bing

Your SEO optimized title page contents

Pages

Hamara Tube Channel

Monday, 25 May 2015

عامل کامل ابو شامل (جوگی گھنشام داس) قسط ۳۵



گُذشتہ سے پیوستہ۔

جب تمام میڈیکل رپورٹس سے  بھی بیماری کی تشخیص ممکن نہ ہُوسکی۔ تو عزیز رشتہ داروں  کو حسب سابق یہ  تمام معاملہ سفلی ،، جادو کا شاخسانہ دکھائی دینے لگا۔۔۔ فرح کی والدہ بھی  اِس رائے سے متفق تھیں۔ لہذا شام کو  فرح کے والدعلاقے کی مسجد کے قاری صاحب کو پکڑ لائے۔ اِن کے متعلق علاقے میں مشہور تھا۔کہ،، جنات اِنکا نام سُن کر تھرتھرانے لگتے ہیں۔ اُور جادو کی کاٹ کے تو وُہ ایسے ماہر ہیں ۔کہ،، جادو کرنے والوں پر جادو  اسطرح پلٹاتے ہیں۔کہ،، وُہ آئندہ جادو کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔۔۔ جب قاری صاحب کمرے میں داخل ہُوئے تو اپنی طوطے جیسی ناک کمرے میں یُوں  بُلند کرنے لگے۔ جیسے جادو ، یا جنات کی بُو کا سراغ لگارہے ہُوں۔۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے کسی عامل کی آمد کا تذکرہ سُنا تھا۔ تو کچھ نہ کچھ تشویش  بہرحال مجھے بھی لاحق ہُوئی تھی۔۔۔۔ لیکن جونہی میں نے قاری عبدالمنان کو دیکھا تو میری ہنسی نکل گئی۔۔۔ وُہ ایک بے پیرا عامل تھا۔ جو سرے سے تکوینی معملات سے بے خبر تھا۔ اُور اپنی ذات  کی خُودی میں ایسا گُم تھا۔ کہ،، عملیات کی دنیا میں آنے سے قبل یہ جان ہی نہیں پایا کہ،، عملیات میں تاثیر اُنکے ہوتی ہے۔ جن پر کسی کامل اللہ والے کی نظر ہُو۔ وگرنہ ساری ریاضت لپیٹ کر بلعم بن باعورا کی طرح مُنہ پر مار دی جاتی ہے۔  قاری عبدالمنان  کو دیکھ کر میرے اندر کا شرارتی بچہ انگڑائی لیکر جاگ رہا تھا۔ میری حالت بھی بالکل اُس بچے کی مانند تھی۔۔۔۔ جوکسی دوسرے بچے  کے کھلونے کو دیکھ کر مسلنے اُور توڑنے کے پلان بنانے لگتا ہے۔

اب مزید پڑھیئے۔

تھوڑی دیر  تک قاری عبدالمنان کمرے  میں  ایسے مٹر گشت کرتا رہا  جیسے کسی غیر مرئی مخلوق کی موجودگی کو محسوس کررہا ہُو۔ اگلے مرحلے میں اُس نے فرح کے بیڈ کے سامنے کرسی  پڑی کرسی پر براجمان ہُو کر زیر لب  بدبدانا شروع کردیا۔ وُہ مسلسل آنکھیں بند ایسے جھوم رہا تھا۔ جیسے یہودی یروشلم میں مقدس دیوار کے سامنے لہراتے اُور بل کھاتے ہیں۔۔۔ مجھ سے اپنی ہنسی نہیں سنبھالی جارہی تھی۔ کہ اچانک قاری صاحب نے  دھماکہ دار اعلان فرمادیا۔۔۔۔ اِس بچی  کے جسم پر جنات کے ایک لوفر گروہ نے قبضہ جمالیا ہے۔ جنکی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ سبھی کے سبھی اُوباش ہیں۔ جو اِس بچی کو باری باری  اپنی ہوس کا نشانہ بنارہے ہیں۔۔۔ لیکن یہ نہیں جانتے ۔کہ،،  یہ انجانے میں قاری عبدالمنان کے علاقے میں دراندازی کے مرتکب ہوگئے ہیں۔ اُور اب یہ  تمام کمینے اپنے انجام کو پُہنچنے والے ہیں۔۔۔۔ میری تمام ہنسی قاری کے اِس اعلان کے بعد غصے میں بدل چُکی تھی۔ وُہ اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے اُول فول بک رہا تھا۔ میں چاہتا تو اُسے اِسی وقت تماشہ بناسکتا تھا۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا۔کہ،، لوگوں کو اِسکی اصلیت بتانا ہی اسکی بہترین سَزا ہُوگی۔

وُہ عامل جس وقت فرح پر جھک کر اُسے پھونکیں مار رہا تھا۔ میں نے اُسکی رانوں کے درمیان شدید قسم کی کھجلی پیدا کردی۔۔۔ جسکی وجہ سے کمرے میں ڈرامے کی  سی صورتحال پیدا ہُوگئی۔۔ کبھی وُہ  فرح کے بیڈ پر ہاتھ رکھ لیتا۔ اُور کبھی اتنی شدت سے اپنی  رانوں کو کھجانے لگتا۔ جیسے کوئی خارش زدہ انسان تنہائی میں بیباکی سے کھجا سکتا ہے۔۔۔ شرمندگی کے مارے قاری کا بُرا حال تھا۔ مگر وُہ ڈھٹائی سے تب تک فرح پر پھونکیں مارتا رہا۔ جب تک کہ اُسکی برداشت جواب نہ دے گئی۔ بلاآخر اُس نے فرار کی راہ ڈھونڈتے ہُوئے اعلان کیا۔کہ،، وُہ اپنا خاص چراغ گھر بھول آیا ہے۔ اِس لئے باقی علاج مغرب کی نماز کے بعد کرے گا۔ وُہ عامل جیسے ہی کمرے سے نکلنے لگا۔ میں نے شرارت سے اُسکی شلوار کا ایک پائینچہ تھام لیا۔ جسکے نتیجے میں قاری صاحب  دھڑام سے زمین بُوس ہُوگئے۔ قاری صاحب کی بدحواسی اُور مسلسل کھجلی کی وجہ سے تمام لوگوں کا عجیب حال تھا۔ وُہ نہ تو کھل کر ہنس سکتے تھے۔ اُور نہ ہی اُنکی بدحواسی کا سبب معلوم کرپارہے تھے۔

مغرب کے بعد جب قاری صاحب کی حالت  قدرے سنبھل گئی ۔ تو موصوف اِس مرتبہ سچ مچ ایک پیتل کا چراغ فرح کی فیملی پر دھاک جمانے کی خاطر اُٹھالائے۔۔۔ قاری صاحب نے اس مرتبہ دعویٰ کیا کہ،، جونہی چراغ میں بخورات  سُلگنے لگے گا۔۔  فرح پر قابض تمام جنات میری قید میں چلے آئیں گے۔۔۔۔ میں  قاری صاحب کے بالکل برابر میں دھونی جما کر بیٹھ گیا۔۔۔ اُور جونہی قاری صاحب نے بخورات سلگائے میں نے ایک ہی کش کی مانند اُسکا تمام دُھواں سمیٹ کر قاری صاحب کی ناک میں منتقل کردیا۔۔۔ پھر کیا تھا۔ قاری صاحب پُورے کمرے میں  بپھرے سانڈ کی مانند چھینکیں مارتے ہُوئے اُچھل کُود کرنے لگے۔۔۔ جب انکی طبیعت کچھ سنبھلنے لگی تو وُہ ایک مرتبہ پھر چراغ کے سامنے آکر بیٹھ گئے۔ البتہ بخوارت کو اُنہوں نے یہ کہہ کر بُجھادیا ۔کہ،، پنساری بھی آج کل ملاوٹ کرنے لگے ہیں۔  اِس مرتبہ جونہی قاری صاحب نے  آنکھیں مُوند کرڈھونگ جماتے ہُوئے بِدبدانا شروع کیا میں نے ایک چھپکلی قاری صاحب کے سر پر ٹپکادی۔۔۔ قاری صاحب بڑے انہماک سے عمل میں مصروف تھے۔ جبکہ چھپکلی  گھبرا کر سَرسراتے  ہُوئے ٹوپی سے پھسل کر قمیص میں داخل ہُوگئی۔

قاری صاحب نے چھپکلی کی  حرکت سے بےچین ہُوکر آنکھیں کھول دی۔ لیکن جونہی اُن کو قمیص کے اندر چھپکلی کی موجودگی کا احساس ہُوا۔ تو وُہ ایسے بدحواس ہُوئے کہ،، کمرے میں  اچھلتے کودتے ہُوئے اپنی قمیص اُتار کر صحن میں اُچھال دی۔ فرح  نےبیماری کے باوجود بھی مسکراتے ہُوئے شرم سے اپنا چہرہ دوسری جانب پھیرلیا۔۔۔۔ ۳ دن تک یہ کھیل تماشہ چلتا رہا۔ وُہ ڈھونگی عامل فرح کے علاج کیلئے جونہی کمرے میں داخل ہُوتا۔ میں اُسے ہی سب کے سامنے تماشہ بنادیتا۔ آخر تیسرے دِن فرح کے والد سمجھ گئے ۔کہ،، قاری عبدالمنان کوئی عامل نہیں بلکہ ایک ڈھونگی ہیں۔ جو خود کو نہیں سنبھال پارہے تو اِنکی بیٹی کا علاج کیا خاک کریں گے۔ اِس لئے اُنہوں نے قاری صاحب  سے معذرت کرتے ہُوئے صاف صاف کہہ دیا۔کہ،،  وُہ آئندہ آنے کی زحمت نہ کریں۔ ہماری بچی کے نصیب میں اگر یہ تکلیف لکھی ہے۔ تو اللہ کریم ہی اسمیں آسانی کا راستہ نکال دے گا۔

میں نے قاری صاحب کو اُنکے ڈھونگ اُور جھوٹے دعوے کا اچھا خاصہ مزاہ چکھادیا تھا۔ محلے والوں کو بھی فرح کے گھر میں پیش آنے والے کھیل تماشوں کی خبر ہُوچُکی تھی۔۔۔ ایک دو مرتبہ میں نے قاری صاحب کے گھر میں بھی  خُوب دہشت پھیلائی ۔تو ایکدن قاری صاحب خود چِلا چلا کر اپنے کمرے میں کہنے لگے۔ خُدا کے واسطے تُم جو کوئی بھی ہُو۔ میرے گھر والوں کا پیچھا چھوڑ دُو۔ میرے باپ کی بھی توبہ جو آئندہ کسی کو روحانی علاج کا جھانسہ دینے کی کوشش کروں۔ قاری صاحب کی واضح شکست کے اعلان کے بعد میں نے بھی  اُس بے پیرے  ڈھونگی قاری کا پیچھا چھوڑ دیا۔

 میں فرح کو مسلسل وُہ سفوف دیئے جارہا تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا۔ اِس سے سوائے بدنی کمزوری کے فرح کو کوئی نقصان نہیں ہُونا تھا۔ وُہ کافی حد تک کمزور و لاغر دکھائی دینے لگی تھی۔ اُسکا تمام حُسن   بدن سے  پت جھڑ کی مانند پانی کی طرح بہہ کر  ریت میں جذب ہُوچُکا تھا۔۔۔ پھر ایکدن میری مُراد بَر آئی ۔ کسی طرح ڈاکٹر دلشاد کی والدہ کو فرح کی بیماری کی خبر ہُوگئی ۔ اطلاع ملتے ہی وُہ دوڑی چلی آئی۔ لیکن جونہی اُس نے فرح کی حالت دیکھی۔ اُسکے چہرے کا رنگ پھک سے اُڑ گیا۔۔۔۔ فرح کی والدہ،، دلشاد کی امی کو تمام تفصیلات سے آگاہ کررہی تھیں۔ کہ،، کسطرح پہلے تمام ڈاکٹروں کے کلینک کے چکر کاٹے گئے۔ ۔۔۔ مزید استفسار پر اُنہوں نے   قاری عبدالمنان سے روحانی علاج کی رُوداد بھی  سُنا ڈالی۔۔۔۔۔ فرح کے گھر سے واپس جاتے ہُوئے دلشاد کی امی نے کہا تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ لیکن اُن کے چہرے کو دیکھ کر  میرا اندازہ یہی تھا۔ کہ،، وُہ چند دِن میں ضرور کوئی اہم اعلان کردیں گی۔ جو سراسر میرے حق میں ہُوگا۔

سات دِن بھی نہیں گُزرے ہُوں گے۔کہ،، ایکدن فرح کی امی فرح کو بتارہی تھیں۔ کہ،، آج دلشاد کی امی کسی خاص کام سے ہمارے گھر آرہی ہیں۔ البتہ اُنہوں نے یہ نہیں بتایا۔کہ،، وُہ خاص کام آخر ہے کیا؟؟؟؟ فرح  اپنی امی کو تشویش بھری نگاہوں سے دیکھتے ہُوئے استفسار کرنے لگی۔ امی آپکو کیا لگتا ہے۔؟؟؟ کہیں وُہ دِلشاد سے میرا رشتہ تو ختم کرنے کا نہیں سُوچ  رہیں؟؟؟؟ نہیں بٹیا ایسا نہیں سُوچتے!!!! حالات چاہے کتنے ہی انسان کے خلاف ہُوجائیں ۔ لیکن اِنسان کو ہمیشہ خیر کی ہی طلب کرنی چاہیئے ۔ اُور ہمیشہ اچھا اُور مثبت پہلو ہی تلاش کرنا چاہیئے۔ فرح کی امی نے فرح کو دِلاسہ دیتے ہُوئے کہا۔۔۔۔۔ لیکن میں فرح کی سُوچ سے سُو فی صد متفق تھا۔ اُور میرے دِل میں خُوشی کے لڈو بلکہ شہنائیاں بھی گونجنے لگی تھیں۔۔۔ شام کو دِلشاد کی والدہ گھر میں داخل ہُوئیں۔ تو اُنکے ساتھ ایک جُوگی نما شخص بھی برآمد ہُوا۔۔۔ اُور یہ جُوگی نما شخص کوئی اُور نہیں بلکہ گھنشام داس تھا۔ جو بعد میں  تمہارے ہاتھوں جہنم رسید ہُوا تھا۔۔۔۔۔گھنشام داس کا تذکرہ سُن کر کامل علی کے بدن میں سرسری دوڑ گئی۔

(جاری ہے)

اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔

مجھکو ہر چہرے میں آتاہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ !!!  ۔بُرا لگتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment