانا۔ بلکہ تیرے دِماغ کو پڑھ کر تیرے سوالوں کا جواب دیکر تُجھ پر اپنے عِلم کی دھاک بِٹھانے کی کُوشش کی ہے۔ اور تیری باتوں سے صاف معلوم ہُورہا ہے کہ وہ اسمیں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔ حالانکہ یہ کوئی کمال کی بات ہے اور نہ آج کے زمانے میں کوئی عجوبہ ہے۔ کِسی بھی مذہب و مِلت سے تعلق رکھنے والا انسان اِس علم کو مستقل مزاجی اور ذِہنی یکسوئی کی بدولت حاصِل کرسکتا ہے۔ میں زیادہ دُور نہیں جاتا یہ ہنر تُو میرے ایک پیر بھائی شریف کو بھی ذکر الہی کی بدولت ایک مُدت سے حاصِل ہے۔ وہ اکثر ہمارا ذہن پڑھ کر ہمیں حیران کر دِیا کرتا ہے۔ اور تُو اتنی سی بات پر ایک کافر کا شیدائی ہُوگیا۔ جِس نے اس علم کو حاصل کرنے کیلئے نجانے کون کونسے راستے اختیار کئے ہُونگے۔

جب کہ میرے مُرشد فرماتے ہیں۔ کہ اللہ والوں سے مُحبت اُنکی کرامات کے باعث نہیں ہُونی چاہیئے ۔ بلکہ اُنکی اطاعت الہی اور سُنت و شریعت پر استقامت کے سبب ہُونی چاہیئے۔ کہ ذِہن کو پڑھنے کی طاقت تو شیاطین کے پاس بھی موجود ہُوتی ہے۔ اور بعض بدمذہب عامِل انہی شیاطین جنات کو عملیات کے ذریعے قابو کرکے بھی دوسروں کے دِماغ کو پڑھ لیتے ہیں ۔ یا شیطانی جنات کِسی کے بھی ہمزاد سے وہ راز معلوم کرلیتے ہیں۔ جِنہیں بسا اوقات انسان ایک دوسرے سے چُھپائے پھرتے ہیں۔ اور بعض جادوگر تو ان خرافات کے سبب اتنے طاقتور ہُوجاتے ہیں۔ کہ وہ ہَوا میں اُڑ کر اور پانی پر چل کر بھی لوگوں کو حیران و پریشان کردیتے ہیں۔ جبکہ بندہ مومن کی فراست کا یہ عالم ہے کہ وہ اللہ کریم کے نُور سے دیکھتا ہے۔ جسکے سبب اُسکی نِگاہ بیک وقت پاتال کا بھی مُشاہدہ کررہی ہُوتی ہے اور لُوح محفوظ بھی جسکی نِگاہ سے مخفی نہیں رِہتا۔

کامل گھر جاتے ہُوئے سُوچ رہا تھا کہ اچھا ہُوا میں نے اُستاد سے جھوٹ بُول کر رقم حاصِل نہیں کی ورنہ اِس بات کی کیا ضمانت تھی کہ وہ جادوگر اس سے رقم لیکر اِس کا کام بھی ضرور کردیتا۔ اگر وہ رقم لیکر ڈکار بھی جاتا تو کون اُس عامِل جادوگر کے مُنہ لگنے کی حِماقت کرسکتا تھا۔

رات کو گھر پر لیٹے لیٹے کامل کو اُس کتاب کا خیال آیا جِس کے ذریعہ مولوی رمضان صاحب نے کامل کی سکتے کی کیفیت کو تُوڑا تھا۔ کامل اُٹھ کر اُس کتاب کو تلاش کرنے لگا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد کامل نے اس کتاب کو ڈھونڈ نِکالا جسکے ذریعہ سے وہ ایک مرتبہ پہلے بھی نفع حاصِل کرچُکا تھا۔

یہ وظائف و عملیات کی ایک ضحیم کتاب تھی۔ جسکے صفحات بوسیدہ ہُوچُکے تھے۔ اور کافی صفحات شکستگی کے باعث پھٹ بھی چُکے تھے۔ کامل نے ایک صاف کپڑے کی مدد سے اُسکی گِرد کو جھاڑا اور پھر پاؤں دراز کرکے احتیاط سے مضامین کو پڑھنے لگا۔ اِس کتاب میں ایک سے بڑھ کر ایک حکمت کے نسخے درج تھے۔ جبکہ ایک مکمل باب جنات اور ہمزاد کو قابو کرنے کے طریقے اور عزیمت سے بھرا پڑا تھا۔ جبکہ ایک باب بُہت سے جِسمانی امراض کے روحانی علاج سے متعلق تھا۔ کامل علی نے فہرست دیکھ کر چند مضامین کے صفحات نمبر اپنے ذہن میں محفوظ کرتے ہُوئے کتاب کا مُطالعہ شروع کردیا۔

اُس نے سب سے پہلے جِس مضمون کا انتخاب کیا۔وہ انسانی نظروں سے پُوشیدہ ہُونے کا عمل تھا۔ جوں جُوں کامل علی مضمون پڑھتا چلا جارہا تھا۔ اُسکا شوق اور خُون کی حِدت بھی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ لیکن مضمون کے آخر میں اِس عمل کی مہینوں پر مُحیط مُدت اور اُسکی سخت ترین شرائظ دیکھ کر اُسکے جذبوں پر ڈھیروں برف پڑگئی۔

لیکن دوسرے مضمون ،، دانہ ثمانی ،، کے مُطالعے نے پھر اسکے شوق کو مہمیز دی۔ اس عمل کی جہاں مدت صرف چالیس دِن تھی۔ وہیں اسکی شرائط بھی پہلے عمل کے مُقابلے میں اُسے کچھ سہل نظر آئی۔ جبکہ اسکے فوائد بھی اُسے پہلے عمل کی نسبت کُچھ زیادہ مِحسوس ہُوئے۔ وہ رات بھر بڑے اشتیاق سے کتاب کے مُطالعہ میں گُم رہا۔ لیکن نیند کی وادیوں میں کھونے سے قبل کامل علی دانہ ثمانی کے موکل کو حاصِل کرنے کا پُختہ ارداہ کرچُکا تھا۔

0 comments:

Post a Comment