قسط۔۱۳
کامِل علی اُس نوجوان کو بتانے ہی لگا تھا،، کہ جِسے وُہ بابا
صابر کے نام سے جانتا ہے دَراصل وُہ بھی اُسی مَجذوب کی تلاش میں یہاں آیا ہے۔۔۔۔۔
اُور وُہ کوئی گُونگا شخص نہیں ہے بلکہ میں نے خُود کئی مرتبہ اُسکی زُبان سے نرم و
گرم جُملے سُنے ہیں۔۔۔ البتہ یہ اُور بات ہے کہ،، وُہ باتیں اتنی مُبہم اُور پیچدہ
ہُوتی ہیں کہ اُنکی شرح کی تشنگی قلب و ذِہن کی بے مائیگی کا افسانہ سُناتی ہیں۔۔۔
اِس سے پہلے کہ کامل علی کی زُباں اُسکے مُنتشر خیالات کی ترجمانی
کرپاتی۔ کَامِل علی کی نِگاہ دُور کھڑے اُسی مجذوب پر پڑی۔ جُو اپنی اَنگلی ہُونٹوں
پر رکھے اُسے خَاموش رِہنے کا اِشارہ کر رہا تھا۔ مَجذوب کے چہرے پر ایسا جلال تھا۔
کہ اگر وُہ اِشارہ نہ بھی کرتا تب بھی شائد کامِل علی اُس چہرے کو دیکھنے کے بعد ایک
بھی لفظ اپنی زُبان سے بَمشکل ہی نِکال پاتا۔ یکایک اُس مَجذوب نے کامِل علی کو اپنے
پیچھے آنے کا اِشارہ کیا۔۔۔۔ اُور خُود وَہاں سے روانہ ہُوگیا۔۔۔۔
کامِل علی میکانکی انداز میں اُس مجذوب کے پیچھے چلتا رَہا۔
یہاں تک کہ وُہ مَجذوب ایک سُنسان گلی میں دَاخِل ہُوگیا۔ کامل علی جُونہی اُس گَلی
میں دَاخِل ہُوا۔ وُہ مجذوب کامِل علی کا ہاتھ پکڑ کر ایک ویران مَکان میں داخِل ہُوگیا۔
کامِل علی مکان کو دیکھ کر مزید وحشت زدہ ہُوگیا۔عجیب مکان تھا وُہ ۔جِس کی دیواروں
میں ایک بھی کھڑکی تھی اُور نہ ہی کِسی چوکھٹ میں کوئی دروازہ سلامت تھا۔ شائد اِردگِرد
کے رہنے والے مکین خالی گھر دیکھ کر خُوب ہاتھ صاف کررہے تھے۔ چھت کا پلاستر بھی تقریباً
اُکھڑ چُکا تھا۔ جِس میں سے کہیں کہیں بُوسیدہ سریا جھانک کر اپنی موجودگی کا اِحساس
دِلا رہا تھا۔ اچانک مجذوب نے اُسکی محویت کو تُوڑتے ہُوئے کہا،، یاد رکھنا کبھی کِسی
سے یہ مت کہنا کہ میں تُم سے بات چیت کرتا ہُوں۔۔۔ کیونکہ اگر تُم سے ایسا کیا تُو
مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ تُم ضرور لوگوں میں تماشہ بن کر رِہ جاؤ گے۔۔۔۔
کیونکہ اَس تمام شہر میں کوئی تُمہاری اِس بات کو نہیں مانے گا۔۔ کہ،، بابا صابر کِسی
سے بات کرتے ہیں۔۔۔
لیکن آپ نے یہ بہروپ آخر کیوں سجا رکھا ہے۔۔۔؟ اُور آپ کیوں
لوگوں سے بات نہیں کرتے۔ اُور بھلا مجھ میں ایسی کیا خاص بات ہے جُو آپ نے اِس لاکھوں
افراد کے شہرمیں مجھی کو گفتگو کیلئے چُنا ہے۔۔۔؟ِ کامِل علی بے تکان بُولتا چلا جارہا
تھا۔ کہ مجذوب نے اُسکے ہُونٹوں پر انگلی رکھ کر اُسے خاموش رہنے کا اِشارہ کیا۔ اُور
خُود خَلاؤں میں گُھور کر کسی کو تلاش کرنے لگا۔۔۔۔ چند لمحے یہاں وَہاں نِگاہیں گھمانے
کے بعد اُس مجذوب نے صحن کی منڈیر پر نظریں جماتے ہُوئے کِسی کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا،،
۔۔۔ ابے اُو حَرامزدے مجھ سے تُو کیا کھیلے گا۔۔۔۔؟ کیا میں تُجھے بے خبر دِکھائی دیتا
ہوں۔۔۔؟ کیا میں نہیں جانتا کہ تُو کب سے اِس مُوقع کی تلاش میں ہے کہ،، اِس حرامزادے
کیساتھ مِل کر اپنی دھما چُوکڑیوں کا سامان پیدا کرے۔ مجذوب نے کامِل علی کی جانب اِشارہ
کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ پھر نجانے مجذوب کے دِل میں کیا بات سمائی کہ ،، اُس نے زمین پر
پڑی کنکریاں اُٹھا اُٹھا کر مُنڈیر کی جانب اُچھالنی شروع کردیں۔۔۔۔ چند ایک کنکریاں
منڈیر کی جانب اُچھالنے کے بعد مجذوب اُسی نادیدہ ہستی کو گالیاں بکتا ہُوا وُہاں سے
دُوڑتا ہُوا چلا گیا۔۔۔ کامل علی آج اُس مجذوب سے اپنے بے شُمار سوالوں کے جوابات کی
توقع کررہا تھا۔ لیکن وُہ مجذوب تُو کِسی افلاطون کو گالیاں بکتا چلا جا رَہا تھا۔۔۔۔۔
وُہ مجذوب اِس واقعہ کے بعد پھر شہر میں نظر نہیں آیا۔۔۔۔ کئی
ماہ گُزر چُکے تھے۔۔۔ اُور کامل علی نے اِس دوران کئی طرح کے وظائف کئے۔۔۔ دانہ ثمانی
کے موکل کو وُہ ابھی تک بُھلا نہیں پایا تھا۔۔۔ پہلی مرتبہ میں اگرچہ کامِل علی کو
کامیابی نصیب نہ ہُوسکی تھی۔ لیکن اِتنا تُو تھا کہ وُہ موکل حاظر ضرور ہُوا تھا۔۔۔
لیکن اُسکے بعد دُو مرتبہ کامل علی اُس چلہ کی تجدید کرچُکا تھا۔ لیکن اِس مرتبہ دُونوں
چِلّے ہی ناکام رہے تھے۔۔۔۔ پھر اُستاد عبدالرشید کے کہنے پر وُہ آج میاں صاحب کے آستانے
پر بھی حاضر ہُوا تھا۔۔۔ لیکن میاں صاحب نے مُلاقات ہی ایسی بے رُخی اُور اِس بے اعتنائی
کے انداز میں فرمائی تھی،، گُویا مُلاقات سے پہلے ہی مُلاقات ختم ہُوگئی ہُو۔۔ کامل
علی کو زمانے سے زیادہ اپنے نصیب پر غُصہ آرہا تھا۔ پھر نجانے کب اِ سی غَم و غُصہ
کی حالت میں نیند نے اُسے اپنی آغوش میں چُھپا لیا۔۔۔ کامِل علی کو سُوئے ہُوئے چند
منٹ سے زائد نہ ہُوئے ہُونگے۔ کہ کسی نے دھیمے دھیمے دروازے پر دستک دینی شروع کردی۔
اُور دستک دینے والے کے ہاتھ تب تک نہ تھمے۔ جب تک کہ کامل علی کچی نیند سے جاگ کر
بڑابڑاتا ہُوا دروازے پر نہ آگیا۔
کامل علی نے آنکھ مَلتے ہُوئے دروازہ کھول کر دیکھا۔ تُو ایک
نوجوان کو اپنا منتظر پایا۔ وُہ کوئی چھبیس ستائیس برس کا نُوجوان تھا۔ جسکے چہرے پر
سادگی سے زیادہ بے وقوفی مترشح تھی۔ تیل میں تربتر بال جنکے دَرمیان میں سے سیدھی مانگ
نِکالی گئی تھی۔ اُور ہُونٹوں پر باریک سی تلوار جیسی مُونچھیں دیکھ کر تُو کامل علی
کی رات کے اِس پہر ہنسی نِکلتے نِکلتے رِہ گئی۔ کامِل علی نے اپنی ہَنسی پر قابو پاتے
ہُوئے نرم لہجے میں دریافت کیا۔ بھائی کُون ہُو۔ اُور رات کے اِس پہر ایسی ٹِھٹرتی
ہُوئی سردی میں کیوں میرا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے۔
بھائی مُسافر ہُوں، اُور اِس بھرے پُرے شہر میں میرا کوئی شناسا
نہیں ہے۔ رِیلوےاِسٹیشن سے نِکل کر اپنے لئے کوئی جائے پناہ تلاش کررہا تھا۔ نجانے
کیسے آپ کے گھر کے سامنے سے گُزرتے ہُوئے قدم ٹہر سے گئے۔ سُوچا آپ سے مدد مانگ لُوں
ہُوسکتا ہے اِسطرح میرے ساتھ ساتھ آپ کا بھی کُچھ بھلا ہُوجائے۔ ویسے میرا نام افلاطون
ہے۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ اگر آپ مجھے اَبو شامِل کے نام سے مُخاطب کریں گے تُو مجھے زیادہ
اچھا لگے گا۔ اجنبی نوجوان نے اپنا تعارف اُور مُدعا پیش کرتے ہُوئے کہا۔
افلاطون۔۔۔ یہ کیا نام ہُوا بَھلا۔۔۔۔؟ کامل علی نے بڑبڑاتے
ہُوئے خُود سے استفسار کیا۔۔۔۔ کامل علی کو یہ نام عجیب ضرور لگا تھا۔۔۔۔ لیکن اُسے
بے چینی اِس بات کی تھی۔۔ کہ،، اُسے ایسا کیوں مِحسوس ہُورہا ہے جیسے اُسکا اِس نام
سے کوئی رِشتہ جُڑا ہُو۔۔۔ یا اِس نام کے ساتھ اسکا کوئی خاص تعلق ہُو۔۔۔! وُہ اِس
نام کو قرطاس ذِہن کی لُوح پر تلاش کرنے کی کُوشش کررہا تھا۔ لیکن کوئی سُراغ کوئی
سِرا اُسکے ہاتھ نہیں آیا۔
کہاں کُھو گئے میاں کیا اندر آنے کیلئے نہیں کہو گے۔۔۔۔؟ اگر
چند لمحے اُور یُونہی باہر کھڑے رہے تُو شائد ہم دُونوں قلفیوں کی صورت اختیار کرجائیں
گے۔۔۔۔ افلاطون نے اپنے لہجے میں مِزاح کا عنصر پیدا کرتے ہُوئے کہا۔
لیکن میں ایک اجنبی شخص کو اپنے گھر میں کیسے داخل ہُونے کی
اجازت دے سکتا ہُوں۔۔۔۔۔ کامل علی نے دروازے کی چُوکھٹ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہُوئے
۔۔۔ گُویا اُسکی اندر آنے کی راہ مسدود کرتے ہُوئے جواب دِیا۔
اِس سے تُو بہتر تھا کہ میں تُم سے اندر داخل ہُونے کی اجازت
طلب کرنے کی بے وقوفی ہی نہیں کرتا۔۔۔۔ یہ کہتے ہُوئے وُہ اجنبی کامل علی کو دھکیلتے
ہُوئے اندر داخل ہُوگیا۔
کامِل علی نے اجنبی افلاطُون کی اِس بے باکی اُور دَراندازی
پر تِلملاتے ہُوئے افلاطون نامی اِس نُوجوان کا بازو سختی سے تھامتے ہُوئے اُسے واپس
دروازے سے باہر دھکیل دیا۔ جسکی وجہ سے وُہ نوجوان لڑکھڑاتے ہُوئے سڑک پر گِر پَڑا
۔ اُسے شائد کامِل علی سے ایسے جارحانہ رَویئے کی اُمید ہر گز نہیں تھی۔ کامِل علی
نے غُراتے ہُوئے اُس نوجوان کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا،، یہ میرا گھر ہے ۔ کُوئی سرائے
خانہ نہیں ہے۔ جہاں جس ایرے غیرے نتھو خیرے کا دِل چاہے۔ اُور وُہ دندناتا ہُوا داخل
ہُوجائے۔ کامل علی نے حِقارت سے زمین پر گِرے ہُوئے نوجوان کو دیکھا جُو کمالِ ڈھٹائی
سے کامل علی کو دیکھتے ہُوئے مُسکرا رہا تھا۔ کامِل علی نے دروازے کی کُنڈی لگا کر
جُونہی اپنی چارپائی کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔ اُسکی آنکھیں یہ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رِہ گئیں،،
کہ وہ افلاطون نامی نوجوان جو ابھی ایک لمحے قبل سڑک پر گِر پڑا تھا۔ اپنی ٹانگیں پسارے
بڑے آرام سے چارپائی پر نیم دراز تھا۔ کامل علی گھبرا ہٹ کے مارے چند قدم پیچھے کھسک
گیا۔ بے خیالی میں اُسکا پاؤں گیس سلنڈر سے ٹکرا گیا جسکی وجہ سے وُہ اپنا توازن قائم
نہیں رَکھ پایا۔
شہرِ اقبال نہ ہی جھنگ دیکھا
خَاک اُلفت کا تُونے رَنگ دیکھا
حُوصلہ پیار کا نہیں تھا اگر
کیوں خیالوں میں اُسکو سنگ دیکھا
دِل کو تُوڑا ہے تُو سزا بھی بُھگت
خاب میں خستہ دِل اُور جگر تنگ دیکھا
گرچہ نیت میں تیری کُھوٹ نہ تھا
ہم نے لہراتا تجھے پھر بھی اِک پتنگ دیکھا
عشرتِ وارثی بن جائے بات لُوگ اگر
دیکھ کر تجھ کو کہیں ہم نے اِک ملنگ دیکھا
قسط۔ ۱۴
زَمین پر اُوندھے منہ گرتے ہُوئے کامِل علی کو گیس سِلنڈر سے
باہر نِکلا ہُوا نُوزِل اپنی داہنی آنکھ کے بالکل مُقابل دِکھائی دیا۔ اِس سے پہلے
کہ وُہ نُوزل کامل علی کی آنکھ میں پیوست ہُوجاتا۔۔۔۔۔ اَفلاطُون نے بڑھ کر کامل علی
کو تھام لیا۔ جسکی وجہ سے کامل علی کی ایک آنکھ ضائع ہُوتے ہُوتے رِہ گئی۔ افلاطُون
نے اُسے چارپائی پر بِٹھاتے ہُوئے ڈانٹا۔۔۔۔ کہاں تُو طاقت حاصِل کرنے کیلئے کیسے کیسے
پاپڑ بیلتے رَہے۔۔۔ کبھی خطرناک چِلّوں میں خُود کُو جُھونک رہے تھے۔ تُو کبھی ہندو
بنگالی کی شاگردی کیلئے پر تُول رہے تھے۔۔۔۔ اُور اب جبکہ میں خُود تُمہارا سہارا بننے
کیلئے اُور تُمہیں دُنیا کا طاقتور انسان بنانے کیلئے آگیا ہُوں۔۔۔ تُو مجھ سے بھاگ
رہے ہُو۔ بلکہ سچ کَہوں تُو حماقت دِکھا رہے ہُو۔ افلاطُون نے ناراضگی کا اِظہار کرتے
ہُوئے کہا۔
کیا تُم دانہٗ ثمانی کے موٗکل ہُو۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔ کامل علی نے اپنے
حَواس پر قابُو پاتے ہُوئے حیرانی سے استفسار کیا۔
یار دیکھو میں کُوئی دانہٗ ثمانی وَمانی کا موٗکل شُوٗکل نہیں
ہُوں۔۔۔۔ البتہ یہ سچ ہے کہ میں تُمہاری مدد کرنا چاہتا ہُوں۔ اُور تُم سے دُوستی کا
خُواہشمند ہُوں۔ تُمہاری تمام خُواہشات میں پُوری کردُوں گا۔ اُور کُچھ کام تُم میرے
کردِیا کرنا۔۔۔ بس اتنی سے بات ہے۔
اگر تُم دانہٗ ثمانی کے موٗکل نہیں تُو پھر کُون ہُو۔ تُم بند
دروازے کے باوجود گھر میں کیسے داخِل ہُوگئے۔۔۔؟ ۔۔۔اُور تُم میرے لئے کیا کرسکتے ہُو۔۔؟
کامل علی کا خُوف تجسس میں تبدیل ہُوچُکا تھا۔
دیکھو دُوست مجھ پر اعتماد کرو۔۔۔۔چلو ایسا کرتے ہیں میں پہلے
چائے بنا لیتا ہُوں۔ اتنا کہنے کے بعد افلاطُون نے کامل علی کے جواب کا انتظار کئے
بغیر چائے کی پتیلی چُولہے پر چڑھادی۔ حالانکہ ابھی کُچھ ہی گھنٹے قبل کامل علی دیکھ
چُکا تھاکہ،، گیس کا سلنڈر بالکل خالی ہُوچُکا ہے۔ لیکن اب چولہے سے نکلتی ہُوئی آگ
کی تیز لپٹیں کُچھ اُور ہی کہانی سُنا رہی تھیں۔۔۔۔ کامل علی سُوچ رَہا تھا کہ اگر
یہ دانہٗ ثمانی کا موٗکِل نہیں تُو آخر یہ ہے کُون۔۔۔۔۔؟
اگلے ہی لمحے افلاطُون نے چائے کا گرما گرم مگ کامِل علی کے
ہاتھوں میں تھماتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ اپنے پہلے سے پریشان دِماغ کو مزید نہ تھکاوٗ۔ اس
سَرد رات میں گرم گرم چائے کا مزہ لُو۔ اُور سب کُچھ بُھول جاوٗ۔۔ میں نے کہا ہے نا۔تُم
سے۔۔۔ کہ،، چائے پیتے ہُوئے تُم کو سب کُچھ سمجھاتا ہُوں۔
کامل علی چائے کی چُسکیاں لیتے ہُوئے سُوچنے لگا۔۔۔ واقعی افلاطُون
کے ہاتھ میں جادو ہے۔ ورنہ ایسی مزیدار چائے کبھی وُہ خود کیوں نہیں بنا پایا۔
افلاطُون نے چائے کا خالی مَگ سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہُوئے کامل
علی کو مُخاطب کیا۔۔۔ یہ چائے تُو کُچھ بھی نہیں ہے میرے یار۔۔ آگے آگے دیکھتے جاوٗ
میرے دوست میں تُمہیں دنیا کی کیسی کیسی نعمتیں کِھلاتا ہُوں۔۔۔۔ دُنیا کی جو ڈِش کھانے
کُو دِل چاہے مجھے بتادِینا۔ صرف چند منٹ میں حاضر نہ کردوں تُو میرا نام اَبو شامِل
نہیں بلکہ گھن چکر رکھ دینا۔ ۔۔ دُوست ہُو یا دُشمن جِسے کہو گے تُمہارے سامنے پیش
کرسکتا ہُوں۔۔۔ جہاں جانا چاہو۔ اِشارہ کردینا۔ وَہاں مِنٹوں میں پُہنچانا میرا کام
ہُوگا۔ دُولت پیسہ جُو کہو گے سب کُچھ تُمہارے قدموں میں ڈھیر کردُونگا۔۔۔
لیکن تُم نے ابھی تک مجھے یہ نہیں بتایا کہ آخر تُم ہُو کُون۔۔۔۔؟
انسان ہُو تو کیا جادُو گر ہُو۔ ۔۔۔؟ یا کوئی جِن ہو۔۔۔؟ ایک طرف خُود کو میرا دُوست
بھی کہتے ہُو۔۔۔ میری مدد بھی کرنا چاہتے ہُو۔۔ لیکن اپنی ذات کو معمہ کی طرح پُوشیدہ
بھی رکھنے کی کُوشش کررہے ہُو۔۔۔ اُور ہاں کیا تُم مجھے لوگوں کی نظروں سے پُوشیدہ
بھی کرسکتے ہُو۔۔ کامل علی نے گِلہ کرتے ہُوئے سوالات کی بُوچھاڑ کردی۔
دیکھو کامل میرے دُوست انسان اُور جنات سبھی کو ایک خُدا نے
بنایا ہے۔ نہ کوئی اپنی مرضی سے انسان بنتا ہے اُور نہ کوئی اپنی خُوشی سے جِن بنتا
ہے جیسے انسان اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ویسے ہی جِنات بھی تُو اُسی پروردیگار کے بنائے
ہُوئے ہیں۔ البتہ یہ اُور بات ہے کہ اِن دونوں کے درمیاں دُوری کی خلیج نے اِن دونوں
کو ایک دوسرے سے خُوفزدہ کردیا ہے۔ انسان جنات سے ڈرتے ہیں۔ اُور جنات انسانوں سے عاجِز
رِہتے ہیں۔۔۔ ویسے تُم چاہو تُو میں کبھی کبھار تُمہیں لوگوں کی نِگاہوں سے اُوجھل
کرسکتا ہُوں ۔ اُور تُمہاری خُواہش پر میں تُمہیں پوشیدہ رِہنے کا عمل بھی سِکھاسکتا
ہُوں۔
دیکھو۔۔۔ تُم پھر میرا سوال گُول کرگئے۔۔۔ تُم نے ابھی تک یہ
نہیں بتایا کہ آخر تُم کِن میں سے ہُو۔۔۔۔۔۔ انسانوں سے ۔۔۔۔ یا قومِ جنات سے۔۔۔ کامِل
علی نے اپنا سوال دُھراتے ہُوئے افلاطُون کی بات درمیان سے اُچکتے ہُوئے کہا۔۔
دیکھو میرے دُوست میرا خیال ہے کہ ،، میری تمہید سے تُم نے اندازہ
لگا لیا ہُوگا۔ کہ،، میں کُون ہُوں ۔ لیکن اگر تُم میرے مُنہ سے سُننا چاہتے ہُو تُو
سُنو۔۔۔ میں انسان نہیں ہُوں بلکہ ایک جِن زادہ ہُوں۔ میرے دادا نے میرا نام افلاطُون
رکھا تھا۔ لیکن میرے بیٹے شامل کی پیدایش کے بعد اکثر لُوگ مجھے میری کُنیت کے سبب
اَبو شامِل کے نام سے پُکارتے ہیں۔ اُور مجھے بھی اب یہی نام سُننے میں بھلا محسوس
ہُوتا ہے۔ افلاطُون نے دُوران گُفتگو کامل علی کے چہرے پر کئی رنگ گُزرتے دیکھے۔ جسکی
وجہ سے افلاطُون کو یہ اندازہ لگانے میں بالکل دُشواری پیش نہیں آئی کہ۔ خُوف کی ایک
لہر کامل علی کے چہرے پر رینگتے ہُوئے گُزر رہی ہے۔
افلاطُون کے خاموش ہُوتے ہی کامل علی نے سَرد رات کے باوجود
اپنی پیشانی پر آئے پسینے کے قطرات سمیٹتے ہُوئے اپنا گلا کھنکارتے ہُوئے دُوسرا سوال
داغا۔ میں نے تُمہیں قابو کرنے کیلئے کُوئی چِلّہ نہیں کاٹا۔ پھر تُم میری مدد کیوں
کرنا چاہتے ہُو۔
دیکھو دُوست میری طاقت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ کہ،، میں خُود
بھی ایک زبردست عامِل ہُوں۔ اُور اِسی طاقت کی وجہ سے کئی لُوگ مجھے اپنا غُلام بنانے
کی ناکام کُوشش کرچکے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا کہ چُونکہ میں خُود بھی
ایک عامِل ہُوں اسلئے کچھ نہ کُچھ بچت کا سامان پیدا ہُوجاتا ہے۔ لیکن اِس مرتبہ مجھے
جس شخص سے خطرہ ہے۔ وُہ نہایت ہُوشیار اُور زیرک عامِل ہے۔ جسکو میں کوئی نقصان نہیں
پُہنچا پایا ہُوں۔ نہ ہی میرا علم اُسکی استقامت کے سامنے کوئی بند باندھ پایا ہے۔۔۔۔جسکی
وجہ سے میری آزادی کو خطرات لاحق ہیں۔ ۔
میں غلام بن کر نہیں رِہ سکتا۔ میں کوئی عام جِن نہیں ہُوں۔
بلکہ ایک ریاست کے سردار جن کا اکلوتا بیٹا ہُوں۔ اسلئے میں نے سُوچا ہے۔۔کہ،، میں
تُمہاری مدد کرونگا اُور تُم مجھے اُس عامل کی دسترس سے دُور رکھو گے۔۔۔۔ اب فیصلہ
تُمہارے ہاتھ ہے۔۔۔ چاہو تُو مجھے دُوست بنا کر اپنی اُور میری زندگی کو آسان بنادو۔۔۔۔
اُور چاہو تو اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی تکلیفوں کے ان لامتناہی ساگر میں دھکیل دُو۔۔۔۔۔
افلاطُون نے اُمید و یاس سے معمور لہجے میں گُفتگو کرتے ہُوئے اپنا ہاتھ کامِل علی
کی جانب بڑھادِیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
یہ کالم اُن کے نام جو میری کوتاہیوں کے سبب مجھ سے نالاں رہے۔
اُن سے کہنا تُمہاری آمد سے
کِھل کے کَلیاں گُلاب مِہکے ہیں
اُن سے کہنا تُمہارے جَلوٗوں سے
ٹِمٹماتے ستارے چَمکے ہیں
اُن سے کِہنا کہ مسکراتے رہیں
جَاں بلب زِندگی کو پَلٹے ہیں
عِشرتِ وارثی بُہت خُوش ہُو
پِھر سے کیا میکدے کُو لوٹے ہیں
اُور یہ اشعار اُنکے نام جنہوں نے میری کوتاہوں کو مُعاف کردیا۔
(جاری ہے)
0 comments:
Post a Comment