bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Thursday 28 May 2015

جال۔در۔جال۔قسط 6



جال۔در۔جال۔قسط 6

گُزشتہ سے پیوستہ

میں بھی تُم سے صِرف ایک سوال کرنا چاہتا ہُوں۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ،، کیا اگر تُمہارا ملازم اگر تُم سے کسی معاملے میں ضد باندھ لے، تُمہارے احکامات کو ماننے سے صاف انکار کردے اور تُمہاری دُشمنی پر اُتر آئے۔ تب کیا وہ تُم سے تُمہاری ہی فیکٹری میں جیت پائے گا اور کیا تُم اسے ملازمت پر قائم رکھنا چاہو گے۔۔۔۔؟ فرقان اتنا کہہ کر نعمان کی جانب غور سے دیکھنے لگا۔

یہ کیا بات ہُوئی فرقان کہ تُم نے میرے سوال پر ہی ایک سوال قائم کردِیا۔ لیکن میرا جواب تُم خُود بھی جانتے ہُو کہ میں ایسے انسان کو اپنی مُلازمت میں ایک گھنٹہ تُو کُجا ایک لمحے کیلئے بھی برداشت نہیں کرونگا چاہے مجھے اسکے لئے دُنیا بھر کی فلاحی تنظیموں سے لڑنا پڑے یا مجھے عدالت میں ہی کیوں نہ جانا پڑجائے۔ لیکن میں شکست تسلیم نہیں کرونگا۔ اور نہ ہی اُس مُلازم کو چین سے رہنے دُونگا۔ جو میری ہی فیکٹری سے رزق بھی حاصِل کرے اور مجھ سے ہی دُشمنی باندھے۔ نعمان نے جوشیلے انداز میں جواب دیتے ہُوئے کہا۔

اب مزید پڑھیئے

نعمان میرے بھائی جب ہم اپنے جُز وقتی مُلازم کا اپنے مقابِل کھڑا ہُونا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ وہ چاہے تُو کہیں اور بھی جاکرمُلازمت تلاش کرسکتا ہے۔!!۔ جبکہ ہم نہ تو اپنے رب عزوجل کی سلطنت سے باہر نِکل سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دُوسرا رزَّاق ہی تلاش کرسکتے ہیں۔ پھر ہم کسطرح اپنے پروردگار سے مقابلے کیلئے اُسکی نافرمانی کرسکتے ہیں۔۔۔؟ فرقان نے نُعمان کے خاموش ہُوتے ہی اُسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہُوئے کہا۔

یار فُرقان خُدا کیلئے مجھے اِن جھمیلوں میں مت گھسیٹو۔ تُمہارا دِماغ تُو اس مولوی نُما پروفیسر نے خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ اب تُم کیا چاہتے ہُوکہ میں بھی درویش بن جاؤں اور سارا بزنس چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نِکل جاؤں۔۔۔؟ میرے دُوست تخیلات کی زندگی سے نِکلو اور حقیقت کی دُنیا میں لُوٹ آؤ۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہُو کہ ہم پھر اُسی مقام پر جا پہنچیں۔ جہاں ہمیں کوئی ایک کپ چائے پِلانے کا بھی روادار نہیں تھا۔ میں تُو یہ سُوچ کر تُمہارے پاس آیا تھا۔ کہ شائد گُزرے پہر میں تُمہیں تسلی سے قائل کرنے کے بجائے جذباتی ہُوگیا تھا۔ اور رات کی تنہائی میں شائد بہتر انداز سے سمجھا پاؤنگا۔ لیکن تُمہاری باتیں سُننے کے بعد میں اِس نتیجے پر پُہنچا ہُوں کہ بچپن کے حادثے نے تُمہارے ذہن کو مفلوج کردِیا ہے۔ جسکی وجہ سے میں تُو کیا کوئی حکیمِ اعظم بھی تُمہیں دُوبارہ حقیقت کی دُنیا میں واپس نہ لا پائے۔ اس لئے مجھے لگتا ہے کہ اب واقعی ہمارے راستے جُدا ہُونے کا وقت آگیا ہے۔ میں تُمہیں تین دِن تک سوچنے کا وقت دے سکتا ہُوں۔ مجھے تین دِن بعد اپنے فیصلے سے آگاہ کردینا۔ تاکہ مجھے معلوم ہُوجائے کہ باقی سفر مجھے کسطرح طے کرنا ہے۔ اتنا کہنے کے بعد نُعمان مُصافحہ کیئے بغیر کمرے سے نِکل گیا۔

فرقان سُوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نعمان جو ابھی کُچھ دیر قبل ندامت وشرمندگی سے بِچھا جارہا تھا۔ وہ یُوں روکھے پھیکے جُملوں کیساتھ پھر سے جُدائی کی راہ پر چل پڑے گا۔ وہ جو خُود رضا وجزا کے معنی میں فرق نہیں کر پارہا تھا۔ اُسے میری نفسیات کا عِلم کیسے ہُوسکتا ہے۔ کیا نعمان کِسی امتحان میں مُبتلا ہُونے کو ہے۔ ایسے ہی بیشُمار سوالات فرقان اپنے ذہن میں لئے ڈرائینگ رُوم کے برقی سوئچ آف کرنے کے بعد اپنے کمرے کی جانب بُوجھل قدموں سے چل پڑا۔

اگلے دُو دِن فرقان بُخار میں تپتا رھا۔ وہ جل از جلد پروفیسر صاحب سے مِل کر اِس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بُخار تھا کہ جُدا ہُونے کو تیار ہی نہیں تھا۔ تیسرے دِن جا کر بُخار میں کُچھ کمی کا اِحساس ہُوتے ہی فرقان نے عصر کی نماز کے بعد گاڑی نِکالی اور حسَّان صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہُوگیا۔ پروفیسر صاحب کے مکان کے باہر حسَّان صاحب کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر احمد سے مُلاقات ہُوگئی۔ وہ گاڑی کو باہر لاک کرنے کے بعد دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جونہی اُنکی نِگاہ فرقان پر پڑی اُنکے بڑھتے قدم رُک گئے۔ فرقان نے بھی گاڑی کو ایک سائڈ میں کرنے کے بعد لپک کر ڈاکٹر احمد سے مصافحہ کرتے ہُوئے اُنکی خیریت دریافت کی۔ رسمی جُملوں کے تبادلے کے بعد جب فرقان نے حسَّان صاحب سے مُلاقات کی خُواہش ظاہر کی تو جواباً ڈاکٹر صاحب نے فرقان کو بتایا کہ پروفیسر صاحب تو کِسی سیمینار میں شرکت کیلئے اسلام آباد تشریف لے گئے ہیں اور اُنکی واپسی کم از کم چھ دِن بعد ہی متوقع ہے۔۔۔

ڈاکٹر صاحب کے جواب سے فرقان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اُسے قوی اُمید تھی کہ حسَّان صاحب اِس معاملے کا کوئی بہترین حل ضرور بتاسکتے تھے۔ جسکی وجہ سے یہ مُعاملہ اگر فوری حل نہ بھی ہُوپاتا تب بھی اِن سنگین حالات میں کُچھ مہلت ضرور حاصِل ہوجاتی۔ اور تفہیم کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نِکل آتا۔ لیکن یہاں ایک طرف حسَّان صاحب کی غیر موجودگی نے فرقان کو متفکر کردِیا تھا تُو دوسری جانب نعمان کے دئیے وقت میں صرف ایک رات ہی حائل تھی جِسے یقیناً کُچھ گھنٹوں کے بعد گُزر جانا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرقان کے چہرے پر نمایاں پریشانی کو بھانپتے ہُوئے استفسار کیا۔۔۔ فرقان صاحب سب خیریت تُو ہے نا۔۔۔؟ آپ بُہت پریشان نظر آرہے ہیں۔

فرقان نے چُونک کر ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہُوئے کہا۔ احمد بھائی مجھے ایک مشکل پیش آگئی ہے۔ جسکا حل حَسَّان صاحب کے علاوہ مجھے اور کہیں نظر نہیں آرہا۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ حسَّان صاحب اپنا موبائیل فون سفر میں آف رکھتے ہیں۔ اسلئے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ حسان صاحب سے کس طرح رابطہ کروں۔۔۔؟

آپ فِکر نہ کریں فرقان بھائی،، بابا جان روزانہ عشاء کی نماز کے بعد گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کیلئے فون ضرور کرتے ہیں انشاءاللہ وہ آج بھی فون ضرور کریں گے۔ تب میں پہلی فرصت میں اُنہیں آپ کے متعلق بتادونگا۔ ڈاکٹر احمد نے فرقان کو تسلی دیتے ہُوئے کہا۔۔۔! فرقان ڈاکٹر احمد کا شُکریہ ادا کرنے کے بعد پھر سے گھر کیلئے روانہ ہُوگیا۔

عِشاء کی نماز سے فارغ ہُونے کے بعد جب فرقان نے موبائیل سائلینٹ موڈ سے ہٹانے کیلئے جیب سے نِکالا تب اُسکی نِگاہ ایک انجان نمبر سے موصول مِس کال پر پڑی۔ فُرقان نمبر دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش میں مصروف ہی تھا کہ ایک مرتبہ پھر اُسی انجان نمبر سے کال موصول ہُونے لگی۔ فرقان نے کال ریسیو کرتے ہُوئے جونہی موبائیل کو کان سے لگایا تو دوسری جانب سے حسَّان صاحب کی آواز سُنائی دی۔ سلام ودُعا سے فارغ ہُونے کے بعد اُنہوں نے بتایا کہ اُنکے سیلولر فون کی بیٹری کی چارجنگ ختم ہوچکی ہے اسلئے اپنے ایک شاگرد کے نمبر سے کال کررہے ہیں۔ چند رسمی جُملوں کے بعد فرقان نے اپنی پریشانی حسَّان صاحب کو بتادی۔ جسکے جواب میں حَسَّان صاحب فرمانے لگے۔ بیٹا انسان کی آنکھوں پر جب حِرص وطمع کی پٹی چڑھ جاتی ہے تب وہ اچھائی اور بُرائی میں تمیز کُھو بیٹھتا ہے۔ اور کبھی چند لمحوں کی خوشیوں کیلئے اپنے مستقبل کو بھی داؤ پر لگانے سے نہیں چُوکتا۔ آپ نے بُہت اچھا کیا کہ اُس وقت نعمان کو قران و حدیث سے دلائل نہیں دیئے ورنہ یہ بھی ممکن تھا۔ کہ خُدانخواستہ وہ کسی آیت و حدیث کا ہی غُصے میں انکار کربیٹھتا اور اپنی آخرت کیلئے مزید مشکلات خرید لیتا۔

لیکن حضرت مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہا کہ کل نعمان سے کیا بات کروں۔۔۔؟ کیونکہ میں نہ ہی نُعمان کو کھونا چاہتا ہُوں اور نہ ہی مُشترکہ کاروبار ہی ختم کرنا چاہتا ہُوں۔ ایک طرف میں سودی نِظام سے خُود کو اور نُعمان کو بچانا چاہتا ہُوں۔ تو دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھے بزنس کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں ہے۔ فرقان نے اپنی اُلجھن کا اظہار کرتے ہُوئے کہا۔

دیکھو میرے بچے کبھی کبھی اللہ کریم انسان کو آزمائش میں مُبتلا فرماکر اُسکا اِمتحان لیتا ہے۔ تب ایک طرف راستہ بند ہُونے کے باوجود اُس کی رضا اُسی بند گلی کے خُفیہ دروازے کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ اگر بندہ ہمت سے کام لیتے ہُوئے اُسکی رضا کی جانب قدم بڑھاتا رِہتا ہے تُو اُسے بند گلی سے نِکلنے کا راستہ دِکھائی دے جاتا ہے اور یہی راستہ درحقیقت کامیابی اور فلاح کا راستہ ہُوتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب کُشادہ راہ، آسان اور پرآسائش زندگی دِکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں یہ راستہ ایک سراب سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ہُوتا۔ نافرمانی کے اِس راستے پر اگرچہ بُہت سے پُرفریب مناظر اِنسان کو اپنی جانب کھینچتے ہیں مگر در حقیقت اس راستے کی کوئی منزل ہی نہیں ہوتی۔ بلآخر انسان ایسی بھول بھلیوں میں گُم ہُو کر رہ جاتا ہے تب چہار سو اُسے گہری کھایئوں کے سِوا کُچھ دِکھائی نہیں دِیتا۔ لِہذا میرے بچے مجھے لگتا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب تُمہیں آزمایا جائے گا۔ پس آزمائش کی اِس گھڑی میں ثابت قدم رِہنا اور فیصلے کے وقت آسان راہ ڈھونڈنے کے بجائے اللہ کریم کی رضا کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا۔ انشاءاللہ یہی فیصلہ آگے چل کر تُمہارے لئے دائمی فوائد ،سکون و کامیابی کی شاہراہ کو کھول دے گا۔ اور جب تُم فیصلہ لینے لگو تب اپنے پروردگار سے مدد اور آسانی ضرور طلب کرنا۔ میری بھی یہی دُعا ہے کہ اللہ کریم آزمایش کی اِس گھڑی میں تُمہیں سُرخرو فرمائے۔ چند مزید نصیحتوں کے بعد رابطہ منقطع ہُوگیا۔ لیکن فرقان کو حسان صاحب سے گُفتگو کرنے کے بعد یُوں محسوس ہُورہا تھا جیسے اُسکے کاندھوں سے کوئی مَنوں وزنی بُوجھ اُتر گیا ہُو۔۔۔

دوسرے دِن فرقان آفس میں بیٹھا نعمان کو ایک مرتبہ پھر سود۔ در۔سُود کے حَسین جال کی تباہ کاریوں کے نقصانات سے آگاہ کرنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا جبکہ نُعمان سپاٹ چہرے کیساتھ فرقان کی گُفتگو کو اِدھر اُدھر دیکھتے سُن رہا تھا۔ فرقان کے خاموش ہُوتے ہی نُعمان گُویا ہُوا۔ دیکھو فرقان تُم دُنیا میں میرے بہترین دُوست ہُو۔ اور ہم نے کئی برس تک کامیابی سے مشترکہ کاروبار بھی کیا ہے۔ اگرچہ تمام کاروباری معملات میں خود ہی سنبھالتا رہا ہُوں۔ اور میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ تُمہیں کاروباری معاملات کے بکھیڑوں میں نہ گھسیٹوں۔ اور اتنا مجھے بھی یقین ہے کہ تم میری تمام کاروباری سرگرمیوں سے مطمئین بھی ہُو۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سوچ و افکار میں زمین و آسمان کے فاصلوں کے مماثل بُعد پیدا ہُوگیا ہے۔ اور اس فاصلے کو ختم کرنا نہ ہی میرے اختیار میں ہے۔ اور تُمہاری بار بار کی نصیحتوں سے مجھے اندازہ ہُورہا ہے۔ کہ شائد تُم بھی ان فاصلوں کو مِٹانا نہیں چاہتے۔ لِہذا بہتر یہی ہُوگا۔ کہ ہم اپنی راہیں جُدا کرلیں۔۔۔۔۔۔۔ چُونکہ ہمارا کاروبار مشترکہ کاروبار ہے لِہذا ہم دونوں کا اس پر یکساں حق ہے۔۔۔ اسلئے میں چاہتا ہُوں کہ بجائے مزید بحث میں اُلجھنے کہ ہمیں آپس میں اپنے کاروبار کا بٹوارہ کرلینا چاہیئے ہمارے پاس ایک فیکٹری ہے۔ جس پر کِچھ قرض کاروباری لوگوں کا ہے۔ اور کچھ لوگ ہمارے مقروض ہیں اِن تمام معاملات کو سمیٹنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اسکے لئے کافی وقت درکار ہے جبکہ دوسری جانب ہمارے پاس چھ ایکڑ کا ایک کمرشل پلاٹ ہے جو فیکٹری سے متصل ہے۔ دونوں کی مارکیٹ ویلیو تقریباً مساوی ہے۔ اگر تُم چاہو تو فیکٹری کے جھمیلوں کو سنبھال لو، اور چاہو تو وہ کمرشل پلاٹ لے لو، میں ایک دوست کی حیثیت سے تُمہیں پلاٹ لینے کا مشورہ دُونگا۔ کیونکہ فیکٹری کے معاملات کو سنبھالنا تُمہارے بس کا رُوگ نہیں ہے۔۔۔۔۔ نعمان جتنی آسانی سے علیحدگی کے فارمولے سُنا رہا تھا۔ اُتنی ہی تکلیف کے آثار فرقان کے بُشرے سے عیاں ہُوتے چلے جارہے تھے۔

(جاری ہے)

پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا

0 comments:

Post a Comment